باب: اگر قسم کھانے کے بعد بھولے سے اس کو توڑ ڈالے تو کفارہ لازم ہو گا یا نہیں
)
Sahi-Bukhari:
Oaths and Vows
(Chapter: If someone does something against his oath due to forgetfulness)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور اللہ عزوجل نے فرمایا کہ ”تم پر اس قسم کے بارے میں کوئی گناہ نہیں جو غلطی سے تم کھا بیٹھو۔“ اور فرمایا کہ ”بھول چوک میں مجھ پر مواخذہ نہ کرو۔یہ حضرت موسیٰ ؑنے حضرت عیسیٰؑ سے کہا تھا جب کہ حضرت موسیٰ ؑ نے ان پر اعتراض کیا تھااس سے معلوم ہوا کہ بھول چوک پہلی شریعتوں پر بھی معاف تھی
6725.
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی مسجد میں نماز پڑھنے کے لیے داخل ہوا جبکہ رسول اللہ ﷺ مسجد کے ایک کونے میں تشریف فرما تھے۔ نماز سے فراغت کے بعد وہ شخص آیا اور اپ کو سلام کیا تو آپ نے فرمایا: ”لوٹ جا، دوبارہ نماز پڑھ تو نے نماز نہیں پڑھی۔“ وہ واپس گیا نماز پڑھ کر دوبارہ آیا اور آپ کو سلام کیا تو آپ ﷺ نے اس مرتبہ بھی یہی فرمایا: ”واپس جا اور نماز پڑھ کیونکہ تو نے نماز نہیں پڑھی۔“ آخر تیسری مرتبہ اس نے کہا: آپ مجھے نماز کا طریقہ سکھا دیں۔ آپ نے فرمایا: ”جب تم نماز پڑھنے كا اراده كرو تو پہلے اچھی طرح وضو کرو، قبلہ رو ہو کر تکبیر تحریمہ کہو اور قرآن کا جو حصہ آسانی سے پڑھ سکتے ہو اسے تلاوت کرو، اس کے بعد اطمینان کے ساتھ رکوع کرو، پھر اپنا سر اٹھاؤ، جب سیدھے کھڑے ہو جاؤ تو پھر اطمینان کے ساتھ سجدہ کرو، پھر اپنا سر اٹھاؤ یہاں تک کہ سیدھے اطمینان سے بیٹھ جاؤ، پھر اطمینان سے سجدہ کرو، پھر اپنا سر اٹھاؤ یہاں تک کہ سیدھے کھڑے ہو جاؤ، تم یہ عمل اپنی پوری نماز میں کرو۔“
تشریح:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نماز در حقیقت وہی درست ہے جس میں سجدہ، رکوع، قیام، جلسہ، اور قومے وغیرہ کو ٹھیک طور پر ادا کیا جائے۔ نماز میں اگرچہ بھول چوک معاف ہے لیکن اگر کوئی شخص بھول چوک کو مستقل معمول بنا لے تو ایسی بھول قابل معافی نہیں ہے۔ قسم کا بھی یہی معاملہ ہے کہ اگر کوئی بھول کر اسے توڑ دیتا ہے تو قابل معافی ہے لیکن اگر کوئی اسے اپنا معمول بنا لیتا ہے تو اسے معافی نہیں دینی چاہیے۔ مسیئ الصلاۃ نے بار بار نماز جلدی جلدی ادا کی، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے تنبیہ فرمائی۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6430
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6667
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6667
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6667
تمہید کتاب
أَيمان، يَمِين کی جمع ہے۔ لغوی طور پر دائیں ہاتھ کو يمين کہا جاتا ہے۔ اس لفظ کو قسم کے لیے استعمال کیا جاتا ہے کیونکہ اہل عرب جب کسی معاملے میں باہم حلفیہ معاہدہ کرتے تو ہر شخص اپنے ساتھی کا دایاں ہاتھ پکڑتا اور قسم کھا کر پختہ وعدہ کرتا، اس بنا پر یمین کا لفظ قسم پر بولا جانے لگا۔ اس کی دوسری توجیہ اس طرح بیان کی گئی ہے کہ دایاں ہاتھ طاقت کے لحاظ سے جسے پکڑے وہ دوسروں کی دست و برد سے محفوظ ہو جاتا ہے۔ اس مناسبت سے یمین کا اطلاق قسم پر ہونے لگا کہ جس چیز کے متعلق قسم کھائی جائے وہ چیز بھی محفوظ ہو جاتی ہے۔ اسی طرح نذور، نذر کی جمع ہے۔ لغوی طور پر ذمے داری کو نذر کہا جاتا ہے۔ چونکہ انسان خود پر اس کے ذریعے سے ایک غیر واجب چیز کو اپنے ذمے لے لیتا ہے، اس لیے اسے نذر کا نام دیا جاتا ہے، وہ ذمے داری عبادت یا صدقہ یا کسی دوسری چیز کے متعلق ہوتی ہے۔ چونکہ احکام اور نتیجے کے اعتبار سے قسم اور نذر ایک ہی چیز کے دو نام ہیں، اس لیے امام بخاری رحمہ اللہ نے ان دونوں کو ایک عنوان میں بیان کیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نذر کا کفارہ وہی بتایا ہے جو قسم کا ہے، فرمان نبوی ہے: ''نذر کا کفارہ قسم کا کفارہ ہے۔'' (مسند احمد: 4/144)کسی بات کو مضبوط کرنے اور اس میں زور پیدا کرنے کے لیے قسم کھائی جاتی ہے۔ شریعت نے اسے مشروع قرار دیا ہے۔ اگر کسی اچھے کام کے لیے قسم کھائی گئی ہو تو شریعت نے اسے پورا کرنے کی تاکید کی ہے اور اگر کسی برے یا گناہ کے کام کی قسم اٹھائی ہے تو اسے پورا نہ کرنے اور قسم توڑ دینے پر زور دیا ہے اور اس جرم کی پاداش میں کفارہ ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔ اگر کوئی شخص کسی مقصد کے بغیر قسم اٹھاتا ہے تو شریعت نے اسے ناپسند کیا ہے کیونکہ اس انداز سے قسم اٹھانے سے اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات کی توہین ہوتی ہے، اس کے علاوہ قسم اٹھانے والا لوگوں کی نگاہوں میں بھی گر جاتا ہے۔ فقہائے اسلام نے قسم کی درج ذیل تین قسموں کی نشاندہی کی ہے: ٭ یمین غموس، یعنی جھوٹی قسم، کسی واقعہ کے متعلق جانتے ہوئے کہہ دینا اور قسم اٹھانا کہ ایسا نہیں ہے۔ اس قسم کی جھوٹی قسم کبھی تو ذاتی فائدے کے لیے کھائی جاتی ہے اور کبھی دوسرے کا حق مارنے کے لیے۔ بعض لوگ عادت کے طور پر جھوٹی قسم اٹھاتے ہیں۔ اس طرح کی تمام قسمیں شریعت کی نظر میں کبیرہ گناہ ہیں، بلکہ قرآن کریم نے جھوٹی قسم کا تعلق نفاق سے جوڑا ہے، اس بنا پر جھوٹی قسم بہت بڑا گناہ اور قابل ملامت فعل ہے۔ یمین لغو: بے کار اور بے مقصد قسم، قرآن کریم نے صراحت کی ہے کہ لغو قسم پر مؤاخذہ نہیں ہو گا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''اللہ تعالیٰ تمہاری لغو قسموں پر تمہاری گرفت نہیں کرے گا لیکن جو قسمیں تم سچے دل سے کھاتے ہو ان پر ضرور مؤاخذہ کرے گا۔'' (المائدۃ: 5/89) اہل عرب میں بات بات پر قسمیں کھانے کا عام رواج تھا اور ان میں سے زیادہ تر قسمیں یا تو محض تکیۂ کلام کے طور پر ہوا کرتی تھیں یا پھر کلام میں حسن پیدا کرنے کے لیے اسے استعمال کیا جاتا تھا۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے پہلی قسم کو بیان کیا ہے کہ آدمی عام بات چیت میں جو لا والله اور بلیٰ والله کہہ دیتا ہے وہ یمین لغو ہے جس پر مؤاخذہ نہیں ہو گا۔ (صحیح البخاری، التفسیر، حدیث: 4613) ٭ یمین منعقدہ: اس سے مراد وہ قسم ہے جو آدمی کسی کام کے آئندہ کرنے یا نہ کرنے کے متعلق کھاتا ہے۔ اس قسم کا حکم یہ ہے کہ جس کام کے کرنے کی اس نے قسم کھائی ہے وہ کام جب نہ کرے گا یا جس کام کے نہ کرنے کی قسم کھائی ہے وہ کرے گا تو اسے کفارہ دینا پڑے گا جس کا ذکر امام بخاری رحمہ اللہ ایک مستقل عنوان کے تحت کریں گے۔ حلف کی اس قسم میں قصد و ارادے کا پایا جانا ضروری ہے کیونکہ قرآن کریم نے اس کے لیے عَقَّدتُّمُ الْأَيْمَانَ اور كَسَبَتْ قُلُوبُكُمْ کے الفاظ استعمال کیے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ جب تک دل کا ارادہ اور نیت شامل نہ ہو قسم نہ ہو گی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے قسم اور نذر کے احکام و مسائل بیان کرنے کے لیے ستاسی (87) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں اٹھارہ (18) احادیث نذر سے متعلق ہیں، ان پر تقریباً (33) تینتیس چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن میں تئیس (23) قسم کے بارے میں اور دس (10) عنوان نذر سے متعلق ہیں۔ چیدہ چیدہ حسب ذیل ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قسم کس انداز سے ہوتی تھی؟ اپنے باپ دادا کی قسم نہ اٹھائی جائے۔ لات و عزیٰ اور دیگر طواغیت کے نام کی قسم نہ اٹھائی جائے۔ اگر بھول کر قسم کے منافی کام کر لیا جائے تو کیا حکم ہے؟ یمین غموس کا کیا حکم ہے؟ قسم میں نیت کا اعتبار ہوتا ہے۔اسی طرح نذر کے متعلق جستہ جستہ عنوانات حسب ذیل ہیں: نذر کے طور پر اپنا مال ہدیہ کر دینا، نذر کے اعتبار سے کسی چیز کو خود پر حرام کر لینا، نذر کو پورا کرنے کی اہمیت، نذر کو پورا نہ کرنے کا گناہ، نذر اچھے کاموں میں ہونی چاہیے۔ اگر مرنے والے کے ذمے کوئی نذر ہو تو کیا کیا جائے؟ ایسی چیز کی نذر ماننا جس کا وہ مالک نہیں یا کسی گناہ کی نذر ماننا۔اس طرح امام بخاری رحمہ اللہ نے قسم اور نذر کے متعلق بے شمار احکام ذکر کیے ہیں جن کی ہم آئندہ تفصیل بیان کریں گے۔ بہرحال قسم کے متعلق درج ذیل امور کا خیال رکھنا چاہیے: ٭ قسم ہمیشہ اچھے امر کے متعلق کھائی جائے۔ قسم کھانے کے بعد قسم کی حفاظت کرنی چاہیے۔ ٭ تکیۂ کلام کے طور پر قسم اٹھانے سے پرہیز کرنا چاہیے کیونکہ اس سے اعتماد مجروح ہوتا ہے۔ ٭ جب قسم کھانی ہو تو صرف اللہ تعالیٰ کے نام کی قسم اٹھائی جائے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے سوا دوسری کسی چیز کی قسم اٹھانا کفر یا شرک ہے۔ ٭ جھوٹی قسم نہ اٹھائی جائے کیونکہ ایسا کرنا کبیرہ گناہ اور جہنم میں جانے کا موجب ہے۔ ٭ جو شخص کسی کام کرنے کی قسم اٹھائے، پھر ان شاءاللہ کہہ دے تو کام نہ کرنے پر کوئی گناہ نہیں ہو گا اور نہ کفارہ ہی دینا پڑے گا۔ ٭ قسم میں قسم دلانے والے کی نیت کا اعتبار ہو گا۔ ٭ اگر کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کی قسم اٹھا لی جائے پھر اس کے کرنے یا نہ کرنے میں بہتری ہو تو بہتر چیز کا لحاظ کرتے ہوئے اپنی قسم کو توڑ دیا جائے اور کفارہ دیا جائے۔اسی طرح نذر کے سلسلے میں درج ذیل باتوں کا خیال رکھا جائے: ٭ نذر ایسے عہد کو کہا جاتا ہے جو خود انسان اپنے اوپر واجب قرار دے لیتا ہے، لہذا انسان کو چاہیے کہ وہ کسی اچھے عہد کو اپنے اوپر واجب کرے، اسے نذر طاعت کہتے ہیں۔ اس کی تین قسمیں ہیں: ٭ واجبات کی ادائیگی، مثلاً نماز پنجگانہ، صوم رمضان اور بیت اللہ کا حج کرنا۔ ٭ واجبات کے علاوہ دیگر عبادات کی نذر، مثلاً: صدقہ کرنا یا اعتکاف بیٹھنا۔ ٭ عبادات کے علاوہ دیگر قربات کی نذر، مثلاً: تیمارداری اور فقراء کی خبر گیری کرنا۔ نذر کی ایک قسم نذر معصیت بھی ہے۔ وہ ایسا عہد ہے جس سے شریعت نے منع کیا ہے، مثلاً: شراب نوشی، سود خوری اور رشوت ستانی۔ اس قسم کی نذر کو ترک کرنا ضروری ہے بلکہ شریعت نے ایسی نذر سے منع کیا ہے اور اس قسم کی نذر کا کفارہ قسم کا کفارہ ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس قسم کے متعدد احکام و مسائل بیان کیے ہیں۔ قارئین کرام ہماری مذکورہ گزارشات کو پیش نظر رکھتے ہوئے پیش کردہ احادیث کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اچھے کام کرنے اور برے کاموں سے بچنے کی توفیق دے۔ آمین
