Sahi-Bukhari:
Prayer at Night (Tahajjud)
(Chapter: To offer Salat-ud-Duha when not traveling)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
یہ عتبان بن مالک نے نبی کریمصﷺسے نقل کیا ہے۔
1179.
حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: ایک بھاری جسم والے انصاری آدمی نے نبی ﷺ سے عرض کیا: میں آپ کے ساتھ نماز پڑھنے کی طاقت نہیں رکھتا۔ اس نے نبی ﷺ کے لیے کھانا تیار کیا اور آپ کو اپنے گھر تشریف لانے کی دعوت دی اور چٹائی کے ایک حصے پر پانی چھڑکا (اور اسے صاف کیا) آپ نے اس پر دو رکعتیں پڑھیں۔ فلاں بن فلاں بن جارود نے حضرت انس ؓ سے کہا: کیا نبی ﷺ چاشت کی نماز پڑھتے تھے؟ انہوں نے فرمایا: اس دن کے علاوہ میں نے آپ کو یہ نماز پڑھتے نہیں دیکھا۔
تشریح:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابۂ کرام ؓ کے دور میں نماز چاشت معروف تھی کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے بوقت چاشت ایک انصاری کے گھر نماز پڑھنے کا اہتمام فرمایا، اس سے فوراً نماز چاشت کی طرف ذہن منتقل ہو گیا اور حضرت انس ؓ سے اس کے متعلق سوال ہوا۔ اسی طرح رسول اللہ ﷺ نے جب حضرت عتبان بن مالک ؓ کے گھر نماز پڑھی تو حضرت عتبان ؓ نے اس نماز کو "صلاة الضحیٰ" سے تعبیر کیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے ہاں نماز چاشت معروف تھی۔ (2) عوام الناس میں ایک بے بنیاد بات مشہور ہے کہ جو انسان نماز چاشت شروع کرنے کے بعد ترک کر دے وہ اندھا ہو جاتا ہے، اس لیے لوگ اسے ادا نہیں کرتے مبادا سستی کی وجہ سے اس کے ترک پر نابینا نہ ہو جائیں، حالانکہ اس بات کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ لوگوں کو خیر کثیر سے محروم کرنے کے لیے ایک شیطانی حربہ ہے۔ حدیث میں ہے کہ انسان کے تین سو ساٹھ (360) جوڑ ہیں اور انسان کے ہر جوڑ کے بدلے صدقہ کرنا ضروری ہے۔ صحابہ نے عرض کیا: اتنا صدقہ کرنے کی ہمت کس انسان میں ہو سکتی ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’مسجد میں پڑے ہوئے تھوک کو دفن کر دینا یا راستے سے کسی تکلیف دہ چیز کو دور کر دینا ان جوڑوں کے صدقے کے برابر ہے۔ اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو تو نماز چاشت کی دو رکعت ہی کافی ہیں۔‘‘(صحیح ابن خزیمة:229/2) شیطان ایسی باتوں کے ذریعے سے لوگوں کو نماز کی خیر و برکات سے محروم کرنا چاہتا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ایسی باتوں کی طرف کان نہ دھریں۔ (فتح الباري:75/3)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1152
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1179
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1179
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1179
تمہید کتاب
