Sahi-Bukhari:
Funerals (Al-Janaa'iz)
(Chapter: How to shroud a dead body)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور حسن بصری نے فرمایا کہ عورت کے لیے ایک پانچواں کپڑا چاہیے جس سے قمیص کے تلے رانیں اور سرین باندھی جائے۔
1261.
محمد بن سیرین ؒ فرماتے ہیں کہ حضرت ام عطیہ ؓ وہ انصار کی ان عورتوں میں سے ہیں جنھوں نے رسول اللہ ﷺ کی بیعت بھی کی تھی۔ اپنے بیٹے سے ملاقت کے لیے بصرہ آئیں، لیکن اسے وہاں نہ پایا۔ انھوں نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے جبکہ ہم آپ کی صاحبزادی کو غسل دے رہی تھیں۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’اسے تین بار یا پانچ بار یا اگر ضرورت ہوتو اس سے زیادہ بار پانی اور بیری کے پتوں سے غسل دو اور آخری باراس میں کافور ملاؤ۔ اور جب فارغ ہو جاؤ تو مجھے اطلاع کرو۔‘‘ حضرت ام عطیہ ؓ نے کہا: جب ہم فارغ ہو گئیں تو آپ نے ہماری طرف اپنا تہبند پھینکا اور فرمایا: ’’اسے اس میں لپیٹ دو۔‘‘ اور اس سے زیادہ کچھ نہ کہا۔ ابن سیرین ؒ کہتے ہیں: مجھے معلوم نہیں وہ آپ کی کون سی صاحبزادی تھیں۔ راوی نے کہا: اشعار یہ ہے کہ اسے چادر میں لپیٹ دو۔ اسی طرح ابن سیرین ؒ عورت کے متعلق حکم دیتےتھے کہ اسے کپڑے میں لپیٹ دیا جائے اور اسے تہبند نہ باندھا جائے۔
تشریح:
(1) راوی حدیث بیان کرتے ہیں کہ مجھے معلوم نہیں وہ آپ کی کون سی صاجزادی تھیں، صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ وہ حضرت زینب ؓ تھیں۔ (صحیح مسلم، الجنائز، حدیث: 2173 (939)) سنن ابن ماجہ میں ہے کہ وہ حضرت ام کلثوم ؓ تھیں۔ (سنن ابن ماجة، الجنائز، حدیث: 1458) ممکن ہے کہ حضرت ام عطیہ ؓ نے دونوں صاجزادیوں کو غسل دیا ہو، کیونکہ مدینہ منورہ میں یہی خاتون عورتوں کو غسل دینے پر مامور تھیں، جیسا کہ صحیح مسلم کی روایت سے معلوم ہوتا ہے۔ ان کے شاگرد حضرت ابن سیرین اور ان کی بہن حضرت حفصہ ہیں۔ تابعین میں یہ دونوں میت کے غسل کے متعلق زیادہ معلومات رکھتے تھے۔ حضرت حسن بصری ؒ کا موقف ہے کہ عورت کو پانچ کپڑوں میں کفن دیا جائے، جیسا کہ امام بخاری ؒ کے پیش کردہ اثر سے معلوم ہوتا ہے، نیز حافظ ابن حجر ؒ نے جوزقی کے حوالے سے روایت بیان کی ہے کہ ام عطیہ ؓ نے فرمایا: ہم نے اس صاجزادی کو پانچ کپڑوں میں کفن دیا جن میں اوڑھنی بھی تھی۔ امام بخاری ؒ کا رجحان بھی یہی معلوم ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں ایک روایت بھی پیش کی جاتی ہے، حضرت لیلیٰ بنت قانف ثقفیہ ؓ نے فرمایا: میں ان خواتین میں شامل تھی جنہوں نے حضرت ام کلثوم ؓ کی وفات کے وقت انہیں غسل دیا تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے پہلے ہمیں تہبند دیا، پھر کرتا، اس کے بعد اوڑھنی، پھر ایک بڑی چادر اور اس کے بعد ایک دوسری چادر جس میں انہیں لپیٹ دیا گیا۔ حضرت لیلیٰ ؓ نے کہا: رسول اللہ ﷺ اپنی لخت جگر کا کفن لے کر دروازے کے پاس بیٹھے تھے اور ہمیں ایک ایک کپڑا مرحمت فرماتے تھے۔ (مسند أحمد: 380/6) اس روایت کو امام ابوداود نے بھی كفن المرأة کے عنوان سے اپنی سنن میں بیان کیا ہے (سنن أبي داود، الجنائز، حدیث: 3157) لیکن یہ روایت انتہائی ضعیف ہے، کیونکہ اس میں نوح بن حکیم ثقفی نامی راوی مجہول ہے جس کی ثقاہت و عدالت ثابت نہیں ہو سکی۔ اس کے علاوہ علامہ زیلعی نے ایک مزید سبب ضعف بھی بیان کیا ہے کہ اس کی سند میں ایک داود نامی راوی ہے۔ اس کے متعلق پتہ نہیں چل سکا کہ کون ہے؟ علامہ زیلعی نے اس سبب ضعف کو بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے۔ (نصب الرایة: 258/2) (2) علامہ البانی ؒ نے بھی لکھا ہے کہ کفن کے متعلق مرد اور عورت کا فرق صحیح حدیث سے ثابت نہیں۔ (أحکام الجنائز، ص: 65)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1229
