Sahi-Bukhari:
Invoking Allah for Rain (Istisqaa)
(Chapter: Earthquakes and (other) signs (of the Day of Judgement))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1037.
حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اے اللہ! ہمارے شام اور یمن میں برکت عطا فرما۔‘‘ لوگوں نے عرض کیا: ہمارے نجد کے لیے بھی برکت کی دعا کریں۔ تو آپ نے دوبارہ فرمایا: ’’اے اللہ! ہمارے شام اور یمن کو بابرکت فرما۔‘‘ لوگوں نے پھر عرض کیا اور ہمارے نجد میں بھی۔ تو آپ نے فرمایا: ’’وہاں زلزلے اور فتنے برپا ہوں گے، نیز شیطان کا گروہ بھی وہیں ہو گا۔‘‘
تشریح:
(1) اس حدیث میں زلزلوں کا ذکر ہے اور اس قسم کی نشانیاں لوگوں کو ڈرانے اور خبردار کرنے کے لیے ہوتی ہیں، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَمَا نُرْسِلُ بِالْآيَاتِ إِلَّا تَخْوِيفًا ﴿٥٩﴾)’’ہم اس قسم کی نشانیوں کو صرف ڈرانے کے لیے بھیجتے ہیں۔‘‘(بني إسرائیل59:17) رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے: ’’جب تم اللہ کی نشانیاں دیکھو تو فوراً اللہ کا ذکر کرو، اس سے دعا اور استغفار میں مصروف ہو جاؤ۔‘‘(صحیح البخاري، الکسوف، حدیث:1058) اس لیے جب بھی زلزلہ یا کوئی اور آفت آئے تو نماز پڑھنا اور ذکر کرنا مشروع ہے، لیکن اس کے لیے کوئی خاص شکل و صورت حدیث میں نہیں آئی۔ امام بخاری ؒ نے ان احادیث کو صرف اس لیے بیان کیا ہے کہ زلزلے وغیرہ کے وقت اللہ کے ذکر اور دعا و استغفار میں مصروف ہونا چاہیے۔ (2) اس حدیث کی مکمل تشریح کتاب الفتن میں آئے گی۔ اس مقام پر ہم صرف اس حقیقت کو بیان کرنے پر اکتفا کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارض فتن کی نشاندہی کرتے وقت مشرق کی طرف اشارہ فرمایا تھا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے مراد نجد عراق ہے جو شروع ہی سے فتنوں کی آماجگاہ ہے۔ اسی علاقے سے مسلمانوں کے افتراق اور انتشار کا آغاز ہوا جو آج تک جاری و ساری ہے۔ اس سے مراد نجد حجاز نہیں، جیسا کہ بدعتی حضرات کی طرف سے تاثر دیا جاتا ہے، کیونکہ اس علاقے سے تو ایسی تحریک نے جنم لیا جس نے خلفائے راشدین کی یاد تازہ کر دی۔ وہاں سے شیخ محمد بن عبدالوہاب نے خالص اسلام کی دعوت کو شروع کیا جس کے نتیجے میں وہاں نجدی حکومت قائم ہوئی جو سعودی حکومت کے نام سے مشہور ہے۔ اس حکومت نے اسلام کی سربلندی اور حرمین شریفین کے لیے ایسے کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں جو عالم اسلام میں ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ اس حکومت کو تادم زیست قائم رکھے۔ آمین
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1021
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1037
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1037
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1037
تمہید کتاب
