باب: نبی کریمﷺکا رمضان اور غیر رمضان میں رات کو نماز پڑھنا۔
)
Sahi-Bukhari:
Prayer at Night (Tahajjud)
(Chapter: The Salat (prayer) of the Prophet (pbuh) at night in Ramadan and (in) other months)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1147.
حضرت ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن سے روایت ہے، انہوں نے حضرت عائشہ ؓ سے سوال کیا کہ رمضان المبارک میں رسول اللہ ﷺ کی نماز کیسے ہوا کرتی تھی؟ انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ رمضان یا غیر رمضان میں گیارہ رکعات سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔ پہلے چار رکعت پڑھتے، ان کی طوالت اور خوبی کے متعلق نہ پوچھو۔ پھر چار رکعت پڑھتے، ان کی خوبی اور طوالت کے متعلق بھی سوال نہ کرو۔ اس کے بعد تین رکعت وتر پرھتے تھے۔ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا: میں نے آپ سے دریافت کیا: اللہ کے رسول! کیا آپ وتر پڑھنے سے پہلے سو رہتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: ’’عائشہ! میری آنکھیں تو سو جاتی ہیں مگر میرا دل بیدار رہتا ہے۔‘‘
تشریح:
رمضان المبارک میں ان گیارہ رکعات کو نماز تراویح کہتے ہیں اور غیر رمضان میں ان کا نام نماز تہجد ہے، گویا وقت اور محل کے اعتبار سے اس کے دو نام ہیں۔ ان کی تعداد گیارہ رکعات ہے۔ جن روایات میں رسول اللہ ﷺ کا رمضان میں رات کے وقت بیس رکعات پڑھنا بیان ہوا ہے وہ سب ضعیف اور ناقابل حجت ہیں۔ نماز تراویح کی تعداد آٹھ رکعات اور تین وتر ہیں۔ ان کے متعلق تفصیل کتاب التراویح، حدیث: 2013 میں آئے گی۔ بإذن اللہ تعالیٰ
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1123
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1147
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1147
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1147
تمہید کتاب
تہجد، ہجود سے ہے جس کے لغوی معنی سونا اور سو کر بیدار ہونا دونوں ہیں۔ چونکہ نماز تہجد سو کر اٹھنے کے بعد رات کے آخری حصے میں پڑھی جاتی ہے، اس لیے اسے تہجد کہتے ہیں۔ اس اعتبار سے بعض لوگ قبل از نیند رات کے نوافل کو تہجد قرار نہیں دیتے۔ ان کے نزدیک تہجد وہی ہے جو سو کر اٹھنے کے بعد پڑھی جائے۔ لیکن اس کی کوئی دلیل نہیں۔ تاہم عام لوگوں کے لیے بھی، جن کے لیے رات کو بیدار ہونا باعث مشقت اور طبیعت پر گراں ہوتا ہے، یہ خوش خبری ہے کہ اگر کوئی شخص نماز عشاء کے متصل وتر کے بعد دو رکعت پڑھ کر سو جائے اور رات کو وہ بیدار نہ بھی ہو سکے تو وہی دو رکعت اس کے لیے قیام اللیل اور تہجد کی جگہ کافی ہوں گی۔(سنن الدارمی،الصلاۃ،حدیث:1801)فرائض پنجگانہ کے بعد اس نماز کی بہت اہمیت و فضیلت ہے۔ دراصل نماز عشاء اور نماز فجر کے درمیان کے طویل وقفے میں کوئی نماز فرض نہیں کی گئی، حالانکہ یہ وقت اس اعتبار سے نہایت قیمتی ہوتا ہے کہ اس میں پرسکون لمحات میسر آتے ہیں۔ اگر آدمی نماز عشاء ادا کرنے کے بعد کچھ دیر کے لیے سو جائے، پھر نصف شب گزر جانے کے بعد کسی وقت بیدار ہو جائے تو ان لمحات میں بڑی یکسوئی اور دل جمعی نصیب ہوتی ہے۔ اس دوران میں نماز پڑھتے وقت دل کی سکون اور اطمینان نصیب ہوتا ہے جو دوسرے کسی وقت میں میسر نہیں آتا۔ قرآن کریم کی صراحت کے مطابق ایسے وقت میں بستر چھوڑ کر نماز پڑھنا نفس کی ریاضت اور اس کی تربیت کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (إِنَّ نَاشِئَةَ اللَّيْلِ هِيَ أَشَدُّ وَطْئًا وَأَقْوَمُ قِيلًا ﴿٦﴾) "رات کا اٹھنا یقینا نفس کو زیر کرنے (کچلنے) کا ذریعہ ہے اور قرآن پڑھنے کے لیے یہی زیادہ موزوں وقت ہے۔" (المزمل6:73)ایک دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے تہجد گزار بندوں کی بایں الفاظ تعریف فرمائی ہے: (تَتَجَافَىٰ جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَطَمَعًا وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ ﴿١٦﴾ فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّا أُخْفِيَ لَهُم مِّن قُرَّةِ أَعْيُنٍ جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ﴿١٧﴾) "ان کے پہلو بستروں سے جدا رہتے ہیں۔ (اور) وہ اپنے رب کو ڈرتے ہوئے اور امید سے پکارتے ہیں۔ اور جو رزق ہم نے انہیں دیا ہے وہ اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔ کوئی شخص نہیں جانتا کہ ان کے لیے آنکھوں کی ٹھنڈک کی کیا کیا چیزیں چھپا کر رکھی گئی ہیں۔ یہ ان کاموں کا بدلہ ہے جو وہ دنیا میں کیا کرتے تھے۔" (السجدۃ18:32۔17)قرآن کریم میں ایک مقام پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تہجد کا حکم دینے کے ساتھ آپ کو مقام محمود کی امید دلائی گئی ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَمِنَ اللَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهِ نَافِلَةً لَّكَ عَسَىٰ أَن يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُودًا ﴿٧٩﴾) (بنی اسرائیل79:17) "آپ رات کے کچھ حصے میں تہجد ادا کیجیے۔ یہ آپ کے لیے زائد (اور مخصوص) ہے۔ امید ہے کہ آپ کا رب آپ کو مقام محمود پر فائز کرے گا۔"واضح رہے کہ مقام محمود جنت میں ایک بلند ترین مقام ہے جو قیامت کے دن صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نصیب ہو گا۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ مقام محمود اور نماز تہجد میں کوئی خاص مناسبت ہے، اس لیے جو امتی نماز تہجد سے شغف رکھیں گے انہیں مقام محمود کے کسی درجے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت ضرور نصیب ہو گی۔احادیث صحیحہ سے معلوم ہوتا ہے کہ رات کے آخری حصے میں اللہ تعالیٰ اپنے لطف و کرم اور اپنی خاص شان رحمت کے ساتھ آسمان اول پر نزول فرماتا اور اپنے بندوں کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان مبارک ساعات اور پرکیف لمحات کا احساس دلانے کے لیے تہجد کا عنوان قائم کیا ہے۔ اس میں تقریبا اڑسٹھ (68) احادیث بیان کی ہیں، پھر ان پر موقع و محل کی مناسبت سے سینتیس (37) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔ تہجد رات کی نفل نماز ہے، اس مناسبت سے دن میں جو نفل نمازیں خصوصی اہمیت کی حامل ہیں، ان کے متعلق بھی احادیث پیش کی ہیں، مثلاً: نماز فجر سے پہلے دو سنتوں کی اہمیت و فضیلت، ان میں قراءت اور سلام پھیرنے کے بعد دائیں پہلو پر لیٹنے کی حیثیت، پھر نماز چاشت کا بیان، اسی طرح گھروں میں نوافل ادا کرنے کا اہتمام اور ان کی جماعت کو بطور خاص بیان کیا ہے۔ نماز تہجد کے متعلق اس کی اہمیت و فضیلت، رمضان المبارک میں اس کا خصوصی اہتمام اس کی رکعات کی تعداد، نیز اس کے متعلق عدم تشدد اور اس کے کلیتاً ترک کرنے کی نحوست، بیماری یا کسی اور وجہ سے اس کا ترک کرنا، نیز اس میں قیام اور سجود کا لمبا کرنا، خاص طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز تہجد کا نمونہ اور امت کو اس کے متعلق شوق دلانا، علاوہ ازیں وقت سحر اور اس کی فضیلت وغیرہ کو امام بخاری رحمہ اللہ نے خصوصیت کے ساتھ بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ اس میں صحابۂ کرام اور تابعین عظام کے آثار بھی بیان فرمائے ہیں۔ قارئین سے گزارش ہے کہ وہ اپنے قلوب و اذہان کو جلا بخشنے کے لیے اس کا مطالعہ کریں اور شب بیداری کے جذبے سے ان احادیث کو پڑھیں۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان مبارک لمحات میں نیاز و مناجات کی توفیق دے۔ آمین یا رب العالمین
