ترجمة الباب:
وحنط ابن عمر ؓ ابنا لسعيد بن زيد وحمله وصلى ولم يتوضا , وقال ابن عباس ؓالمسلم لا ينجس حيا ولا ميتا , وقال سعيد لو كان نجسا ما مسسته وقال النبي ﷺ المؤمن لا ينجس .
باب: میت کو پانی اور بیری کے پتوں سے غسل دینا اور وضو کرانا۔
)
Sahi-Bukhari:
Funerals (Al-Janaa'iz)
(Chapter: The bath of a dead and his ablution with water and Sidr)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
ور ابن عمر ؓ نے سعید بن زیدؓ کے بچے (عبدالرحمٰن) کے خوشبو لگائی پھر اس کی نعش اٹھا کر لے گئے اور نماز پڑھی، پھر وضو نہیں کیا۔ ابن عباس ؓ نے فرمایا کہ مسلمان نجس نہیں ہوتا، زندہ ہو یا مردہ، سعد ؓ نے فرمایا کہ اگر (سعید بن زید ؓ ) کی نعش نجس ہوتی تو میں اسے چھوتا ہی نہیں۔ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے کہ مومن ناپاک نہیں ہوتا۔
1253.
حضرت ام عطیہ انصاریہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: جب آپ کی صاحبزادی فوت ہوئیں تو آپ ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا: ’’اسے تین یا پانچ مرتبہ غسل دو۔ اگر مناسب خیال کرو تو اس سے زیادہ بار بھی دے سکتی ہو۔ غسل کے پانی میں بیری کے پتے ملا لو اور آخر میں کچھ کافور بھی استعمال کرو، پھر جب غسل سے فارغ ہو جاؤ تو مجھے اطلاع دینا۔‘‘ چنانچہ جب ہم اسے غسل دے کر فارغ ہوئیں تو آپ کو اطلاع دی۔ آپ نے ہمیں اپنا تہبند دیا اور فرمایا:’’اس میں پورا بدن لپیٹ دو۔‘‘ حدیث میں حقو سے مراد تہبند ہے۔
تشریح:
(1) فوت ہونے والی رسول اللہ ﷺ کی صاجزادی حضرت سیدہ زینب ؓ تھیں جو حضرت ابو العاص ؓ کی بیوی اور سیدہ امامہ بنت عاص ؓ کی والدہ ماجدہ تھیں۔ ان کا انتقال آٹھ ہجری میں ہوا تھا۔ سیدہ زینب ؓ کو غسل دینے والی خواتین میں حضرت ام عطیہ کے علاوہ حضرت اسماء بنت عمیس، حضرت صفیہ بنت عبدالمطلب، حضرت یعلی بنت قانف اور حضرت ام سلیم ؓ بھی شامل تھیں۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ عورت کو غسل دینے کے لیے شوہر کی نسبت عورتیں زیادہ مناسب ہیں، اگرچہ بیوی خاوند کا ایک دوسرے کو غسل دینا شرعا جائز ہے۔ (2) میت کو غسل دینا ضروری ہے، کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے اس شخص کے متعلق حکم دیا تھا جو حالتِ احرام میں اپنی سواری سے گر کر جاں بحق ہو گیا تھا کہ اسے پانی اور بیری کے پتوں سے غسل دو۔ (صحیح البخاري، جزاء الصید، حدیث: 1849) اسی طرح مذکورہ حدیث میں بھی رسول اللہ ﷺ نے حضرت ام عطیہ ؓ کو حکم دیا تھا کہ صاجزادی کو تین یا پانچ یا اس سے بھی زیادہ مرتبہ غسل دو۔ ان احادیث سے غسل میت کے وجوب کا پتہ چلتا ہے۔ غسل دینے کے لیے کسی ایسے شخص کا انتخاب کیا جائے جو قریبی رشتے دار، غسل کے طریقے کو جاننے والا، امانت دار اور تقویٰ شعار ہو۔ بیری کے پتے استعمال کرنے کا حکم محض نظافت و صفائی کے لیے ہے، اگر اس کے قائم مقام کوئی چیز، مثلا: صابن وغیرہ دستیاب ہو تو وہ بھی درست ہے۔ آخری مرتبہ غسل دیتے وقت پانی میں کافور وغیرہ ملا لیا جائے۔ اس میں یہ حکمت ہے کہ میت خوشبودار ہو جائے، کیونکہ اس وقت فرشتے حاضر ہوتے ہیں، نیز کافور کی خصوصیت ہے کہ اس کے استعمال کرنے سے میت کا جسم جلد خراب نہیں ہوتا۔ اس کا یہ بھی فائدہ ہے کہ اسے لگانے کے بعد کوئی بھی موذی جانور میت کے قریب نہیں آتا۔ والله أعلم۔ (3) حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے سب سے آخر میں اپنی ازار سیدہ زینب ؓ کے لیے مرحمت فرمائی کہ آپ کے جسم مبارک سے اتصال کا زمانہ قریب سے قریب تر ہو اور نبوی جسم مبارک سے الگ ہو کر صاجزادی مرحومہ کے جسم سے اتصال تک کچھ بھی فاصلہ نہ ہو، نیز یہ آثار صالحین سے تبرک کے لیے ایک بنیادی ماخذ کی حیثیت رکھتا ہے۔ (فتح الباري: 166/3) ہمارے نزدیک آثار صالحین سے تبرک کا مسئلہ محل نظر ہے، کیونکہ ایسا کرنا رسول اللہ ﷺ کے آثار سے تو ہو سکتا ہے، کیونکہ رسول اللہ ﷺ کا جسم اطہر بابرکت اور اس سے لگنے والا کپڑا بھی متبرک ہوتا ہے۔ اس پر قیاس کرتے ہوئے دوسرے صالحین کے آثار سے برکت حاصل کرنا دو وجہ سے ناجائز ہے: ٭ صحابہ کرام ؓ نے رسول اللہ ﷺ کے علاوہ کسی دوسرے بزرگ سے اس قسم کا تبرک نہیں لیا۔ ٭ دوسروں سے تبرکات کا سلسلہ شرک و بدعت کا بہت بڑا ذریعہ ہے، لہٰذا تبرک وغیرہ کا سلسلہ صرف رسول اللہ ﷺ کی ذات گرامی اور آپ سے متعلقہ اشیاء تک محدود رہنا چاہیے۔ والله أعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1221
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1253
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1253
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1253
تمہید کتاب
لفظ جنائز، جنازه کی جمع ہے جس کے دو معنی ہیں: اگر جیم کے کسرہ (زیر) کے ساتھ ہو تو اس سے مراد میت ہے اور اگر جیم کے فتحہ (زبر) کے ساتھ پڑھا جائے تو اس کے معنی اس چارپائی یا تابوت کے ہیں جس پر میت پڑی ہو۔ امام نووی اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لفظ جنائز میں جیم پر صرف فتحہ متعین کیا ہے۔ لغوی طور پر اس کا ماخذ لفظ جنز ہے جسے چھپانے کے معنی میں استعمال کیا جاتا ہے۔اس حقیقت سے انکار نہیں کہ جو انسان دنیا میں آیا ہے اسے ایک دن موت کی آغوش میں جانا ہے۔ اگرچہ کسی انسان کو اپنی موت کے وقت کا علم نہیں، تاہم ہر شخص کی موت کا ایک معین اور اٹل وقت ہے، اس لیے مسلمان کو چاہیے کہ وہ اس سے لمحہ بھر کے لیے بھی غافل نہ ہو، اسے ہمیشہ یاد رکھے اور آخرت کے اس سفر کی تیاری کرتا رہے جسے اس نے اکیلے ہی طے کرنا ہے۔ اس سلسلے میں عافیت کا صرف ایک ہی راستہ ہے کہ ہم مرض و موت اور دیگر مصائب و آلام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات پر عمل کرتے رہیں۔ یہ ایک حقیقت اور تجربہ ہے کہ ایسا کرنے سے قلب و روح کو بڑا سکون نصیب ہوتا ہے اور آپ کی تعلیم و رہنمائی زخمی دل کا مرہم اور صدمے کی دوا بن جاتی ہے۔ علاوہ ازیں موت تو لقاء الٰہی (اللہ کی ملاقات) کا وسیلہ ہونے کی حیثیت سے بندہ مومن کے لیے محبوب و مطلوب بن جاتی ہے۔ یہ تو شرعی ہدایات کی دنیوی اور نقد برکات ہیں، آخرت میں وہ سب کچھ سامنے آئے گا جس کا آیات و احادیث میں وعدہ کیا گیا ہے۔