باب: اس بیان میں کہ حصول علم میں شرمانا مناسب نہیں ہے!
)
Sahi-Bukhari:
Knowledge
(Chapter: (What is said as regards): To be shy (Al-Haya) while learning (religious) knowledge)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
مجاہد کہتے ہیں کہ متکبر اور شرمانے والا آدمی علم حاصل نہیں کر سکتا۔ ام المؤمنین حضرت عائشہ ؓ کا ارشاد ہے کہ انصار کی عورتیں اچھی عورتیں ہیں کہ شرم انھیں دین میں سمجھ پیدا کرنے سے نہیں روکتی۔متکبر اپنے تکبر کی حماقت میں مبتلا ہے جو کسی سے تحصیل علم اپنی کسرشان سمجھتا ہے اور شرم کرنے والا اپنی کم عقلی سے ایسی جگہ حیادار بن رہا ہے، جہاں حیا وشرم کا کوئی مقام نہیں۔
131.
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’درختوں میں ایک درخت ایسا ہے جس کے پتے نہیں جھڑتے۔ اس کی شان مسلمان کی طرح ہے۔ بتاؤ وہ کون سا درخت ہے؟‘‘ یہ سن کر لوگوں کے خیالات جنگل کے درختوں کی طرف گئے، لیکن میرے ذہن میں یہ آیا کہ وہ کھجور کا درخت ہے۔ حضرت ابن عمر فرماتے ہیں: (لیکن) مجھے شرم دامن گیر ہو گئی۔ لوگوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ ہی بتائیں وہ کون سا درخت ہے؟ آپ نے فرمایا:’’وہ کھجور کا درخت ہے۔‘‘ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کہتے ہیں: میں نے اپنے والد گرامی (حضرت عمر ؓ) سے وہ بات بیان کی جو میرے دل میں آئی تھی تو انہوں نے کہا: کاش! تم نے یہ بات کہہ دی ہوتی تو یہ میرے لیے بڑی دولت ہوتی۔
تشریح:
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حیا کے متعلق جو عنوان قائم کیا ہے وہ مجمل ہے۔ اس سلسلے میں کوئی صریح حکم بیان نہیں کیا قرآئن سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے دو پہلو ہیں۔ اس کا مثبت یہ ہے کہ سائل کو علمی مسائل دریافت کرنے کے لیے حیا داری کو قائم رکھنا چاہیے۔ اس سلسلے میں جرات و دلیری اور بے باکی مستحسن اقدام نہیں ہے۔ حضرات انصار کی خواتین، حضرت اُم سلیم رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور حضرت اُم سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے مکمل شرم و حیا کے ساتھ سوالات کر کے تفقہ فی الدین حاصل کیا۔ دوسرا منفی پہلو یہ ہے کہ صفت حیا جو سراسر محمود ہے اسے غلط استعمال کر کے علم سے محرومی کا سامان نہیں کرنا چاہیے حضرت مجاہد کے ارشاد کا یہی مطلب ہے لیکن حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ طلب علم کے سلسلے میں حیا کو مستحسن قرار نہیں دیتے اور مذکورہ حدیث سے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اظہار افسوس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما اگر اکابر کی موجودگی کو اپنے بیان کے لیے رکاوٹ خیال کرتے تھے تو وہ کسی دوسرے کو بتا دیتے تاکہ وہ ان کی طرف سے ترجمانی کر دیتا۔ آئندہ باب قائم کر کے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اسی بات کی طرف اشارہ کیا ہے۔ (فتح الباري: 303/1)۔ لیکن حافظ ابن حجر کی وضاحت پر دل مطمئن نہیں ہے کیونکہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حیا کو مستحسن قراردیتے ہیں۔ انھوں نے حصول علم کے لیے سوال کرنے میں حیا کا استعمال نہیں کیا بلکہ جواب دینے میں حیا داری سے کام لیا ہے، اس لیے کہ بزرگوں کا احترام بھی ہمارے اسلامی آداب کا ایک اہم حصہ ہے۔ جہاں تک علمی بات معلوم کرنے کا تعلق ہے تو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما یقینی طور پر جانتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود اس پہیلی کا جواب دیں گے ۔ باقی رہا حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا اظہار افسوس، تو اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ انھوں نے ان کی خاموشی کو برا محسوس کیا ہو۔ بہر حال امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کی خاموشی غیر مستحسن نہیں ہے۔ واللہ أعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
