باب:اس بارے میں کہ کفن کے لیے سفید کپڑے ہونے مناسب ہیں
)
Sahi-Bukhari:
Funerals (Al-Janaa'iz)
(Chapter: White cloth for the shroud)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1264.
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو تین سفید کپڑوں میں کفن دیا گیا جو یمنی سحولی روئی سے بنے ہوئے تھے ،ان میں نہ تو قمیص تھی اور نہ عمامہ۔
تشریح:
امام بخاری ؒ نے ثابت کیا ہے کہ میت کو سفید کپڑوں میں کفن دیا جائے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول حضرت محمد ﷺ کے لیے سفید کپڑوں کو بطور کفن پسند فرمایا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ رنگ اللہ تعالیٰ کو پسند ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا اس سلسلے میں صریح حکم بھی ہے جو امام بخارى ؒ کی شرط کے مطابق نہ تھا، اس لیے اس حدیث کو انہوں نے بیان نہیں فرمایا۔ حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’سفید لباس زیب تن کیا کرو۔ یہ تمہارے ملبوسات میں بہترین اور عمدہ لباس ہے۔ اور اپنے مرنے والوں کو بھی اس میں کفن دیا کرو۔‘‘(مسند أحمد: 247/1) بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے کفن میں ایک دھاری دار چادر بھی تھی۔ (فتح الباري:173/3) لیکن اس دھاری دار چادر کو صرف بدن خشک کرنے کے لیے استعمال کیا گیا تھا، اس کے بعد اسے اتار دیا گیا تھا، جیسا کہ مصنف عبدالرزاق میں اس کی صراحت ہے۔ (فتح الباري:174/3) تاہم دھاری دار چادر بھی بطور کفن استعمال کرنی جائز ہے، جیسا کہ سنن ابی داود میں ہے۔ (سنن أبي داود، الجنائز، حدیث: 3150)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1232
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1264
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1264
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1264
تمہید کتاب
لفظ جنائز، جنازه کی جمع ہے جس کے دو معنی ہیں: اگر جیم کے کسرہ (زیر) کے ساتھ ہو تو اس سے مراد میت ہے اور اگر جیم کے فتحہ (زبر) کے ساتھ پڑھا جائے تو اس کے معنی اس چارپائی یا تابوت کے ہیں جس پر میت پڑی ہو۔ امام نووی اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لفظ جنائز میں جیم پر صرف فتحہ متعین کیا ہے۔ لغوی طور پر اس کا ماخذ لفظ جنز ہے جسے چھپانے کے معنی میں استعمال کیا جاتا ہے۔اس حقیقت سے انکار نہیں کہ جو انسان دنیا میں آیا ہے اسے ایک دن موت کی آغوش میں جانا ہے۔ اگرچہ کسی انسان کو اپنی موت کے وقت کا علم نہیں، تاہم ہر شخص کی موت کا ایک معین اور اٹل وقت ہے، اس لیے مسلمان کو چاہیے کہ وہ اس سے لمحہ بھر کے لیے بھی غافل نہ ہو، اسے ہمیشہ یاد رکھے اور آخرت کے اس سفر کی تیاری کرتا رہے جسے اس نے اکیلے ہی طے کرنا ہے۔ اس سلسلے میں عافیت کا صرف ایک ہی راستہ ہے کہ ہم مرض و موت اور دیگر مصائب و آلام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات پر عمل کرتے رہیں۔ یہ ایک حقیقت اور تجربہ ہے کہ ایسا کرنے سے قلب و روح کو بڑا سکون نصیب ہوتا ہے اور آپ کی تعلیم و رہنمائی زخمی دل کا مرہم اور صدمے کی دوا بن جاتی ہے۔ علاوہ ازیں موت تو لقاء الٰہی (اللہ کی ملاقات) کا وسیلہ ہونے کی حیثیت سے بندہ مومن کے لیے محبوب و مطلوب بن جاتی ہے۔ یہ تو شرعی ہدایات کی دنیوی اور نقد برکات ہیں، آخرت میں وہ سب کچھ سامنے آئے گا جس کا آیات و احادیث میں وعدہ کیا گیا ہے۔