محدثین کا عام دستور ہے کہ وہ کتاب الصلاۃ کے آخر میں کتاب الجنائز کے تحت مرض اور دیگر مصائب و آلام اور حوادث، مرض الموت اور موت کے وقت شرعی طرز عمل، پھر غسل میت، تجہیز و تکفین، نماز جنازہ، دفن، تعزیت یہاں تک کہ زیارت قبور سے متعلقہ احادیث لاتے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی اپنے اسلاف کا اتباع کرتے ہوئے کتاب الصلاۃ کے آخر میں کتاب الجنائز کو بیان کیا ہے کیونکہ انسان کی دو ہی حالتیں ہیں: ایک حالت زندگی سے متعلق ہے اور دوسری کا تعلق موت کے بعد سے ہے۔ اور ہر حالت کے متعلق عبادات اور معاملات کے احکام وابستہ ہیں۔ عبادات میں اہم چیز نماز ہے۔ جب زندگی کے متعلق اہم عبادت نماز سے فراغت ہوئی تو موت سے متعلق نماز وغیرہ کا بیان ضروری ہوا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں دو صد دس (210) احادیث بیان کی ہیں جن میں چھپن (56) معلق اور متابع ہیں اور باقی متصل اسانید سے ذکر کی گئی ہیں۔ ان میں سے تقریبا ایک سو نو (109) احادیث مکرر اور باقی ایک سو ایک (101) احادیث خالص ہیں۔ امام مسلم رحمہ اللہ نے چوبیس (24) احادیث کے علاوہ دیگر بیان کردہ احادیث کو اپنی صحیح میں ذکر کیا ہے۔ مرفوع متصل احادیث کے علاوہ اڑتالیس (48) آثار ہیں جو مختلف صحابہ کرام اور تابعین عظام سے مروی ہیں۔ ان میں سے چھ (6) موصول اور باقی معلق ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر تقریبا اٹھانوے (98) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو افادیت و معنویت کے اعتبار سے بے نظیر اور انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ ان عنوانات کے ذریعے سے امام بخاری رحمہ اللہ نے کئی ایک متعارض احادیث میں تطبیق دی اور ان کی تشریح فرمائی ہے، اس کے علاوہ محدثانہ اسرار و رموز بھی بیان کیے ہیں جن کی ہم ان کے مقامات پر وضاحت کریں گے۔بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے جنازہ اور متعلقات جنازہ کے متعلق مکمل ہدایات دی ہیں، بلکہ قبر اور بعد القبر کے حقائق سے بھی پردہ اٹھایا ہے۔ ان تمہیدی گزارشات کو سامنے رکھتے ہوئے احادیث کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے فکروعمل کو اپنے ہاں شرف قبولیت سے نوازے۔آمين
تمہید باب
یہاں سے ان مسائل کا آغاز ہو رہا ہے جو براہ راست میت سے متعلق ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے میت کو غسل دینے اور اسے وضو کرانے کا عنوان قائم کیا ہے، اس سے اس بات کی وضاحت مقصود ہے کہ میت کو غسل اس کی نظافت اور صفائی کے پیش نظر دیا جاتا ہے، یعنی یہ غسل نظافت ہے طہارت نہیں، اسی طرح غسل سے پہلے اسے وضو کرانا بھی تعبدی معاملہ ہے مگر ظاہر ہے کہ میت کو کلی کرانا اور ناک میں پانی پہنچانا دشوار ہے، اس لیے روئی کو تر کر کے منہ اور ناک کی صفائی کرا دی جائے، نیز ان حضرات کی تردید مقصود ہے جو میت کو غسل دینے والے پر نہانے کو واجب قرار دیتے ہیں۔ اس سلسلے میں جو حدیث پیش کی جاتی ہے وہ صحیح نہیں۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے اثر کو امام مالک رحمہ اللہ نے موطا میں اپنی متصل سند سے بیان کیا ہے، انہوں نے سعید بن زید کے بیٹے عبدالرحمٰن کو خوشبو لگائی، یعنی اس کے فوت ہونے کے بعد اسے غسل دیا، اٹھایا اور اس کا جنازہ پڑھا لیکن ازسرنو وضو نہیں کیا۔ (المؤطا لامام مالک: 1/49، حدیث: 51) امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد یہ ہے کہ میت نجس نہیں اور اسے اٹھانے سے وضو کرنا ضروری نہیں جیسا کہ بعض حضرات کا موقف ہے۔ اس کے متعلق ابوداوجود کی حدیث پیش کی جاتی ہے وہ سند کے اعتبار سے صحیح نہیں۔ (سنن ابی داود، الجنائز، حدیث: 3161) (2) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے اثر کو سعید بن منصور اور ابن ابی شیبہ نے اپنی متصل سند سے بیان کیا ہے، اس کے الفاظ یہ ہیں کہ اپنے مردوں کو نجس نہ کہو کیونکہ مومن زندہ ہو یا مردہ نجس نہیں ہوتا۔ (المصنف لابن ابی شیبہ: 4/438) اس سے بھی امام بخاری رحمہ اللہ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ میت کو غسل دینا طہارت کی وجہ سے نہیں ہوتا بلکہ ایک تعبدی معاملہ ہے۔ اس کی نظافت و صفائی کے پیش نظر پانی میں بیری کے پتے ڈالے جاتے ہیں تاکہ اچھی طرح صفائی ہو جائے۔ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے اثر کو امام ابن ابی شیبہ رضی اللہ عنہ نے متصل سند سے بیان کیا ہے، ان کی بیٹی عائشہ کہتی ہیں کہ جب سعید بن زید فوت ہوئے تو میرے باپ سعد کو اس کی اطلاع دی گئی، انہوں نے اسے غسل دیا، کفن پہنایا اور خوشبو لگائی، پھر گھر آئے اور ان کے لیے دعائے خیر کی، پھر غسل کیا اور وضاحت کی کہ میں نے میت کو غسل دینے کی وجہ سے غسل نہیں کیا بلکہ گرمی کی وجہ سے نہایا ہوں۔ اگر میت نجس ہوتی تو میں اسے ہاتھ کیوں لگاتا۔ (المصنف لابن ابی شیبہ: 4/439) "مومن نجس نہیں ہوتا" اس معلق روایت کو امام بخاری رحمہ اللہ نے خود ہی متصل سند سے بیان کیا ہے جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے۔ (صحیح البخاری، الغسل، حدیث: 283) امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے یہ ثابت کیا ہے کہ مرنے کی وجہ سے مومن نجس نہیں ہو جاتا، یعنی حقیقی یا مجازی طور پر اسے نجس قرار دینا کسی صورت صحیح نہیں۔ (فتح الباری: 3/164)
ور ابن عمر ؓ نے سعید بن زیدؓ کے بچے (عبدالرحمٰن) کے خوشبو لگائی پھر اس کی نعش اٹھا کر لے گئے اور نماز پڑھی، پھر وضو نہیں کیا۔ ابن عباس ؓ نے فرمایا کہ مسلمان نجس نہیں ہوتا، زندہ ہو یا مردہ، سعد ؓ نے فرمایا کہ اگر (سعید بن زید ؓ ) کی نعش نجس ہوتی تو میں اسے چھوتا ہی نہیں۔ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے کہ مومن ناپاک نہیں ہوتا۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ام عطیہ انصاریہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: جب آپ کی صاحبزادی فوت ہوئیں تو آپ ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا: ’’اسے تین یا پانچ مرتبہ غسل دو۔ اگر مناسب خیال کرو تو اس سے زیادہ بار بھی دے سکتی ہو۔ غسل کے پانی میں بیری کے پتے ملا لو اور آخر میں کچھ کافور بھی استعمال کرو، پھر جب غسل سے فارغ ہو جاؤ تو مجھے اطلاع دینا۔