133
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
131
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
131
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
131
تمہید کتاب
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے علم کی طرف توجہ دلائی ہے کیونکہ علم، جہالت کی ضد ہے اور جہالت تاریکی کا نام جس میں واضح چیزیں بھی چھپی رہتی ہیں اور جب علم کی روشنی نمودار ہوتی ہے تو چھپی چیزیں بھی واضح ہونے لگتی ہیں۔ انھوں نے علم کی تعریف سے تعرض نہیں کیا، اس لیے کہ علم کو تعریف کی ضرورت نہیں۔عطرآں باشد کہ خود بیویدانہ کہ عطاربگوید نیز اشیاء کی حقیقت و ماہیت بیان کرنا اس کتاب کا موضوع نہیں ہے۔ایمانیات کے بعد کتاب العلم کا افتتاح کیا کیونکہ ایمان کے بعد دوسرا درجہ علم کا ہے۔اس کا ارشاد کلام الٰہی سے بھی ملتا ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے:(يَرْفَعِ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ)( المجادلۃ 58۔11۔)"اللہ تعالیٰ تم میں سے اہل ایمان اور اہل علم کے درجات بلند کردے گا۔"اس آیت کریمہ میں پہلے اہل ایمان اور پھر اہل علم کا تذکرہ ہے چونکہ ایمان کی پابندی ہر مکلف پر سب سے پہلے عائد ہوتی ہے نیز ایمان سب سے افضل و اعلیٰ اور ہر علمی اور عملی خیر کا اساسی پتھر ہے، اس لیے علم سے پہلے ایمان کا تذکرہ ضروری تھا۔ ایمانیات کے بعد کتاب العلم لانے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جو چیزیں ایمان میں مطلوب ہیں اور جن پر عمل کرنے سے ایمان میں کمال پیدا ہوتا ہے۔ ان کا حصول علم کے بغیر ممکن نہیں۔ پھر ایمان اور علم میں ایک گہرا رشتہ بھی ہے وہ یہ کہ علم کے بغیر ایمان میں روشنی اور بالیدگی پیدا نہیں ہوتی اور نہ ایمان کے بغیر علوم و معاررف ہی لائق اعتنا ہیں۔کتاب العلم کو دیگر ابواب سے پہلے بیان کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ دیگر ابواب کا تعلق انسان کی عملی زندگی سے ہے اور اللہ کے ہاں اس عمل کو قبولیت کا درجہ حاصل ہوگا جوعلی وجہ البصیرت کیا جائے گا۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک دنیاوی علوم میں مہارت پیدا کرنا کوئی پسندیدہ اور کار آمد مشغلہ نہیں کیونکہ ان کا فائدہ عارضی اور چند روز ہے۔ ان کے نزدیک اصل علم قرآن و حدیث کا علم ہے۔ پھر ان دونوں کے متعلق اللہ کی عطا کردہ فہم و فراست ہے کیونکہ ایسے معارف کا نفع مستقل اور پائیدار ہے پھر اگر اس علم کو اخلاص و عمل سے آراستہ کر لیا جائے تو آخرت میں ذریعہ نجات ہے۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کی اکثریت کے متعلق بایں الفاظ شکوہ کیا ہے:(يَعْلَمُونَ ظَاهِرًا مِّنَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَهُمْ عَنِ الْآخِرَةِ هُمْ غَافِلُونَ)"وہ تو دنیا وی زندگی کے ظاہر ہی کو جانتے ہیں۔اور اخروی معاملات سے تو بالکل ہی بے خبر ہیں۔"( الروم :30۔7۔)اس بنا پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب العلم میں حقیقی علم کی اہمیت و حیثیت ،افادیت ،علم حدیث، اس کے آداب وفضائل ، اس کی حدود و شرائط ، آداب تحمل حدیث ،آداب تحدیث ، صیغ ادا، رحلات علمیہ، کتابت حدیث،آداب طالب ، آداب شیخ ، فتوی ، آداب فتوی اور ان کے علاوہ بے شمار علمی حقائق و معارف کو بیان کیا ہے جن کی مکمل تفصیل اس تمہیدی گفتگو میں بیان نہیں کی جا سکتی۔ آئندہ صفحات میں موقع و محل کے مطابق ایسے علمی جواہرات کی وضاحت کی جائے گی۔ قارئین کرام سے درخواست ہے کہ وہ ان تمہیدی گزارشات کو ذہن میں رکھتے ہوئے کتاب العلم کا مطالعہ کریں۔