تہجد، ہجود سے ہے جس کے لغوی معنی سونا اور سو کر بیدار ہونا دونوں ہیں۔ چونکہ نماز تہجد سو کر اٹھنے کے بعد رات کے آخری حصے میں پڑھی جاتی ہے، اس لیے اسے تہجد کہتے ہیں۔ اس اعتبار سے بعض لوگ قبل از نیند رات کے نوافل کو تہجد قرار نہیں دیتے۔ ان کے نزدیک تہجد وہی ہے جو سو کر اٹھنے کے بعد پڑھی جائے۔ لیکن اس کی کوئی دلیل نہیں۔ تاہم عام لوگوں کے لیے بھی، جن کے لیے رات کو بیدار ہونا باعث مشقت اور طبیعت پر گراں ہوتا ہے، یہ خوش خبری ہے کہ اگر کوئی شخص نماز عشاء کے متصل وتر کے بعد دو رکعت پڑھ کر سو جائے اور رات کو وہ بیدار نہ بھی ہو سکے تو وہی دو رکعت اس کے لیے قیام اللیل اور تہجد کی جگہ کافی ہوں گی۔(سنن الدارمی،الصلاۃ،حدیث:1801)فرائض پنجگانہ کے بعد اس نماز کی بہت اہمیت و فضیلت ہے۔ دراصل نماز عشاء اور نماز فجر کے درمیان کے طویل وقفے میں کوئی نماز فرض نہیں کی گئی، حالانکہ یہ وقت اس اعتبار سے نہایت قیمتی ہوتا ہے کہ اس میں پرسکون لمحات میسر آتے ہیں۔ اگر آدمی نماز عشاء ادا کرنے کے بعد کچھ دیر کے لیے سو جائے، پھر نصف شب گزر جانے کے بعد کسی وقت بیدار ہو جائے تو ان لمحات میں بڑی یکسوئی اور دل جمعی نصیب ہوتی ہے۔ اس دوران میں نماز پڑھتے وقت دل کی سکون اور اطمینان نصیب ہوتا ہے جو دوسرے کسی وقت میں میسر نہیں آتا۔ قرآن کریم کی صراحت کے مطابق ایسے وقت میں بستر چھوڑ کر نماز پڑھنا نفس کی ریاضت اور اس کی تربیت کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (إِنَّ نَاشِئَةَ اللَّيْلِ هِيَ أَشَدُّ وَطْئًا وَأَقْوَمُ قِيلًا ﴿٦﴾) "رات کا اٹھنا یقینا نفس کو زیر کرنے (کچلنے) کا ذریعہ ہے اور قرآن پڑھنے کے لیے یہی زیادہ موزوں وقت ہے۔" (المزمل6:73)ایک دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے تہجد گزار بندوں کی بایں الفاظ تعریف فرمائی ہے: (تَتَجَافَىٰ جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَطَمَعًا وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ ﴿١٦﴾ فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّا أُخْفِيَ لَهُم مِّن قُرَّةِ أَعْيُنٍ جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ﴿١٧﴾) "ان کے پہلو بستروں سے جدا رہتے ہیں۔ (اور) وہ اپنے رب کو ڈرتے ہوئے اور امید سے پکارتے ہیں۔ اور جو رزق ہم نے انہیں دیا ہے وہ اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔ کوئی شخص نہیں جانتا کہ ان کے لیے آنکھوں کی ٹھنڈک کی کیا کیا چیزیں چھپا کر رکھی گئی ہیں۔ یہ ان کاموں کا بدلہ ہے جو وہ دنیا میں کیا کرتے تھے۔" (السجدۃ18:32۔17)قرآن کریم میں ایک مقام پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تہجد کا حکم دینے کے ساتھ آپ کو مقام محمود کی امید دلائی گئی ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَمِنَ اللَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهِ نَافِلَةً لَّكَ عَسَىٰ أَن يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُودًا ﴿٧٩﴾) (بنی اسرائیل79:17) "آپ رات کے کچھ حصے میں تہجد ادا کیجیے۔ یہ آپ کے لیے زائد (اور مخصوص) ہے۔ امید ہے کہ آپ کا رب آپ کو مقام محمود پر فائز کرے گا۔"واضح رہے کہ مقام محمود جنت میں ایک بلند ترین مقام ہے جو قیامت کے دن صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نصیب ہو گا۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ مقام محمود اور نماز تہجد میں کوئی خاص مناسبت ہے، اس لیے جو امتی نماز تہجد سے شغف رکھیں گے انہیں مقام محمود کے کسی درجے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت ضرور نصیب ہو گی۔