‘‘ چنانچہ جب ہم اسے غسل دے کر فارغ ہوئیں تو آپ کو اطلاع دی۔ آپ نے ہمیں اپنا تہبند دیا اور فرمایا:’’اس میں پورا بدن لپیٹ دو۔‘‘ حدیث میں حقو سے مراد تہبند ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) فوت ہونے والی رسول اللہ ﷺ کی صاجزادی حضرت سیدہ زینب ؓ تھیں جو حضرت ابو العاص ؓ کی بیوی اور سیدہ امامہ بنت عاص ؓ کی والدہ ماجدہ تھیں۔ ان کا انتقال آٹھ ہجری میں ہوا تھا۔ سیدہ زینب ؓ کو غسل دینے والی خواتین میں حضرت ام عطیہ کے علاوہ حضرت اسماء بنت عمیس، حضرت صفیہ بنت عبدالمطلب، حضرت یعلی بنت قانف اور حضرت ام سلیم ؓ بھی شامل تھیں۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ عورت کو غسل دینے کے لیے شوہر کی نسبت عورتیں زیادہ مناسب ہیں، اگرچہ بیوی خاوند کا ایک دوسرے کو غسل دینا شرعا جائز ہے۔ (2) میت کو غسل دینا ضروری ہے، کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے اس شخص کے متعلق حکم دیا تھا جو حالتِ احرام میں اپنی سواری سے گر کر جاں بحق ہو گیا تھا کہ اسے پانی اور بیری کے پتوں سے غسل دو۔ (صحیح البخاري، جزاء الصید، حدیث: 1849) اسی طرح مذکورہ حدیث میں بھی رسول اللہ ﷺ نے حضرت ام عطیہ ؓ کو حکم دیا تھا کہ صاجزادی کو تین یا پانچ یا اس سے بھی زیادہ مرتبہ غسل دو۔ ان احادیث سے غسل میت کے وجوب کا پتہ چلتا ہے۔ غسل دینے کے لیے کسی ایسے شخص کا انتخاب کیا جائے جو قریبی رشتے دار، غسل کے طریقے کو جاننے والا، امانت دار اور تقویٰ شعار ہو۔ بیری کے پتے استعمال کرنے کا حکم محض نظافت و صفائی کے لیے ہے، اگر اس کے قائم مقام کوئی چیز، مثلا: صابن وغیرہ دستیاب ہو تو وہ بھی درست ہے۔ آخری مرتبہ غسل دیتے وقت پانی میں کافور وغیرہ ملا لیا جائے۔ اس میں یہ حکمت ہے کہ میت خوشبودار ہو جائے، کیونکہ اس وقت فرشتے حاضر ہوتے ہیں، نیز کافور کی خصوصیت ہے کہ اس کے استعمال کرنے سے میت کا جسم جلد خراب نہیں ہوتا۔ اس کا یہ بھی فائدہ ہے کہ اسے لگانے کے بعد کوئی بھی موذی جانور میت کے قریب نہیں آتا۔ والله أعلم۔ (3) حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے سب سے آخر میں اپنی ازار سیدہ زینب ؓ کے لیے مرحمت فرمائی کہ آپ کے جسم مبارک سے اتصال کا زمانہ قریب سے قریب تر ہو اور نبوی جسم مبارک سے الگ ہو کر صاجزادی مرحومہ کے جسم سے اتصال تک کچھ بھی فاصلہ نہ ہو، نیز یہ آثار صالحین سے تبرک کے لیے ایک بنیادی ماخذ کی حیثیت رکھتا ہے۔ (فتح الباري: 166/3) ہمارے نزدیک آثار صالحین سے تبرک کا مسئلہ محل نظر ہے، کیونکہ ایسا کرنا رسول اللہ ﷺ کے آثار سے تو ہو سکتا ہے، کیونکہ رسول اللہ ﷺ کا جسم اطہر بابرکت اور اس سے لگنے والا کپڑا بھی متبرک ہوتا ہے۔ اس پر قیاس کرتے ہوئے دوسرے صالحین کے آثار سے برکت حاصل کرنا دو وجہ سے ناجائز ہے: ٭ صحابہ کرام ؓ نے رسول اللہ ﷺ کے علاوہ کسی دوسرے بزرگ سے اس قسم کا تبرک نہیں لیا۔ ٭ دوسروں سے تبرکات کا سلسلہ شرک و بدعت کا بہت بڑا ذریعہ ہے، لہٰذا تبرک وغیرہ کا سلسلہ صرف رسول اللہ ﷺ کی ذات گرامی اور آپ سے متعلقہ اشیاء تک محدود رہنا چاہیے۔ والله أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حضرت عبداللہ بن عمر ؓنے سعید بن زید کے بیٹے کو خوشبولگائی، اسے اٹھایا اور نماز پڑھائی لیکن وضو نہیں کیا۔ حضرت عبداللہ بن عباس ؓنے فرمایا: مسلمان زندہ یامردہ ناپاک نہیں ہوتا۔ حضرت سعد ؓ نے فرمایا: اگر(سعید بن زید کی) نعش نجس ہوتی تو میں اسے نہ چھوتا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "مومن ناپاک نہیں ہوتا۔ "
حدیث ترجمہ:
ہم سے اسماعیل بن عبد اللہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے ایوب سختیانی نے اور ان سے محمد بن سیرین نے، ان سے ام عطیہ انصاری ؓ نے بیان کیا کہ جب رسول اللہ ﷺ کی بیٹی (زینب یا ام کلثوم ؓ ) کی وفات ہوئی آپ وہاں تشریف لائے اور فرمایا کہ تین یا پانچ مرتبہ غسل دے دو اور اگر مناسب سمجھو تو اس سے بھی زیادہ دے سکتی ہو۔ غسل کے پانی میں بیری کے پتے ملا لو اور آخر میں کافور یا (یہ کہا کہ) کچھ کافور کا استعمال کر لینا اور غسل سے فارغ ہونے پر مجھے خبر دے دینا۔ چنا نچہ ہم نے جب غسل دے لیا تو آپ کو خبر دیدی۔ آپ ﷺ نے ہمیں اپنا ازار دیا اور فرمایا کہ اسے ان کی قمیص بنا دو۔ آپ کی مراد اپنے ازار سے تھی۔
حدیث حاشیہ:
حضرت امام بخاری ؒ کا مطلب باب یہ ہے کہ مومن مرنے سے ناپاک نہیں ہو جاتا اور غسل محض بدن کو پاک صاف کرنے کے لیے دیا جاتا ہے۔ اس لیے غسل کے پانی میں بیر کے پتوں کا ڈالنا مسنون ہوا۔ ابن عمر ؓ کے اثر کو امام مالک نے مؤطا میں وصل کیا۔ اگر مردہ نجس ہوتا تو عبد اللہ بن عمر ؓ اس کونہ چھوتے نہ اٹھاتے اگر چھوتے تو اپنے اعضاء کو دھوتے۔ امام بخاری ؒ نے اس سے اس حدیث کے ضعف کی طرف اشارہ کیا کہ جو میت کو نہلائے وہ غسل کرے اور جو اٹھا ئے وہ وضو کرے۔ عبد اللہ بن عباس ؓ کے قول کو سعید بن منصور نے سند صحیح کے ساتھ وصل کیا اور یہ کہ ’’مومن نجس نہیں ہوتا‘‘ اس روایت کو مرفوعاً خود امام بخاری ؒ نے کتاب الغسل میں روایت کیا ہے اور سعد بن ابی وقاص ؓ کے قول کو ابن ابی شیبہ نے نکالا کہ سعد ؓ کو سعید بن زید ؓ کے مرنے کی خبر ملی۔ وہ گئے اور ان کو غسل اور کفن دیا، خوشبو لگائی اور گھر میں آکر غسل کیا اور کہنے لگے کہ میں نے گرمی کی وجہ سے غسل کیا ہے نہ کہ مردے کو غسل دینے کی وجہ سے۔ اگر وہ نجس ہوتا تو میں اسے ہاتھ ہی کیوں لگاتا۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنی بیٹی کو اپنا ازار تبرک کے طور پر عنایت فرمایا۔ اس لیے ارشاد ہوا کہ اسے قمیص بنا دو کہ یہ ان کے بدن مبارک سے ملا رہے۔ جمہور کے نزدیک میت کو غسل دلانا فرض ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Um 'Atiyya al-Ansariya (RA): Allah's Apostle (ﷺ) came to us when his daughter died and said, "Wash her thrice or five times or more, if you see it necessary, with water and Sidr and then apply camphor or some camphor at the end; and when you finish, notify me." So when we finished it, we informed him and he gave us his waist-sheet and told us to shroud the dead body in it. ________