Sahi-Bukhari:
Knowledge
(Chapter: The writing of knowledge)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
112.
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ فتح مکہ کے سال خزاعہ نے بنولیث کے ایک شخص کو اپنے اس مقتول کے بدلے میں قتل کر دیا جسے بنو لیث نے قتل کیا تھا۔ نبی ﷺ کو اس کی اطلاع دی گئی، آپ اپنی اونٹنی پر سوار ہوئے اور ایک خطبہ دیا: ’’اللہ تعالیٰ نے مکے سے قتل یا فیل (ہاتھی) کو روک دیا۔ امام بخاری نے کہا: ابو نعیم نے ایسے ہی (شک کے ساتھ) کہا ہے۔ اور رسول اللہ ﷺ اور اہل ایمان کو ان (کافروں) پر غالب کر دیا گیا۔ خبردار! مکہ مجھ سے پہلے کسی کے لیے حلال نہیں ہوا اور نہ میرے بعد کسی کے لیے حلال ہو گا۔ آگاہ رہو! یہ میرے لیے بھی دن میں ایک گھڑی کے لیے حلال ہوا تھا۔ خبردار! وہ اس وقت بھی حرام ہے۔ وہاں کے کانٹے نہ کاٹے جائیں، نہ اس کے درخت قطع کیے جائیں، اعلان کرنے والے کے علاوہ وہاں کی گری ہوئی چیز کوئی نہ اٹھائے۔ اور جس کا کوئی عزیز مارا جائے، اسے دو میں سے ایک کا اختیار ہے: دیت قبول کر لے یا قصاص دلوایا جائے۔‘‘ اتنے میں ایک یمنی شخص آیا اور اس نے عرض کیا: یا رسول اللہ! (یہ مسائل) مجھے لکھ دیجیے۔ آپ نے فرمایا: ’’اچھا ابو فلاں کو لکھ دو۔‘‘ قریش کے ایک شخص نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اذخر اذخر (خوشبو دار گھاس، یعنی اس کے کاٹنے کی اجازت دیجیے)، اس لیے کہ ہم اسے اپنے گھروں اور قبروں میں استعمال کرتے ہیں۔ تو نبی ﷺ نے فرمایا: ’’ہاں مگر اذخر ۔ یعنی وہ کاٹ سکتے ہو۔‘‘
تشریح:
1۔ دور جاہلیت میں عرب کے دو مشہور قبائل خزاعہ اور بنو لیث میں عداوت تھی جس کے نتیجے میں، بنولیث کے ایک آدمی نے خزاعہ کے ایک احمر نامی شخص کو قتل کر دیا تھا، پھر فتح مکہ کے وقت اعلان امن کے بعد خزاعہ کے ایک خراش بن امیہ نامی آدمی نے بنو لیث کے جندب بن اقرع نامی شخص کو موقع پا کر قتل کر دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس شکایت کی گئی کہ اعلان امن کے بعد خزاعیوں کی طرف سے یہ حرکت ہوئی ہے کہ جس سے امن عامہ کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے، چنانچہ آپ فوراً تشریف لائے اور خطبہ ارشاد فرمایا۔ 2۔ اس روایت میں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میرے استاد ابونعیم نے القتل یا الفیل کو تردد کے ساتھ پیش کیا ہے جبکہ اس روایت کے دوسرے راوی عبیداللہ بن موسیٰ وغیرہ متعین طور پر الفیل کہتے ہیں جیسا کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب الدیات(حدیث 6880) میں اس کی وضاحت کی ہے۔ متعین طور پر بیان کرنے کی صورت میں معنی یہ ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ نے مکہ مکرمہ سے اصحاب فیل کو روکا ہے، یعنی جب شاہ حبشہ نے ہاتھیوں سے مکہ مکرمہ پر حملہ کیا تھا تو اللہ تعالیٰ نے چھوٹے چھوٹے پرندوں کے ذریعے سے ان کے دماغ درست کردیے تھے۔ یہ اس وقت کا ذکر ہے جب مکہ بیت الاصنام تھا۔ اب جبکہ وہ دارالاسلام بن چکا ہے تواس میں قتل وغارت اور امن شکنی کو کیسے برداشت کیا جاسکتا ہے۔ (فتح الباري: 272/1) 3۔ یمنی قبیلہ بنو کلب کے شخص نے کیا لکھنے کی درخواست کی؟ اس کی یہاں وضاحت نہیں جس سے اشکال پیدا ہوتا ہے۔ ایک دوسری روایت کے آخر میں وضاحت ہے کہ آپ نے اسے خطبہ لکھ کردینے کا حکم دیا تھا، چنانچہ اس حدیث کے راوی ولید بن مسلم نے اپنے استاد الاوزاعی سے دریافت کیا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا چیز لکھنے کی درخواست کی گئی تھی؟ تو انھوں نےفرمایا: پند ونصائح پر مبنی خطبہ لکھنے کی درخواست کی گئی تھی۔ (صحیح البخاري، اللقطة، حدیث: 2434) امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے قائم کردہ عنوان سے حدیث کا یہی حصہ مطابقت رکھتا ہے۔ اس سے ثابت ہوا کہ کتابت حدیث کا یہ عمل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں آپ کی اجازت سے شروع ہوچکا تھا۔ (فتح الباري: 273/1) اس کا مطلب یہ ہے کہ تدوین احادیث کی بنیاد خود زمانہ نبوی سے رکھی جا چکی تھی جسے خلیفہ راشد حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ کے زمانے میں نہایت اہتمام سے ترقی دی گئی۔ اب جو لوگ اسے عجمی سازش قراردیتے ہیں اور اس میں شکوک وشبہات پیداکرتے ہیں وہ دشمن اسلام ہیں، ان کی باتیں قابل التفات نہیں ہیں۔ 4۔ جب مکے کی سرزمین باعث حرمت ہے تو اس کا درخت کاٹنا، کانٹا توڑنا جائز نہیں ہے، البتہ وہ کانٹے جوگزرنے والوں کے لیے باعث تکلیف ہوں کاٹے جاسکتے ہیں کیونکہ حدود حرم میں اذیت ناک چیزوں کو ختم کرنا ضروری ہے جیسا کہ پانچ موذی جانوروں کو مارنے کی وضاحت ہے۔ جب کانٹوں کے متعلق اتنی پابندی ہے تو گھاس کاٹنے کی بھی اجازت نہیں دی جا سکتی، اسی بنا پر حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے درخواست پیش کی کہ اذخر(خوشبودار گھاس) کاٹنے کی اجازت دی جائے کیونکہ ہم اسے اپنے گھروں میں بچھاتے اور چھتوں پر ڈالتے ہیں، نیز قبروں میں لحد اور ان کے فرجات بند کرنے میں کام آتی ہے، یعنی زندوں اور مردوں ہی کو اس کی ضرورت رہتی ہے، چنانچہ آپ نے اسے کاٹنے کی اجازت دے دی۔ نوٹ: حرم اور غیرحرم میں گری پڑی چیز اٹھانے کے مسائل اور قتل ناحق کے احکام کتاب اللقطہ اور کتاب الدیات میں بیان کیے جائیں گے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
114
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
112
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
112
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
112
تمہید کتاب
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے علم کی طرف توجہ دلائی ہے کیونکہ علم، جہالت کی ضد ہے اور جہالت تاریکی کا نام جس میں واضح چیزیں بھی چھپی رہتی ہیں اور جب علم کی روشنی نمودار ہوتی ہے تو چھپی چیزیں بھی واضح ہونے لگتی ہیں۔ انھوں نے علم کی تعریف سے تعرض نہیں کیا، اس لیے کہ علم کو تعریف کی ضرورت نہیں۔عطرآں باشد کہ خود بیویدانہ کہ عطاربگوید نیز اشیاء کی حقیقت و ماہیت بیان کرنا اس کتاب کا موضوع نہیں ہے۔ایمانیات کے بعد کتاب العلم کا افتتاح کیا کیونکہ ایمان کے بعد دوسرا درجہ علم کا ہے۔اس کا ارشاد کلام الٰہی سے بھی ملتا ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے:(يَرْفَعِ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ)( المجادلۃ 58۔11۔)"اللہ تعالیٰ تم میں سے اہل ایمان اور اہل علم کے درجات بلند کردے گا۔"