ترجمة الباب:
وبه قال عطاء والزهري وعمرو بن دينار وقتادة وقال عمرو بن دينار الحنوط من جميع المال وقال إبراهيم يبدا بالكفن ثم بالدين ثم بالوصية وقال سفيان اجر القبر , والغسل هو من الكفن .
باب: کفن کی تیاری میت کے سارے مال میں سے کرنا چاہیے۔
)
Sahi-Bukhari:
Funerals (Al-Janaa'iz)
(Chapter: To shroud one with all of one's property)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور عطاء اور زہری اور عمرو بن دینار اور قتادہ ؓ کا یہی قول ہے۔ اور عمرو بن دینار نے کہا خوشبودار کا خرچ بھی سارے مال سے کیا جائے۔ اور ابراہیم نخعی نے کہا پہلے مال میں سے کفن کی تیاری کریں ‘ پھر قرض ادا کریں۔ پھر وصیت پوری کریں اور سفیان ثوری نے کہا قبر اور غسال کی اجرت بھی کفن میں داخل ہے۔
1274.
ابراہیم بن عبدالرحمان ؒ سے روایت ہے کہ حضرت عبدالرحمان بن عوف ؓ کے پاس ایک دن کھانا لایا گیا تو فرمانے لگے کہ مصعب بن عمیر ؓ کو شہید کردیا گیا اور وہ مجھ سے بہتر تھے۔ان کے ترکے سے ایک چادر کے سوا کفن نہ مل سکا۔ اس طرح حضرت حمزہ ؓ یا کوئی اور شخص جو مجھ سے بہتر تھا شہید کیا گیا تو ان کے لیے بھی ایک چادر کے علاوہ کفن میسر نہ آسکا۔ مجھے اندیشہ ہے کہ مبادا ہماری آخرت کی پاکیزہ چیزیں اس دنیوی زندگی ہی میں ہمیں دے دی جائیں، اسکے بعد انہوں نے رونا شروع کردیا۔
تشریح:
(1) امام بخاری ؒ نے ایک ضعیف حدیث کے الفاظ کو بطور عنوان استعمال کیا ہے، وہ اگرچہ سند کے اعتبار سے کمزور ہے، لیکن اس کا مضمون صحیح تھا، اس لیے صحیح روایت سے اسے ثابت کیا ہے، یعنی کفن کے اخراجات اس کے ترکے سے پورے کیے جائیں۔ اس میں غسل، خوشبو، قبر کی خریداری، کھودنے کی مزدوری، وہاں تک لے جانے کا کرایہ سب اخراجات کفن کا حصہ ہیں اور انہیں میت کے سرمائے سے پورا کیا جائے گا۔ اگر ان اخراجات کو پورا کرنے کے بعد کچھ بچ جائے تو میت کا قرض وغیرہ اتارا جائے، پھر ثلث مال سے اس کی وصیت کو پورا کیا جائے۔ اس کے بعد اس کی جائیداد ورثاء میں تقسیم ہو گی۔ (2) عنوان سے حدیث کی مطابقت بایں طور پر ہے کہ حضرت مصعب بن عمیر اور حضرت حمزہ ؓ کا جمع ترکہ صرف ایک چادر ہی تھا، اسے کفن میں استعمال کیا گیا۔ رسول اللہ ﷺ نے یہ دریافت نہیں فرمایا کہ ان کے ذمے کوئی قرض وغیرہ تو نہیں۔ ضرورت کے وقت شارع کا خاموش رہنا ہی بیان کی دلیل، یعنی اس مسئلے کو ثابت کرنا ہے کہ میت کے ترکے سے اولین ترجیح اس کے کفن دفن کے اخراجات ہیں۔ اگر اس سے کچھ بچ رہے تو قرضہ وغیرہ اتارا جائے، بصورت دیگر اس کے تمام ترکے کو کفن دفن کے اخراجات میں صرف کر دیا جائے۔ اس میں اختلاف ہے کہ اگر میت مقروض ہو اور اتنا قرض ہے کہ اس کا تمام مال قرض کی ادائیگی میں خرچ ہو سکتا ہے تو کفن کے لیے کتنا کپڑا لیا جائے؟ اتنا کفن کافی ہے جس سے ستر پوشی ہو سکے یا تمام بدن کو ڈھانکنے کے لیے کپڑا لینا چاہیے؟ حافظ ابن حجر ؒ نے اس بات کو راجح قرار دیا ہے کہ اس کے مال سے پورا بدن ڈھانپنے کے لیے کپڑا خریدا جائے۔ (فتح الباري:181/3) (3) ہمارے ہاں جہلاء قل خوانی، تیسرا، ساتواں اور چالیسواں، نیز قرآن خوانی کے اخراجات میت کے مال سے ادا کرتے ہیں۔ یہ سب بدعات ہیں اور ان میں شمولیت کرنے والے بالغ حضرات ان اخراجات کے ذمہ دار ہیں، کیونکہ ایسا کرنا میت کے حقوق میں شامل نہیں کہ ان کی ادائیگی کے لیے اس کا مال خرچ کیا جائے۔ اسی طرح اس کے مال سے کسی کو حج یا عمرے کے لیے بھیج دیا جاتا ہے۔ یہ بھی صحیح نہیں۔ ہاں، اگر ورثاء اجازت دیں تو باقی ماندہ مال سے حج وغیرہ کے اخراجات پورے کیے جا سکتے ہیں۔ والله أعلم۔ (4) ہمارے ہاں یہ رواج ہے کہ اگر شادی شدہ لڑکی فوت ہو جائے تو اسے کفن پہنانے کی ذمہ داری اس کے والدین پر ہے۔ یہ ایک جاہلانہ رسم ہے جسے ختم ہونا چاہیے، بلکہ خاوند کو چاہیے کہ وہ اس قسم کی ضروریات کو پورا کرے، والدین پر بوجھ نہ ڈالا جائے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1242
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1274
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1274
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1274
تمہید کتاب
لفظ جنائز، جنازه کی جمع ہے جس کے دو معنی ہیں: اگر جیم کے کسرہ (زیر) کے ساتھ ہو تو اس سے مراد میت ہے اور اگر جیم کے فتحہ (زبر) کے ساتھ پڑھا جائے تو اس کے معنی اس چارپائی یا تابوت کے ہیں جس پر میت پڑی ہو۔ امام نووی اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لفظ جنائز میں جیم پر صرف فتحہ متعین کیا ہے۔ لغوی طور پر اس کا ماخذ لفظ جنز ہے جسے چھپانے کے معنی میں استعمال کیا جاتا ہے۔اس حقیقت سے انکار نہیں کہ جو انسان دنیا میں آیا ہے اسے ایک دن موت کی آغوش میں جانا ہے۔ اگرچہ کسی انسان کو اپنی موت کے وقت کا علم نہیں، تاہم ہر شخص کی موت کا ایک معین اور اٹل وقت ہے، اس لیے مسلمان کو چاہیے کہ وہ اس سے لمحہ بھر کے لیے بھی غافل نہ ہو، اسے ہمیشہ یاد رکھے اور آخرت کے اس سفر کی تیاری کرتا رہے جسے اس نے اکیلے ہی طے کرنا ہے۔ اس سلسلے میں عافیت کا صرف ایک ہی راستہ ہے کہ ہم مرض و موت اور دیگر مصائب و آلام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات پر عمل کرتے رہیں۔ یہ ایک حقیقت اور تجربہ ہے کہ ایسا کرنے سے قلب و روح کو بڑا سکون نصیب ہوتا ہے اور آپ کی تعلیم و رہنمائی زخمی دل کا مرہم اور صدمے کی دوا بن جاتی ہے۔ علاوہ ازیں موت تو لقاء الٰہی (اللہ کی ملاقات) کا وسیلہ ہونے کی حیثیت سے بندہ مومن کے لیے محبوب و مطلوب بن جاتی ہے۔ یہ تو شرعی ہدایات کی دنیوی اور نقد برکات ہیں، آخرت میں وہ سب کچھ سامنے آئے گا جس کا آیات و احادیث میں وعدہ کیا گیا ہے۔محدثین کا عام دستور ہے کہ وہ کتاب الصلاۃ کے آخر میں کتاب الجنائز کے تحت مرض اور دیگر مصائب و آلام اور حوادث، مرض الموت اور موت کے وقت شرعی طرز عمل، پھر غسل میت، تجہیز و تکفین، نماز جنازہ، دفن، تعزیت یہاں تک کہ زیارت قبور سے متعلقہ احادیث لاتے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی اپنے اسلاف کا اتباع کرتے ہوئے کتاب الصلاۃ کے آخر میں کتاب الجنائز کو بیان کیا ہے کیونکہ انسان کی دو ہی حالتیں ہیں: ایک حالت زندگی سے متعلق ہے اور دوسری کا تعلق موت کے بعد سے ہے۔ اور ہر حالت کے متعلق عبادات اور معاملات کے احکام وابستہ ہیں۔ عبادات میں اہم چیز نماز ہے۔ جب زندگی کے متعلق اہم عبادت نماز سے فراغت ہوئی تو موت سے متعلق نماز وغیرہ کا بیان ضروری ہوا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں دو صد دس (210) احادیث بیان کی ہیں جن میں چھپن (56) معلق اور متابع ہیں اور باقی متصل اسانید سے ذکر کی گئی ہیں۔ ان میں سے تقریبا ایک سو نو (109) احادیث مکرر اور باقی ایک سو ایک (101) احادیث خالص ہیں۔ امام مسلم رحمہ اللہ نے چوبیس (24) احادیث کے علاوہ دیگر بیان کردہ احادیث کو اپنی صحیح میں ذکر کیا ہے۔ مرفوع متصل احادیث کے علاوہ اڑتالیس (48) آثار ہیں جو مختلف صحابہ کرام اور تابعین عظام سے مروی ہیں۔ ان میں سے چھ (6) موصول اور باقی معلق ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر تقریبا اٹھانوے (98) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو افادیت و معنویت کے اعتبار سے بے نظیر اور انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ ان عنوانات کے ذریعے سے امام بخاری رحمہ اللہ نے کئی ایک متعارض احادیث میں تطبیق دی اور ان کی تشریح فرمائی ہے، اس کے علاوہ محدثانہ اسرار و رموز بھی بیان کیے ہیں جن کی ہم ان کے مقامات پر وضاحت کریں گے۔بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے جنازہ اور متعلقات جنازہ کے متعلق مکمل ہدایات دی ہیں، بلکہ قبر اور بعد القبر کے حقائق سے بھی پردہ اٹھایا ہے۔ ان تمہیدی گزارشات کو سامنے رکھتے ہوئے احادیث کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے فکروعمل کو اپنے ہاں شرف قبولیت سے نوازے۔آمين
تمہید باب
خلاس بن عمرو اور امام طاؤس وغیرہ کا خیال ہے کہ تجہیز و تکفین کی تیاری میت کے ثلث مال سے کی جائے گی۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے واضح فرمایا ہے کہ مذکورہ موقف صحیح نہیں بلکہ اس کے اخراجات تمام مال سے پورے کیے جائیں۔ اگر تجہیز و تکفین پر سارا مال خرچ ہو جاتا ہے تو ورثاء کو کچھ نہیں دیا جائے گا۔ (فتح الباری: 3/180) حضرت عطاء کے اثر کو امام دارمی نے موصولا بیان کیا ہے کہ حنوط (خوشبو کی ایک قسم) اور کفن کے اخراجات راس المال سے ادا کیے جائیں۔ (سنن الدارمی، الوصایا، باب من قال: الکفن من جمیع المال، حدیث: 3241) امام زہری، عمرو بن دینار اور قتادہ کے آثار کو مصنف عبدالرزاق میں ذکر کیا گیا ہے۔ (المصنف لعبدالرزاق: 3/435) ابراہیم نخعی کی بات کو امام دارمی نے متصل سند سے بیان کیا ہے۔ (سنن الدارمی، الوصایا، باب من قال: الکفن من جمیع المال، حدیث: 3241) سفیان ثوری نے فرمایا کہ کفن تمام مال سے تیار کیا جائے۔ ان سے دریافت کیا گیا کہ قبر اور غسل کی اجرت کے متعلق کیا حکم ہے؟ انہوں نے فرمایا: یہ سب کفن کے حکم میں ہیں، یعنی اس قسم کے اخراجات اس کے تمام راس المال سے ادا کیے جائیں گے۔ (فتح الباری: 3/180)
اور عطاء اور زہری اور عمرو بن دینار اور قتادہ ؓ کا یہی قول ہے۔ اور عمرو بن دینار نے کہا خوشبودار کا خرچ بھی سارے مال سے کیا جائے۔ اور ابراہیم نخعی نے کہا پہلے مال میں سے کفن کی تیاری کریں ‘ پھر قرض ادا کریں۔ پھر وصیت پوری کریں اور سفیان ثوری نے کہا قبر اور غسال کی اجرت بھی کفن میں داخل ہے۔
