باب: جب مغرب اور عشاء ملا کر پڑھے تو کیا ان کے لیے اذان و تکبیر کہی جائے گی؟
)
Sahi-Bukhari:
Shortening the Prayers (At-Taqseer)
(Chapter: Should the Adhan and Iqama be pronounced when the Maghrib and Isha prayers are offered together)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1109.
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ جب آپ کو سفر میں جلدی ہوتی تو نماز مغرب کو مؤخر فرماتے تا آنکہ مغرب و عشاء کو ملا کر پڑھتے۔ حضرت سالم کہتے ہیں: عبداللہ بن عمر ؓ کو جب سفر میں جلدی ہوتی تو وہ بھی ایسا کرتے۔ مغرب کے لیے اقامت کہتے، پھر اس کی تین رکعات پڑھ کر سلام پھیرتے، اس کے بعد کچھ دیر ٹھہرتے حتی کہ عشاء کی اقامت کہتے اور اس کی دو رکعت پڑھتے پھر سلام پھیرتے، دونوں نمازوں کے درمیان اور عشاء کے بعد سنت وغیرہ نہ پڑھتے یہاں تک کہ پھر آدھی رات کے وقت تہجد کے لیے کھڑے ہوتے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1086
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1109
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1109
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1109
تمہید کتاب
ہجرت کے چوتھے سال نماز قصر کی اجازت نازل ہوئی۔ اس کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَإِذَا ضَرَبْتُمْ فِي الْأَرْضِ فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَن تَقْصُرُوا مِنَ الصَّلَاةِ إِنْ خِفْتُمْ أَن يَفْتِنَكُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا ۚ إِنَّ الْكَافِرِينَ كَانُوا لَكُمْ عَدُوًّا مُّبِينًا ﴿١٠١﴾) "اور جب تم زمین میں سفر کرو تو تمہارے لیے نماز کو قصر کر لینے میں کوئی حرج نہیں (خصوصاً) جب تمہیں اندیشہ ہو کہ کافر تمہیں پریشانی میں مبتلا کر دیں گے کیونکہ کافر تو بلاشبہ تمہارے کھلے دشمن ہیں۔" (النساء101:4)قصر نماز کی اجازت ہر سفر کے لیے ہے، خواہ امن کے حالات ہوں یا دشمن کا اندیشہ۔ آیت کریمہ میں اندیشۂ دشمن کا ذکر غالب احوال سے متعلق ہے کیونکہ اس وقت پورا عرب مسلمانوں کے لیے دار الحرب بنا ہوا تھا۔عربی زبان میں اس نماز کے لیے قصر، تقصیر اور اقصار تینوں الفاظ استعمال ہوتے ہیں، البتہ پہلا لفظ زیادہ مشہور ہے۔ اس سے مراد بحالت سفر چار رکعت والی نماز میں تخفیف کر کے دو رکعت ادا کرنا ہے۔ نماز مغرب اور نماز فجر میں قصر نہیں ہے۔ اس پر تمام فقہاء کا اتفاق ہے۔ نماز قصر کے متعلق سفر کی تاثیر میں کسی کو اختلاف نہیں، البتہ پانچ مواضع میں علمائے امت کا نکتۂ نظر مختلف ہے: ٭ حکم قصر کی حیثیت کیا ہے؟ ٭ کتنی مسافت پر قصر ہے؟ ٭ کس قسم کے سفر میں قصر کی اجازت ہے؟ ٭ قصر کی ابتدا کہاں سے ہوئی؟ ٭ پڑاؤ کی صورت میں کتنے دنوں تک قصر نماز کا فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے؟ایک حقیقت کو بیان کرنا ہم ضروری خیال کرتے ہیں: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ابتدا میں سفر و حضر میں دو رکعت نماز فرض کی گئی تھی، پھر نماز سفر کو جوں کا توں رکھتے ہوئے حضر کی نماز میں اضافہ کر کے اسے مکمل کر دیا گیا۔ (صحیح البخاری،التقصیر،حدیث:1090) اسی طرح ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان حق ترجمان کے ذریعے سے مسافر پر دو رکعت، مقیم پر چار رکعت اور حالت خوف میں ایک رکعت فرض کی ہے۔ (صحیح مسلم،صلاۃ المسافرین،حدیث:1576(687)) ان احادیث کا تقاضا ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرتے ہوئے دوران سفر میں نماز قصر پڑھنے پر اکتفا کریں۔ ہمارے نزدیک یہی اولیٰ، بہتر اور افضل ہے۔
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ جب آپ کو سفر میں جلدی ہوتی تو نماز مغرب کو مؤخر فرماتے تا آنکہ مغرب و عشاء کو ملا کر پڑھتے۔ حضرت سالم کہتے ہیں: عبداللہ بن عمر ؓ کو جب سفر میں جلدی ہوتی تو وہ بھی ایسا کرتے۔ مغرب کے لیے اقامت کہتے، پھر اس کی تین رکعات پڑھ کر سلام پھیرتے، اس کے بعد کچھ دیر ٹھہرتے حتی کہ عشاء کی اقامت کہتے اور اس کی دو رکعت پڑھتے پھر سلام پھیرتے، دونوں نمازوں کے درمیان اور عشاء کے بعد سنت وغیرہ نہ پڑھتے یہاں تک کہ پھر آدھی رات کے وقت تہجد کے لیے کھڑے ہوتے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابو الیمان نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں شعیب نے زہری سے خبر دی، انہوں نے کہا کہ مجھے سالم نے عبداللہ بن عمر ؓ سے خبر دی۔ آپ نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ کو جب جلدی سفر طے کرنا ہوتا تو مغرب کی نماز مؤخر کر دیتے۔ پھر اسے عشاء کے ساتھ ملا کر پڑھتے تھے۔ سالم نے بیان کیا کہ عبد اللہ بن عمر ؓ بھی اگر سفر سرعت کے ساتھ طے کرنا چاہتے تو اسی طرح کرتے تھے۔ مغرب کی تکبیر پہلے کہی جاتی اور آپ تین رکعت مغرب کی نماز پڑھ کر سلام پھیر دیتے۔ پھر معمولی سے توقف کے بعد عشاء کی تکبیر کہی جاتی اور آپ اس کی دو رکعتیں پڑھ کر سلام پھیر دیتے۔ دونوں نمازوں کے درمیان ایک رکعت بھی سنت وغیرہ نہ پڑھتے اور اسی طرح عشاء کے بعد بھی نماز نہیں پڑھتے تھے۔ یہاں تک کہ درمیان شب میں آپ اٹھتے (اور تہجد ادا کرتے)۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Az-Zuhri (RA): Salim told me, "'Abdullah bin 'Umar said, 'I saw Allah's Apostle (ﷺ) delaying the Maghrib prayer till he offered it along with the Isha prayer whenever he was in a hurry during the journey.' " Salim said, " Abdullah bin Umar (RA) used to do the same whenever he was in a hurry during the journey. After making the call for Iqama, for the Maghrib prayer he used to offer three Rakat and then perform Tasllm. After waiting for a short while, he would pronounce the Iqama for the 'Isha' prayer and offer two Rakat and perform Taslim. He never prayed any Nawafil in between the two prayers or after the 'Isha' prayers till he got up in the middle of the night (for Tahajjud prayer)."