ترجمة الباب:
وقال النبي ﷺ: كلكم راع ومسئول عن رعيته فإذا لم يكن من سنته فهو كما قالت عائشة ؓ : لا تزر وازرة وزر اخرى وهو كقوله : وإن تدع مثقلة ذنوبا إلى حملها لا يحمل منه شيء وما يرخص من البكاء في غير نوح , وقال النبي ﷺ: لا تقتل نفس ظلما إلا كان على ابن آدم الاول كفل من دمها وذلك لانه اول من سن القتل .
باب: نبی کریم ﷺ کا یہ فرمانا کہ میت پر اس کے گھر والوں کے رونے سے عذاب ہوتا ہے یعنی جب رونا ماتم کرنا میت کے خاندان کی رسم ہو۔
)
Sahi-Bukhari:
Funerals (Al-Janaa'iz)
(Chapter: The deceased is punished because of the weeping of his relatives)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
کیونکہ اللہ پاک نے سورۃ التحریم میں فرمایا کہ اپنے نفس کو اور اپنے گھر والوں کو دوزخ کی آگ سے بچاؤ یعنی ان کو برے کاموں سے منع کرو اور نبی کریم ﷺنے فرمایا تم میں ہر کوئی نگہبان ہے اور اپنے ماتحتوں سے پوچھا جائے گا اور اگر یہ رونا پیٹنا اس کے خاندان کی رسم نہ ہو اور پھر اچانک کوئی اس پر رونے لگے تو عائشہ ؓ کا دلیل لینا اس آیت سے صحیح ہے کہ کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ اور کوئی بوجھ اٹھانے والی جان دوسرے کو اپنا بوجھ اٹھانے کو بلائے تو وہ اس کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ اور بغیر نوحہ چلائے پیٹے رونا درست ہے۔ اور نبی کریم ﷺنے فرمایا کہ دنیا میں جب کوئی ناحق خون ہوتا ہے تو آدم کے پہلے بیٹے قابیل پر اس خون کا کچھ وبال پڑتا ہے کیونکہ ناحق خون کی بنا سب سے پہلے اسی نے ڈالی۔
1284.
حضرت اسامہ بن زید ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: نبی کریم ﷺ کی ایک صاحبزادی نے آپ کو پیغام بھیجا کہ میرا بیٹا فوت ہورہا ہے، آپ ہمارے ہاں تشریف لائیں۔ آپ نے سلام کہتے ہوئے واپس پیغام بھیجا اور فرمایا: ’’(اللہ تعالیٰ ہی کا سارا مال ہے) جواللہ نے لے لیا وہ اس کا تھا اور جو اس نے عطا کیا وہ بھی اسی کا ہے۔ اس کے ہاں ہر چیز کاوقت مقرر ہے، اس لیے اسے چاہیے کہ صبر کرے اور ثواب کی طلب گار رہے۔‘‘ صاحبزادی نے پھر پیغام بھیجا اور آپ کو قسم دی کہ ضرور تشریف لائیں، چنانچہ آپ کھڑے ہوئے اور آپ کے ساتھ حضرت سعد بن عبادہ، معاذ بن جبل، ابی بن کعب، زید بن ثابت اور مزید چندلوگ تھے۔ بچے کو رسول اللہ ﷺ کے پاس لایا گیا جبکہ اس کا سانس اکھڑا ہوا تھا۔ راوی نے کہا:میرا گمان ہے کہ اس نے کہا:گویا وہ مشکیزہ ہے۔ رسول اللہ ﷺ کی دونوں آنکھیں (یہ منظر دیکھ کر) بہنے لگیں توحضرت سعد ؓ نے عرض کیا:اللہ کے رسول ( ﷺ )! یہ روناکیسا ہے؟آپ نے فرمایا:’’یہ رحمت ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے دلوں میں رکھا ہے۔اور اللہ تعالیٰ رحم کرنے والے بندوں ہی پر رحم کرتاہے۔‘‘
تشریح:
(1) حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ حدیث میں مذکور ابن سے مراد علی بن ابی العاص ؓ ہو سکتے ہیں جو حضرت زینب ؓ کے بطن سے تھے، لیکن مذکورہ حدیث کے کسی طریق میں ان کا ذکر نہیں ہوا۔ یا اس سے مراد عبداللہ بن عثمان ؓ بھی ہو سکتے ہیں جو حضرت رقیہ کے بطن سے تھے۔ جب وہ فوت ہوئے تو رسول اللہ ﷺ نے انہیں اپنی گود میں اٹھایا اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں پر رحم کرتا ہے جنہیں دوسروں پر رحم کرنے کی عادت ہوتی ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اس سے مراد حضرت محسن بن علی ؓ ہوں جنہیں حضرت فاطمہ ؓ نے جنم دیا تھا۔ اہل علم کا اتفاق ہے کہ وہ صغر سنی ہی میں فوت ہو گئے تھے جبکہ رسول اللہ ﷺ بھی بقید حیات تھے۔ لیکن یہ اس صورت میں ہو سکتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پیغام بھیجنے والی حضرت زینب ؓ کے علاوہ کوئی دوسری لخت جگر ہو۔ صحیح بات یہ ہے کہ وہ حضرت زینب ؓ ہی تھیں اور وہ بچہ لڑکا نہیں بلکہ لڑکی تھی، جیسا کہ مسند امام احمد میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی طرف حضرت امام بنت زینب کو لایا گیا۔ اور یہ بھی ایک روایت میں ہے کہ وہ حضرت ابو العاص ؓ کی دختر تھیں۔ اس وقت ان کا سانس اکھڑا ہوا تھا، جیسا کہ رکھے ہوئے مشکیزے میں کوئی چیز بولتی ہو۔ بعض روایات میں امیمہ کا لفظ آیا ہے۔ وہ بھی امامہ مذکورہ ہی ہیں، کیونکہ علمائے انساب کا اتفاق ہے کہ حضرت زینب ؓ کے بطن سے حضرت ابو العاص کے دو ہی بچے تھے۔ ایک علی اور دوسری حضرت امامہ۔ لیکن اس میں اشکال یہ ہے کہ علمائے تاریخ کا اس امر پر بھی اتفاق ہے کہ حضرت امامہ ؓ رسول اللہ ﷺ کے بعد تک زندہ رہیں یہاں تک کہ حضرت فاطمہ ؓ کے بعد حضرت علی ؓ سے ان کا نکاح بھی ہوا اور حضرت على کی شہادت تک وہ ان کے ساتھ رہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی کافی عمر تھی۔ اس اشکال کا جواب یہ ہے کہ حضرت زینب نے جو رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں یہ پیغام بھیجا تھا کہ بچہ حالت نزع میں ہے اور اس کی روح قبض ہو رہی ہے، اس کا مطلب یہ تھا کہ وہ قریب الموت ہے، کیونکہ روایت حماد میں ہے کہ بچہ موت کی حالت میں ہے۔ روایت شعبہ کے الفاظ یہ ہیں کہ میری بیٹی کا وقت مرگ آ پہنچا ہے۔ سنن ابی داود میں بیٹا یا بیٹی تردد کے ساتھ ہے، لیکن صحیح بات یہ ہے کہ وہ لڑکی تھی، لڑکا نہ تھا۔ اس کی تائید طبرانی کی روایت سے بھی ہوتی ہے کہ حضرت امامہ بنت ابی العاص ؓ کا مرض شدید ہوا اور وہ قریب المرگ ہو گئیں تو حضرت زینب نے اپنے والد گرامی رسول اللہ ﷺ کو بلوایا اور آپ بھی اسے حالت نزع میں دیکھ کر آبدیدہ ہو گئے جس پر حضرت سعد ؓ نے سوال کیا، جیسا کہ حدیث میں ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس واقعے میں رسول اللہ ﷺ سے انتہائی اکرام کا معاملہ کیا ہے کہ اس وقت آپ کی تسلیم و رضا کی شان اور انتہائی رحمت و شفقت سے مجبور ہو کر آبدیدہ ہونے اور صاجزادی کے صبر و استقلال پر نظر فرما کر آپ کی نواسی کو کامل صحت و شفا عطا فرمائی اور بعد ازاں وہ طویل عرصے تک زندہ رہیں۔ آخر میں حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ اس عجیب و غریب معجزانہ واقعے کو رسول اللہ ﷺ کے معجزات میں بیان کرنا چاہیے تھا۔ (فتح الباري: 200/3) (2) اس حدیث سے امام بخاری ؒ نے ثابت کیا ہے کہ نوحے کے بغیر رونے کی اجازت ہے، جیسا کہ اس میں رسول اللہ ﷺ کے آبدیدہ ہونے کا ذکر ہے۔ بے ساختہ رونے پر نہ تو میت کو عذاب ہو گا اور نہ رونے والے ہی سے مؤاخذہ کیا جائے گا بلکہ اسے رسول اللہ ﷺ نے اللہ کی رحمت قرار دیا ہے۔ والله أعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1251
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1284
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1284
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1284
تمہید کتاب