حدیث ترجمہ:
ابراہیم بن عبدالرحمان ؒ سے روایت ہے کہ حضرت عبدالرحمان بن عوف ؓ کے پاس ایک دن کھانا لایا گیا تو فرمانے لگے کہ مصعب بن عمیر ؓ کو شہید کردیا گیا اور وہ مجھ سے بہتر تھے۔ان کے ترکے سے ایک چادر کے سوا کفن نہ مل سکا۔ اس طرح حضرت حمزہ ؓ یا کوئی اور شخص جو مجھ سے بہتر تھا شہید کیا گیا تو ان کے لیے بھی ایک چادر کے علاوہ کفن میسر نہ آسکا۔ مجھے اندیشہ ہے کہ مبادا ہماری آخرت کی پاکیزہ چیزیں اس دنیوی زندگی ہی میں ہمیں دے دی جائیں، اسکے بعد انہوں نے رونا شروع کردیا۔
حدیث حاشیہ:
(1) امام بخاری ؒ نے ایک ضعیف حدیث کے الفاظ کو بطور عنوان استعمال کیا ہے، وہ اگرچہ سند کے اعتبار سے کمزور ہے، لیکن اس کا مضمون صحیح تھا، اس لیے صحیح روایت سے اسے ثابت کیا ہے، یعنی کفن کے اخراجات اس کے ترکے سے پورے کیے جائیں۔ اس میں غسل، خوشبو، قبر کی خریداری، کھودنے کی مزدوری، وہاں تک لے جانے کا کرایہ سب اخراجات کفن کا حصہ ہیں اور انہیں میت کے سرمائے سے پورا کیا جائے گا۔ اگر ان اخراجات کو پورا کرنے کے بعد کچھ بچ جائے تو میت کا قرض وغیرہ اتارا جائے، پھر ثلث مال سے اس کی وصیت کو پورا کیا جائے۔ اس کے بعد اس کی جائیداد ورثاء میں تقسیم ہو گی۔ (2) عنوان سے حدیث کی مطابقت بایں طور پر ہے کہ حضرت مصعب بن عمیر اور حضرت حمزہ ؓ کا جمع ترکہ صرف ایک چادر ہی تھا، اسے کفن میں استعمال کیا گیا۔ رسول اللہ ﷺ نے یہ دریافت نہیں فرمایا کہ ان کے ذمے کوئی قرض وغیرہ تو نہیں۔ ضرورت کے وقت شارع کا خاموش رہنا ہی بیان کی دلیل، یعنی اس مسئلے کو ثابت کرنا ہے کہ میت کے ترکے سے اولین ترجیح اس کے کفن دفن کے اخراجات ہیں۔ اگر اس سے کچھ بچ رہے تو قرضہ وغیرہ اتارا جائے، بصورت دیگر اس کے تمام ترکے کو کفن دفن کے اخراجات میں صرف کر دیا جائے۔ اس میں اختلاف ہے کہ اگر میت مقروض ہو اور اتنا قرض ہے کہ اس کا تمام مال قرض کی ادائیگی میں خرچ ہو سکتا ہے تو کفن کے لیے کتنا کپڑا لیا جائے؟ اتنا کفن کافی ہے جس سے ستر پوشی ہو سکے یا تمام بدن کو ڈھانکنے کے لیے کپڑا لینا چاہیے؟ حافظ ابن حجر ؒ نے اس بات کو راجح قرار دیا ہے کہ اس کے مال سے پورا بدن ڈھانپنے کے لیے کپڑا خریدا جائے۔ (فتح الباري:181/3) (3) ہمارے ہاں جہلاء قل خوانی، تیسرا، ساتواں اور چالیسواں، نیز قرآن خوانی کے اخراجات میت کے مال سے ادا کرتے ہیں۔ یہ سب بدعات ہیں اور ان میں شمولیت کرنے والے بالغ حضرات ان اخراجات کے ذمہ دار ہیں، کیونکہ ایسا کرنا میت کے حقوق میں شامل نہیں کہ ان کی ادائیگی کے لیے اس کا مال خرچ کیا جائے۔ اسی طرح اس کے مال سے کسی کو حج یا عمرے کے لیے بھیج دیا جاتا ہے۔ یہ بھی صحیح نہیں۔ ہاں، اگر ورثاء اجازت دیں تو باقی ماندہ مال سے حج وغیرہ کے اخراجات پورے کیے جا سکتے ہیں۔ والله أعلم۔ (4) ہمارے ہاں یہ رواج ہے کہ اگر شادی شدہ لڑکی فوت ہو جائے تو اسے کفن پہنانے کی ذمہ داری اس کے والدین پر ہے۔ یہ ایک جاہلانہ رسم ہے جسے ختم ہونا چاہیے، بلکہ خاوند کو چاہیے کہ وہ اس قسم کی ضروریات کو پورا کرے، والدین پر بوجھ نہ ڈالا جائے۔