حضرت ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن سے روایت ہے، انہوں نے حضرت عائشہ ؓ سے سوال کیا کہ رمضان المبارک میں رسول اللہ ﷺ کی نماز کیسے ہوا کرتی تھی؟ انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ رمضان یا غیر رمضان میں گیارہ رکعات سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔ پہلے چار رکعت پڑھتے، ان کی طوالت اور خوبی کے متعلق نہ پوچھو۔ پھر چار رکعت پڑھتے، ان کی خوبی اور طوالت کے متعلق بھی سوال نہ کرو۔ اس کے بعد تین رکعت وتر پرھتے تھے۔ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا: میں نے آپ سے دریافت کیا: اللہ کے رسول! کیا آپ وتر پڑھنے سے پہلے سو رہتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: ’’عائشہ! میری آنکھیں تو سو جاتی ہیں مگر میرا دل بیدار رہتا ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
رمضان المبارک میں ان گیارہ رکعات کو نماز تراویح کہتے ہیں اور غیر رمضان میں ان کا نام نماز تہجد ہے، گویا وقت اور محل کے اعتبار سے اس کے دو نام ہیں۔ ان کی تعداد گیارہ رکعات ہے۔ جن روایات میں رسول اللہ ﷺ کا رمضان میں رات کے وقت بیس رکعات پڑھنا بیان ہوا ہے وہ سب ضعیف اور ناقابل حجت ہیں۔ نماز تراویح کی تعداد آٹھ رکعات اور تین وتر ہیں۔ ان کے متعلق تفصیل کتاب التراویح، حدیث: 2013 میں آئے گی۔ بإذن اللہ تعالیٰ
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبد اللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں امام مالک ؒ نے خبر دی، انہیں سعید بن ابو سعید مقبری نے خبر دی، انہیں ابو سلمہ بن عبد الرحمن نے خبر دی کہ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے انہوں نے پوچھا کہ نبی ﷺ رمضان میں ( رات کو ) کتنی رکعتیں پڑھتے تھے۔ آپ نے جواب دیا کہ رسول اللہ ﷺ ( رات میں ) گیارہ رکعتوں سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔ خواہ رمضان کا مہینہ ہو تایا کوئی اور۔ پہلے آپ ﷺ چار رکعت پڑھتے۔ ان کی خوبی اور لمبائی کا کیا پوچھنا۔ پھر آپ ﷺ چار رکعت اور پڑھتے ان کی خوبی اور لمبائی کا کیا پوچھنا۔ پھر تین رکعتیں پڑھتے۔ عائشہ ؓ نے فرمایا کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ! آپ وتر پڑھنے سے پہلے ہی سو جاتے ہیں؟ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا کہ عائشہ ؓ میری آنکھیں سوتی ہیں لیکن میرا دل نہیں سوتا۔
حدیث حاشیہ:
ان ہی گیارہ رکعتوں کو تراویح قرار دیا گیا ہے اور آنحضرت ﷺ سے رمضان اور غیر رمضان میں بروایات صحیحہ یہی گیارہ رکعات ثابت ہیں۔ رمضان شریف میں یہ نماز تراویح کے نام سے موسوم ہوئی اور غیر رمضان میں تہجد کے نام سے پکاری گئی۔ پس سنت نبوی صرف آٹھ رکعات تراویح اس طرح کل گیارہ رکعات ادا کرنی ثابت ہیں۔ جیسا کہ مندرجہ ذیل احادیث سے مزید وضاحت ہوتی ہے۔ عن جابر رضي اللہ عنه قال صَلی بِنَا رسولُ اللہِ صلی اللہ علیه وسلم في رَمضانَ ثمان رکعات والوترَ۔