محدثین کا عام دستور ہے کہ وہ کتاب الصلاۃ کے آخر میں کتاب الجنائز کے تحت مرض اور دیگر مصائب و آلام اور حوادث، مرض الموت اور موت کے وقت شرعی طرز عمل، پھر غسل میت، تجہیز و تکفین، نماز جنازہ، دفن، تعزیت یہاں تک کہ زیارت قبور سے متعلقہ احادیث لاتے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی اپنے اسلاف کا اتباع کرتے ہوئے کتاب الصلاۃ کے آخر میں کتاب الجنائز کو بیان کیا ہے کیونکہ انسان کی دو ہی حالتیں ہیں: ایک حالت زندگی سے متعلق ہے اور دوسری کا تعلق موت کے بعد سے ہے۔ اور ہر حالت کے متعلق عبادات اور معاملات کے احکام وابستہ ہیں۔ عبادات میں اہم چیز نماز ہے۔ جب زندگی کے متعلق اہم عبادت نماز سے فراغت ہوئی تو موت سے متعلق نماز وغیرہ کا بیان ضروری ہوا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں دو صد دس (210) احادیث بیان کی ہیں جن میں چھپن (56) معلق اور متابع ہیں اور باقی متصل اسانید سے ذکر کی گئی ہیں۔ ان میں سے تقریبا ایک سو نو (109) احادیث مکرر اور باقی ایک سو ایک (101) احادیث خالص ہیں۔ امام مسلم رحمہ اللہ نے چوبیس (24) احادیث کے علاوہ دیگر بیان کردہ احادیث کو اپنی صحیح میں ذکر کیا ہے۔ مرفوع متصل احادیث کے علاوہ اڑتالیس (48) آثار ہیں جو مختلف صحابہ کرام اور تابعین عظام سے مروی ہیں۔ ان میں سے چھ (6) موصول اور باقی معلق ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر تقریبا اٹھانوے (98) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو افادیت و معنویت کے اعتبار سے بے نظیر اور انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ ان عنوانات کے ذریعے سے امام بخاری رحمہ اللہ نے کئی ایک متعارض احادیث میں تطبیق دی اور ان کی تشریح فرمائی ہے، اس کے علاوہ محدثانہ اسرار و رموز بھی بیان کیے ہیں جن کی ہم ان کے مقامات پر وضاحت کریں گے۔بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے جنازہ اور متعلقات جنازہ کے متعلق مکمل ہدایات دی ہیں، بلکہ قبر اور بعد القبر کے حقائق سے بھی پردہ اٹھایا ہے۔ ان تمہیدی گزارشات کو سامنے رکھتے ہوئے احادیث کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے فکروعمل کو اپنے ہاں شرف قبولیت سے نوازے۔آمين
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو تین سفید کپڑوں میں کفن دیا گیا جو یمنی سحولی روئی سے بنے ہوئے تھے ،ان میں نہ تو قمیص تھی اور نہ عمامہ۔
حدیث حاشیہ:
امام بخاری ؒ نے ثابت کیا ہے کہ میت کو سفید کپڑوں میں کفن دیا جائے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول حضرت محمد ﷺ کے لیے سفید کپڑوں کو بطور کفن پسند فرمایا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ رنگ اللہ تعالیٰ کو پسند ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا اس سلسلے میں صریح حکم بھی ہے جو امام بخارى ؒ کی شرط کے مطابق نہ تھا، اس لیے اس حدیث کو انہوں نے بیان نہیں فرمایا۔ حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’سفید لباس زیب تن کیا کرو۔ یہ تمہارے ملبوسات میں بہترین اور عمدہ لباس ہے۔ اور اپنے مرنے والوں کو بھی اس میں کفن دیا کرو۔‘‘(مسند أحمد: 247/1) بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے کفن میں ایک دھاری دار چادر بھی تھی۔ (فتح الباري:173/3) لیکن اس دھاری دار چادر کو صرف بدن خشک کرنے کے لیے استعمال کیا گیا تھا، اس کے بعد اسے اتار دیا گیا تھا، جیسا کہ مصنف عبدالرزاق میں اس کی صراحت ہے۔ (فتح الباري:174/3) تاہم دھاری دار چادر بھی بطور کفن استعمال کرنی جائز ہے، جیسا کہ سنن ابی داود میں ہے۔ (سنن أبي داود، الجنائز، حدیث: 3150)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن مقاتل نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم کو عبد اللہ نے خبر دی، انہوں نے کہا کہ ہمیں ہشام بن عروہ نے خبر دی، انہیں ان کے باپ عروہ بن زبیر نے اور انہیں (ان کی خالہ) ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ نے کہ رسول اللہ ﷺ کو یمن کے تین سفید سوتی دھلے ہوئے کپڑوں میں کفن دیا گیا ان میں نہ قمیص تھی نہ عمامہ۔