لفظ جنائز، جنازه کی جمع ہے جس کے دو معنی ہیں: اگر جیم کے کسرہ (زیر) کے ساتھ ہو تو اس سے مراد میت ہے اور اگر جیم کے فتحہ (زبر) کے ساتھ پڑھا جائے تو اس کے معنی اس چارپائی یا تابوت کے ہیں جس پر میت پڑی ہو۔ امام نووی اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لفظ جنائز میں جیم پر صرف فتحہ متعین کیا ہے۔ لغوی طور پر اس کا ماخذ لفظ جنز ہے جسے چھپانے کے معنی میں استعمال کیا جاتا ہے۔اس حقیقت سے انکار نہیں کہ جو انسان دنیا میں آیا ہے اسے ایک دن موت کی آغوش میں جانا ہے۔ اگرچہ کسی انسان کو اپنی موت کے وقت کا علم نہیں، تاہم ہر شخص کی موت کا ایک معین اور اٹل وقت ہے، اس لیے مسلمان کو چاہیے کہ وہ اس سے لمحہ بھر کے لیے بھی غافل نہ ہو، اسے ہمیشہ یاد رکھے اور آخرت کے اس سفر کی تیاری کرتا رہے جسے اس نے اکیلے ہی طے کرنا ہے۔ اس سلسلے میں عافیت کا صرف ایک ہی راستہ ہے کہ ہم مرض و موت اور دیگر مصائب و آلام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات پر عمل کرتے رہیں۔ یہ ایک حقیقت اور تجربہ ہے کہ ایسا کرنے سے قلب و روح کو بڑا سکون نصیب ہوتا ہے اور آپ کی تعلیم و رہنمائی زخمی دل کا مرہم اور صدمے کی دوا بن جاتی ہے۔ علاوہ ازیں موت تو لقاء الٰہی (اللہ کی ملاقات) کا وسیلہ ہونے کی حیثیت سے بندہ مومن کے لیے محبوب و مطلوب بن جاتی ہے۔ یہ تو شرعی ہدایات کی دنیوی اور نقد برکات ہیں، آخرت میں وہ سب کچھ سامنے آئے گا جس کا آیات و احادیث میں وعدہ کیا گیا ہے۔محدثین کا عام دستور ہے کہ وہ کتاب الصلاۃ کے آخر میں کتاب الجنائز کے تحت مرض اور دیگر مصائب و آلام اور حوادث، مرض الموت اور موت کے وقت شرعی طرز عمل، پھر غسل میت، تجہیز و تکفین، نماز جنازہ، دفن، تعزیت یہاں تک کہ زیارت قبور سے متعلقہ احادیث لاتے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی اپنے اسلاف کا اتباع کرتے ہوئے کتاب الصلاۃ کے آخر میں کتاب الجنائز کو بیان کیا ہے کیونکہ انسان کی دو ہی حالتیں ہیں: ایک حالت زندگی سے متعلق ہے اور دوسری کا تعلق موت کے بعد سے ہے۔ اور ہر حالت کے متعلق عبادات اور معاملات کے احکام وابستہ ہیں۔ عبادات میں اہم چیز نماز ہے۔ جب زندگی کے متعلق اہم عبادت نماز سے فراغت ہوئی تو موت سے متعلق نماز وغیرہ کا بیان ضروری ہوا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں دو صد دس (210) احادیث بیان کی ہیں جن میں چھپن (56) معلق اور متابع ہیں اور باقی متصل اسانید سے ذکر کی گئی ہیں۔ ان میں سے تقریبا ایک سو نو (109) احادیث مکرر اور باقی ایک سو ایک (101) احادیث خالص ہیں۔ امام مسلم رحمہ اللہ نے چوبیس (24) احادیث کے علاوہ دیگر بیان کردہ احادیث کو اپنی صحیح میں ذکر کیا ہے۔ مرفوع متصل احادیث کے علاوہ اڑتالیس (48) آثار ہیں جو مختلف صحابہ کرام اور تابعین عظام سے مروی ہیں۔ ان میں سے چھ (6) موصول اور باقی معلق ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر تقریبا اٹھانوے (98) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو افادیت و معنویت کے اعتبار سے بے نظیر اور انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ ان عنوانات کے ذریعے سے امام بخاری رحمہ اللہ نے کئی ایک متعارض احادیث میں تطبیق دی اور ان کی تشریح فرمائی ہے، اس کے علاوہ محدثانہ اسرار و رموز بھی بیان کیے ہیں جن کی ہم ان کے مقامات پر وضاحت کریں گے۔بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے جنازہ اور متعلقات جنازہ کے متعلق مکمل ہدایات دی ہیں، بلکہ قبر اور بعد القبر کے حقائق سے بھی پردہ اٹھایا ہے۔ ان تمہیدی گزارشات کو سامنے رکھتے ہوئے احادیث کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے فکروعمل کو اپنے ہاں شرف قبولیت سے نوازے۔آمين
تمہید باب