اس آیت کریمہ میں پہلے اہل ایمان اور پھر اہل علم کا تذکرہ ہے چونکہ ایمان کی پابندی ہر مکلف پر سب سے پہلے عائد ہوتی ہے نیز ایمان سب سے افضل و اعلیٰ اور ہر علمی اور عملی خیر کا اساسی پتھر ہے، اس لیے علم سے پہلے ایمان کا تذکرہ ضروری تھا۔ ایمانیات کے بعد کتاب العلم لانے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جو چیزیں ایمان میں مطلوب ہیں اور جن پر عمل کرنے سے ایمان میں کمال پیدا ہوتا ہے۔ ان کا حصول علم کے بغیر ممکن نہیں۔ پھر ایمان اور علم میں ایک گہرا رشتہ بھی ہے وہ یہ کہ علم کے بغیر ایمان میں روشنی اور بالیدگی پیدا نہیں ہوتی اور نہ ایمان کے بغیر علوم و معاررف ہی لائق اعتنا ہیں۔کتاب العلم کو دیگر ابواب سے پہلے بیان کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ دیگر ابواب کا تعلق انسان کی عملی زندگی سے ہے اور اللہ کے ہاں اس عمل کو قبولیت کا درجہ حاصل ہوگا جوعلی وجہ البصیرت کیا جائے گا۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک دنیاوی علوم میں مہارت پیدا کرنا کوئی پسندیدہ اور کار آمد مشغلہ نہیں کیونکہ ان کا فائدہ عارضی اور چند روز ہے۔ ان کے نزدیک اصل علم قرآن و حدیث کا علم ہے۔ پھر ان دونوں کے متعلق اللہ کی عطا کردہ فہم و فراست ہے کیونکہ ایسے معارف کا نفع مستقل اور پائیدار ہے پھر اگر اس علم کو اخلاص و عمل سے آراستہ کر لیا جائے تو آخرت میں ذریعہ نجات ہے۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کی اکثریت کے متعلق بایں الفاظ شکوہ کیا ہے:(يَعْلَمُونَ ظَاهِرًا مِّنَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَهُمْ عَنِ الْآخِرَةِ هُمْ غَافِلُونَ)"وہ تو دنیا وی زندگی کے ظاہر ہی کو جانتے ہیں۔اور اخروی معاملات سے تو بالکل ہی بے خبر ہیں۔"( الروم :30۔7۔)اس بنا پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب العلم میں حقیقی علم کی اہمیت و حیثیت ،افادیت ،علم حدیث، اس کے آداب وفضائل ، اس کی حدود و شرائط ، آداب تحمل حدیث ،آداب تحدیث ، صیغ ادا، رحلات علمیہ، کتابت حدیث،آداب طالب ، آداب شیخ ، فتوی ، آداب فتوی اور ان کے علاوہ بے شمار علمی حقائق و معارف کو بیان کیا ہے جن کی مکمل تفصیل اس تمہیدی گفتگو میں بیان نہیں کی جا سکتی۔ آئندہ صفحات میں موقع و محل کے مطابق ایسے علمی جواہرات کی وضاحت کی جائے گی۔ قارئین کرام سے درخواست ہے کہ وہ ان تمہیدی گزارشات کو ذہن میں رکھتے ہوئے کتاب العلم کا مطالعہ کریں۔
تمہید باب
کتابت چونکہ علم کی حفاظت کا سب سے قوی ،تبلیغ کے لیے سب سے زیادہ نفع بخش اور اشاعت علم کا سب سے آسان طریقہ ہے،اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اس طریق عمل کو احادیث کی روشنی میں ثابت کرنا چاہتے ہیں۔