علامہ محمد بن نصر مروزی حضرت جابر ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہم کو رمضان میں آٹھ رکعت تراویح اور وتر پڑھادیا ( یعنی کل گیارہ رکعات ) نیز حضرت عائشہ ؓ کی حدیث کہ رسول اللہ ﷺمَا كَانَ يَزِيدُ فِي رَمَضَانَ وَلاَ فِي غَيْرِهِ عَلَى إِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً۔رمضان اور غیر رمضان میں گیارہ رکعت سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔ بعض لوگوں کو اس سے غلط فہمی ہوگئی ہے کہ یہ تہجد کے بارے میں ہے تراویح کے بارے میں نہیں۔ لہذا معلوم ہو ا کہ رسول اللہ ﷺ نے رمضان میں تراویح اور تہجد الگ دو نمازیں قائم نہیں کیں وہی قیام رمضان (تراویح) یا بالفاظ دیگر تہجد گیارہ رکعت پڑھتے اور قیام رمضان (تراویح) کو حدیث شریف میں قیام اللیل (تہجد) بھی فرمایا ہے۔ رمضان میں رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کو تراویح پڑھا کر فرمایا: ’’مجھ کو خوف ہو اکہ تم پر صلوۃ اللیل ( تہجد ) فرض نہ ہو جائے۔‘‘ دیکھئے آپ ﷺ نے تراویح کو تہجد فرمایا۔ اس سے معلوم ہوا کہ رمضان میں قیام رمضان ( تراویح ) اور صلوۃ اللیل ( تہجد ) ایک ہی نماز ہے۔ تراویح وتہجد کے ایک ہونے کی دوسری دلیل!عَنْ أَبِي ذَرٍّ، قَالَ: صُمْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَمَضَانَ، فَلَمْ يَقُمْ بِنَا شَيْئًا مِنْهُ، حَتَّى بَقِيَ سَبْعُ لَيَالٍ، فَقَامَ بِنَا لَيْلَةَ السَّابِعَةِ حَتَّى مَضَى نَحْوٌ مِنْ ثُلُثِ اللَّيْلِ، ثُمَّ كَانَتِ اللَّيْلَةُ السَّادِسَةُ الَّتِي تَلِيهَا، فَلَمْ يَقُمْهَا، حَتَّى كَانَتِ الْخَامِسَةُ الَّتِي تَلِيهَا، ثُمَّ قَامَ بِنَا حَتَّى مَضَى نَحْوٌ مِنْ شَطْرِ اللَّيْلِ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ لَوْ نَفَّلْتَنَا بَقِيَّةَ لَيْلَتِنَا هَذِهِ. فَقَالَ: «إِنَّهُ مَنْ قَامَ مَعَ الْإِمَامِ حَتَّى يَنْصَرِفَ، فَإِنَّهُ يَعْدِلُ قِيَامَ لَيْلَةٍ» ثُمَّ كَانَتِ الرَّابِعَةُ الَّتِي تَلِيهَا، فَلَمْ يَقُمْهَا، حَتَّى كَانَتِ الثَّالِثَةُ الَّتِي تَلِيهَا، قَالَ: فَجَمَعَ نِسَاءَهُ وَأَهْلَهُ وَاجْتَمَعَ النَّاسُ، قَالَ: فَقَامَ بِنَا حَتَّى خَشِينَا أَنْ يَفُوتَنَا الْفَلَاحُ، قِيلَ: وَمَا الْفَلَاحُ؟ قَالَ: السُّحُورُ، قَالَ: ثُمَّ لَمْ يَقُمْ بِنَا شَيْئًا مِنْ بَقِيَّةِ الشَّهْرِ۔رواہ ابن ماجة۔حضرت ابو ذر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ہم نے رمضان کے روزے رکھے، آپ ﷺ نے ہم کو آخر کے ہفتہ میں تین طاق راتوں میں تراویح اس ترتیب سے پڑھائیں کہ پہلی رات کو اول وقت میں، دوسری رات کو نصف شب میں، پھر نصف بقیہ سے۔ سوال ہواکہ اور نماز پڑھائیے!آپ ﷺ نے فرمایا کہ جو امام کے ساتھ نماز ادا کرے اس کا پوری رات کا قیام ہوگا۔ پھر تیسری رات کو آخر شب میں اپنے اہل بیت کو جمع کر کے سب لوگوں کی جمعیت میں تراویح پڑھائیں، یہاں تک کہ ہم ڈرے کہ جماعت ہی میں سحری کا وقت نہ چلا جائے۔ اس حدیث کو ابن ماجہ نے روایت کیا ہے اور بخاری شریف میں یہ حدیث مختصر لفظوں میں کئی جگہ نقل ہوئی ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ آپ نے اسی ایک نماز تراویح کو رات کے تین حصوں میں پڑھایا ہے اور اس تراویح کا وقت بعد عشاءکے اخیر رات تک اپنے فعل ( اسوہ حسنہ ) سے بتادیا۔ جس میں تہجد کا وقت آگیا۔ پس فعل رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہو گیا کہ بعد عشاءکے آخر رات تک ایک ہی نماز ہے۔ نیز اس کی تائید حضرت عمر ؓ کے اس قول سے ہوتی ہے جو آپ نے فرمایا: والتي تنامونَ عَنھَا أَفضَلُ مِنَ التي تقومون۔’’یہ تراویح پچھلی شب میں کہ جس میں تم سوتے ہو پڑھنا بہتر ہے اول وقت پڑھنے سے۔‘‘ معلوم ہوا کہ نماز تراویح وتہجد ایک ہی ہے اور یہی مطلب حضرت عائشہ ؓ والی حدیث کا ہے۔ نیز اسی حدیث پر امام بخاری ؒ نے یہ باب باندھا ہے کہ باب فضل من قام رمضان اور امام بیہقی ؒ نے حدیث مذکور پر یوں باب منعقد کیا ہے باب ما روي في عدد رکعات القیام في شھر رمضان اوراسی طرح امام محمد ؒ شاگرد امام ابو حنیفہ ؒ نے باب قیام شهررمضان کے تحت حدیث مذکور کو نقل کیا ہے۔ ان سب بزرگوں کی مراد بھی حدیث عائشہ صدیقہ سے تراویح ہی ہے اور اوپر مفصل گزر چکا کہ اول رات سے آخر رات تک ایک ہی نماز ہے۔ اب رہا کہ ان تین راتوں میں کتنی رکعتیں پڑھائی تھیں؟ سو عرض ہے کہ علاوہ وتر آٹھ ہی رکعتیں پڑھائی تھیں۔ اس کے ثبوت میں کئی روایات صحیحہ آئی ہیں جو ہدیہ ناظرین ہیں۔ علماء وفقہائے حنفیہ نے فرمادیا کہ آٹھ رکعت تراویح سنت نبوی ہے! ( 1 ) علامہ عینی ؒ عمدہ القاری ( جلد:3 ص:597 ) میں فرماتے ہیں:فَإِن قلت: لم يبين فِي الرِّوَايَات الْمَذْكُورَة عدد هَذِه الصَّلَاة الَّتِي صلاهَا رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم فِي تِلْكَ اللَّيَالِي؟ قلت: روى ابْن خُزَيْمَة وَابْن حبَان من حَدِيث جَابر، رَضِي الله تَعَالَى عَنهُ، قَالَ: (صلى بِنَا رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم فِي رَمَضَان ثَمَان رَكْعَات ثمَّ أوتر۔’’اگر تو سوال کرے کہ جو نماز آپ ﷺ نے تین راتوں میں پڑھائی تھی اس میں تعداد کا ذکر نہیں تو میں اس کے جواب میں کہوں گا کہ ابن خزیمہ اور ابن حبان نے جابر ؓ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے علاوہ وتر آٹھ رکعتیں پڑھائی تھیں۔‘‘ ( 2 ) حافظ ابن حجرؒ فتح الباری ( جلد:1 ص:597 ) میں فرماتے ہیں کہ وَلَمْ أَرَ فِي شَيْءٍ مِنْ طُرُقِهِ بَيَانَ عَدَدِ صَلَاتِهِ فِي تِلْكَ اللَّيَالِي لَكِنْ روى بن خُزَيْمَة وبن حِبَّانَ مِنْ حَدِيثِ جَابِرٍ قَالَ صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسلم فِي رَمَضَانَ ثَمَانِ رَكَعَاتٍ ثُمَّ أَوْتَرَز۔
’’میں نے حدیث مذکورہ بالا کی کسی سند میں یہ نہیں دیکھا کہ آنحضرت ﷺ نے ان تین راتوں میں کتنی رکعت پڑھائی تھیں۔ لیکن ابن خزیمہ اور ابن حبان نے جابر ؓ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے علاوہ وتر آٹھ رکعت پڑھائی تھیں۔‘‘ ( 3 ) علامہ زیلعی حنفی ؒ نے نصب الرایة في تخریج أحادیث الھدایة (جلد :1ص: 293) میں اس حدیث کو نقل کیا ہے کہ عند ابن حبان في صحیحه عن جابر ابن عبد اللہ أنه علیه الصلوة والسلام صلی بھم ثمان رکعات والوتر۔ابن حبان نے نے اپنی صحیح میں جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کو آٹھ رکعت اور وتر پڑھائے یعنی کل گیارہ رکعات۔ ( 4 ) امام محمد شاگرد امام اعظم ؒ اپنی کتاب مؤطا امام محمد ( ص:93 ) میں باب تراویح کے تحت فرماتے ہیں: عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّهُ سَأَلَ عَائِشَةَ كَيْفَ كَانَتْ صَلاةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَمَضَانَ؟ قَالَتْ: «مَا كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَزِيدُ فِي رَمَضَانَ وَلا غَيْرِهِ عَلَى إِحْدَى عَشْرةَ رَكْعَةًابو سلمہ بن عبد الرحمن سے مروی ہے کہ انہوں نے ام المؤمنین حضرت عائشہ ؓ سے پوچھا کہ رسول اللہ ﷺ کی رات کی نماز کیونکر تھی تو بتلایا رمضان وغیررمضان میں آپ گیارہ رکعت سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔ رمضان وغیر رمضان کی تحقیق پہلے گزر چکی ہے۔ پھر امام محمد ؒ اس حدیث شریف کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں: محمد وبھذا نأخذ کله۔یعنی ہمارا بھی ان سب حدیثوں پر عمل ہے،ہم ان سب کو لیتے ہیں۔ ( 5 ) ہدایہ جلد اول کے حاشیہ پر ہے: السنة ما واظب علیه الرسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم فحسب فعلی ھذا التعریف یکون السنة ھو ذلك القدر المذکور وما زاد علیه یکون مستحبا۔سنت صرف وہی ہے جس کو رسول اللہ ﷺ نے ہمیشہ کیا ہو۔ پس اس تعریف کے مطابق صرف مقدار مذکور ( آٹھ رکعت ہی ) سنت ہوگی اور جو اس سے زیادہ ہو وہ نماز مستحب ہوگی۔ ( 6 ) امام ابن الہمام حنفی ؒ فتح القدیر شرح ہدایہ میں فرماتے ہیں: فتحصل من ھذا کله أن قیام رمضان سنة إحدیٰ عشرة رکعة با لوتر في جماعة فعله صلی اللہ علیه وسلم۔ان تمام کا خلاصہ یہ ہے کہ رمضان کا قیام ( تراویح ) سنت مع وتر گیارہ رکعت با جماعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل ( اسوہ حسنہ ) سے ثابت ہے۔ ( 7 ) علامہ ملا قاری حنفی ؒ اپنی کتاب مرقاۃ شرح مشکوۃ میں فرماتے ہیں: أن التراویح في الأصل إحدیٰ عشرة رکعة فعله رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم ثم ترکه لعذر۔در اصل تراویح رسول اللہ ﷺ کے فعل سے گیارہ ہی رکعت ثابت ہے۔ جن کو آپ نے پڑھا بعد میں عذر کی وجہ سے چھوڑ دیا۔ ( 8 ) مولانا عبد الحی حنفی لکھنؤی ؒ تعلیق الممجد شرح مؤطا امام محمد میں فرماتے ہیں: وأخرج ابن حبان في صحیحه من حدیث جابر أنه صلی بھم ثمان رکعات ثم أوتر وھذا أصح۔اور ابن حبان نے اپنی صحیح میں جابر ؓ کی حدیث سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے صحابہ ؓ کو علاوہ وتر آٹھ رکعتیں پڑھائیں۔ یہ حدیث بہت صحیح ہے۔ ان حدیثوں سے صاف ثابت ہوا کہ رسول اکرم ﷺ آٹھ رکعت تراویح پڑھتے اور پڑھاتے تھے۔ جن روایات میں آپ کا بیس رکعات پڑھنا مذکور ہے وہ سب ضعیف اور ناقابل استدلال ہیں۔ صحابہ ؓ اور صحابیات ؓ کا حضور ﷺ کے زمانہ میں آٹھ رکعت تراویح پڑھنا! ( 9 ) امام محمد بن نصر مروزی نے قیام اللیل میں حضرت جابر ؓ سے روایت کی ہے: جَاءَ أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فِي رَمَضَانَ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ كَانَ مِنِّي اللَّيْلَةَ شَيْءٌ , قَالَ: وَمَا ذَاكَ يَا أُبَيُّ؟ قَالَ: «نِسْوَةُ دَارِي قُلْنَ إِنَّا لَا نَقْرَأُ الْقُرْآنَ فَنُصَلِّي خَلْفَكَ بِصَلَاتِكَ , فَصَلَّيْتُ بِهِنَّ ثَمَانِ رَكَعَاتٍ وَالْوِتْرَ. فَسَكَتَ عَنْهُ وَكَانَ شِبْهَ الرِّضَاءِ» ابی بن کعب ؓ رمضان میں رسول خدا ﷺ کے پاس حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ آج رات کو ایک خاص بات ہوگئی ہے۔ آپ نے فرمایا اے ابی! وہ کیا بات ہے؟ انہوں نے عرض کیا کہ میرے گھرانے کی عورتوں نے کہا کہ ہم قرآن نہیں پڑھتی ہیں اس لیے تمہارے پیچھے نماز ( تراویح ) تمہاری اقتدا میں پڑھیں گی۔ تو میں نے ان کو آٹھ رکعت اور وتر پڑھا دیا۔ آنحضرت ﷺ نے یہ سن کر سکوت فرمایا۔ گویا اس بات کو پسند فرمایا۔ اس حدیث سے ثابت ہوا کہ صحابہ ؓ آپ کے زمانہ میں آٹھ رکعت ( تراویح ) پڑھتے تھے۔ حضرت عمر خلیفہ ثانی ؓ کی نماز تراویح مع وتر گیارہ رکعت! ( 10 ) عن سائب ابن یزید قال أمرعمر أبي بن کعب وتمیما الداري أن یقوما للناس في رمضان إحدیٰ عشرة رکعة الخ۔سائب بن یزید نے کہا کہ عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ابی بن کعب اور تمیم داری رضی اللہ عنہما کو حکم دیاکہ رمضان شریف میں لوگوں کو گیارہ رکعت پڑھائیں۔(مؤطا امام مالك) واضح ہواکہ آٹھ اور گیارہ میں وتر کا فرق ہے اور علاوہ آٹھ رکعت تراویح کے وتر ایک تین اور پانچ پڑھنے حدیث شریف میں آئے ہیں اور بیس تراویح کی روایت حضرت عمر فاروق ؓ سے ثابت نہیں اور جو روایت ان سے نقل کی جاتی ہے وہ منقطع السند ہے۔ اس لیے کہ بیس کا راوی یزید بن رومان ہے۔ اس نے حضرت عمرؓ کا زمانہ نہیں پایا۔ چنا نچہ علامہ عینی حنفی ؒ وعلامہ زیلعی حنفی ؒ عمدۃالقاری اور نصب الرایہ میں فرماتے ہیں کہ یزید ابن رومان لم یدرك عمر۔ ’’یزید بن رومان نے حضرت عمر فاروق ؓ کا زمانہ نہیں پایا‘‘ اور جن لوگوں نے سیدنا عمر ؓ کو پایا ہے ان کی روایات باتفاق گیارہ رکعت کی ہیں، ان میں حضرت سائب ؓ کی روایت اوپر گزر چکی ہے۔ اور حضرت اعرج ہیں جو کہتے ہیں: کان القارئ یقرء سورة البقرة في ثمان رکعات۔قاری سورہ بقرہ آٹھ رکعت میں ختم کرتا تھا۔(مؤطا امام مالك) فاروق اعظم ؓ نے ابی بن کعب وتمیم داری اور سلیمان بن ابی حثمہ ؓ کو مع وتر گیارہ رکعت پڑھانے کا حکم دیا تھا (مصنف ابن أبي شیبة) غرض حضرت عمر ؓ کا یہ حکم حدیث رسول اللہ ﷺ کے موافق ہے۔ لہٰذا علیکم بسنتي وسنة الخلفاءالراشدین۔ سے بھی گیارہ پر عمل کرنا ثابت ہوا۔ فقہاء سے آٹھ کا ثبوت اور بیس کا ضعف! ( 11 ) علامہ ابن الہمام حنفی ؒ فتح القدیر شرح ہدایہ ( جلد:1ص:205 ) میں فرماتے ہیں بیس رکعت تراویح کی حدیث ضعیف ہے۔ أنه مخالف للحدیث الصحیح عن أبي سلمة ابن عبد الرحمن أنه سأل عائشة الحدیث۔علاوہ بریں یہ ( بیس کی روایت ) صحیح حدیث کے بھی خلاف ہے جو ابو سلمہ بن عبد الرحمن نے حضرت عائشہ ؓ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ رمضان وغیر رمضان میں گیارہ رکعت سے زائد نہ پڑھتے تھے۔ ( 12 ) شیخ عبد الحق صاحب حنفی محدث دہلوی ؒ فتح سرالمنان میں فرماتے ہیں: ولم یثبت روایة عشرین منه صلی اللہ علیه وسلم کما ھو المتعارف الآن إلا في روایة ابن أبي شیبة وھو ضعیف وقد عارضه حدیث عائشة وھو حدیث صحیح۔جو بیس تراویح مشہور ومعروف ہیں آنحضرت ﷺ سے ثابت نہیں اور جو ابن ابی شیبہ میں بیس کی روایت ہے وہ ضعیف ہے اور حضرت عائشہ ؓ کی صحیح حدیث کے بھی مخالف ہے ( جس میں مع وتر گیارہ رکعت ثابت ہیں ) ( 13 ) شیخ عبد الحق حنفی محدث دہلوی ؒ اپنی کتاب ماثبت با لسنة (ص:217) میں فرماتے ہیں: والصحیح ما روته عائشة أنه صلی اللہ علیه وسلم صلی إحدیٰ عشرة رکعة کماھو عادته في قیام اللیل وروي أنه کان بعض السلف في عھد عمر ابن عبد العزیز یصلون إحدیٰ عشرة رکعة قصدا تشبیھا برسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم صحیح حدیث۔وہ ہے جس کو حضرت عائشہ ؓ نے روایت کیا ہے کہ آپ گیارہ رکعت پڑھتے تھے۔ جیسا کہ آپ ﷺ کی قیام اللیل کی عادت تھی اور روایت ہے کہ بعض سلف امیر المومنین عمر بن عبد العزیز کے عہد خلافت میں گیارہ رکعت تراویح پڑھا کرتے تھے تاکہ آنحضرت ﷺ کی سنت سے مشابہت پیدا کریں۔ اس سے معلوم ہوا کہ شیخ صاحب ؒ خود آٹھ رکعت تراویح کے قائل تھے اور سلف صالحین میں بھی یہ مشہور تھا کہ آٹھ رکعت تراویح سنت نبوی ہے اور کیوں نہ ہو جب کہ خود جناب پیغمبرخدا ﷺ نے آٹھ رکعت تراویح پڑھیں اور صحابہ کرام ؓ کو پڑھائیں۔ نیز ابی ابن کعب ؓ نے عورتوں کو آٹھ رکعت تراویح پڑھائیں تو حضور اکرم ﷺ نے پسند فرمایا۔ اسی طرح حضرت عمر ؓ کے زمانہ میں مع وتر گیارہ رکعت تراویح پڑھنے کا حکم تھا اور لوگ اس پر عمل کرتے تھے نیز حضرت عمر بن عبد العزیز کے وقت میں لوگ آٹھ رکعت تراویح پرسنت رسول سمجھ کر عمل کرتے تھے۔ اور امام مالک ؒ نے بھی مع وتر گیا رہ رکعت ہی کو سنت کے مطابق اختیار کیا ہے، چنانچہ ( 14 ) علامہ عینی ؒ فرماتے ہیں کہ إحدیٰ عشرة رکعة وھو اختیار مالك لنفسه۔’’گیارہ رکعت کو امام مالک ؒ نے اپنے لیے اختیار کیا ہے۔‘‘ اسی طرح فقہاء وعلماء مثل علامہ عینی حنفی، علامہ زیلعی حنفی، حافظ ابن حجر، علامہ محمد بن نصر مروزی، شیخ عبدا لحی صاحب حنفی محدث دہلوی، مولانا عبد الحق حنفی لکھنؤی ؒ وغیرہم نے علاوہ وتر کے آٹھ رکعت تراویح کو صحیح اور سنت نبوی فرمایا ہے جن کے حوالے پہلے گزر چکے۔ اور امام محمد شاگرد رشید امام ابوحنیفہ نے تو فرمایا کہ وبھذا نأخذ کله۔’’ہم ان سب حدیثوں کو لیتے ہیں۔‘‘ یعنی ان گیارہ رکعت کی حدیثوں پر ہمارا عمل ہے۔ فالحمد للہ کہ مع وتر گیارہ رکعت تراویح کی مسنونیت ثابت ہوگئی۔ اس کے بعد سلف امت میں کچھ ایسے حضرات بھی ملتے ہیں جو بیس رکعات اور تیس رکعات اور چالیس رکعات تک بطور نفل نماز تراویح پڑھا کرتے تھے لہٰذا یہ دعویٰ کہ بیس رکعات پر اجماع ہوگیا، باطل ہے۔ اصل سنت نبوی آٹھ رکعت تراویح تین وتر کل گیارہ رکعات ہیں۔ نفل کے لیے ہر وقت اختیار ہے کوئی جس قدر چاہے پڑھ سکتا ہے۔ جن حضرات نے ہر رمضان میں آٹھ رکعات تراویح کو خلاف سنت کہنے کا مشغلہ بنا لیا ہے اور ایسا لکھنا یا کہنا ان کے خیال میں ضروری ہے وہ سخت غلطی میں مبتلا ہیں، بلکہ اسے بھی ایک طرح سے تلبیس ابلیس کہا جا سکتا ہے۔ اللہ تعالی سب کونیک سمجھ عطاکرے۔ آمین۔ حضرت امام ابو حنیفہ ؒ نے جو رات کے نوافل چار چار رکعت ملا کر پڑھنا افضل کہا ہے، وہ اسی حدیث سے دلیل لیتے ہیں۔ حالانکہ اس سے استدلال صحیح نہیں، کیونکہ اس میں یہ تصریح نہیں ہے کہ آپ ﷺ چار چار کے بعد سلام پھیرتے۔ ممکن ہے کہ پہلے آپ ﷺ چار رکعات ( دو سلام کے ساتھ ) بہت لمبی پڑھتے ہوں پھر دوسری چار رکعتیں ( دو سلاموں کے ساتھ ) ان سے ہلکی پڑھتے ہوں۔ حضرت عائشہ ؓ نے اس طرح ان چار چار رکعتوں کا علیحدہ علیحدہ ذکر فرمایا اور یہ بھی ممکن ہے کہ چار رکعتوں کا ایک سلام کے ساتھ پڑھنا مراد ہو۔ اسی لیے علامہ قسطلانی ؒ فرماتے ہیں کہ وأما ما سبق من أنه کان یصلي مثنی مثنی ثم واحدة فمحمول علی وقت آخر فالأمران جائزان۔یعنی پچھلی روایات میں جو آپ ﷺ کا دو دو رکعت پڑھنا مذکور ہوا ہے۔ پھر ایک رکعت وتر پڑھنا تو وہ دوسرے وقت پر محمو ل ہے اور یہ چار چار کر کے پڑھنا پھر تین وتر پڑھنا دوسرے وقت پر محمول ہے اس لیے ہر دو امر جائز ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Salma bin 'Abdur Rahman (RA): I asked 'Aisha (RA), "How is the prayer of Allah's Apostle (ﷺ) during the month of Ramadan." She said, "Allah's Apostle (ﷺ) never exceeded eleven Rakat in Ramadan or in other months; he used to offer four Rakat-- do not ask me about their beauty and length, then four Rakat, do not ask me about their beauty and length, and then three Rakat." Aisha (RA) further said, "I said, 'O Allah's Apostle (ﷺ) ! Do you sleep before offering the Witr prayer?' He replied, 'O 'Aisha (RA)! My eyes sleep but my heart remains awake'!" ________