باب: مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دیگر مسلمان بچے رہیں (کوئی تکلیف نہ پائیں)
)
Sahi-Bukhari:
Belief
(Chapter: A Muslim is the one who avoids harming Muslims with his tongue and hands)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
10.
حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ’’مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔ اور مہاجر وہ ہے جو ان کاموں کو چھوڑ دے جن سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے۔‘‘ ابوعبداللہ (امام بخاری رحمہ اللہ) نے فرمایا: اور ابو معاویہ نے کہا: ہمیں (یہ) حدیث داؤد نے بیان کی، ان کو عامر (شعبی) نے، انہوں نے کہا: میں نے حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاصؓ سے سنا، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں۔ اور عبدالاعلیٰ نے داؤد سے بیان کی، انہوں نے عامر (شعبی) سے، انہوں نے عبداللہ بن عمرو بن عاصؓ سے، انہوں نے نبی ﷺ سے۔
تشریح:
1۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث سے اس بے عملی یا بدعملی کے طوفان کو روکنا چاہتے ہیں جو مرجیہ کے موقف کی وجہ سے لوگوں میں پائی جاتی ہے کیونکہ مرجیہ کے نزدیک ایمان صرف تصدیق قلبی کا نام ہے۔ اس کی موجودگی میں اعمال صالحہ کی چنداں ضرورت نہیں بلکہ مومن صرف تصدیق ہی سے ان بشارتوں کا حقدار بن جاتا ہے جو اس کے لیے قرآن وحدیث میں موجود ہیں۔ نیز آپ یہ بھی ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ اسلام کی بنیاد اگرچہ پانچ چیزوں پر ہے لیکن ان کے علاوہ بھی کچھ نیک عادات اور پاکیزہ خصائل ایسے ہیں جن کے بغیر انسان حقیقی مسلمان نہیں بن سکتا۔ حدیث کا مطلب ہے کہ مسلمان میں اسلام کی کوئی شان تو نمایاں ہونی چاہیے، کم از کم مسلمان ہونے کی حیثیت سے سلامت روی اور سلامت جوئی توضرور ہو۔ اگرکسی شخص میں ادعائے اسلام کے باوجود یہ شان موجود نہیں تو اسے یہ دعویٰ زیب نہیں دیتا۔ 2۔ اس حدیث میں زبان اور ہاتھ سے ایذا نہ پہنچانے کا حکم ہے کیونکہ ایذا کا تعلق اکثر انھی دو سے ہوتا ہے بصورت دیگر یہ مطلب نہیں کہ پاؤں سے ایذا رسانی جائز ہے، بلکہ مطلق طورپر ایذا رسانی جرم ہے۔ پھر ان دونوں میں زبان کو ہاتھ پر اس لیے مقدم کیا ہے کہ نقصان کا تعلق ہاتھ کے مقابلے میں زبان سے زیادہ ہوتا ہے اس لیے کہ اس میں زیادہ محنت نہیں کرنی پڑتی، صرف اسے حرکت دینا ہوتی ہے اور نقصان زیادہ ہوجاتا ہے۔ بعض اوقات ایک ہی کلمے سے پوری قوم یا پوری انسانیت کو نقصان پہنچایا جاسکتا ہے جبکہ ہاتھ سے صرف اسے نقصان پہنچایا جاسکتا ہے جو سامنے موجود ہو، نیز زبان سے سب وشتم پہلے ہوتا ہے اور ہاتھ استعمال کرنے کی نوبت بعد میں آتی ہے۔ 3۔ زبان کی برائی سے سب وشتم، غیبت، بدگوئی وغیرہ اور ہاتھ کی بُرائی سے چوری، ڈاکا زنی، لوٹ مار، مارپیٹ وغیرہ مراد ہیں۔ 