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ فتح مکہ کے سال خزاعہ نے بنولیث کے ایک شخص کو اپنے اس مقتول کے بدلے میں قتل کر دیا جسے بنو لیث نے قتل کیا تھا۔ نبی ﷺ کو اس کی اطلاع دی گئی، آپ اپنی اونٹنی پر سوار ہوئے اور ایک خطبہ دیا: ’’اللہ تعالیٰ نے مکے سے قتل یا فیل (ہاتھی) کو روک دیا۔ امام بخاری نے کہا: ابو نعیم نے ایسے ہی (شک کے ساتھ) کہا ہے۔ اور رسول اللہ ﷺ اور اہل ایمان کو ان (کافروں) پر غالب کر دیا گیا۔ خبردار! مکہ مجھ سے پہلے کسی کے لیے حلال نہیں ہوا اور نہ میرے بعد کسی کے لیے حلال ہو گا۔ آگاہ رہو! یہ میرے لیے بھی دن میں ایک گھڑی کے لیے حلال ہوا تھا۔ خبردار! وہ اس وقت بھی حرام ہے۔ وہاں کے کانٹے نہ کاٹے جائیں، نہ اس کے درخت قطع کیے جائیں، اعلان کرنے والے کے علاوہ وہاں کی گری ہوئی چیز کوئی نہ اٹھائے۔ اور جس کا کوئی عزیز مارا جائے، اسے دو میں سے ایک کا اختیار ہے: دیت قبول کر لے یا قصاص دلوایا جائے۔‘‘ اتنے میں ایک یمنی شخص آیا اور اس نے عرض کیا: یا رسول اللہ! (یہ مسائل) مجھے لکھ دیجیے۔ آپ نے فرمایا: ’’اچھا ابو فلاں کو لکھ دو۔‘‘ قریش کے ایک شخص نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اذخر اذخر (خوشبو دار گھاس، یعنی اس کے کاٹنے کی اجازت دیجیے)، اس لیے کہ ہم اسے اپنے گھروں اور قبروں میں استعمال کرتے ہیں۔ تو نبی ﷺ نے فرمایا: ’’ہاں مگر اذخر ۔ یعنی وہ کاٹ سکتے ہو۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ دور جاہلیت میں عرب کے دو مشہور قبائل خزاعہ اور بنو لیث میں عداوت تھی جس کے نتیجے میں، بنولیث کے ایک آدمی نے خزاعہ کے ایک احمر نامی شخص کو قتل کر دیا تھا، پھر فتح مکہ کے وقت اعلان امن کے بعد خزاعہ کے ایک خراش بن امیہ نامی آدمی نے بنو لیث کے جندب بن اقرع نامی شخص کو موقع پا کر قتل کر دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس شکایت کی گئی کہ اعلان امن کے بعد خزاعیوں کی طرف سے یہ حرکت ہوئی ہے کہ جس سے امن عامہ کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے، چنانچہ آپ فوراً تشریف لائے اور خطبہ ارشاد فرمایا۔ 2۔ اس روایت میں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میرے استاد ابونعیم نے القتل یا الفیل کو تردد کے ساتھ پیش کیا ہے جبکہ اس روایت کے دوسرے راوی عبیداللہ بن موسیٰ وغیرہ متعین طور پر الفیل کہتے ہیں جیسا کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب الدیات(حدیث 6880) میں اس کی وضاحت کی ہے۔ متعین طور پر بیان کرنے کی صورت میں معنی یہ ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ نے مکہ مکرمہ سے اصحاب فیل کو روکا ہے، یعنی جب شاہ حبشہ نے ہاتھیوں سے مکہ مکرمہ پر حملہ کیا تھا تو اللہ تعالیٰ نے چھوٹے چھوٹے پرندوں کے ذریعے سے ان کے دماغ درست کردیے تھے۔ یہ اس وقت کا ذکر ہے جب مکہ بیت الاصنام تھا۔ اب جبکہ وہ دارالاسلام بن چکا ہے تواس میں قتل وغارت اور امن شکنی کو کیسے برداشت کیا جاسکتا ہے۔ (فتح الباري: 272/1) 3۔ یمنی قبیلہ بنو کلب کے شخص نے کیا لکھنے کی درخواست کی؟ اس کی یہاں وضاحت نہیں جس سے اشکال پیدا ہوتا ہے۔ ایک دوسری روایت کے آخر میں وضاحت ہے کہ آپ نے اسے خطبہ لکھ کردینے کا حکم دیا تھا، چنانچہ اس حدیث کے راوی ولید بن مسلم نے اپنے استاد الاوزاعی سے دریافت کیا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا چیز لکھنے کی درخواست کی گئی تھی؟ تو انھوں نےفرمایا: پند ونصائح پر مبنی خطبہ لکھنے کی درخواست کی گئی تھی۔ (صحیح البخاري، اللقطة، حدیث: 2434) امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے قائم کردہ عنوان سے حدیث کا یہی حصہ مطابقت رکھتا ہے۔ اس سے ثابت ہوا کہ کتابت حدیث کا یہ عمل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں آپ کی اجازت سے شروع ہوچکا تھا۔ (فتح الباري: 273/1) اس کا مطلب یہ ہے کہ تدوین احادیث کی بنیاد خود زمانہ نبوی سے رکھی جا چکی تھی جسے خلیفہ راشد حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ کے زمانے میں نہایت اہتمام سے ترقی دی گئی۔ اب جو لوگ اسے عجمی سازش قراردیتے ہیں اور اس میں شکوک وشبہات پیداکرتے ہیں وہ دشمن اسلام ہیں، ان کی باتیں قابل التفات نہیں ہیں۔ 4۔ جب مکے کی سرزمین باعث حرمت ہے تو اس کا درخت کاٹنا، کانٹا توڑنا جائز نہیں ہے، البتہ وہ کانٹے جوگزرنے والوں کے لیے باعث تکلیف ہوں کاٹے جاسکتے ہیں کیونکہ حدود حرم میں اذیت ناک چیزوں کو ختم کرنا ضروری ہے جیسا کہ پانچ موذی جانوروں کو مارنے کی وضاحت ہے۔ جب کانٹوں کے متعلق اتنی پابندی ہے تو گھاس کاٹنے کی بھی اجازت نہیں دی جا سکتی، اسی بنا پر حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے درخواست پیش کی کہ اذخر(خوشبودار گھاس) کاٹنے کی اجازت دی جائے کیونکہ ہم اسے اپنے گھروں میں بچھاتے اور چھتوں پر ڈالتے ہیں، نیز قبروں میں لحد اور ان کے فرجات بند کرنے میں کام آتی ہے، یعنی زندوں اور مردوں ہی کو اس کی ضرورت رہتی ہے، چنانچہ آپ نے اسے کاٹنے کی اجازت دے دی۔ نوٹ: حرم اور غیرحرم میں گری پڑی چیز اٹھانے کے مسائل اور قتل ناحق کے احکام کتاب اللقطہ اور کتاب الدیات میں بیان کیے جائیں گے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابونعیم الفضل بن دکین نے بیان کیا، ان سے شیبان نے یحییٰ کے واسطے سے نقل کیا، وہ ابوسلمہ سے، وہ ابوہریرہ ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ قبیلہ خزاعہ (کے کسی شخص) نے بنو لیث کے کسی آدمی کو اپنے کسی مقتول کے بدلے میں مار دیا تھا، یہ فتح مکہ والے سال کی بات ہے، رسول اللہ ﷺ کو یہ خبر دی گئی، آپ نے اپنی اونٹنی پر سوار ہو کر خطبہ پڑھا اور فرمایا کہ اللہ نے مکہ سے قتل یا ہاتھی کو روک لیا۔ امام بخاری ؓ فرماتے ہیں اس لفظ کو شک کے ساتھ سمجھو، ایسا ہی ابونعیم وغیرہ نے القتل اور الفیل کہا ہے۔ ان کے علاوہ دوسرے لوگ الفیل کہتے ہیں۔ (پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا) کہ اللہ نے ان پر اپنے رسول اور مسلمان کو غالب کر دیا اور سمجھ لو کہ وہ (مکہ) کسی کے لیے حلال نہیں ہوا۔ نہ مجھ سے پہلے اور نہ (آئندہ) کبھی ہو گا اور میرے لیے بھی صرف دن کے تھوڑے سے حصہ کے لیے حلال کر دیا گیا تھا۔ سن لو کہ وہ اس وقت حرام ہے۔ نہ اس کا کوئی کانٹا توڑا جائے، نہ اس کے درخت کاٹے جائیں اور اس کی گری پڑی چیزیں بھی وہی اٹھائے جس کا منشاء یہ ہو کہ وہ اس شئے کا تعارف کرا دے گا۔ تو اگر کوئی شخص مارا جائے تو (اس کے عزیزوں کو) اختیار ہے دو باتوں کا، یا دیت لیں یا بدلہ۔ اتنے میں ایک یمنی آدمی (ابوشاہ نامی) آیا اور کہنے لگا (یہ مسائل) میرے لیے لکھوا دیجیئے۔ تب آپ ﷺ نے فرمایا کہ ابوفلاں کے لیے (یہ مسائل) لکھ دو۔ تو ایک قریشی شخص نے کہا کہ یا رسول اللہ! مگر اذخر (یعنی اذخر کاٹنے کی اجازت دے دیجیئے) کیونکہ اسے ہم گھروں کی چھتوں پر ڈالتے ہیں۔ (یا مٹی ملا کر) اور اپنی قبروں میں بھی ڈالتے ہیں (یہ سن کر) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ (ہاں) مگر اذخر، مگر اذخر۔