حدیث حاشیہ:
بلکہ ایک ازار تھی، ایک چادر، ایک لفافہ۔ پس سنت یہی تین کپڑے ہیں۔ عمامہ باندھنا بدعت ہے۔ حنابلہ اور ہمارے امام احمد بن حنبل نے اس کو مکروہ رکھا ہے اور شافعیہ نے قمیص اور عمامہ کا بڑھانا بھی جائز رکھا ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ سفید کپڑوں میں کفن دیا کرو۔ ترمذی نے کہا آنحضرت ﷺ کے کفن کے بارے میں جتنی حدیثیں وارد ہوئی ہیں ان سب میں حضرت عائشہ ؓ کی یہ حدیث زیادہ صحیح ہے۔ افسوس ہے کہ ہمارے زمانہ کے لوگ زندگی بھر شادی غمی کے رسوم اور بدعات میں گرفتار رہتے ہیں اور مرتے وقت بھی بیچاری میت کا پیچھا نہیں چھوڑتے۔ کہیں کفن خلاف سنت کرتے ہیں، کہیں لفافہ کے اوپر ایک چادر ڈالتے ہیں کہیں میت پر شامیانہ تانتے ہیں، کہیں تیجا دسواں چہلم کرتے ہیں۔ کہیں قبرمیں پیری مریدی کا شجر رکھتے ہیں۔ کہیں قبر کا چراغ جلاتے ہیں۔ کہیں صندل شیرینی چادر چڑھاتے ہیں۔ کہیں قبر پر میلہ اور مجمع کر تے ہیں اور اس کا نام عرس رکھتے ہیں۔ کہیں قبر کو پختہ کرتے ہیں، اس پر عمارت اور گنبد اٹھاتے ہیں۔ یہ سب امور بدعت اور ممنوع ہیں۔ اللہ تعالی مسلمانوں کی آنکھیں کھولے اور ان کو نیک توفیق دے۔ آمین یا رب العالمین۔(وحیدي) روایت میں کفن نبوی کے متعلق لفظ ''سحولیة'' آیا ہے۔ جس کی تشریح علامہ شوکانی کے لفظوں میں یہ ہے: (سُحُولِيَّةٍ) بِضَمِّ الْمُهْمَلَتَيْنِ، وَيُرْوَى بِفَتْحِ أَوَّلِهِ: نِسْبَةً إلَى سُحُولَ قَرْيَةٍ بِالْيَمَنِ. قَالَ النَّوَوِيُّ: وَالْفَتْحُ أَشْهُرُ وَهُوَ رِوَايَةُ الْأَكْثَرِينَ. قَالَ ابْنُ الْأَعْرَابِيِّ وَغَيْرُهُ: هِيَ ثِيَابٌ بِيضٌ نَقِيَّةٌ لَا تَكُونُ إلَّا مِنْ الْقُطْنِ. وَقَالَ ابْنُ قُتَيْبَةَ: ثِيَابٌ بِيضٌ وَلَمْ يَخُصَّهَا بِالْقُطْنِ. وَفِي رِوَايَةٍ لِلْبُخَارِيِّ " سُحُولُ " بِدُونِ نِسْبَةٍ، وَهُوَ جَمْعُ سَحُلٍ، وَالسَّحْلُ: الثَّوْبُ الْأَبْيَضُ النَّقِيُّ وَلَا يَكُونُ إلَّا مِنْ قُطْنٍ كَمَا تَقَدَّمَ. وَقَالَ الْأَزْهَرِيُّ: بِالْفَتْحِ: الْمَدِينَةُ، وَبِالضَّمِّ: الثِّيَابُ. وَقِيلَ: النِّسْبَةُ إلَى الْقَرْيَةِ بِالضَّمِّ، وَأَمَّا بِالْفَتْحِ فَنِسْبَةٌ إلَى الْقِصَارِ لِأَنَّهُ يَسْحَلُ الثِّيَابَ: أَيْ يُنَقِّيهَا كَذَا فِي الْفَتْحِ۔(نیل الأوطار، جلد:3ص:40)خلاصہ یہ کہ لفظ''سحولیة''سین اورحاء کے ضمہ کے ساتھ ہے اور سین کا فتح بھی روایت کیا گیا ہے۔ جو ایک گاؤں کی طرف نسبت ہے جو یمن میں واقع تھا۔ ابن اعرابی وغیرہ نے کہا کہ وہ سفید صاف ستھرا کپڑا ہے جو سوتی ہوتا ہے۔ بخاری شریف کی ایک روایت میں لفظ “سحول”آیا ہے جو سحل کی جمع ہے اور وہ سفید دھلا ہو اکپڑا ہوتا ہے۔ ازہری کہتے ہیں کہ سحول سین کے فتح کے ساتھ شہر مراد ہوگا اور ضمہ کے ساتھ دھوبی مراد ہوگا جوکپڑے کو دھو کر صاف شفاف بنا دیتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Aisha (RA): Allah's Apostle (ﷺ) was shrouded in three Yemenite white Suhuliya (pieces of cloth) of cotton, and in them there was neither a shirt nor a turban."