4۔ "المسلمون" کی قید سے ثابت نہیں ہوتا کہ غیرمسلم کو زبان اور ہاتھ سے تکلیف دینا جائز ہے بلکہ مسلمان تو تمام لوگوں کا خیر اندیش ہوتا ہے۔ وہ نسب یا رنگ ونسل یا مذہب کو تلاش نہیں کرتا، اگر کسی کے ساتھ مذہبی یانسلی رشتہ نہیں ہے تو انسانی تعلق ہی مراعات کے لیے کافی ہے۔ دوسری روایت میں ہے کہ مسلمان وہ ہے جس سے تمام لوگ محفوظ ہیں۔ (مسند أحمد: 379/2) الغرض اسلام کا ہم سے مطالبہ ہے کہ بلاوجہ کسی غیر مسلم پر بھی دست درازی نہ کریں بلکہ اس کے ساتھ بھی انسانی رشتے کی بنا پر رواداری سے پیش آئیں۔ 5۔ ہجرت صرف ترک وطن کا نام نہیں بلکہ ان چیزوں کو چھوڑدینے کانام ہے جن سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے۔ ترک وطن اس لیے ہوتا ہے کہ ہم اس کے بغیر اللہ تعالیٰ کے احکام کی تعمیل نہیں کرسکتے کیونکہ جس وطن میں احکام الٰہی کی تعمیل نہ ہو، اسے خیر باد کہنا ہی بہتر ہے۔ گویا ہجرت کی دوقسمیں ہیں: ظاہری اور باطنی۔ ظاہری ہجرت ترک وطن ہے اور باطنی ہجرت منہیات سے اجتناب ہے۔ اس حدیث کی دواغراض ہیں: (الف) مہاجرین کو تنبیہ کرنا مقصود ہے کہ تمہارا صرف ہجرت کر لینا کافی نہیں بلکہ ہجرت کے بعد گناہوں سے احتراز کرنا ہی اللہ کی رضا کا باعث ہوگا۔ یہ خیال نہ کیا جائے کہ ہجرت کے بعد ہمیں کسی عمل خیر کی ضرورت نہیں۔ (فتح الباري: 74/1) (ب)۔ ان لوگوں کو تسلی دینا مقصود ہے جو کسی وجہ سے ہجرت نہیں کرسکے کہ اصل ہجرت یہ نہیں بلکہ ہجرت یہ ہے کہ آدمی گناہ اور ہر قسم کی منہیات سے بازرہے، یہ فضیلت تو ہروقت حاصل ہوسکتی ہے، چنانچہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہجرت کے متعلق دریافت کیا تو آپ نےفرمایا: ’’تیرابھلا ہو ہجرت کا معاملہ بہت سخت ہے۔‘‘ پھر آپ نے اس سے پوچھا: ’’کیاتیرے پاس اونٹ ہیں اور ان کی زکاۃ دیتا ہے؟‘‘ (اس نے) عرض کیا: ہاں۔ آپ نے فرمایا: ’’سمندر پاررہتے ہوئے عمل خیر کرتے رہو۔ تجھے وہی اجر ملے گا۔ اس میں کوئی کمی نہیں ہوگی۔‘‘ (صحیح البخاري، الزکاة، حدیث: 1452) 6۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کے اختتام پر دو تعلیقات بھی ذکر کی ہیں، پہلی تعلیق کا مقصد یہ ہے کہ امام شعبی رحمۃ اللہ علیہ نے جن کا نام عامرہے اس روایت کو حضرت عبداللہ بن عمرو سے براہ راست سنا ہے کیونکہ اس تعلیق میں تصریح سماع ہے جبکہ مذکورہ روایت میں ان کے سماع کی وضاحت نہ تھی۔ ابومعایہ کے اس طریق سے اس شبے کو دور فرمایا ہے۔ دوسری تعلیق میں یہ بتانا مقصود ہے کہ اس میں عبداللہ نامی راوی سے مراد، حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں۔ اس وضاحت کی ضرورت اس لیے پڑی کہ طبقہ صحابہ میں جب عبداللہ مطلق ذکر کیا جاتا ہے تو اس سے مراد عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہوتے ہیں جیسا کہ طبقہ تابعین رحمۃ اللہ علیہ میں مطلق عبداللہ سے حضرت عبداللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ سے مراد ہوتے ہیں۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ تنبیہ فرمانے کے لیے دوسری تعلیق کو ذکرکیا ہے۔ 7۔ اگر کسی کو اقامت حد کے پیش نظر سزا دی جائے اگرچہ بظاہر یہ ایذا رسانی ہے تو جائز ہوگا کیونکہ اس سے مقصد تکلیف دینا نہیں بلکہ فساد و فواحش اور منکرات کا انسداد مقصود ہے۔ (فتح الباري: 75/1)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
10
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
10
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
10
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
10
تمہید کتاب
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے وحی کی عظمت وصداقت ثابت کرنے کے بعد ضروری خیال کیا کہ اب اساس دین یعنی ایمان کی وضاحت کی جائے جو عبادات کی صحت وقبولیت کے لیے مدار اور اخروی نجات کے لیے شرط اول ہے۔ چنانچہ کتاب الایمان میں ایمان ہی سے متعلقہ احادیث ہوں گی۔لفظ ایمان امن سے مشتق ہے جس کے لغوی معنی امن واطمینان ہیں، اسی لغوی معنی کے پیش نظر مومن اسے کہاجاتا ہے جس سے لوگ اپنی جان ومال کے متعلق سکون و اطمینان محسوس کریں۔حدیث میں ہے۔(۔۔۔۔۔مَنْ أَمِنَهُ الْمُؤْمِنُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَأَمْوَالِهِمْ )( مسند احمد 2/206۔)"(مومن وہ ہے)جس سے دوسرے مومن اپنی جان و مال کے متعلق بے خوف ہوں۔"اسی طرح یہ تصدق کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَمَا نَحْنُ لَكَ بِمُؤْمِنِينَ)( المومنون:23۔38۔)"ہم اس کی تصدیق کرنے والے نہیں ہیں۔" کسی کی بات پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ ہم اسےاپنی تکذیب کی طرف سے مطمئن کرتے ہیں اور اس کی ا مانت ودیانت پر اپنے اعتماد ووثوق کا اظہار کرتے ہیں۔ایمان کی شرعی تعریف یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو کچھ بھی اپنے رب کی طرف سے اصول وراکان اور احکام ومسائل لے کر آئے ہیں ان کی تصدیق کی جائے اور ان کی سچائی کو دل میں بٹھایا جائے۔، پھر زبان سے اس کی تصدیق کا اظہار اور اپنے دیگر اعضاء سے اس کا عملی ثبوت مہیا کیا جائے۔ گویا اس کے لیے تین چیزوں کا ہونا ضروری ہے۔ دل سے تصدیق زبان سے اقرار اور دیگراعضاء سے التزام عمل ومتابعت یہود کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معرفت و تصدیق تھی اور منافقین میں بظاہر التزام عمل و متابعت بھی موجود تھا اس کے باوجود مومن نہیں ہیں، لہٰذا تصدیق میں کوتاہی کا مرتکب منافق اور اقرار سے پہلو تہی کفر کا باعث ہے جبکہ عملی کوتا ہی کا مرتکب فاسق ہے۔ اگر انکار کی وجہ سے بدعملی کا شکار ہے تو بھی اس کے کفر میں کوئی شبہ نہیں ایسے حالات میں تصدیق واقرار کا کوئی فائدہ نہیں۔سلف صالحین کا نقطہ نظر بھی یہی ہے کہ ایمان کے متعلق جو آیات واحادیث وارد ہیں ان کی اتباع کو کافی خیال کیا جائے۔ان مباحث کلامیہ کی طرف قطعی التفات نہ کیا جائے جو متاخرین کے"دست ہنر شناس"کا کرشمہ ہیں۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ چونکہ سر رشتہ محدثین سے منسلک ہیں، اس لیے انھوں نے ایمان سے متعلق وارد شدہ قرآنی آیات اور احادیث و آثار کے پیش نظر اس موقف کواختیار کیا ہے کہ ایمان بسیط نہیں بلکہ تصدیق قلبی اقرار لسانی اور عمل بدنی سے مرکب ہے۔ تکون کے یہ تینوں زاویے اس قدر لازم ملزوم اور باہم مربوط ہیں کہ ان میں سے کسی ایک کو الگ کر دیا جائے تو ایسا حقیقی ایمان باقی نہیں رہتا جس سے اخروی نجات کا حصول ممکن ہو۔ اس کے بعض اجزاء اساسی اور بنیادی ہیں جنھیں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ارکان اسلام کے نام سے تعبیر کر کے انہیں اولیت دی ہے اور کچھ اجزاء کمال ہیں جنھیں "امور ایمان" کا عنوان دے کر آخر میں بیان کیا ہے قارئین کرام اس تفصیل کو ذہن میں رکھتے ہوئے کتاب الایمان کا مطالعہ کریں۔
حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ’’مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔ اور مہاجر وہ ہے جو ان کاموں کو چھوڑ دے جن سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے۔‘‘ ابوعبداللہ (امام بخاری رحمہ اللہ) نے فرمایا: اور ابو معاویہ نے کہا: ہمیں (یہ) حدیث داؤد نے بیان کی، ان کو عامر (شعبی) نے، انہوں نے کہا: میں نے حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاصؓ سے سنا، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں۔ اور عبدالاعلیٰ نے داؤد سے بیان کی، انہوں نے عامر (شعبی) سے، انہوں نے عبداللہ بن عمرو بن عاصؓ سے، انہوں نے نبی ﷺ سے۔
حدیث حاشیہ:
1۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث سے اس بے عملی یا بدعملی کے طوفان کو روکنا چاہتے ہیں جو مرجیہ کے موقف کی وجہ سے لوگوں میں پائی جاتی ہے کیونکہ مرجیہ کے نزدیک ایمان صرف تصدیق قلبی کا نام ہے۔ اس کی موجودگی میں اعمال صالحہ کی چنداں ضرورت نہیں بلکہ مومن صرف تصدیق ہی سے ان بشارتوں کا حقدار بن جاتا ہے جو اس کے لیے قرآن وحدیث میں موجود ہیں۔ نیز آپ یہ بھی ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ اسلام کی بنیاد اگرچہ پانچ چیزوں پر ہے لیکن ان کے علاوہ بھی کچھ نیک عادات اور پاکیزہ خصائل ایسے ہیں جن کے بغیر انسان حقیقی مسلمان نہیں بن سکتا۔ حدیث کا مطلب ہے کہ مسلمان میں اسلام کی کوئی شان تو نمایاں ہونی چاہیے، کم از کم مسلمان ہونے کی حیثیت سے سلامت روی اور سلامت جوئی توضرور ہو۔ اگرکسی شخص میں ادعائے اسلام کے باوجود یہ شان موجود نہیں تو اسے یہ دعویٰ زیب نہیں دیتا۔ 