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کا موقف تھا کہ میت کو اس کے گھر والوں کے اس پر نوحہ کرنے کی وجہ سے عذاب ہو گا جبکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی تھیں کہ ایسا کرنا عدل و انصاف کے خلاف ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس مشہور اختلاف کے درمیان تطبیق کی ایک صورت پیدا کی ہے اور طویل بحث کی ہے۔ امام صاحب فرماتے ہیں کہ گھر والوں کے رونے پیٹنے اور بین کرنے سے اس وقت عذاب ہو گا جب کسی شخص کی عادت نوحہ کرنے کی ہو اور اس کے گھر والے اس کی اقتدا کریں۔ اس صورت میں گویا اپنے اہل خانہ کے نوحہ کرنے کا سبب وہ خود ہو گا کیونکہ اس نے اپنی زندگی میں انہیں وعظ کر کے آگ سے نہ بچایا جبکہ وہ اپنے اہل خانہ کو آگ سے بچانے پر مامور تھا۔ تو اس کے مرنے کے بعد اس کے اہل خانہ کے نوحہ کرنے سے اسے عذاب دیا جائے گا۔ حدیث سے استدلال اس طرح ہے کہ جب اس نے نوحہ کیا تو اس نے اپنے نفس کی نگہبانی کی نہ اپنے گھر والوں ہی کی کیونکہ انہوں نے نوحہ کرنا خود اس سے سیکھا اور اس کی اقتدا کی۔ تو ان کے نوحہ کرنے کا سبب وہ خود ہوا، اس لیے اسے عذاب ہو گا۔ اور یہ ممکن ہے کہ سنت سے مراد وصیت ہو، یعنی مرتے وقت نوحہ کرنے کی وصیت کر جائے تو اسے اہل خانہ کے نوحہ کرنے کی وجہ سے عذاب ہو گا۔ اگر رونا دھونا اس کی عادت نہ تھی تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے موقف کے مطابق کسی کے گناہ کا عذاب دوسرے کو نہیں ہو گا، یعنی کسی نفس کا مؤاخذہ کسی دوسرے کے گناہ کی بنا پر نہیں ہو گا۔ اس عنوان کا حاصل یہ ہے کہ جس رونے سے میت کو عذاب ہو گا اس سے مراد بین کر کے رونا ہے۔ اس سے میت کو عذاب اس وقت ہو گا جب وہ اپنی زندگی میں نوحہ کرنے کا عادی ہو کیونکہ اس کا فعل اس کے اہل خانہ کے لیے طریقہ ہو جاتا ہے اور وہ اس طریقے کا سبب ہوتا ہے۔ اگر وہ اپنی زندگی میں ایسا کام نہیں کرتا تھا تو وہ ان کے طریقے کا سبب نہیں ہو گا۔ اس بنا پر ان کے رونے پیٹنے سے میت کو عذاب نہیں ہو گا۔ باب میں مذکور تعلیقات کو امام بخاری رحمہ اللہ نے خود ہی اپنی صحیح میں مختلف مقامات پر موصولا بیان کیا ہے۔
کیونکہ اللہ پاک نے سورۃ التحریم میں فرمایا کہ اپنے نفس کو اور اپنے گھر والوں کو دوزخ کی آگ سے بچاؤ یعنی ان کو برے کاموں سے منع کرو اور نبی کریم ﷺنے فرمایا تم میں ہر کوئی نگہبان ہے اور اپنے ماتحتوں سے پوچھا جائے گا اور اگر یہ رونا پیٹنا اس کے خاندان کی رسم نہ ہو اور پھر اچانک کوئی اس پر رونے لگے تو عائشہ ؓ کا دلیل لینا اس آیت سے صحیح ہے کہ کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ اور کوئی بوجھ اٹھانے والی جان دوسرے کو اپنا بوجھ اٹھانے کو بلائے تو وہ اس کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ اور بغیر نوحہ چلائے پیٹے رونا درست ہے۔ اور نبی کریم ﷺنے فرمایا کہ دنیا میں جب کوئی ناحق خون ہوتا ہے تو آدم کے پہلے بیٹے قابیل پر اس خون کا کچھ وبال پڑتا ہے کیونکہ ناحق خون کی بنا سب سے پہلے اسی نے ڈالی۔
حدیث ترجمہ:
حضرت اسامہ بن زید ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: نبی کریم ﷺ کی ایک صاحبزادی نے آپ کو پیغام بھیجا کہ میرا بیٹا فوت ہورہا ہے، آپ ہمارے ہاں تشریف لائیں۔ آپ نے سلام کہتے ہوئے واپس پیغام بھیجا اور فرمایا: ’’(اللہ تعالیٰ ہی کا سارا مال ہے) جواللہ نے لے لیا وہ اس کا تھا اور جو اس نے عطا کیا وہ بھی اسی کا ہے۔ اس کے ہاں ہر چیز کاوقت مقرر ہے، اس لیے اسے چاہیے کہ صبر کرے اور ثواب کی طلب گار رہے۔‘‘ صاحبزادی نے پھر پیغام بھیجا اور آپ کو قسم دی کہ ضرور تشریف لائیں، چنانچہ آپ کھڑے ہوئے اور آپ کے ساتھ حضرت سعد بن عبادہ، معاذ بن جبل، ابی بن کعب، زید بن ثابت اور مزید چندلوگ تھے۔ بچے کو رسول اللہ ﷺ کے پاس لایا گیا جبکہ اس کا سانس اکھڑا ہوا تھا۔ راوی نے کہا:میرا گمان ہے کہ اس نے کہا:گویا وہ مشکیزہ ہے۔ رسول اللہ ﷺ کی دونوں آنکھیں (یہ منظر دیکھ کر) بہنے لگیں توحضرت سعد ؓ نے عرض کیا:اللہ کے رسول ( ﷺ )! یہ روناکیسا ہے؟آپ نے فرمایا:’’یہ رحمت ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے دلوں میں رکھا ہے۔اور اللہ تعالیٰ رحم کرنے والے بندوں ہی پر رحم کرتاہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ حدیث میں مذکور ابن سے مراد علی بن ابی العاص ؓ ہو سکتے ہیں جو حضرت زینب ؓ کے بطن سے تھے، لیکن مذکورہ حدیث کے کسی طریق میں ان کا ذکر نہیں ہوا۔ یا اس سے مراد عبداللہ بن عثمان ؓ بھی ہو سکتے ہیں جو حضرت رقیہ کے بطن سے تھے۔ جب وہ فوت ہوئے تو رسول اللہ ﷺ نے انہیں اپنی گود میں اٹھایا اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں پر رحم کرتا ہے جنہیں دوسروں پر رحم کرنے کی عادت ہوتی ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اس سے مراد حضرت محسن بن علی ؓ ہوں جنہیں حضرت فاطمہ ؓ نے جنم دیا تھا۔ اہل علم کا اتفاق ہے کہ وہ صغر سنی ہی میں فوت ہو گئے تھے جبکہ رسول اللہ ﷺ بھی بقید حیات تھے۔ لیکن یہ اس صورت میں ہو سکتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پیغام بھیجنے والی حضرت زینب ؓ کے علاوہ کوئی دوسری لخت جگر ہو۔ صحیح بات یہ ہے کہ وہ حضرت زینب ؓ ہی تھیں اور وہ بچہ لڑکا نہیں بلکہ لڑکی تھی، جیسا کہ مسند امام احمد میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی طرف حضرت امام بنت زینب کو لایا گیا۔ اور یہ بھی ایک روایت میں ہے کہ وہ حضرت ابو العاص ؓ کی دختر تھیں۔ اس وقت ان کا سانس اکھڑا ہوا تھا، جیسا کہ رکھے ہوئے مشکیزے میں کوئی چیز بولتی ہو۔ بعض روایات میں امیمہ کا لفظ آیا ہے۔ وہ بھی امامہ مذکورہ ہی ہیں، کیونکہ علمائے انساب کا اتفاق ہے کہ حضرت زینب ؓ کے بطن سے حضرت ابو العاص کے دو ہی بچے تھے۔ ایک علی اور دوسری حضرت امامہ۔ لیکن اس میں اشکال یہ ہے کہ علمائے تاریخ کا اس امر پر بھی اتفاق ہے کہ حضرت امامہ ؓ رسول اللہ ﷺ کے بعد تک زندہ رہیں یہاں تک کہ حضرت فاطمہ ؓ کے بعد حضرت علی ؓ سے ان کا نکاح بھی ہوا اور حضرت على کی شہادت تک وہ ان کے ساتھ رہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی کافی عمر تھی۔ اس اشکال کا جواب یہ ہے کہ حضرت زینب نے جو رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں یہ پیغام بھیجا تھا کہ بچہ حالت نزع میں ہے اور اس کی روح قبض ہو رہی ہے، اس کا مطلب یہ تھا کہ وہ قریب الموت ہے، کیونکہ روایت حماد میں ہے کہ بچہ موت کی حالت میں ہے۔ روایت شعبہ کے الفاظ یہ ہیں کہ میری بیٹی کا وقت مرگ آ پہنچا ہے۔ سنن ابی داود میں بیٹا یا بیٹی تردد کے ساتھ ہے، لیکن صحیح بات یہ ہے کہ وہ لڑکی تھی، لڑکا نہ تھا۔ اس کی تائید طبرانی کی روایت سے بھی ہوتی ہے کہ حضرت امامہ بنت ابی العاص ؓ کا مرض شدید ہوا اور وہ قریب المرگ ہو گئیں تو حضرت زینب نے اپنے والد گرامی رسول اللہ ﷺ کو بلوایا اور آپ بھی اسے حالت نزع میں دیکھ کر آبدیدہ ہو گئے جس پر حضرت سعد ؓ نے سوال کیا، جیسا کہ حدیث میں ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس واقعے میں رسول اللہ ﷺ سے انتہائی اکرام کا معاملہ کیا ہے کہ اس وقت آپ کی تسلیم و رضا کی شان اور انتہائی رحمت و شفقت سے مجبور ہو کر آبدیدہ ہونے اور صاجزادی کے صبر و استقلال پر نظر فرما کر آپ کی نواسی کو کامل صحت و شفا عطا فرمائی اور بعد ازاں وہ طویل عرصے تک زندہ رہیں۔ آخر میں حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ اس عجیب و غریب معجزانہ واقعے کو رسول اللہ ﷺ کے معجزات میں بیان کرنا چاہیے تھا۔ (فتح الباري: 200/3) (2) اس حدیث سے امام بخاری ؒ نے ثابت کیا ہے کہ نوحے کے بغیر رونے کی اجازت ہے، جیسا کہ اس میں رسول اللہ ﷺ کے آبدیدہ ہونے کا ذکر ہے۔ بے ساختہ رونے پر نہ تو میت کو عذاب ہو گا اور نہ رونے والے ہی سے مؤاخذہ کیا جائے گا بلکہ اسے رسول اللہ ﷺ نے اللہ کی رحمت قرار دیا ہے۔ والله أعلم۔