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1261
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1261
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1261
تمہید کتاب
لفظ جنائز، جنازه کی جمع ہے جس کے دو معنی ہیں: اگر جیم کے کسرہ (زیر) کے ساتھ ہو تو اس سے مراد میت ہے اور اگر جیم کے فتحہ (زبر) کے ساتھ پڑھا جائے تو اس کے معنی اس چارپائی یا تابوت کے ہیں جس پر میت پڑی ہو۔ امام نووی اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لفظ جنائز میں جیم پر صرف فتحہ متعین کیا ہے۔ لغوی طور پر اس کا ماخذ لفظ جنز ہے جسے چھپانے کے معنی میں استعمال کیا جاتا ہے۔اس حقیقت سے انکار نہیں کہ جو انسان دنیا میں آیا ہے اسے ایک دن موت کی آغوش میں جانا ہے۔ اگرچہ کسی انسان کو اپنی موت کے وقت کا علم نہیں، تاہم ہر شخص کی موت کا ایک معین اور اٹل وقت ہے، اس لیے مسلمان کو چاہیے کہ وہ اس سے لمحہ بھر کے لیے بھی غافل نہ ہو، اسے ہمیشہ یاد رکھے اور آخرت کے اس سفر کی تیاری کرتا رہے جسے اس نے اکیلے ہی طے کرنا ہے۔ اس سلسلے میں عافیت کا صرف ایک ہی راستہ ہے کہ ہم مرض و موت اور دیگر مصائب و آلام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات پر عمل کرتے رہیں۔ یہ ایک حقیقت اور تجربہ ہے کہ ایسا کرنے سے قلب و روح کو بڑا سکون نصیب ہوتا ہے اور آپ کی تعلیم و رہنمائی زخمی دل کا مرہم اور صدمے کی دوا بن جاتی ہے۔ علاوہ ازیں موت تو لقاء الٰہی (اللہ کی ملاقات) کا وسیلہ ہونے کی حیثیت سے بندہ مومن کے لیے محبوب و مطلوب بن جاتی ہے۔ یہ تو شرعی ہدایات کی دنیوی اور نقد برکات ہیں، آخرت میں وہ سب کچھ سامنے آئے گا جس کا آیات و احادیث میں وعدہ کیا گیا ہے۔محدثین کا عام دستور ہے کہ وہ کتاب الصلاۃ کے آخر میں کتاب الجنائز کے تحت مرض اور دیگر مصائب و آلام اور حوادث، مرض الموت اور موت کے وقت شرعی طرز عمل، پھر غسل میت، تجہیز و تکفین، نماز جنازہ، دفن، تعزیت یہاں تک کہ زیارت قبور سے متعلقہ احادیث لاتے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی اپنے اسلاف کا اتباع کرتے ہوئے کتاب الصلاۃ کے آخر میں کتاب الجنائز کو بیان کیا ہے کیونکہ انسان کی دو ہی حالتیں ہیں: ایک حالت زندگی سے متعلق ہے اور دوسری کا تعلق موت کے بعد سے ہے۔ اور ہر حالت کے متعلق عبادات اور معاملات کے احکام وابستہ ہیں۔ عبادات میں اہم چیز نماز ہے۔ جب زندگی کے متعلق اہم عبادت نماز سے فراغت ہوئی تو موت سے متعلق نماز وغیرہ کا بیان ضروری ہوا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں دو صد دس (210) احادیث بیان کی ہیں جن میں چھپن (56) معلق اور متابع ہیں اور باقی متصل اسانید سے ذکر کی گئی ہیں۔ ان میں سے تقریبا ایک سو نو (109) احادیث مکرر اور باقی ایک سو ایک (101) احادیث خالص ہیں۔ امام مسلم رحمہ اللہ نے چوبیس (24) احادیث کے علاوہ دیگر بیان کردہ احادیث کو اپنی صحیح میں ذکر کیا ہے۔ مرفوع متصل احادیث کے علاوہ اڑتالیس (48) آثار ہیں جو مختلف صحابہ کرام اور تابعین عظام سے مروی ہیں۔ ان میں سے چھ (6) موصول اور باقی معلق ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر تقریبا اٹھانوے (98) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو افادیت و معنویت کے اعتبار سے بے نظیر اور انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ ان عنوانات کے ذریعے سے امام بخاری رحمہ اللہ نے کئی ایک متعارض احادیث میں تطبیق دی اور ان کی تشریح فرمائی ہے، اس کے علاوہ محدثانہ اسرار و رموز بھی بیان کیے ہیں جن کی ہم ان کے مقامات پر وضاحت کریں گے۔بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے جنازہ اور متعلقات جنازہ کے متعلق مکمل ہدایات دی ہیں، بلکہ قبر اور بعد القبر کے حقائق سے بھی پردہ اٹھایا ہے۔ ان تمہیدی گزارشات کو سامنے رکھتے ہوئے احادیث کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے فکروعمل کو اپنے ہاں شرف قبولیت سے نوازے۔آمين
تمہید باب
حدیث ام عطیہ میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی چادر پھینکتے وقت فرمایا کہ اسے بطور شعار استعمال کیا جائے۔ اس شعار سے کیا مراد ہے؟ امام بخاری رحمہ اللہ اس کی وضاحت کرنا چاہتے ہیں، یعنی اس سے مراد بدن کے نچلے دھڑ کو لپیٹنا ہے، بطور ازار باندھنا نہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عورت کے لیے پانچ کپڑے ہیں کیونکہ حضرت حسن بصری پانچویں کپڑے کی افادیت بیان کرتے ہیں۔ واضح رہے کہ حضرت حسن بصری کے اثر کو مصنف ابن ابی شیبہ میں متصل سند سے بیان کیا گیا ہے۔ اس کے الفاظ یہ ہیں: عورت کو پانچ کپڑوں میں کفن دیا جائے گا ۔۔۔ (المصنف لابن ابی شیبہ: 4/429)
اور حسن بصری نے فرمایا کہ عورت کے لیے ایک پانچواں کپڑا چاہیے جس سے قمیص کے تلے رانیں اور سرین باندھی جائے۔
حدیث ترجمہ:
محمد بن سیرین ؒ فرماتے ہیں کہ حضرت ام عطیہ ؓ وہ انصار کی ان عورتوں میں سے ہیں جنھوں نے رسول اللہ ﷺ کی بیعت بھی کی تھی۔ اپنے بیٹے سے ملاقت کے لیے بصرہ آئیں، لیکن اسے وہاں نہ پایا۔ انھوں نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے جبکہ ہم آپ کی صاحبزادی کو غسل دے رہی تھیں۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’اسے تین بار یا پانچ بار یا اگر ضرورت ہوتو اس سے زیادہ بار پانی اور بیری کے پتوں سے غسل دو اور آخری باراس میں کافور ملاؤ۔ اور جب فارغ ہو جاؤ تو مجھے اطلاع کرو۔‘‘ حضرت ام عطیہ ؓ نے کہا: جب ہم فارغ ہو گئیں تو آپ نے ہماری طرف اپنا تہبند پھینکا اور فرمایا: ’’اسے اس میں لپیٹ دو۔‘‘ اور اس سے زیادہ کچھ نہ کہا۔ ابن سیرین ؒ کہتے ہیں: مجھے معلوم نہیں وہ آپ کی کون سی صاحبزادی تھیں۔ راوی نے کہا: اشعار یہ ہے کہ اسے چادر میں لپیٹ دو۔ اسی طرح ابن سیرین ؒ عورت کے متعلق حکم دیتےتھے کہ اسے کپڑے میں لپیٹ دیا جائے اور اسے تہبند نہ باندھا جائے۔
حدیث حاشیہ:
(1) راوی حدیث بیان کرتے ہیں کہ مجھے معلوم نہیں وہ آپ کی کون سی صاجزادی تھیں، صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ وہ حضرت زینب ؓ تھیں۔ (صحیح مسلم، الجنائز، حدیث: 2173 (939)) سنن ابن ماجہ میں ہے کہ وہ حضرت ام کلثوم ؓ تھیں۔ (سنن ابن ماجة، الجنائز، حدیث: 1458) ممکن ہے کہ حضرت ام عطیہ ؓ نے دونوں صاجزادیوں کو غسل دیا ہو، کیونکہ مدینہ منورہ میں یہی خاتون عورتوں کو غسل دینے پر مامور تھیں، جیسا کہ صحیح مسلم کی روایت سے معلوم ہوتا ہے۔ ان کے شاگرد حضرت ابن سیرین اور ان کی بہن حضرت حفصہ ہیں۔ تابعین میں یہ دونوں میت کے غسل کے متعلق زیادہ معلومات رکھتے تھے۔ حضرت حسن بصری ؒ کا موقف ہے کہ عورت کو پانچ کپڑوں میں کفن دیا جائے، جیسا کہ امام بخاری ؒ کے پیش کردہ اثر سے معلوم ہوتا ہے، نیز حافظ ابن حجر ؒ نے جوزقی کے حوالے سے روایت بیان کی ہے کہ ام عطیہ ؓ نے فرمایا: ہم نے اس صاجزادی کو پانچ کپڑوں میں کفن دیا جن میں اوڑھنی بھی تھی۔ امام بخاری ؒ کا رجحان بھی یہی معلوم ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں ایک روایت بھی پیش کی جاتی ہے، حضرت لیلیٰ بنت قانف ثقفیہ ؓ نے فرمایا: میں ان خواتین میں شامل تھی جنہوں نے حضرت ام کلثوم ؓ کی وفات کے وقت انہیں غسل دیا تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے پہلے ہمیں تہبند دیا، پھر کرتا، اس کے بعد اوڑھنی، پھر ایک بڑی چادر اور اس کے بعد ایک دوسری چادر جس میں انہیں لپیٹ دیا گیا۔ حضرت لیلیٰ ؓ نے کہا: رسول اللہ ﷺ اپنی لخت جگر کا کفن لے کر دروازے کے پاس بیٹھے تھے اور ہمیں ایک ایک کپڑا مرحمت فرماتے تھے۔ (مسند أحمد: 380/6) اس روایت کو امام ابوداود نے بھی كفن المرأة کے عنوان سے اپنی سنن میں بیان کیا ہے (سنن أبي داود، الجنائز، حدیث: 3157) لیکن یہ روایت انتہائی ضعیف ہے، کیونکہ اس میں نوح بن حکیم ثقفی نامی راوی مجہول ہے جس کی ثقاہت و عدالت ثابت نہیں ہو سکی۔ اس کے علاوہ علامہ زیلعی نے ایک مزید سبب ضعف بھی بیان کیا ہے کہ اس کی سند میں ایک داود نامی راوی ہے۔ اس کے متعلق پتہ نہیں چل سکا کہ کون ہے؟ علامہ زیلعی نے اس سبب ضعف کو بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے۔ (نصب الرایة: 258/2) (2) علامہ البانی ؒ نے بھی لکھا ہے کہ کفن کے متعلق مرد اور عورت کا فرق صحیح حدیث سے ثابت نہیں۔ (أحکام الجنائز، ص: 65)
ترجمۃ الباب:
حضرت حسن بصری بیان کرتے ہیں کہ پانچویں کپڑے کے ساتھ قمیص کے نیچے دونوں ران اور سرین لپیٹے جائیں۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے احمد نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے عبد اللہ بن وہب نے بیان کیا، انہیں ابن جریج نے خبر دی، انہیں ایوب نے خبر دی، کہا کہ میں نے ابن سیرین سے سنا، انہوں نے کہا کہ ام عطیہ ؓ کے یہاں انصار کی ان خواتین میں سے جنہوں نے نبی کریم ﷺ سے بیعت کی تھی، ایک عورت آئی، بصرہ میں انہیں اپنے ایک بیٹے کی تلاش تھی۔ لیکن وہ نہ ملا۔ پھر اس نے ہم سے یہ حدیث بیان کی کہ ہم رسول اللہ ﷺ کی صاحبزادی کو غسل دے رہی تھیں کہ آپ تشریف لائے اور فرمایا کہ تین یا پانچ مرتبہ غسل دے دو اور اگر مناسب سمجھو تو اس سے بھی زیادہ دے سکتی ہو۔ غسل پانی اور بیری کے پتوں سے ہوناچاہیے اور آخر میں کافور بھی استعمال کر لینا۔ غسل سے فارغ ہو کر مجھے خبر کرا دینا۔ انہوں نے بیان کیا کہ جب ہم غسل دے چکیں (تو اطلاع دی) اور آپ نے ازار عنایت کیا۔ آپ نے فرمایا کہ اسے اندر بدن سے لپیٹ دو۔ اس سے زیادہ آپ نے کچھ نہیں فرمایا۔ مجھے یہ نہیں معلوم کہ یہ آپ کی کونسی بیٹی تھیں (یہ ایوب نے کہا) اور انہوں نے بتایا کہ اشعار کا مطلب یہ ہے كہ اس میں نعش لپیٹ دی جائے۔ ابن سیرین ؓ بھی یہی فرمایا کرتے تھے کہ عورت کے بدن میں اسے لپیٹا جائے ازار کے طور پر نہ باندھا جائے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn Sirin (RA): Um 'Atiyya (an Ansari woman who gave the pledge of allegiance to the Prophet) came to Basra to visit her son, but she could not find him. She narrated to us, "The Prophet (ﷺ) came to us while we were giving bath to his (dead) daughter, he said: 'Wash her three times, five times or more, if you think it necessary, with water and Sidr, and last of all put camphor, and when you finish, notify me.' " Um 'Atiyya added, "After finishing, we informed him and he gave us his waist sheet and told us to shroud her in it and did not say more than that." ________