استسقا، کے لغوی معنی پانی مانگنا ہیں۔ اصطلاحی طور پر قحط سالی کے وقت اللہ تعالیٰ سے ایک مخصوص طریقے سے باران رحمت کی دعا کرنا استسقاء کہلاتا ہے، اس کے لیے اللہ تعالیٰ کی عظمت و کبریائی اور بندوں کے عجز و انکسار، نیز ان کے لباس میں سادگی کا خصوصی اہتمام ہونا چاہیے۔ مختلف احادیث کے پیش نظر مندرجہ ذیل چیزوں کو اس میں مدنظر رکھا جائے: ٭ قحط سالی کے وقت لوگوں کو نہایت تضرع اور خشوع کے ساتھ باہر کھلے میدان میں جانا چاہیے۔ وہاں اذان و اقامت کے بغیر دو رکعت جہری قراءت سے باجماعت ادا کی جائیں۔ ٭ نماز سے پہلے یا بعد میں خطبہ دیا جائے جو وعظ و نصیحت اور دعا و مناجات پر مشتمل ہو۔ ٭ اس دوران میں دعا کرنا مسنون عمل ہے لیکن اس کے لیے الٹے ہاتھ آسمان کی جانب اٹھائے جائیں۔ ٭ آخر میں امام کو چاہیے کہ وہ قبلہ رو ہو کر اپنی چادر کو اس طرح پلٹے کہ اس کا دایاں حصہ بائیں جانب اور بایاں دائیں جانب ہو جائے۔اس سلسلے میں امام بخاری رحمہ اللہ نے ہماری رہنمائی کے لیے خصوصی طور پر عنوان بندی کا اہتمام کیا ہے۔ انہوں نے اس کتاب میں چالیس (40) احادیث بیان کی ہیں جن میں نو (9) معلق اور باقی موصول ہیں، نیز ستائیس (27) احادیث مقرر اور سترہ (17) خالص ہیں۔ ان میں چھ (6) کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ دو آثار بھی اس عنوان کے تحت بیان کیے گئے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر انتیس (29) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کر کے ہماری رہنمائی کا فریضہ سرانجام دیا ہے۔ واضح رہے کہ ان عنوانات کے تحت امام بخاری رحمہ اللہ نے مشرکین کے خلاف بددعا کرنے کا ذکر بھی بطور خاص فرمایا ہے، حالانکہ اس کا تعلق استسقاء سے نہیں۔ وہ اس لیے کہ مخالف اشیاء سے اصل اشیاء کی قدروقیمت معلوم ہوتی ہے، یعنی جب بددعا کی جا سکتی ہے جو شانِ رحمت کے خلاف ہے تو بارانِ رحمت کے لیے دعا کا اہتمام بدرجۂ اولیٰ جائز ہونا چاہیے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس اصول کو اپنی صحیح میں بکثرت استعمال کیا ہے جیسا کہ کتاب الایمان میں کفرونفاق کے مسائل ذکر کیے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کتاب میں استسقاء کے علاوہ مسائل بھی بیان کیے ہیں جن کا اس سے گونہ تعلق ہے، مثلاً: بارش کے وقت کیا کہا جائے یا کیا جائے؟ جب تیز ہوا چلے تو کیا کرنا چاہیے؟ زلزلے اور اللہ کی طرف سے دیگر نشانیاں دیکھ کر ہمارا ردعمل کیا ہو؟ آخر میں عقیدے کا مسئلہ بھی بیان فرمایا کہ بارش آنے کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے۔ استسقاء کے عام طور پر تین طریقے ہیں: ٭ مطلقاً بارش کی دعا کی جائے۔ ٭ نفل اور فرض نماز، نیز دوران خطبۂ جمعہ میں دعا مانگی جائے۔ ٭ باہر میدان میں دو رکعت ادا کی جائیں اور خطبہ دیا جائے، پھر دعا کی جائے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے بارش کے لیے ہو سہ طریقوں کو بیان کیا ہے۔قارئین کرام کو چاہیے کہ صحیح بخاری اور اس سے متعلقہ فوائد کا مطالعہ کرتے وقت ہماری پیش کردہ ان تمہیدی گزارشات کو پیش نظر رکھیں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی عظمت و جلالت اور آپ کے حسن انتخاب کی قدروقیمت معلوم ہو۔ والله يقول الحق ويهدي من يشاء الي صراط مستقيم
حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اے اللہ! ہمارے شام اور یمن میں برکت عطا فرما۔‘‘ لوگوں نے عرض کیا: ہمارے نجد کے لیے بھی برکت کی دعا کریں۔ تو آپ نے دوبارہ فرمایا: ’’اے اللہ! ہمارے شام اور یمن کو بابرکت فرما۔‘‘ لوگوں نے پھر عرض کیا اور ہمارے نجد میں بھی۔ تو آپ نے فرمایا: ’’وہاں زلزلے اور فتنے برپا ہوں گے، نیز شیطان کا گروہ بھی وہیں ہو گا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث میں زلزلوں کا ذکر ہے اور اس قسم کی نشانیاں لوگوں کو ڈرانے اور خبردار کرنے کے لیے ہوتی ہیں، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَمَا نُرْسِلُ بِالْآيَاتِ إِلَّا تَخْوِيفًا ﴿٥٩﴾)’’ہم اس قسم کی نشانیوں کو صرف ڈرانے کے لیے بھیجتے ہیں۔‘‘(بني إسرائیل59:17) رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے: ’’جب تم اللہ کی نشانیاں دیکھو تو فوراً اللہ کا ذکر کرو، اس سے دعا اور استغفار میں مصروف ہو جاؤ۔‘‘(صحیح البخاري، الکسوف، حدیث:1058) اس لیے جب بھی زلزلہ یا کوئی اور آفت آئے تو نماز پڑھنا اور ذکر کرنا مشروع ہے، لیکن اس کے لیے کوئی خاص شکل و صورت حدیث میں نہیں آئی۔ امام بخاری ؒ نے ان احادیث کو صرف اس لیے بیان کیا ہے کہ زلزلے وغیرہ کے وقت اللہ کے ذکر اور دعا و استغفار میں مصروف ہونا چاہیے۔ (2) اس حدیث کی مکمل تشریح کتاب الفتن میں آئے گی۔ اس مقام پر ہم صرف اس حقیقت کو بیان کرنے پر اکتفا کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارض فتن کی نشاندہی کرتے وقت مشرق کی طرف اشارہ فرمایا تھا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے مراد نجد عراق ہے جو شروع ہی سے فتنوں کی آماجگاہ ہے۔ اسی علاقے سے مسلمانوں کے افتراق اور انتشار کا آغاز ہوا جو آج تک جاری و ساری ہے۔ اس سے مراد نجد حجاز نہیں، جیسا کہ بدعتی حضرات کی طرف سے تاثر دیا جاتا ہے، کیونکہ اس علاقے سے تو ایسی تحریک نے جنم لیا جس نے خلفائے راشدین کی یاد تازہ کر دی۔ وہاں سے شیخ محمد بن عبدالوہاب نے خالص اسلام کی دعوت کو شروع کیا جس کے نتیجے میں وہاں نجدی حکومت قائم ہوئی جو سعودی حکومت کے نام سے مشہور ہے۔ اس حکومت نے اسلام کی سربلندی اور حرمین شریفین کے لیے ایسے کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں جو عالم اسلام میں ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ اس حکومت کو تادم زیست قائم رکھے۔ آمین
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
مجھ سے محمد بن مثنی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے حسین بن حسن نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے عبد اللہ بن عون نے بیان کیا، ان سے نافع نے بیان کیا، ان سے حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے فرمایا اے اللہ! ہمارے شام اور یمن پر برکت نازل فرما۔ اس پر لوگوں نے کہا اور ہمارے نجد کے لیے بھی بر کت کی دعا کیجئے لیکن آپ نے پھر وہی کہا: ’’اے اللہ! ہمارے شام اور یمن پر برکت نازل فرما۔‘‘ پھر لوگوں نے کہا اور ہمارے نجد میں؟ تو آپ نے فرمایا کہ وہاں تو زلزلے اور فتنے ہوں گے اور شیطان کا سینگ وہیں سے طلوع ہو گا۔