ترجمۃ الباب:
ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو آگ سے بچاؤ۔ "نیز ارشاد نبوی ہے: "تم میں سے ہر ایک نگہبان ہے اور اس سے اپنی رعیت کے متعلق سوال ہوگا۔ "اورجب نوحہ کرنا اس کی عادت نہ ہوتو وہ حضرت عائشہ ؓ کے فرمان کے مطابق ہے: "کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کابوجھ نہیں اٹھائے گا۔ : "نیز وہ فرمان الٰہی کے مطابق ہے کہ: "اگرکوئی بوجھ اٹھانے والی جان کسی دوسرے کو بوجھ اٹھانے کے لیے بلائے تو اس سے کوئی چیز نہ اٹھائی جائے گی۔ "اور نوحہ کے بغیر رونے کی اجازت دی گئی ہے۔ نبی کریمﷺ کا ارشاد گرامی ہے: "کوئی جان بھی ناحق قتل ہوتی ہے تو حضرت آدم علیہ السلام کے بیٹے(قابیل) پر اس خون ناحق کا بوجھ ہوگا کیونکہ اس نے قتل ناحق کا طریقہ رائج کیا تھا۔ "
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبد ان اور محمد بن مقاتل نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں امام عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، کہا کہ ہم کو عاصم بن سلیمان نے خبر دی، انہیں ابوعثمان عبدالرحمن نہدی نے کہا کہ مجھ سے اسامہ بن زید ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ کی ایک صاحبزادی (حضرت زینب ؓ ) نے آپ ﷺ کو اطلاع کرائی کہ میرا ایک لڑکا مرنے کے قریب ہے، اس لیے آپ ﷺ تشریف لائیں۔ آپ ﷺ نے انہیں سلام کہلوایا اور کہلوایا کہ اللہ تعالیٰ ہی کا سارا مال ہے، جو لے لیا وہ اسی کا تھا اور جو اس نے دیا وہ بھی اسی کا تھا اور ہر چیز اس کی بارگاہ سے وقت مقررہ پر ہی واقع ہوتی ہے۔ اس لیے صبر کرو اور اللہ تعالیٰ سے ثواب کی امید رکھو۔ پھر حضرت زینب ؓ نے قسم دے کر اپنے یہاں بلوا بھیجا۔ اب رسول اللہ ﷺ جانے کے لیے اٹھے۔ آپ ﷺ کے ساتھ سعد بن عبادہ، معاذ بن جبل، ابی بن کعب، زیدبن ثابت اور بہت سے دوسرے صحابہ ؓ بھی تھے۔ بچے کو رسول اللہ ﷺ کے سامنے کیا گیا۔ جس کی جانکنی کا عالم تھا۔ ابو عثمان نے کہا کہ میرا خیال ہے کہ اسامہ ؓ نے فرمایا کہ جیسے پُرانا مشکیزہ ہوتا ہے (اور پانی کے ٹکرانے کی اندر سے آواز ہوتی ہے۔ اسی طرح جانکنی کے وقت بچہ کے حلق سے آواز آرہی تھی ) یہ دیکھ کر رسول اللہ ﷺ کی آنکھوں سے آنسو بہ نکلے۔ سعد ؓ بول اٹھے کہ یا رسول اللہ! یہ رونا کیسا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ تو اللہ کی رحمت ہے کہ جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے (نیک) بندوں کے دلوں میں رکھا ہے اور اللہ تعالیٰ بھی اپنے ان رحم دل بندوں پر رحم فرماتا ہے جو دوسروں پر رحم کرتے ہیں۔
حدیث حاشیہ:
اس مسئلہ میں ابن عمر اور عائشہ ؓ کا ایک مشہور اختلاف تھا کہ میت پر اس کے گھر والوں کے نوحہ کی وجہ سے عذاب ہوگا یا نہیں؟ امام بخاری ؒ نے اس باب میں اسی اختلاف پر یہ طویل محاکمہ کیا ہے۔ اس سے متعلق مصنف ؒ متعدد احادیث ذکر کریں گے اور ایک طویل حدیث میں جو اس باب میں آئے گی۔ دونوں کی اس سلسلے میں اختلاف کی تفصیل بھی موجود ہے۔ عائشہ ؓ کا خیال یہ تھا کہ میت پر اس کے گھر والوں کے نوحہ سے عذاب نہیں ہوتا، کیونکہ ہر شخص صرف اپنے عمل کا ذمہ دار ہے۔ قرآن میں خود ہے کہ کسی پر دوسرے کی کوئی ذمہ داری نہیں ﴿لاَ تَزِرُ وَازِرَة وِّزرَ اُخرٰی﴾(الأنعام : 164) اس لیے نوحہ کی وجہ سے جس گناہ کے مرتکب مردہ کے گھروالے ہوتے ہیں، اس کی ذمہ داری مردے پر کیسے ڈالی جاسکتی ہے؟ لیکن ابن عمر ؓ کے پیش نظریہ حدیث تھی ’’میت پر اس کے گھر والوں کے نوحہ سے عذاب ہوتا ہے۔‘‘ حدیث صاف تھی اور خاص میت کے لیے لیکن قرآن میں ایک عام حکم بیان ہوا ہے۔ عائشہ ؓ کا جواب یہ تھا کہ ابن عمر سے غلطی ہوئی، آنحضور ﷺ کا ارشاد ایک خاص واقعہ سے متعلق تھا۔ کسی یہودی عورت کا انتقال ہوگیا تھا۔ اس پر اصل عذاب کفر کی وجہ سے ہورہا تھا، لیکن مزید اضافہ گھر والوں کے نوحہ نے بھی کردیا تھا کہ وہ اس کے استحاق کے خلاف اس کا ماتم کررہے تھے اور خلاف واقعہ نیکیوں کو اس کی طرف منسوب کر رہے تھے۔ اس لیے حضور ﷺ نے اس موقع پر جو کچھ فرمایا وہ مسلمانوں کے بارے میں نہیں تھا۔ لیکن علماء نے حضرت ابن عمر ؓ کے خلاف حضرت عائشہ کے اس استدلال کو تسلیم نہیں کیا ہے۔ دوسری طرف ابن عمر ؓ کی حدیث کو بھی ہر حال میں نافذ نہیں کیا بلکہ اس کی نوک پلک دوسرے شرعی اصول وشواہد کی روشنی میں درست کئے گئے ہیں اور پھر اسے ایک اصول کی حیثیت سے تسلیم کیا گیا ہے۔ علماء نے اس حدیث کی جو مختلف وجوہ و تفصیلات بیان کی ہیں، انہیں حافظ ابن حجر ؒ نے تفصیل کے ساتھ لکھا ہے۔ اس پر امام بخاری ؒ کے محاکمہ کا حاصل یہ ہے کہ شریعت کا ایک اصول ہے۔ حدیث میں ہے: کلکم راع وکلکم مسؤل عن رعیته۔ہر شخص نگراں ہے اور اس کے ماتحتوں سے متعلق اس سے سوال ہوگا۔ یہ حدیث متعدد اور مختلف روایتوں سے کتب احادیث اور خود بخاری میں موجود ہے۔ یہ ایک مفصل حدیث ہے اور اس میں تفصیل کے ساتھ یہ بتایا گیا ہے کہ بادشاہ سے لے کر ایک معمولی سے معمولی خادم تک راعی اور نگراں کی حیثیت رکھتا ہے اور ان سب سے ان کی رعیتوں کے متعلق سوال ہو گا۔ یہاں صاحب تفہیم البخاری نے ایک فاضلانہ بیان لکھا ہے جسے ہم شکریہ کے ساتھ ’’تشریح‘‘ میں نقل کرتے ہیں۔ قرآن مجید میں ہے کہ ﴿قُوا أنفسَکُم وأهلِيکُم ناراً﴾ ( التحریم:6 ) خود کو اور اپنے گھر والوں کو دوزخ کی آگ سے بچاؤ۔ امام بخاری ؒ نے اس موقع پر واضح کیا ہے کہ جس طرح اپنی اصلاح کا حکم شریعت نے دیا ہے، اسی طرح اپنی رعیت کی اصلاح کا بھی حکم ہے، اس لیے ان میں سے کسی ایک کی اصلاح سے غفلت تباہ کن ہے۔ اب اگر مردے کے گھر غیر شرعی نوحہ وماتم کا رواج تھا، لیکن اپنی زندگی میں اس نے انہیں اس سے نہیں روکا اور اپنے گھر میں ہونے والے اس منکر پر واقفیت کے باوجود اس نے تساہل سے کام لیا تو شریعت کی نظر میں وہ بھی مجرم ہے۔ شریعت نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا ایک اصول بنادیا تھا۔ ضروری تھا کہ اس اصول کے تحت اپنی زندگی میں اپنے گھر والوں کو اس سے باز رکھنے کی کوشش کرتا۔ لیکن اگر اس نے ایسا نہیں کیا، تو گویا وہ خود اس عمل کا سبب بنا ہے۔ شریعت کی نظر اس سلسلے میں بہت دور تک ہے۔ اسی محاکمہ میں امام بخاری ؒ نے یہ حدیث نقل کی ہے کہ ’’کوئی شخص اگر ظلماً ( ظالمانہ طور پر) قتل کیا جاتا ہے تو اس قتل کی ایک حد تک ذمہ داری آدم ؑ کے سب سے پہلے بیٹے (قابیل) پر عائد ہوتی ہے۔‘‘ قابیل نے اپنے بھائی ہابیل کو قتل کردیا تھا۔ یہ روئے زمین پر سب سے پہلا ظالمانہ قتل تھا۔ اس سے پہلے دنیا اس سے ناواقف تھی۔ اب چونکہ اس طریقہ ظلم کی ایجاد سب سے پہلے آدم ؑ کے بیٹے قابیل نے کی تھی، اس لیے قیامت تک ہونے والے ظالمانہ قتل کے گناہ کا ایک حصہ اس کے نام بھی لکھا جائے گا۔ شریعت کے اس اصول کو اگر سامنے رکھا جائے تو عذاب وثواب کی بہت سی بنیادی گر ہیں کھل جائیں۔ حضرت عائشہ ؓ کے بیان کردہ اصول پر بھی ایک نظر ڈال لیجئے۔ انہوں نے فرمایا تھا کہ قرآن نے خود فیصلہ کردیا ہے کہ ’’کسی انسان پر دوسرے کی کوئی ذمہ داری نہیں۔