ترجمۃ الباب:
حضرت عطاء۔ امام زہری۔ جناب عمرو بن دینار اور حضرت قتادہ نے یہی کہا ہے۔ عمرو بن دینار نے کہا ہے کہ خوشبو وغیرہ بھی جمیع مال سے لی جائے گی۔ حضرت ابراہیم نخعی نے کہا ہے: میت کے مال سے پہلے کفن دفن کے اخراجات منہا کیے جائیں، پھر قرض اتارا جائے، پھر وصیت وغیرہ کو جاری کیا جائے۔ سفیان ثوری نے کہا ہے: قبر اورغسل وغیرہ کی اجرت بھی کفن میں شامل ہے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے احمد بن محمد مکی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابراہیم بن سعد نے، ان سے ان کے باپ سعد نے اور ان سے ان کے والد ابراہیم بن عبدالرحمن نے بیان کیا کہ عبدالرحمن بن عوف ؓ کے سامنے ایک دن کھانا رکھا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ مصعب بن عمیر ؓ (غزوۂ احد میں) شہید ہوئے، وہ مجھ سے افضل تھے۔ لیکن ان کے کفن کے لیے ایک چادر کے سوا اور کوئی چیز مہیا نہ ہو سکی۔ اسی طرح جب حمزہ ؓ شہید ہوئے یا کسی دوسرے صحابی کا نام لیا، وہ بھی مجھ سے افضل تھے۔ لیکن ان کے کفن کے لیے بھی صرف ایک ہی چادر مل سکی۔ مجھے تو ڈر لگتا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہمارے چین اور آرام کے سامان ہم کو جلدی سے دنیا ہی میں دے دئیے گئے ہوں پھر وہ رونے لگے۔
حدیث حاشیہ:
امام المحدثین ؒ نے اس حدیث سے یہ ثابت کیا کہ حضرت مصعب اور حضرت امیر حمزہ ؓ کا کل مال اتنا ہی تھا۔ بس ایک چادر کفن کے لیے تو ایسے موقع پر سارا مال خرچ کرنا چاہیے۔ اس میں اختلاف ہے کہ میت قرض دار ہوتو صرف اتنا کفن دیا جائے کہ سترپوشی ہوجائے یا سارا بدن ڈھانکا جائے۔ حافظ ابن حجر نے اس کو ترجیح دی ہے کہ سارا بدن ڈھانکا جائے ایسا کفن دینا چاہیے۔ حضرت مصعب بن عمیر ؓ قریشی جلیل القدر صحابی ہیں رسول کریم ﷺ نے ہجرت سے پہلے ہی ان کو مدینہ شریف بطور معلم القرآن ومبلغ اسلام بھیج دیا تھا۔ ہجرت سے پہلے ہی انہوں نے مدینہ میں جمعہ قائم فرمایا جب کہ مدینہ خود ایک گاؤں تھا۔ اسلام سے قبل یہ قریش کے حسین نوجوانوں میں عیش وآرام میں زیب وزینت میں شہرت رکھتے تھے مگر اسلام لانے کے بعد یہ کامل درویش بن گئے۔ قرآن پاک کی آیت رِجَال ﴿صَدَقُوا مَا عَاهَدُو اللّٰہَ عَلَیهِ﴾(الأحزاب: 23) ان ہی کے حق میں نازل ہوئی۔ جنگ احد میں یہ شہید ہوئے۔ (رضي اللہ عنه وأرضاہ)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Sad from his father (RA): Once the meal of 'Abdur-Rahman bin 'Auf was brought in front of him, and he said, "Mustab bin 'Umar was martyred and he was better than I, and he had nothing except his Burd (a black square narrow dress) to be shrouded in. Hamza or another person was martyred and he was also better than I and he had nothing to be shrouded in except his Burd. No doubt, I fear that the rewards of my deeds might have been given early in this world." Then he started weeping. ________