2۔ اس حدیث میں زبان اور ہاتھ سے ایذا نہ پہنچانے کا حکم ہے کیونکہ ایذا کا تعلق اکثر انھی دو سے ہوتا ہے بصورت دیگر یہ مطلب نہیں کہ پاؤں سے ایذا رسانی جائز ہے، بلکہ مطلق طورپر ایذا رسانی جرم ہے۔ پھر ان دونوں میں زبان کو ہاتھ پر اس لیے مقدم کیا ہے کہ نقصان کا تعلق ہاتھ کے مقابلے میں زبان سے زیادہ ہوتا ہے اس لیے کہ اس میں زیادہ محنت نہیں کرنی پڑتی، صرف اسے حرکت دینا ہوتی ہے اور نقصان زیادہ ہوجاتا ہے۔ بعض اوقات ایک ہی کلمے سے پوری قوم یا پوری انسانیت کو نقصان پہنچایا جاسکتا ہے جبکہ ہاتھ سے صرف اسے نقصان پہنچایا جاسکتا ہے جو سامنے موجود ہو، نیز زبان سے سب وشتم پہلے ہوتا ہے اور ہاتھ استعمال کرنے کی نوبت بعد میں آتی ہے۔ 3۔ زبان کی برائی سے سب وشتم، غیبت، بدگوئی وغیرہ اور ہاتھ کی بُرائی سے چوری، ڈاکا زنی، لوٹ مار، مارپیٹ وغیرہ مراد ہیں۔ 4۔ "المسلمون" کی قید سے ثابت نہیں ہوتا کہ غیرمسلم کو زبان اور ہاتھ سے تکلیف دینا جائز ہے بلکہ مسلمان تو تمام لوگوں کا خیر اندیش ہوتا ہے۔ وہ نسب یا رنگ ونسل یا مذہب کو تلاش نہیں کرتا، اگر کسی کے ساتھ مذہبی یانسلی رشتہ نہیں ہے تو انسانی تعلق ہی مراعات کے لیے کافی ہے۔ دوسری روایت میں ہے کہ مسلمان وہ ہے جس سے تمام لوگ محفوظ ہیں۔ (مسند أحمد: 379/2) الغرض اسلام کا ہم سے مطالبہ ہے کہ بلاوجہ کسی غیر مسلم پر بھی دست درازی نہ کریں بلکہ اس کے ساتھ بھی انسانی رشتے کی بنا پر رواداری سے پیش آئیں۔ 5۔ ہجرت صرف ترک وطن کا نام نہیں بلکہ ان چیزوں کو چھوڑدینے کانام ہے جن سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے۔ ترک وطن اس لیے ہوتا ہے کہ ہم اس کے بغیر اللہ تعالیٰ کے احکام کی تعمیل نہیں کرسکتے کیونکہ جس وطن میں احکام الٰہی کی تعمیل نہ ہو، اسے خیر باد کہنا ہی بہتر ہے۔ گویا ہجرت کی دوقسمیں ہیں: ظاہری اور باطنی۔ ظاہری ہجرت ترک وطن ہے اور باطنی ہجرت منہیات سے اجتناب ہے۔ اس حدیث کی دواغراض ہیں: (الف) مہاجرین کو تنبیہ کرنا مقصود ہے کہ تمہارا صرف ہجرت کر لینا کافی نہیں بلکہ ہجرت کے بعد گناہوں سے احتراز کرنا ہی اللہ کی رضا کا باعث ہوگا۔ یہ خیال نہ کیا جائے کہ ہجرت کے بعد ہمیں کسی عمل خیر کی ضرورت نہیں۔ (فتح الباري: 74/1) (ب)۔ ان لوگوں کو تسلی دینا مقصود ہے جو کسی وجہ سے ہجرت نہیں کرسکے کہ اصل ہجرت یہ نہیں بلکہ ہجرت یہ ہے کہ آدمی گناہ اور ہر قسم کی منہیات سے بازرہے، یہ فضیلت تو ہروقت حاصل ہوسکتی ہے، چنانچہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہجرت کے متعلق دریافت کیا تو آپ نےفرمایا: ’’تیرابھلا ہو ہجرت کا معاملہ بہت سخت ہے۔‘‘ پھر آپ نے اس سے پوچھا: ’’کیاتیرے پاس اونٹ ہیں اور ان کی زکاۃ دیتا ہے؟‘‘ (اس نے) عرض کیا: ہاں۔ آپ نے فرمایا: ’’سمندر پاررہتے ہوئے عمل خیر کرتے رہو۔ تجھے وہی اجر ملے گا۔ اس میں کوئی کمی نہیں ہوگی۔‘‘ (صحیح البخاري، الزکاة، حدیث: 1452) 6۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کے اختتام پر دو تعلیقات بھی ذکر کی ہیں، پہلی تعلیق کا مقصد یہ ہے کہ امام شعبی رحمۃ اللہ علیہ نے جن کا نام عامرہے اس روایت کو حضرت عبداللہ بن عمرو سے براہ راست سنا ہے کیونکہ اس تعلیق میں تصریح سماع ہے جبکہ مذکورہ روایت میں ان کے سماع کی وضاحت نہ تھی۔ ابومعایہ کے اس طریق سے اس شبے کو دور فرمایا ہے۔ دوسری تعلیق میں یہ بتانا مقصود ہے کہ اس میں عبداللہ نامی راوی سے مراد، حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں۔ اس وضاحت کی ضرورت اس لیے پڑی کہ طبقہ صحابہ میں جب عبداللہ مطلق ذکر کیا جاتا ہے تو اس سے مراد عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہوتے ہیں جیسا کہ طبقہ تابعین رحمۃ اللہ علیہ میں مطلق عبداللہ سے حضرت عبداللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ سے مراد ہوتے ہیں۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ تنبیہ فرمانے کے لیے دوسری تعلیق کو ذکرکیا ہے۔ 7۔ اگر کسی کو اقامت حد کے پیش نظر سزا دی جائے اگرچہ بظاہر یہ ایذا رسانی ہے تو جائز ہوگا کیونکہ اس سے مقصد تکلیف دینا نہیں بلکہ فساد و فواحش اور منکرات کا انسداد مقصود ہے۔ (فتح الباري: 75/1)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے یہ حدیث بیان کی، ان کو شعبہ نے وہ عبداللہ بن ابی السفر اور اسماعیل سے روایت کرتے ہیں، وہ دونوں شعبی سے نقل کرتے ہیں، انہوں نے عبداللہ بن عمرو بن عاص ؓ سے، وہ نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان بچے رہیں اور مہاجر وہ ہے جو ان کاموں کو چھوڑ دے جن سے اللہ نے منع فرمایا۔‘‘ ابو عبداللہ امام بخاری رحمہ اللہ نے فرمایا اور ابو معاویہ نے کہ ہم کو حدیث بیان کی داؤد بن ابی ہند نے، انھوں نے روایت کی عامر شعبی سے، انھوں نے کہا کہ میں نے سنا عبداللہ بن عمرو بن عاصؓ سے، وہ حدیث بیان کرتے ہیں جناب نبی کریم ﷺ سے (وہی مذکورہ حدیث) اور کہا کہ عبدالاعلیٰ نے روایت کیا داؤد سے، انھوں نے عامر سے، انھوں نے عبداللہ بن عمرو بن عاصؓ سے، انھوں نے نبی کریم ﷺ سے۔
حدیث حاشیہ:
امیر المحدثین نے یہاں یہ بات ثابت کی ہے کہ اسلام کی بنیاد اگرچہ پانچ چیزوں پر قائم کی گئی ہے۔ مگر اس سے آگے کچھ نیک عادات، پاکیزہ خصائل بھی ایسے ہیں جو اگرحاصل نہ ہوں تو انسان حقیقی مسلمان نہیں ہوسکتا۔ نہ پورے طور پر صاحب ایمان ہو سکتا ہے اور اسی تفصیل سے ایمان کی کمی وبیشی وپاکیزہ اعمال ونیک خصائل کا داخل ایمان ہونا ثابت ہے۔ جس سے مرجیہ وغیرہ کی تردید ہوتی ہے۔ جوایمان کی کمی وبیشی کے قائل نہیں۔