‘‘ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا تھا کہ مرنے والے کو کیا اختیار ہے؟ اس کا تعلق اب اس عالم ناسوت سے ختم ہوچکا ہے۔ نہ وہ کسی کو روک سکتا ہے اور نہ اس پر قدرت ہے۔ پھر اس ناکردہ گناہ کی ذمہ داری اس پر عائد کرنا کس طرح صحیح ہوسکتا ہے؟ اس موقع پر اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ شریعت نے ہر چیز کے لیے اگرچہ ضابطے اور قاعدے متعین کردئیے ہیں، لیکن بعض اوقات کسی ایک میں بہت سے اصول بیک وقت جمع ہوجاتے ہیں اور یہیں سے اجتہاد کی حد شروع ہوجاتی ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ جزئی کس ضابطے کے تحت آ سکتی ہے؟ اور ان مختلف اصول میں اپنے مضمرات کے اعتبار سے جزئی کس اصول سے زیادہ قریب ہے؟ اس مسئلہ میں حضرت عائشہ ؓ نے اپنے اجتہاد سے یہ فیصلہ کیا تھا کہ میت پر نوحہ وماتم کا میت سے تعلق قرآن کے بیان کردہ اس اصول سے متعلق ہے کہ ’’کسی انسان پر دوسرے کی ذمہ داری نہیں۔‘‘ جیسا کہ ہم نے تفصیل سے بتایا کہ عائشہ ؓ کے اجتہاد کو امت نے اس مسئلہ میں قبول نہیں کیا ہے۔ اس باب پر ہم نے یہ طویل نوٹ اس لیے لکھا کہ اس میں روز مرہ زندگی سے متعلق بعض بنیادی اصول سامنے آئے تھے۔ جہاں تک نوحہ وماتم کا سوال ہے اسے اسلام ان غیر ضروری اور لغو حرکتوں کی وجہ سے رد کرتا ہے جو اس سلسلے میں کی جاتی تھیں۔ ورنہ عزیز وقریب یا کسی بھی متعلق کی موت پر غم قدرتی چیز ہے اور اسلام نہ صرف اس کے اظہار کی اجازت دیتا ہے، بلکہ حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض افراد کو جن کے دل میں اپنے عزیز وقریب کی موت سے کوئی ٹیس نہیں لگی، آنحضورﷺ نے انہیں سخت دل کہا۔ خود حضور اکرم ﷺ کی زندگی میں کئی ایسے واقعات پیش آئے جب آپ ﷺ کے کسی عزیز وقریب کی وفات پر آپ ﷺ کا پیمانہ صبر لبریز ہوگیا اور آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے۔ (تفہیم البخاری) نصوص شرعیہ کی موجودگی میں ان کے خلاف اجتہاد قابل قبول نہیں ہے۔ خواہ اجتہاد کرنے والا کوئی ہو۔ رائے اور قیاس ہی وہ بیماریاں ہیں جنہوں نے امت کا بیڑہ غرق کر دیا اور امت تقسیم درتقسیم ہوکر رہ گئی۔ حضرت امام بخاری ؒ نے حضرت عائشہ ؓ کے قول کی مناسب توجیہ فرمادی ہے، وہی ٹھیک ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Usama bin Zaid (RA): The daughter of the Prophet (ﷺ) sent (a messenger) to the Prophet (ﷺ) requesting him to come as her child was dying (or was gasping), but the Prophet (ﷺ) returned the messenger and told him to convey his greeting to her and say: "Whatever Allah takes is for Him and whatever He gives, is for Him, and everything with Him has a limited fixed term (in this world) and so she should be patient and hope for Allah's reward." She again sent for him, swearing that he should come. The Prophet (ﷺ) got up, and so did Sad bin 'Ubadahh, Muadh bin Jabal, Ubai bin Ka'b (RA), Zaid bin Thabit and some other men. The child was brought to Allah's Apostle (ﷺ) while his breath was disturbed in his chest (the sub-narrator thinks that Usama added:) as if it was a leather water-skin. On that the eyes of the Prophet (ﷺ) started shedding tears. Sad said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! What is this?" He replied, "It is mercy which Allah has lodged in the hearts of His slaves, and Allah is merciful only to those of His slaves who are merciful (to others). ________