حدیث حاشیہ:
یعنی اس کے اکھاڑنے کی اجازت ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یمنی سائل کی درخواست پر یہ جملہ مسائل اس کے لیے قلم بند کروا دیے۔ جس سے معلوم ہوا کہ تدوین احادیث وکتابت احادیث کی بنیاد خود زمانہ نبوی سے شروع ہوچکی تھی، جسے حضرت عمربن عبدالعزیز کے زمانہ میں نہایت اہتمام کے ساتھ ترقی دی گئی۔ پس جو لوگ احادیث نبوی میں ایسے شکوک وشبہات پیدا کرتے اور ذخیرہ احادیث کو بعض عجمیوں کی گھڑنت بتاتے ہیں، وہ بالکل جھوٹے، کذاب اور مفتری بلکہ دشمن اسلام ہیں، ہرگز ان کی خرافات پر کان نہ دھرنا چاہئیے۔ جس صورت میں قتل کا لفظ مانا جائے تومطلب یہ ہوگا کہ اللہ پاک نے مکہ والوں کو قتل سے بچا لیا۔ بلکہ قتل وغارت کو یہاں حرام قرارد ے دیا۔ اور لفظ فیل کی صورت میں اس قصے کی طرف اشارہ ہے جو قرآن پاک کی سورۃ فیل میں مذکور ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سال ولادت میں حبش کا بادشاہ ابرہ نامی بہت سے ہاتھی لے کر خانہ کعبہ کو گرانے آیا تھا مگر اللہ پاک نے راستے ہی میں ان کو ابابیل پرندوں کی کنکریوں کے ذریعے ہلاک کرڈالا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA): In the year of the Conquest of Makkah, the tribe of Khuza'a killed a man from the tribe of Bani Laith in revenge for a killed person, belonging to them. They informed the Prophet (ﷺ) about it. So he rode his Rahila (she-camel for riding) and addressed the people saying, "Allah held back the killing from Makkah. (The sub-narrator is in doubt whether the Prophet (ﷺ) said "elephant or killing," as the Arabic words standing for these words have great similarity in shape), but He (Allah) let His Apostle (ﷺ) and the believers over power the infidels of Makkah. Beware! (Makkah is a sanctuary) Verily! Fighting in Makkah was not permitted for anyone before me nor will it be permitted for anyone after me. It (war) in it was made legal for me for few hours or so on that day. No doubt it is at this moment a sanctuary, it is not allowed to uproot its thorny shrubs or to uproot its trees or to pick up its Luqatt (fallen things) except by a person who will look for its owner (announce it publicly). And if somebody is killed, then his closest relative has the right to choose one of the two-- the blood money (Diyya) or retaliation having the killer killed. In the meantime a man from Yemen came and said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! Get that written for me." The Prophet (ﷺ) ordered his companions to write that for him. Then a man from Quraish said, "Except Al-Iqhkhir (a type of grass that has good smell) O Allah's Apostle, as we use it in our houses and graves." The Prophet (ﷺ) said, "Except Al-Idhkhiri.e. Al-Idhkhir is allowed to be plucked."