تمہید باب
امام بخاری رحمہ اللہ نے بھول کر قسم توڑنے والے کے متعلق کوئی حکم بیان نہیں کیا لیکن پیش کردہ آیات و احادیث سے ان کا رجحان یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ بھول اور غلطی کے عذر کی وجہ سے اس قسم کے متعلق نرم گوشہ رکھتے ہیں کہ اس میں کوئی کفارہ نہیں ہے۔ اس کی ہم آئندہ وضاحت کریں گے۔ باذن اللہ تعالیٰ
اور اللہ عزوجل نے فرمایا کہ ”تم پر اس قسم کے بارے میں کوئی گناہ نہیں جو غلطی سے تم کھا بیٹھو۔“ اور فرمایا کہ ”بھول چوک میں مجھ پر مواخذہ نہ کرو۔یہ حضرت موسیٰ ؑنے حضرت عیسیٰؑ سے کہا تھا جب کہ حضرت موسیٰ ؑ نے ان پر اعتراض کیا تھااس سے معلوم ہوا کہ بھول چوک پہلی شریعتوں پر بھی معاف تھی
حدیث ترجمہ:
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی مسجد میں نماز پڑھنے کے لیے داخل ہوا جبکہ رسول اللہ ﷺ مسجد کے ایک کونے میں تشریف فرما تھے۔ نماز سے فراغت کے بعد وہ شخص آیا اور اپ کو سلام کیا تو آپ نے فرمایا: ”لوٹ جا، دوبارہ نماز پڑھ تو نے نماز نہیں پڑھی۔“ وہ واپس گیا نماز پڑھ کر دوبارہ آیا اور آپ کو سلام کیا تو آپ ﷺ نے اس مرتبہ بھی یہی فرمایا: ”واپس جا اور نماز پڑھ کیونکہ تو نے نماز نہیں پڑھی۔“ آخر تیسری مرتبہ اس نے کہا: آپ مجھے نماز کا طریقہ سکھا دیں۔ آپ نے فرمایا: ”جب تم نماز پڑھنے كا اراده كرو تو پہلے اچھی طرح وضو کرو، قبلہ رو ہو کر تکبیر تحریمہ کہو اور قرآن کا جو حصہ آسانی سے پڑھ سکتے ہو اسے تلاوت کرو، اس کے بعد اطمینان کے ساتھ رکوع کرو، پھر اپنا سر اٹھاؤ، جب سیدھے کھڑے ہو جاؤ تو پھر اطمینان کے ساتھ سجدہ کرو، پھر اپنا سر اٹھاؤ یہاں تک کہ سیدھے اطمینان سے بیٹھ جاؤ، پھر اطمینان سے سجدہ کرو، پھر اپنا سر اٹھاؤ یہاں تک کہ سیدھے کھڑے ہو جاؤ، تم یہ عمل اپنی پوری نماز میں کرو۔“
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نماز در حقیقت وہی درست ہے جس میں سجدہ، رکوع، قیام، جلسہ، اور قومے وغیرہ کو ٹھیک طور پر ادا کیا جائے۔ نماز میں اگرچہ بھول چوک معاف ہے لیکن اگر کوئی شخص بھول چوک کو مستقل معمول بنا لے تو ایسی بھول قابل معافی نہیں ہے۔ قسم کا بھی یہی معاملہ ہے کہ اگر کوئی بھول کر اسے توڑ دیتا ہے تو قابل معافی ہے لیکن اگر کوئی اسے اپنا معمول بنا لیتا ہے تو اسے معافی نہیں دینی چاہیے۔ مسیئ الصلاۃ نے بار بار نماز جلدی جلدی ادا کی، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے تنبیہ فرمائی۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
۔ ارشاد باری تعالٰی ہے: ”تم پر اس میں کوئی گناہ نہیں جو تم بھول کر کرو۔“نیز فرمایا: ”بھول چوک پر میرا مؤاخذہ نہ کرو۔“
فائدہ: امام بخارینے بھول کر قسم توڑنے والے کے متعلق کوئی حکم بیان نہیں کیا لیکن پیش کردہ آیات واحادیث سے ان کا رجحان یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ بھول اور غلطی کی وجہ سے اس قسم کے متعلق نرم گوشہ رکھتے ہیں کہ اس میں کوئی کفارہ نہیں۔
حدیث ترجمہ:
مجھ سے اسحاق بن منصور نے بیان کیا، کہا ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا، کہا ہم سے عبیداللہ بن عمر نے بیان کیا، ان سے سعید بن ابی سعید نے اور ان سے ابوہریرہ ؓ نے کہ ایک صحابی مسجد نبوی میں نماز پڑھنے کے لیے آئے۔ نبی کریم ﷺ مسجد کے ایک کنارے تشریف رکھتے تھے۔ پھر وہ صحابی آئے اور سلام کیا تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جا پھر نماز پڑھ، اس لیے کہ تو نے نماز نہیں پڑھی۔ وہ واپس گئے اور پھر نماز پڑھ کر آئے اور سلام کیا۔ نبی کریم ﷺ نے اس مرتبہ بھی ان سے یہی فرمایا کہ واپس جا اور نماز پڑھ کیونکہ تو نے نماز نہیں پڑھی۔ آخر تیسری مرتبہ میں وہ صحابی بولے کہ پھر مجھے نماز کا طریقہ سکھا دیجئیے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جب تم نماز کے لیے کھڑے ہوا کرو تو پہلے پوری طرح وضو کر لیا کرو، پھر قبلہ رو ہو کر تکبیر کہو اور جو کچھ قرآن مجید میں تمہیں یاد ہے اور تم آسانی کے ساتھ پڑھ سکتے ہو اسے پڑھا کرو، پھر رکوع کرو اور سکون کے ساتھ رکوع کر چکو تو اپنا سر اٹھاؤ اور جب سیدھے کھڑے ہو جاؤ تو سجدہ کرو، جب سجدے کی حالت میں اچھی طرح ہو جاؤ تو سجدہ سے سر اٹھاؤ، یہاں تک کہ سیدھے ہو جاؤ اور اطمینان سے بیٹھ جاؤ، پھر سجدہ کرو اور جب اطمینان سے سجدہ کر لو تو سر اٹھاؤ یہاں تک کہ سیدھے کھڑے ہو جاؤ، یہ عمل تم اپنی پوری نماز میں کرو۔
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نماز در حقیقت وہی صحیح ہے جورکوع، سجدہ، قیام، جلسہ، قومہ وغیرہ ارکان کو ٹھیک طور پرادا کر کے پڑھی جائے جو نمازی محض مرغ کی ٹھونگ لگا لیتے ہیں ان کو نماز کا چور کہا گیا ہےاور ایسے نمازیوں کی نماز ان کے منہ پر ماری جاتی ہے بلکہ وہ نماز اس نمازی کےحق میں بددعا کرتی ہے۔ حدیث اور باب میں مطابقت یہ ہے کہ بھول چوک معاف تو ہے مگر نماز میں اگر کوئی شخص بھول چوک کو مستقل معمول بنا لے تو ایسی بھوک چوک معافی کے قابل نہیں ہے۔ خاص طو رپر نماز میں ایسی بھول چوک بہت زیادہ خطرناک ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA) : A man entered the mosque and started praying while Allah's Apostle (ﷺ) was sitting somewhere in the mosque. Then (after finishing the prayer) the man came to the Prophet (ﷺ) and greeted him. The Prophet (ﷺ) said to him, "Go back and pray, for you have not prayed. The man went back, and having prayed, he came and greeted the Prophet. The Prophet (ﷺ) after returning his greetings said, "Go back and pray, for you did not pray." On the third time the man said, "(O Allah's Apostle! (ﷺ) ) teach me (how to pray)." The Prophet (ﷺ) said, "When you get up for the prayer, perform the ablution properly and then face the Qibla and say Takbir (Allahu Akbar), and then recite of what you know of the Qur'an, and then bow, and remain in this state till you feel at rest in bowing, and then raise your head and stand straight; and then prostrate till you feel at rest in prostration, and then sit up till you feel at rest while sitting; and then prostrate again till you feel at rest in prostration; and then get up and stand straight, and do all this in all your prayers."