حدیث حاشیہ:
نجد عرب حجاز سے مشرق کی طرف واقع ہے خاص وہ علاقہ مراد نہیں ہے جو کہ آج کل نجد کہلاتا ہے بلکہ نجد سے تمام ممالک شرقیہ مراد ہیں۔ علامہ قسطلانی ؒ فرماتے ہیں: وھو تھامة وکل کما ارتفع من بلاد تھامة إلی أرض العراق۔یعنی نجد سے تہامہ کا علاقہ مراد ہے جو بلاد تہامہ سے ارض عراق تک سطح مرتفع میں پھیلا ہوا ہے۔ درحقیقت یہ اشار ہ نبوی ارض عراق کے لیے تھا جہاں بڑے بڑے فتنے پیدا ہوئے اگر بنظر انصاف دیکھا جائے تو اس علاقے سے مسلمانوں کا افتراق وانتشار شروع ہوا جو آج تک موجود ہے اور شاید ابھی عرصہ تک یہ انتشار باقی رہے گا، یہ سب ارض عراق کی پیداوار ہے۔ یہ روایت یہاں موقوفاً بیان ہوئی ہے اور درحقیقت مرفوع ہے۔ ازہر سماں نے اس کو مرفوعا ً روایت کیا ہے۔ اسی کتاب یعنی بخاری شریف کتاب الفتن میں یہ حدیث آئے گی اور وہاں اس پر مفصل تبصرہ کیا جائے گا۔ إن شاءاللہ۔ صاحب فضل الباری ترجمہ بخاری حنفی تحریر فرماتے ہیں: شام کا ملک مدینہ کے اتر کی طرف ہے اور یمن دکن کی طرف اورنجد کا ملک پورب کی طرف ہے۔ آپ نے شام کو اپنی طرف اس واسطے منسوب کیا کہ وہ مکہ تہامہ کی زمین ہے اور تہامہ یمن سے متعلق ہے۔ آنحضرت ﷺ نے یہ حدیث اس وقت فرمائی تھی کہ ابھی تک نجد کے لوگ مسلمان نہیں ہوئے تھے اور آنحضرت ﷺ کے ساتھ فتنہ وفساد میں مشغول تھے جب وہ لوگ اسلام لائے اور آپکی طرف صدقہ بھیجا تو آپ نے صدقہ کو دیکھ کر فرمایا: ھذا صدقة قومي۔یہ میری قوم کا صدقہ ہے۔ اگر غور سے دیکھا جائے تو معلوم ہو جائے گا کہ قومی نسبت شامنا و یمننا کی نسبت سے قوی تر ہے۔ سینگ شیطان سے مراد اس کا گروہ ہے، یہ الفاظ آپ نے اسی واسطے فرمائے کہ وہ ہمیشہ آپ کے ساتھ فساد کیا کرتے تھے اور کہا کعب نے کہ عراق سے یعنی اس طرف سے دجال نکلے گا (فضل الباري، ص:353پ:3) اس دور آخر بدرقہ نجد سے وہ تحریک اٹھی جس نے زمانہ رسالت مآب ﷺ اور عہد خلفاء راشدین کی یاد کو تازہ کردیا جس سے مجدد اسلام حضرت الشیخ محمد بن عبد الوہاب نجدی ؒ کی تحریک مراد ہے جنہوں نے ازسر نو مسلمانوں کو اصل اسلام کی دعوت دی ا ور شرک وبدعات کے خلاف علم جہاد بلند کیا۔ نجدیوں سے قبل حجاز کی حالت جو کچھ تھی وہ تاریخ کے اوراق پر ثبت ہے۔ جس دن سے وہاں نجدی حکومت قائم ہوئی ہر طرح کا امن وامان قائم ہوا اورآج تو حکومت سعودیہ نجد یہ نے حرمین شریفین کی خدمات کے سلسلے میں وہ کارہائے نمایاں انجام دیئے ہیں جو ساری دنیائے اسلام میں ہمیشہ یاد رہیں گے۔ أیدھم اللہ بنصرہ العزیز ( آمین )
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn 'Umar (RA): (The Prophet) said, "O Allah! Bless our Sham and our Yemen." People said, "Our Najd as well." The Prophet (ﷺ) again said, "O Allah! Bless our Sham and Yemen." They said again, "Our Najd as well." On that the Prophet (ﷺ) said, "There will appear earthquakes and afflictions, and from there will come out the side of the head of Satan."