Sahi-Bukhari:
Eclipses
(Chapter: To offer the Eclipse Salat (prayer) in congregation)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور عبداللہ بن عباس ؓ نے زمزم کے چبوترہ میں لوگوں کو یہ نماز پڑھائی تھی اور علی بن عبداللہ بن عباس نے اس کے لیے لوگوں کو جمع کیا اور عبداللہ بن عمر ؓ نے نماز پڑھائی۔(یہ علی بن عبداللہ تابعی ہیں ۔ عبداللہ بن عباس کے بیٹے ہیں اور خلفائے عباسیہ ان ہی کی اولاد ہیں ان کوسجاد کہتے ہیں کیونکہ یہ ہرروز ہزار سجدے کیا کرتے تھے جس رات حضرت علی مرتضی شہید ہوئے اسی رات کو یہ پیدا ہوئے اس لئے ان کا بطور یاد گار علی ہی رکھا گیا۔اس روایت کو ابن شیبہ نے موصولاً ذکر کیا ہے(قسطلانی))
1052.
حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: نبی ﷺ کے عہد مبارک میں جب سورج بے نور ہوا تو رسول اللہ ﷺ نے نماز پڑھائی۔ آپ کا قیام سورہ بقرہ کی قراءت کی طرح طویل تھا۔ پھر آپ نے طویل رکوع کیا۔ اس کے بعد سر اٹھایا تو پھر دیر تک قیام کیا لیکن آپ کا یہ قیام پہلے قیام سے قدرے کم تھا۔ پھر آپ نے طویل رکوع کیا جو پہلے رکوع سے کچھ کم تھا۔ پھر آپ نے سجدہ فرمایا۔ بعد ازاں ایک طویل قیام کیا جو پہلے قیام سے قدرے کم تھا، پھر طویل رکوع کیا جو پہلے سے قدرے مختصر تھا، اس کے بعد سر اٹھا کر طویل قیام فرمایا جو پہلے قیام سے قدرے تھوڑا تھا، پھر لمبا رکوع کیا جو پہلے سے کچھ کم تھا اس کے بعد آپ نے سجدہ فرمایا۔ آپ نماز سے فارغ ہوئے تو سورج روشن ہو چکا تھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’سورج اور چاند اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں۔ یہ دونوں کسی کی موت و حیات کی وجہ سے بے نور نہیں ہوتے۔ جب تم اس قسم کا حادثہ دیکھو تو اللہ کو یاد کرو۔‘‘ صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم نے آپ کو دیکھا کہ آپ نے اپنی جگہ کھڑے کھڑے کوئی چیز ہاتھ میں لی، پھر ہم نے آپ کو پیچھے ہٹتے ہوئے بھی دیکھا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’میں نے جنت کو دیکھا اور ایک خوشہ انگور کی طرف ہاتھ بڑھایا تھا، اگر میں اسے توڑ لیتا تو تم رہتی دنیا تک اسے کھاتے۔ اس کے بعد مجھے جہنم دکھائی گئی۔ میں نے آج تک اس سے زیادہ بھیانک منظر نہیں دیکھا۔ میں نے اہل دوزخ میں زیادہ تر عورتوں کی تعداد دیکھی۔‘‘ لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اس کی کیا وجہ ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’اس کی وجہ ان کی ناشکری ہے۔‘‘ عرض کیا گیا: آیا وہ اللہ کی ناشکری کرتی ہیں؟ آپ نے فرمایا: ’’(نہیں بلکہ) وہ اپنے خاوند کی ناشکری کرتی ہیں اور ان کا احسان نہیں مانتیں۔ اگر تم کسی عورت کے ساتھ تمام عمر احسان کرو، پھر کبھی تمہاری طرف سے کوئی ناخوش گوار بات دیکھے تو فورا کہہ دے گی کہ میں نے تجھ سے کبھی کوئی بھلائی دیکھی ہی نہیں۔‘‘
تشریح:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ گرہن کے وقت نماز باجماعت کا اہتمام کرنا چاہیے اور اگر مقرر امام موجود نہ ہو تو کوئی بھی صاحب علم یہ فریضہ ادا کر سکتا ہے، البتہ امام نووی ؒ کہتے ہیں کہ اگر امام راتب نہ ہو تو لوگوں کو انفرادی طور پر نماز پڑھنی چاہیے لیکن ان کا یہ موقف محل نظر ہے۔ (فتح الباري:697/2) (2) بظاہر اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی کھلی آنکھ سے جنت کا مشاہدہ فرمایا اور آپ کے لیے جنت کے تمام حجابات اٹھا دیے گئے اور تمام مسافت کو لپیٹ دیا گیا یہاں تک کہ خوشۂ انگور توڑنے کا امکان پیدا ہو گیا۔ اس کی تائید حضرت اسماء ؓ سے مروی حدیث سے بھی ہوتی ہے، آپ ﷺ نے فرمایا: ’’جنت میرے قریب آ گئی۔ اگر میں جرءت کرتا تو تمہارے لیے خوشۂ انگور لے آتا۔‘‘(صحیح البخاري، الأذان، حدیث:745) ممکن ہے کہ آپ کے سامنے جنت کو مثالی طور پر پیش کیا گیا ہو۔ جیسا کہ آئینے میں کسی چیز کی تصویر نظر آتی ہے۔ اس کی تائید حدیث انس سے ہوتی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ابھی ابھی میرے سامنے دیوار قبلہ میں جنت اور دوزخ کو بطور مثال پیش کیا گیا تھا۔‘‘(صحیح البخاري، الأذان، حدیث:749) اس میں شک نہیں کہ رسول اللہ ﷺ کو جنت اور دوزخ کا متعدد مرتبہ مشاہدہ کرایا گیا تھا۔ جب آپ ﷺ معراج پر گئے تھے تو اس وقت بھی آپ نے ان کا مشاہدہ کیا تھا، لیکن اسے مشاہدۂ جمال سے تعبیر کیا جا سکتا ہے، جبکہ نماز کسوف کے موقع پر مشاہدۂ جلال کے طور پر آپ نے انہیں دیکھا تھا۔ واللہ أعلم۔ (3) حدیث جابر میں رسول اللہ ﷺ نے ایسی بری خصلتوں کو بیان فرمایا ہے جو اکثر عورتوں کو جہنم میں لے جانے کا باعث ہیں۔ آپ نے فرمایا: ’’میں نے ایسی عورتوں کو بکثرت جہنم میں دیکھا جو راز افشا کر کے امانت میں خیانت کرتی ہیں، اگر ان سے کوئی چیز مانگی جائے تو بخل سے کام لیتی ہیں، اگر خود سوال کرنا ہو تو چمٹ جاتی ہیں اور اگر انہیں دیا جائے تو ناشکری پر اتر آتی ہیں۔‘‘ یہ وہ اوصاف ہیں جو عورتوں میں عام طور پر پائے جاتے ہیں اور ان کے باعث اکثر عورتیں جہنم کا ایندھن بنیں گی۔ (فتح الباري:700/2) أعاذنا اللہ منه۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1035
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1052
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1052
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1052
تمہید کتاب
لفظ کسوف یا انکساف کے لغوی معنی آفتاب یا ماہتاب کا گہن زدہ ہونا ہیں اور خسوف یا انخساف بھی اس معنی میں مستعمل ہے۔ بعض اہل لغت کے نزدیک سورج گہن کے لیے کسوف اور چاند گہن کے لیے لفظ خسوف استعمال کرنا زیادہ بہتر ہے۔ فقہاء کے نزدیک سورج اور چاند کی روشنی بالکل ختم ہو جانے یا روشنی کا کچھ حصہ چلے جانے پر کسوف اور خسوف کا اطلاق ہوتا ہے لیکن کچھ حضرات فرق کرتے ہیں کہ خسوف اس وقت بولتے ہیں جب چاند اور سورج کی روشنی ختم ہو جائے اگر صرف رنگ تبدیل ہو تو اسے کسوف کہتے ہیں۔ سورج یا چاند گہن کے وقت مخصوص طریقے سے جو نماز ادا کی جاتی ہے اسے نماز کسوف کہا جاتا ہے۔ ماہرین فلکیات کے نزدیک کسوف شمس کی کوئی حقیقت نہیں۔ ان کے نزدیک سورج میں کبھی کوئی تبدیلی نہیں آتی، البتہ کبھی کبھی زمین اور سورج کے درمیان چاند حائل ہو جاتا ہے تو اس کی روشنی بالکل ختم یا کم ہو جاتی ہے لیکن جب سورج اور چاند کے درمیان زمین حائل ہو جاتی ہے تو چاند کی روشنی بالکل باقی نہیں رہتی۔ ہمارے نزدیک سائنسی توجیہات سے قطع نظر اس کا مقصد تخویف، یعنی لوگوں کو ڈرانا ہے۔ اس کے لیے اللہ تعالیٰ کبھی کبھی اپنی قدرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہیں بے نور کر دیتا ہے۔سائنس دانوں کی بات صحیح بھی ہو تو تخویف کے منافی نہیں جیسا کہ زلزلہ، زمین کے نیچے کسی کیمیائی تبدیلی کی وجہ سے ہوتا ہے لیکن تمام لوگ اس سے ڈرتے ہیں۔ جب آیات الٰہیہ میں تبدیلی آتی ہے تو نفوس انسانیہ پر اس کا اثر ظاہر ہوتا ہے۔ لوگ دنیا سے کٹ کر ذکر الٰہی میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ یہ حالت مومن کے لیے بڑی باعث غنیمت ہے کہ وہ نماز اور دعا میں مصروف رہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں ٹھیک اس دن سورج گہن ہوا جب آپ کے لخت جگر حضرت ابراہیم علیہ السلام دنیا سے رخصت ہوئے۔ جمہور اہل سیر کا قول ہے کہ حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ کا انتقال 10 ہجری میں ہوا جبکہ آپ غزوۂ تبوک سے واپس آئے تھے۔ گزشتہ صدی کے ماہر فلکیات محمود پاشا نے اپنی فنی تحقیق سے اس کسوف کی تاریخ 29 شوال 10 ہجری بروز سوموار بوقت ساڑھے آٹھ بجے لکھی ہے۔ یہ گہن کئی گھنٹے جاری رہا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب نمازوں سے زیادہ طویل نماز پڑھائی۔ سورج کے گہن سے نکلنے تک نماز پڑھاتے رہے۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے طویل قیام اور بہت لمبے رکوع و سجود کی کیفیت بھی بیان کی ہے۔ اتنا طویل قیام تھا کہ بعض صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کا اس میں بے ہوش ہو کر گرنا اور انہیں ہوش میں لانے کے لیے سر پر پانی ڈالنا بھی روایات سے ثابت ہے۔ اس نماز میں متعدد رکوع کرنے ثابت ہیں لیکن سب سے زیادہ قوی اور صحیح روایت ایک رکعت دو رکوع اور دو سجدوں والی ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے صرف اسی روایت کو بیان کیا ہے۔ چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں صرف ایک مرتبہ نماز کسوف ادا کی گئی، اس لیے اسے متعدد واقعات پر بھی محمول نہیں کیا جا سکتا۔ محتاط محدثین نے اسی بات کو ترجیح دی ہے کہ اس نماز کی دو رکعت ہیں اور ہر ایک رکعت میں دو دو رکوع ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں امت کی رہنمائی کرنے کے لیے اپنی صحیح میں كتاب الكسوف کا عنوان قائم کیا ہے جس میں تقریبا نو (9) صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے مروی ستائیس (27) احادیث بیان کی ہیں۔ ان صحابۂ کرام نے اپنے اپنے مشاہدات بیان کیے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر انیس (19) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن میں گہن سے متعلقہ احکام و مسائل کا بیان ہے، مثلاً: اس وقت طویل نماز کا اہتمام، اس کے لیے عام اعلان، خصوصی ہدایات پر مشتمل خطبہ، صدقہ و خیرات کی تلقین، عذاب قبر سے پناہ، باجماعت نماز کا بندوبست، اس میں عورتوں کی شمولیت، غلط عقائد کا ابطال، انتہائی عجز و انکسار اور الحاح و زاری پر مبنی دعائیں وغیرہ۔عربوں میں زمانۂ جاہلیت کے توہمات میں سے ایک یہ خیال بھی تھا کہ کسی بڑے آدمی کی موت پر سورج گہن ہوتا ہے، گویا وہ اس کے ماتم میں سیاہ چادر اوڑھ لیتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لخت جگر کی وفات کے موقع پر کچھ لوگوں کی زبان سے اس قسم کے عقیدے کا اظہار ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خطبے میں خاص طور پر اس عقیدے کی تردید فرمائی۔ آپ نے فرمایا کہ یہ محض جاہلانہ توہم پرستی ہے جس کی کوئی بنیاد نہیں۔ یہ تو اللہ کی قدرت اور اس کے جلال و جبروت کی نشانی ہے۔ جب کبھی اس کا ظہور ہو تو ہمیں چاہیے کہ انتہائی عجز و انکسار کے ساتھ اس قادر و قہار کی عظمت و جلال کے سامنے جھک جائیں اور اس سے رحم و کرم کی بھیک مانگیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے دوران نماز میں عالم غیب کے بہت سے حقائق ظاہر کیے گئے: آپ نے جنت اور دوزخ کو اپنے سامنے دیکھا اور جہنم میں عذاب کے نہایت ہیبت ناک اور لرزہ خیز مناظر بھی دیکھے۔ آپ نے اپنے خطبے میں ان تمام غیبی مشاہدات کو بیان فرمایا۔چاند گرہن کے وقت بھی غیر معمولی کیفیت کے ساتھ نماز پڑھنے کا حکم ہے لیکن کسی صحیح حدیث سے یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر نماز کا اہتمام کیا ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس نماز کا حکم اسی گہن کے وقت ملا اور اس کے بعد آپ چند مہینے اس دنیا میں رونق افراز رہے، ان ایام معدودات میں چاند گرہن کی نوبت ہی نہیں آئی۔ الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت چالیس (40) مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں بیس (20) موصول اور بیس (20) معلق ہیں، نیز بتیس مکرر اور آٹھ (8) خالص ہیں۔ تین (3) کے سوا دیگر احادیث امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی بیان کی ہیں۔ ان احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے مروی پانچ (5) آثار ہیں جن میں دو (2) موصول اور تین (3) معلق ہیں۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ حضور قلب کے ساتھ کتاب الکسوف کا مطالعہ کریں تاکہ ایمان کی تازگی اور روح کی غذا کا سامان مہیا ہو۔ اللہ تعالیٰ ہی کے ہاتھ میں تمام معاملات ہیں اور وہی ہمارے لیے ہر کام میں مددگار و کارساز ہے۔
تمہید باب
ابن عباس رضی اللہ عنہ کے واقعے کو امام شافعی اور سعید بن منصور نے متصل سند سے بیان کیا ہے۔ آپ نے لوگوں کو نماز کسوف کی دو رکعت پڑھائیں اور ہر رکعت میں دو رکوع کیے۔ علی بن عبداللہ بن عباس کا اثر متصل سند سے نہیں مل سکا۔ ممکن ہے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے ان کے ساتھ ہی نماز ادا کی ہو۔ مصنف ابن ابی شیبہ میں اس کے ہم معنی روایت آئی ہے۔ (فتح الباری:2/897)
اور عبداللہ بن عباس ؓ نے زمزم کے چبوترہ میں لوگوں کو یہ نماز پڑھائی تھی اور علی بن عبداللہ بن عباس نے اس کے لیے لوگوں کو جمع کیا اور عبداللہ بن عمر ؓ نے نماز پڑھائی۔(یہ علی بن عبداللہ تابعی ہیں ۔ عبداللہ بن عباس کے بیٹے ہیں اور خلفائے عباسیہ ان ہی کی اولاد ہیں ان کوسجاد کہتے ہیں کیونکہ یہ ہرروز ہزار سجدے کیا کرتے تھے جس رات حضرت علی مرتضی شہید ہوئے اسی رات کو یہ پیدا ہوئے اس لئے ان کا بطور یاد گار علی ہی رکھا گیا۔اس روایت کو ابن شیبہ نے موصولاً ذکر کیا ہے(قسطلانی))
حدیث ترجمہ:
حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: نبی ﷺ کے عہد مبارک میں جب سورج بے نور ہوا تو رسول اللہ ﷺ نے نماز پڑھائی۔ آپ کا قیام سورہ بقرہ کی قراءت کی طرح طویل تھا۔ پھر آپ نے طویل رکوع کیا۔ اس کے بعد سر اٹھایا تو پھر دیر تک قیام کیا لیکن آپ کا یہ قیام پہلے قیام سے قدرے کم تھا۔ پھر آپ نے طویل رکوع کیا جو پہلے رکوع سے کچھ کم تھا۔ پھر آپ نے سجدہ فرمایا۔ بعد ازاں ایک طویل قیام کیا جو پہلے قیام سے قدرے کم تھا، پھر طویل رکوع کیا جو پہلے سے قدرے مختصر تھا، اس کے بعد سر اٹھا کر طویل قیام فرمایا جو پہلے قیام سے قدرے تھوڑا تھا، پھر لمبا رکوع کیا جو پہلے سے کچھ کم تھا اس کے بعد آپ نے سجدہ فرمایا۔ آپ نماز سے فارغ ہوئے تو سورج روشن ہو چکا تھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’سورج اور چاند اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں۔ یہ دونوں کسی کی موت و حیات کی وجہ سے بے نور نہیں ہوتے۔ جب تم اس قسم کا حادثہ دیکھو تو اللہ کو یاد کرو۔‘‘ صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم نے آپ کو دیکھا کہ آپ نے اپنی جگہ کھڑے کھڑے کوئی چیز ہاتھ میں لی، پھر ہم نے آپ کو پیچھے ہٹتے ہوئے بھی دیکھا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’میں نے جنت کو دیکھا اور ایک خوشہ انگور کی طرف ہاتھ بڑھایا تھا، اگر میں اسے توڑ لیتا تو تم رہتی دنیا تک اسے کھاتے۔ اس کے بعد مجھے جہنم دکھائی گئی۔ میں نے آج تک اس سے زیادہ بھیانک منظر نہیں دیکھا۔ میں نے اہل دوزخ میں زیادہ تر عورتوں کی تعداد دیکھی۔‘‘ لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اس کی کیا وجہ ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’اس کی وجہ ان کی ناشکری ہے۔‘‘ عرض کیا گیا: آیا وہ اللہ کی ناشکری کرتی ہیں؟ آپ نے فرمایا: ’’(نہیں بلکہ) وہ اپنے خاوند کی ناشکری کرتی ہیں اور ان کا احسان نہیں مانتیں۔ اگر تم کسی عورت کے ساتھ تمام عمر احسان کرو، پھر کبھی تمہاری طرف سے کوئی ناخوش گوار بات دیکھے تو فورا کہہ دے گی کہ میں نے تجھ سے کبھی کوئی بھلائی دیکھی ہی نہیں۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ گرہن کے وقت نماز باجماعت کا اہتمام کرنا چاہیے اور اگر مقرر امام موجود نہ ہو تو کوئی بھی صاحب علم یہ فریضہ ادا کر سکتا ہے، البتہ امام نووی ؒ کہتے ہیں کہ اگر امام راتب نہ ہو تو لوگوں کو انفرادی طور پر نماز پڑھنی چاہیے لیکن ان کا یہ موقف محل نظر ہے۔ (فتح الباري:697/2) (2) بظاہر اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی کھلی آنکھ سے جنت کا مشاہدہ فرمایا اور آپ کے لیے جنت کے تمام حجابات اٹھا دیے گئے اور تمام مسافت کو لپیٹ دیا گیا یہاں تک کہ خوشۂ انگور توڑنے کا امکان پیدا ہو گیا۔ اس کی تائید حضرت اسماء ؓ سے مروی حدیث سے بھی ہوتی ہے، آپ ﷺ نے فرمایا: ’’جنت میرے قریب آ گئی۔ اگر میں جرءت کرتا تو تمہارے لیے خوشۂ انگور لے آتا۔‘‘(صحیح البخاري، الأذان، حدیث:745) ممکن ہے کہ آپ کے سامنے جنت کو مثالی طور پر پیش کیا گیا ہو۔ جیسا کہ آئینے میں کسی چیز کی تصویر نظر آتی ہے۔ اس کی تائید حدیث انس سے ہوتی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ابھی ابھی میرے سامنے دیوار قبلہ میں جنت اور دوزخ کو بطور مثال پیش کیا گیا تھا۔‘‘(صحیح البخاري، الأذان، حدیث:749) اس میں شک نہیں کہ رسول اللہ ﷺ کو جنت اور دوزخ کا متعدد مرتبہ مشاہدہ کرایا گیا تھا۔ جب آپ ﷺ معراج پر گئے تھے تو اس وقت بھی آپ نے ان کا مشاہدہ کیا تھا، لیکن اسے مشاہدۂ جمال سے تعبیر کیا جا سکتا ہے، جبکہ نماز کسوف کے موقع پر مشاہدۂ جلال کے طور پر آپ نے انہیں دیکھا تھا۔ واللہ أعلم۔ (3) حدیث جابر میں رسول اللہ ﷺ نے ایسی بری خصلتوں کو بیان فرمایا ہے جو اکثر عورتوں کو جہنم میں لے جانے کا باعث ہیں۔ آپ نے فرمایا: ’’میں نے ایسی عورتوں کو بکثرت جہنم میں دیکھا جو راز افشا کر کے امانت میں خیانت کرتی ہیں، اگر ان سے کوئی چیز مانگی جائے تو بخل سے کام لیتی ہیں، اگر خود سوال کرنا ہو تو چمٹ جاتی ہیں اور اگر انہیں دیا جائے تو ناشکری پر اتر آتی ہیں۔‘‘ یہ وہ اوصاف ہیں جو عورتوں میں عام طور پر پائے جاتے ہیں اور ان کے باعث اکثر عورتیں جہنم کا ایندھن بنیں گی۔ (فتح الباري:700/2) أعاذنا اللہ منه۔