نہ اعمال صالحہ واخلاق حسنہ کو داخل ایمان مانتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ان کا قول نصوص صریحہ کے قطعاً خلاف ہے۔ زبان کو ہاتھ پر اس لیے مقدم کیا گیا کہ یہ ہر وقت قینچی کی طرح چل سکتی ہے اور پہلے اسی کے وارہوتے ہیں۔ ہاتھ کی نوبت بعد میں آتی ہے جیسا کہ کہا گیا ہے۔ جِراحات السِّنانِ لها التِيامٌ --- وَ لايلتامُ ما جَرَحَ اللسانُ ’’یعنی نیزوں کے زخم بھرجاتے ہیں اور زبانوں کے زخم عرصہ تک نہیں بھرسکتے۔‘‘ «مَنْ سَلِمَ المُسْلِمُونَ» کی قید کا یہ مطلب نہیں ہے کہ غیرمسلمانوں کو زبان یاہاتھ سے ایذا رسانی جائز ہے۔ اس شبہ کو رفع کرنے کے لیے دوسری روایت میں «من أمنه الناس» کے لفظ آئے ہیں۔ جہاں ہر انسان کے ساتھ صرف انسانی رشتہ کی بنا پر نیک معاملہ واخلاق حسنہ کی تعلیم دی گئی ہے۔ اسلام کا ماخذ ہی سلم ہے جس کے معنی صلح جوئی، خیرخواہی، مصالحت کے ہیں۔ زبان سے ایذارسانی میں غیبت، گالی گلوچ، بدگوئی وغیرہ جملہ عادات بدداخل ہیں اور ہاتھ کی ایذارسانی میں چوری، ڈاکہ، مارپیٹ، قتل وغارت وغیرہ وغیرہ۔ پس کامل انسان وہ ہے جو اپنی زبان پر، اپنے ہاتھ پر پورا پورا کنٹرول رکھے اور کسی انسان کی ایذا رسانی کے لیے اس کی زبان نہ کھلے، اس کا ہاتھ نہ اٹھے۔ اس معیار پر آج تلاش کیا جائے تو کتنے مسلمان ملیں گے جو حقیقی مسلمان کہلانے کے مستحق ہوں گے۔ غیبت، بدگوئی، گالی گلوچ توعوام کا ایسا شیوہ بن گیا ہے گویا یہ کوئی عیب ہی نہیں ہیں۔ استغفراللہ! شرعاً مہاجر وہ جودارالحرب سے نکل کر دارالسلام میں آئے۔ یہ ہجرت ظاہر ی ہے۔ ہجرت باطنی یہ ہے جو یہاں حدیث میں بیان ہوئی اور یہی حقیقی ہجرت ہے جو قیامت تک ہر حال میں ہرجگہ جاری رہے گی۔ حضرت امام قدس سرہ نے یہاں دوتعلیقات ذکر فرمائی ہیں۔ پہلی کا مقصد یہ بتلانا ہے کہ عامر اور شعبی ہردو سے ایک ہی راوی مراد ہے۔ جس کا نام عامر اور لقب شعبی ہے۔ دوسرا مقصد یہ کہ ابن ہندہ کی روایت سے شبہ ہوتا تھا کہ عبداللہ بن عمروبن عاصؓ سے شعبی نے براہِ راست اس روایت کو نہیں سنا۔ اس شبہ کے دفعیہ کے لیے عن عامر قال سمعت عبداللہ بن عمرو کے الفاظ نقل کیے گئے۔ جن سے براہ ِ راست شعبی کا عبداللہ بن عمروبن عاص سے سماع ثابت ہوگیا۔ دوسری تعلیق کا مقصد یہ کہ عبدالاعلیٰ کے طریق میں ’’عبداللہ‘‘ کو غیرمنتسب ذکر کیاگیا جس سے شبہ ہوتا تھا کہ کہیں عبداللہ بن مسعود ؓ مراد نہ ہوں جیسا کہ طبقہ صحابہ میں یہ اصطلاح ہے۔ اس لیے دوسری تعلیق میں ’’عن عبداللہ بن عمرو‘‘ کی صراحت کردی گئی۔ جس سے حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص مراد ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah bin 'Amr (RA): The Prophet (ﷺ) said, "A Muslim is the one who avoids harming Muslims with his tongue and hands. And a Muhajir (emigrant) is the one who gives up (abandons) all what Allah has forbidden."