باب: میت کو جب کفن میں لپیٹا جا چکا ہو تو اس کے پاس جانا (جائز ہے)۔
)
Sahi-Bukhari:
Funerals (Al-Janaa'iz)
(Chapter: Visiting the deceased person after he has been put in his shroud)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1241.
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ حضرت ابو بکر ؓ اپنے مقام سخ والے گھر سے گھوڑے پر سوار ہوکر آئے اور سواری سے اتر کر مسجد میں داخل ہوئے، لوگوں سے کوئی بات نہ کی حتیٰ کہ حضرت عائشہ ؓ کے پاس گئے اور نبی کریم ﷺ کا قصد کیا۔ آپ کو دھاری دار یمنی چادر میں لپیٹا گیا تھا۔ انھوں نے چادر ہٹا کر چہرہ کھولا اور جھک کر آپ کو بوسہ دیا، پھر روپڑے اورفرمایا:اللہ کے نبی!(ﷺ) میرے ماں باپ آپ پر قربان!اللہ تعالیٰ آپ پر دو موتیں جمع نہیں کرے گا۔ بہرحال ایک دفعہ جو موت آپ کے مقدر میں تھی وہ تو آچکی ہے۔
تشریح:
(1) حضرت ابوبکر ؓ مقام سخ میں رہائش پذیر تھے جو رسول اللہ ﷺ کے کاشانہ مبارک سے ایک میل کے فاصلے پر تھا۔ انہوں نے آتے ہی رسول اللہ ﷺ سے چادر کو ہٹایا اور دونوں آنکھوں کے درمیان پیشانی کو بوسہ دیا۔ امام بخاری ؒ نے صرف اس بات کو ثابت کرنے کے لیے مذکورہ حدیث پیش کی ہے کہ میت کو اگر کفن میں لپیٹ دیا جائے تو بھی کسی ضرورت کے پیش نظر اسے کھولا جا سکتا ہے۔ دراصل حضرت نخعی ؒ کا موقف ہے کہ مرنے کے بعد صرف غسل دینے والا ہی اسے دیکھ سکتا ہے، اس لیے امام بخاری ؒ نے مذکورہ حدیث سے اس کا جواز ثابت کیا ہے۔ (2) حضرت عمر ؓ نبی اکرم ﷺ کی وفات کی وجہ سے زیادہ نڈھال تھے۔ آپ نے یہ کہنا شروع کر دیا تھا کہ اللہ تعالیٰ عنقریب رسول اللہ ﷺ کو دوبارہ اٹھائے گا اور آپ لوگوں کے ساتھ پاؤں قطع کریں گے، یعنی شرعی حدود کا نفاذ کریں گے۔ اس بات کا لوگوں میں بھی چرچا ہونے لگا۔ چونکہ اس کا تعلق عقیدے سے تھا، اس لیے حضرت ابوبکر ؓ نے اس کی تردید کو ضروری خیال کیا اور فرمایا کہ دنیا میں آپ کو دو موتوں سے دوچار نہیں ہونا بلکہ صرف ایک ہی موت آنی تھی جو آ چکی ہے۔ (فتح الباري: 148/3)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1211
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1241
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1241
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1241
تمہید کتاب
لفظ جنائز، جنازه کی جمع ہے جس کے دو معنی ہیں: اگر جیم کے کسرہ (زیر) کے ساتھ ہو تو اس سے مراد میت ہے اور اگر جیم کے فتحہ (زبر) کے ساتھ پڑھا جائے تو اس کے معنی اس چارپائی یا تابوت کے ہیں جس پر میت پڑی ہو۔ امام نووی اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لفظ جنائز میں جیم پر صرف فتحہ متعین کیا ہے۔ لغوی طور پر اس کا ماخذ لفظ جنز ہے جسے چھپانے کے معنی میں استعمال کیا جاتا ہے۔اس حقیقت سے انکار نہیں کہ جو انسان دنیا میں آیا ہے اسے ایک دن موت کی آغوش میں جانا ہے۔ اگرچہ کسی انسان کو اپنی موت کے وقت کا علم نہیں، تاہم ہر شخص کی موت کا ایک معین اور اٹل وقت ہے، اس لیے مسلمان کو چاہیے کہ وہ اس سے لمحہ بھر کے لیے بھی غافل نہ ہو، اسے ہمیشہ یاد رکھے اور آخرت کے اس سفر کی تیاری کرتا رہے جسے اس نے اکیلے ہی طے کرنا ہے۔ اس سلسلے میں عافیت کا صرف ایک ہی راستہ ہے کہ ہم مرض و موت اور دیگر مصائب و آلام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات پر عمل کرتے رہیں۔ یہ ایک حقیقت اور تجربہ ہے کہ ایسا کرنے سے قلب و روح کو بڑا سکون نصیب ہوتا ہے اور آپ کی تعلیم و رہنمائی زخمی دل کا مرہم اور صدمے کی دوا بن جاتی ہے۔ علاوہ ازیں موت تو لقاء الٰہی (اللہ کی ملاقات) کا وسیلہ ہونے کی حیثیت سے بندہ مومن کے لیے محبوب و مطلوب بن جاتی ہے۔ یہ تو شرعی ہدایات کی دنیوی اور نقد برکات ہیں، آخرت میں وہ سب کچھ سامنے آئے گا جس کا آیات و احادیث میں وعدہ کیا گیا ہے۔محدثین کا عام دستور ہے کہ وہ کتاب الصلاۃ کے آخر میں کتاب الجنائز کے تحت مرض اور دیگر مصائب و آلام اور حوادث، مرض الموت اور موت کے وقت شرعی طرز عمل، پھر غسل میت، تجہیز و تکفین، نماز جنازہ، دفن، تعزیت یہاں تک کہ زیارت قبور سے متعلقہ احادیث لاتے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی اپنے اسلاف کا اتباع کرتے ہوئے کتاب الصلاۃ کے آخر میں کتاب الجنائز کو بیان کیا ہے کیونکہ انسان کی دو ہی حالتیں ہیں: ایک حالت زندگی سے متعلق ہے اور دوسری کا تعلق موت کے بعد سے ہے۔ اور ہر حالت کے متعلق عبادات اور معاملات کے احکام وابستہ ہیں۔ عبادات میں اہم چیز نماز ہے۔ جب زندگی کے متعلق اہم عبادت نماز سے فراغت ہوئی تو موت سے متعلق نماز وغیرہ کا بیان ضروری ہوا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں دو صد دس (210) احادیث بیان کی ہیں جن میں چھپن (56) معلق اور متابع ہیں اور باقی متصل اسانید سے ذکر کی گئی ہیں۔ ان میں سے تقریبا ایک سو نو (109) احادیث مکرر اور باقی ایک سو ایک (101) احادیث خالص ہیں۔ امام مسلم رحمہ اللہ نے چوبیس (24) احادیث کے علاوہ دیگر بیان کردہ احادیث کو اپنی صحیح میں ذکر کیا ہے۔ مرفوع متصل احادیث کے علاوہ اڑتالیس (48) آثار ہیں جو مختلف صحابہ کرام اور تابعین عظام سے مروی ہیں۔ ان میں سے چھ (6) موصول اور باقی معلق ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر تقریبا اٹھانوے (98) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو افادیت و معنویت کے اعتبار سے بے نظیر اور انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ ان عنوانات کے ذریعے سے امام بخاری رحمہ اللہ نے کئی ایک متعارض احادیث میں تطبیق دی اور ان کی تشریح فرمائی ہے، اس کے علاوہ محدثانہ اسرار و رموز بھی بیان کیے ہیں جن کی ہم ان کے مقامات پر وضاحت کریں گے۔بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے جنازہ اور متعلقات جنازہ کے متعلق مکمل ہدایات دی ہیں، بلکہ قبر اور بعد القبر کے حقائق سے بھی پردہ اٹھایا ہے۔ ان تمہیدی گزارشات کو سامنے رکھتے ہوئے احادیث کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے فکروعمل کو اپنے ہاں شرف قبولیت سے نوازے۔آمين
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ حضرت ابو بکر ؓ اپنے مقام سخ والے گھر سے گھوڑے پر سوار ہوکر آئے اور سواری سے اتر کر مسجد میں داخل ہوئے، لوگوں سے کوئی بات نہ کی حتیٰ کہ حضرت عائشہ ؓ کے پاس گئے اور نبی کریم ﷺ کا قصد کیا۔ آپ کو دھاری دار یمنی چادر میں لپیٹا گیا تھا۔ انھوں نے چادر ہٹا کر چہرہ کھولا اور جھک کر آپ کو بوسہ دیا، پھر روپڑے اورفرمایا:اللہ کے نبی!(ﷺ) میرے ماں باپ آپ پر قربان!اللہ تعالیٰ آپ پر دو موتیں جمع نہیں کرے گا۔ بہرحال ایک دفعہ جو موت آپ کے مقدر میں تھی وہ تو آچکی ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) حضرت ابوبکر ؓ مقام سخ میں رہائش پذیر تھے جو رسول اللہ ﷺ کے کاشانہ مبارک سے ایک میل کے فاصلے پر تھا۔ انہوں نے آتے ہی رسول اللہ ﷺ سے چادر کو ہٹایا اور دونوں آنکھوں کے درمیان پیشانی کو بوسہ دیا۔ امام بخاری ؒ نے صرف اس بات کو ثابت کرنے کے لیے مذکورہ حدیث پیش کی ہے کہ میت کو اگر کفن میں لپیٹ دیا جائے تو بھی کسی ضرورت کے پیش نظر اسے کھولا جا سکتا ہے۔ دراصل حضرت نخعی ؒ کا موقف ہے کہ مرنے کے بعد صرف غسل دینے والا ہی اسے دیکھ سکتا ہے، اس لیے امام بخاری ؒ نے مذکورہ حدیث سے اس کا جواز ثابت کیا ہے۔ (2) حضرت عمر ؓ نبی اکرم ﷺ کی وفات کی وجہ سے زیادہ نڈھال تھے۔ آپ نے یہ کہنا شروع کر دیا تھا کہ اللہ تعالیٰ عنقریب رسول اللہ ﷺ کو دوبارہ اٹھائے گا اور آپ لوگوں کے ساتھ پاؤں قطع کریں گے، یعنی شرعی حدود کا نفاذ کریں گے۔ اس بات کا لوگوں میں بھی چرچا ہونے لگا۔ چونکہ اس کا تعلق عقیدے سے تھا، اس لیے حضرت ابوبکر ؓ نے اس کی تردید کو ضروری خیال کیا اور فرمایا کہ دنیا میں آپ کو دو موتوں سے دوچار نہیں ہونا بلکہ صرف ایک ہی موت آنی تھی جو آ چکی ہے۔ (فتح الباري: 148/3)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے بشر بن محمد نے بیان کیا، انہیں عبد اللہ بن مبارک نے خبر دی، کہا کہ مجھے معمر بن راشد اور یونس نے خبر دی، انہیں زہری نے، کہا کہ مجھے ابو سلمہ نے خبر دی کہ نبی کریم ﷺ کی زوجہ مطہرہ حضرت عائشہ ؓ نے انھیں خبر دی کہ (جب آنحضرت ﷺ کی وفات ہوگئی) ابو بکر ؓ اپنے گھر سے جو سنح میں تھا گھوڑے پر سوار ہو کر آئے اور اتر تے ہی مسجد میں تشریف لے گئے۔ پھر آپ کسی سے گفتگو کئے بغیر عائشہ ؓ کے حجرہ میں آئے (جہاں نبی کریم ﷺ کی نعش مبارک رکھی ہوئی تھی) اور نبی کریم ﷺ کی طرف گئے۔ حضور اکرم ﷺ کو برد حبرہ (یمن کی بنی ہوئی دھاری دار چادر) سے ڈھانک دیاگیا تھا۔ پھر آپ نے حضور کا چہرہ مبارک کھولا اور جھک کر اس کا بوسہ لیا اور رونے لگے۔ آپ نے کہا میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں اے اللہ کے نبی!اللہ تعالی دو موتیں آپ پر کبھی جمع نہیں کرےگا۔ سوا ایک موت کے جو آپ کے مقدر میں تھی سوآپ وفات پا چکے۔
حدیث حاشیہ:
آنحضرت ﷺ کی وفات کے بعد ابو بکر ؓ نے آپ ﷺ کا چہرہ مبارک کھولا اور آپ کو بوسہ دیا۔ یہیں سے ترجمۃ الباب ثابت ہوا۔ وفات نبوی پر صحابہ کرام میں ایک تہلکہ مچ گیا تھا۔ مگر بروقت حضرت صدیق اکبرؓ نے امت کو سنبھالا اور حقیقت حال کا اظہار فرمایا جس سے مسلمانوں میں ایک گونہ سکون ہوگیا اور سب کو اس بات پر اطمینان کلی حاصل ہوگیا کہ اسلام اللہ کا سچا دین ہے وہ اللہ جو ہمیشہ زندہ رہنے والا ہے۔ آنحضرت ﷺ کی وفات سے اسلام کی بقا پر کوئی اثر نہیں پڑسکتا۔ آپ ﷺ رسولوں کی جماعت کے ایک فرد فرید ہیں۔ اور دنیا میں جو بھی رسول آئے اپنے اپنے وقت پر سب دنیا سے رخصت ہو گئے۔ ایسے ہی آپ بھی اپنا مشن پورا کر کے ملاء اعلی سے جاملے۔ صلی اللہ علی حبیبه وبارك وسلم۔ بعض صحابہ کا یہ خیال بھی ہو گیا تھا کہ آنحضرت ﷺ دوبارہ زندہ ہوں گے۔ اسی لیے حضرت صدیق ؓ نے فرمایا کہ اللہ پاک آپ پر دو موت طاری نہیں کرے گا۔ اللھم صل علی محمد وعلی آل محمد وبارك وسلم۔ آمین
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Aisha (RA): Abu Bakr (RA) came riding his horse from his dwelling place in As-Sunh. He got down from it, entered the Mosque and did not speak with anybody till he came to me and went direct to the Prophet, who was covered with a marked blanket. Abu Bakr (RA) uncovered his face. He knelt down and kissed him and then started weeping and said, "My father and my mother be sacrificed for you, O Allah's Prophet! Allah will not combine two deaths on you. You have died the death which was written for you."