ترجمۃ الباب:
حضرت ابن عباس ؓ نے زمزم کے چبوترے پر لوگوں کو نماز کسوف پڑھائی۔ حضرت علی بن عبداللہ بن عباس نے بھی لوگوں کے لیے نماز باجماعت کا اہتمام کیا اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے بھی نماز کسوف پڑھی۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا، ان سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے زید بن اسلم نے بیان کیا، ان سے عطاء بن یسار نے بیان کیا، ان سے حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ نے کہ نبی کریم ﷺ کے زمانے میں سورج کو گرہن لگا تو آپ ﷺ نے نماز پڑھی تھی آپ ﷺ نے اتنا لمبا قیام کیا کہ اتنی دیر میں سورہ بقرہ پڑھی جا سکتی تھی۔ پھر آپ ﷺ نے رکوع لمبا کیا اور اس کے بعد کھڑے ہوئے تو اب کی مرتبہ بھی قیام بہت لمبا تھا لیکن پہلے سے کچھ کم پھر ایک دوسرا لمبا رکوع کیاجو پہلے رکوع سے کچھ کم تھا پھر آپ ﷺ سجدہ میں گئے، سجدہ سے اٹھ کر پھر لمبا قیام کیا لیکن پہلے قیام کے مقابلے میں کم لمبا تھا پھر ایک لمبا رکوع کیا۔ یہ رکوع بھی پہلے رکوع کے مقابلہ میں کم تھا رکوع سے سر اٹھا نے کے بعد پھر آپ ﷺ بہت دیر تک کھڑے رہے اور یہ قیام بھی پہلے سے مختصر تھا۔ پھر ( چوتھا ) رکوع کیا یہ بھی بہت لمبا تھا، لیکن پہلے سے کچھ کم۔ پھر آپ ﷺ نے سجدہ کیا اور نماز سے فارغ ہوئے تو سورج صاف ہو چکا تھا۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے خطبہ میں فرمایا کہ سورج اور چاند دونوں اللہ تعالی کی نشانیاں ہیں اور کسی کی موت وزندگی کی وجہ سے ان میں گرہن نہیں لگتا اس لیے جب تم کو معلوم ہو کہ گرہن لگ گیا ہے تو اللہ تعالی کا ذکر کرو۔ صحابہ ؓم نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ! ہم نے دیکھا کہ ( نماز میں ) اپنی جگہ سے آپ کچھ آگے بڑھے اور پھر اس کے بعد پیچھے ہٹ گئے۔ آپ نے فرمایا کہ میں نے جنت دیکھی اور اس کا یک خوشہ توڑنا چاہا تھا اگر میں اسے توڑ سکتا تو تم اسے رہتی دنیا تک کھاتے اور مجھے جہنم بھی دکھائی گئی، میں نے اس سے زیادہ بھیانک اور خوفناک منظر کبھی نہیں دیکھا۔ میں نے دیکھا اس میں عورتیں زیادہ ہیں۔ کسی نے پوچھا یا رسول اللہ ﷺ! اس کی کیا وجہ ہے؟ آپ نے فرمایا کہ اپنے کفر ( انکار ) کی وجہ سے، پوچھا گیا۔ کیا اللہ تعالی کا کفر ( انکار ) کر تی ہیں؟ آپ نے فرمایا کہ شوہر کا اور احسان کا کفر کر تی ہیں۔ زندگی بھر تم کسی عورت کے ساتھ حسن سلوک کرو، لیکن کبھی اگر کوئی خلاف مزاج بات آگئی تو فوراًیہی کہے گی کہ میں نے تم سے کبھی بھلائی نہیں دیکھی۔
حدیث حاشیہ:
یہ حدیث اس سے قبل بھی گزر چکی ہے، دوزخ اور جنت کی تصویریں آپ کو دکھلادیں، اس حدیث میں عورتوں کا بھی ذکر ہے جس میں ان کے کفر سے ناشکری مراد ہے۔ بعضوں نے کہا کہ آپ نے اصل جنت اور دوزخ کو دیکھا کہ پردہ درمیان سے اٹھ گیا یا یہ مراد ہے کہ دوزخ اور جنت کا ایک ایک ٹکڑا بطور نمونہ آپ کو دکھلایا گیا۔ بہر حال یہ عالم بزرخ کی چیز ہے جس طرح حدیث میں آگیا۔ ہمارا ایمان ہے تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں۔ جنت کے خوشے کے لیے آپ نے جو فرمایا وہ اس لیے کہ جنت اور نعمائے جنت کے لیے فنا نہیں ہے اس لیے وہ خوشہ اگر آجاتا تو وہ یہاں دنیا کے قائم رہنے تک رہتا مگر یہ عالم دنیا اس کا محل نہیں اس لیے اس کاآپ کو معائنہ کرایا گیا۔ اس روایت میں بھی آنحضرت ﷺ کا ہر رکعت میں دو رکوع کرنے کا ذکر ہے جس کے پیش نظر برادران احناف نے بھی بہر حال اپنے مسلک کے خلاف اس حقیقت کو تسلیم کیا ہے جو قابل تحسین ہے۔ چنا نچہ صاحب تفہیم البخاری کے الفاظ ملاحظہ ہوں آپ فرماتے ہیں: اس باب کی تمام احادیث میں قابل غور بات یہ ہے کہ راویوں نے اس پر خاص طور سے زور دیا ہے کہ آپ ﷺ نے ہر رکعت میں دو رکوع کئے تھے۔ چنا نچہ قیام پھر رکوع پھر قیام پھر رکوع کی کیفیت پوری تفصیل کے ساتھ بیان کرتے ہیں، لیکن سجدہ کا ذکر جب آیا تو صرف اسی پر اکتفا کیا کہ آپ نے سجدہ کیا تھا، اس کی کوئی تفصیل نہیں کہ سجدے کتنے تھے کیونکہ راویوں کے پیش نظر اس نماز کے امتیازات کو بیان کرنا ہے اس سے بھی یہی سمجھ میں آتا ہے کہ رکوع ہر رکعت میں آپ نے دو کئے تھے اور جن میں ایک رکوع کا ذکر ہے ان میں اختصار سے کام لیا گیاہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Abdullah bin Abbas (RA): The sun eclipsed in the life-time of the Prophet (ﷺ) . Allah's Apostle (ﷺ) offered the eclipse prayer and stood for a long period equal to the period in which one could recite Surat-al-Baqara. Then he bowed for a long time and then stood up for a long period which was shorter than that of the first standing, then bowed again for a long time but for a shorter period than the first; then he prostrated twice and then stood up for a long period which was shorter than that of the first standing; then he bowed for a long time which was shorter than the previous one, and then he raised his head and stood up for a long period which was shorter than the first standing, then he bowed for a long time which was shorter than the first bowing, and then prostrated (twice) and finished the prayer. By then, the sun (eclipse) had cleared. The Prophet (ﷺ) then said, "The sun and the moon are two of the signs of Allah. They eclipse neither because of the death of somebody nor because of his life (i.e. birth). So when you see them, remember Allah." The people say, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! We saw you taking something from your place and then we saw you retreating." The Prophet (ﷺ) replied, "I saw Paradise and stretched my hands towards a bunch (of its fruits) and had I taken it, you would have eaten from it as long as the world remains. I also saw the Hell-fire and I had never seen such a horrible sight. I saw that most of the inhabitants were women." The people asked, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! Why is it so?" The Prophet (ﷺ) replied, "Because of their ungratefulness." It was asked whether they are ungrateful to Allah. The Prophet (ﷺ) said, "They are ungrateful to their companions of life (husbands) and ungrateful to good deeds. If you are benevolent to one of them throughout the life and if she sees anything (undesirable) in you, she will say, 'I have never had any good from you.' "