احادیث صحیحہ سے معلوم ہوتا ہے کہ رات کے آخری حصے میں اللہ تعالیٰ اپنے لطف و کرم اور اپنی خاص شان رحمت کے ساتھ آسمان اول پر نزول فرماتا اور اپنے بندوں کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان مبارک ساعات اور پرکیف لمحات کا احساس دلانے کے لیے تہجد کا عنوان قائم کیا ہے۔ اس میں تقریبا اڑسٹھ (68) احادیث بیان کی ہیں، پھر ان پر موقع و محل کی مناسبت سے سینتیس (37) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔ تہجد رات کی نفل نماز ہے، اس مناسبت سے دن میں جو نفل نمازیں خصوصی اہمیت کی حامل ہیں، ان کے متعلق بھی احادیث پیش کی ہیں، مثلاً: نماز فجر سے پہلے دو سنتوں کی اہمیت و فضیلت، ان میں قراءت اور سلام پھیرنے کے بعد دائیں پہلو پر لیٹنے کی حیثیت، پھر نماز چاشت کا بیان، اسی طرح گھروں میں نوافل ادا کرنے کا اہتمام اور ان کی جماعت کو بطور خاص بیان کیا ہے۔ نماز تہجد کے متعلق اس کی اہمیت و فضیلت، رمضان المبارک میں اس کا خصوصی اہتمام اس کی رکعات کی تعداد، نیز اس کے متعلق عدم تشدد اور اس کے کلیتاً ترک کرنے کی نحوست، بیماری یا کسی اور وجہ سے اس کا ترک کرنا، نیز اس میں قیام اور سجود کا لمبا کرنا، خاص طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز تہجد کا نمونہ اور امت کو اس کے متعلق شوق دلانا، علاوہ ازیں وقت سحر اور اس کی فضیلت وغیرہ کو امام بخاری رحمہ اللہ نے خصوصیت کے ساتھ بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ اس میں صحابۂ کرام اور تابعین عظام کے آثار بھی بیان فرمائے ہیں۔ قارئین سے گزارش ہے کہ وہ اپنے قلوب و اذہان کو جلا بخشنے کے لیے اس کا مطالعہ کریں اور شب بیداری کے جذبے سے ان احادیث کو پڑھیں۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان مبارک لمحات میں نیاز و مناجات کی توفیق دے۔ آمین یا رب العالمین
تمہید باب
امام بخاری رحمہ اللہ نے مسند امام احمد کی ایک روایت کی طرف اشارہ کیا ہے۔ حضرت عتبان بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے گھر میں نماز اشراق کے نفل ادا کیے۔ گھر میں موجود افراد نے بھی آپ کی اقتدا میں ان نوافل کو ادا کیا۔ (مسند احمد:5/450)
یہ عتبان بن مالک نے نبی کریم صﷺ سے نقل کیا ہے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: ایک بھاری جسم والے انصاری آدمی نے نبی ﷺ سے عرض کیا: میں آپ کے ساتھ نماز پڑھنے کی طاقت نہیں رکھتا۔ اس نے نبی ﷺ کے لیے کھانا تیار کیا اور آپ کو اپنے گھر تشریف لانے کی دعوت دی اور چٹائی کے ایک حصے پر پانی چھڑکا (اور اسے صاف کیا) آپ نے اس پر دو رکعتیں پڑھیں۔ فلاں بن فلاں بن جارود نے حضرت انس ؓ سے کہا: کیا نبی ﷺ چاشت کی نماز پڑھتے تھے؟ انہوں نے فرمایا: اس دن کے علاوہ میں نے آپ کو یہ نماز پڑھتے نہیں دیکھا۔
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابۂ کرام ؓ کے دور میں نماز چاشت معروف تھی کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے بوقت چاشت ایک انصاری کے گھر نماز پڑھنے کا اہتمام فرمایا، اس سے فوراً نماز چاشت کی طرف ذہن منتقل ہو گیا اور حضرت انس ؓ سے اس کے متعلق سوال ہوا۔ اسی طرح رسول اللہ ﷺ نے جب حضرت عتبان بن مالک ؓ کے گھر نماز پڑھی تو حضرت عتبان ؓ نے اس نماز کو "صلاة الضحیٰ" سے تعبیر کیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے ہاں نماز چاشت معروف تھی۔ (2) عوام الناس میں ایک بے بنیاد بات مشہور ہے کہ جو انسان نماز چاشت شروع کرنے کے بعد ترک کر دے وہ اندھا ہو جاتا ہے، اس لیے لوگ اسے ادا نہیں کرتے مبادا سستی کی وجہ سے اس کے ترک پر نابینا نہ ہو جائیں، حالانکہ اس بات کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ لوگوں کو خیر کثیر سے محروم کرنے کے لیے ایک شیطانی حربہ ہے۔ حدیث میں ہے کہ انسان کے تین سو ساٹھ (360) جوڑ ہیں اور انسان کے ہر جوڑ کے بدلے صدقہ کرنا ضروری ہے۔ صحابہ نے عرض کیا: اتنا صدقہ کرنے کی ہمت کس انسان میں ہو سکتی ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’مسجد میں پڑے ہوئے تھوک کو دفن کر دینا یا راستے سے کسی تکلیف دہ چیز کو دور کر دینا ان جوڑوں کے صدقے کے برابر ہے۔ اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو تو نماز چاشت کی دو رکعت ہی کافی ہیں۔‘‘(صحیح ابن خزیمة:229/2) شیطان ایسی باتوں کے ذریعے سے لوگوں کو نماز کی خیر و برکات سے محروم کرنا چاہتا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ایسی باتوں کی طرف کان نہ دھریں۔ (فتح الباري:75/3)
ترجمۃ الباب:
حضرت عتبان بن مالک ؓ نے اسے نبیﷺ سے بیان کیا ہے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے علی بن جعد نے بیان کیا کہ ہم کوشعبہ نے خبر دی، ان سے انس بن سیرین نے بیان کیا کہ میں نے انس بن مالک انصاری ؓ سے سنا کہ انصارمیں سے ایک شخص (عتبان بن مالک) نے جو بہت موٹے آدمی تھے، رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا کہ میں آپ کے ساتھ نماز پڑھنے کی طاقت نہیں رکھتا (مجھ کو گھر پر نماز پڑھنے کی اجازت دیجئے تو) انہوں نے اپنے گھر نبی کریم ﷺ کے لیے کھانا پکوایا اور آپ کو اپنے گھر بلایا اور ایک چٹائی کے کنارے کو آپ کے لیے پانی سے صاف کیا، آپ نے اس پر دو رکعت نمازپڑھی۔ اور فلاں بن فلاں بن جارود نے حضرت انس ؓ سے پوچھا کہ کیا نبی کریم ﷺ چاشت کی نماز پڑھا کرتے تھے تو آپ نے فرمایا کہ میں نے اس روز کے سوا آپ کو کبھی یہ نمازپڑھتے نہیں دیکھا۔
حدیث حاشیہ:
حضرت امام ؒ نے مختلف مقاصد کے تحت اس حدیث کو کئی جگہ روایت فرمایا ہے۔ یہاں آپ کا مقصد اس سے ضحی کی نماز حالت حضر میں پڑھنا اوربعض مواقع پر جماعت سے بھی پڑھنے کا جواز ثابت کرنا ہے۔ بالفرض بقول حضرت انس ؓ کے صرف اسی موقع پر آپ ﷺ نے یہ نماز پڑھی تو ثبوت مدعا کے لیے آپ ﷺ کاایک دفعہ کام کو کر لینا بھی کافی وافی ہے۔ یوں کئی مواقع پر آپ سے اس نماز کے پڑھنے کا ثبوت موجود ہے۔ ممکن ہے حضرت انس ؓ کو ان مواقع میں آپ ﷺ کے ساتھ ہونے کا موقع نہ ملا ہو۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas bin Sirin (RA): I heard Anas bin Malik (RA) al-Ansari saying, "An Ansari man, who was very fat, said to the Prophet, 'I am unable to present myself for the prayer with you.' He prepared a meal for the Prophet (ﷺ) and invited him to his house. He washed one side of a mat with water and the Prophet (ﷺ) offered two Rakat on it." So and so, the son of so and so, the son of Al-Jarud asked Anas (RA), "Did the Prophet (ﷺ) use to offer the Duha prayer?" Anas (RA) replied, "I never saw him praying (the Duha prayer) except on that day." ________