مجاہد کہتے ہیں کہ متکبر اور شرمانے والا آدمی علم حاصل نہیں کر سکتا۔ ام المؤمنین حضرت عائشہ ؓ کا ارشاد ہے کہ انصار کی عورتیں اچھی عورتیں ہیں کہ شرم انھیں دین میں سمجھ پیدا کرنے سے نہیں روکتی۔متکبر اپنے تکبر کی حماقت میں مبتلا ہے جو کسی سے تحصیل علم اپنی کسرشان سمجھتا ہے اور شرم کرنے والا اپنی کم عقلی سے ایسی جگہ حیادار بن رہا ہے، جہاں حیا وشرم کا کوئی مقام نہیں۔
حدیث ترجمہ:
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’درختوں میں ایک درخت ایسا ہے جس کے پتے نہیں جھڑتے۔ اس کی شان مسلمان کی طرح ہے۔ بتاؤ وہ کون سا درخت ہے؟‘‘ یہ سن کر لوگوں کے خیالات جنگل کے درختوں کی طرف گئے، لیکن میرے ذہن میں یہ آیا کہ وہ کھجور کا درخت ہے۔ حضرت ابن عمر فرماتے ہیں: (لیکن) مجھے شرم دامن گیر ہو گئی۔ لوگوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ ہی بتائیں وہ کون سا درخت ہے؟ آپ نے فرمایا:’’وہ کھجور کا درخت ہے۔‘‘ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کہتے ہیں: میں نے اپنے والد گرامی (حضرت عمر ؓ) سے وہ بات بیان کی جو میرے دل میں آئی تھی تو انہوں نے کہا: کاش! تم نے یہ بات کہہ دی ہوتی تو یہ میرے لیے بڑی دولت ہوتی۔
حدیث حاشیہ:
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حیا کے متعلق جو عنوان قائم کیا ہے وہ مجمل ہے۔ اس سلسلے میں کوئی صریح حکم بیان نہیں کیا قرآئن سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے دو پہلو ہیں۔ اس کا مثبت یہ ہے کہ سائل کو علمی مسائل دریافت کرنے کے لیے حیا داری کو قائم رکھنا چاہیے۔ اس سلسلے میں جرات و دلیری اور بے باکی مستحسن اقدام نہیں ہے۔ حضرات انصار کی خواتین، حضرت اُم سلیم رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور حضرت اُم سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے مکمل شرم و حیا کے ساتھ سوالات کر کے تفقہ فی الدین حاصل کیا۔ دوسرا منفی پہلو یہ ہے کہ صفت حیا جو سراسر محمود ہے اسے غلط استعمال کر کے علم سے محرومی کا سامان نہیں کرنا چاہیے حضرت مجاہد کے ارشاد کا یہی مطلب ہے لیکن حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ طلب علم کے سلسلے میں حیا کو مستحسن قرار نہیں دیتے اور مذکورہ حدیث سے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اظہار افسوس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما اگر اکابر کی موجودگی کو اپنے بیان کے لیے رکاوٹ خیال کرتے تھے تو وہ کسی دوسرے کو بتا دیتے تاکہ وہ ان کی طرف سے ترجمانی کر دیتا۔ آئندہ باب قائم کر کے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اسی بات کی طرف اشارہ کیا ہے۔ (فتح الباري: 303/1)۔ لیکن حافظ ابن حجر کی وضاحت پر دل مطمئن نہیں ہے کیونکہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حیا کو مستحسن قراردیتے ہیں۔ انھوں نے حصول علم کے لیے سوال کرنے میں حیا کا استعمال نہیں کیا بلکہ جواب دینے میں حیا داری سے کام لیا ہے، اس لیے کہ بزرگوں کا احترام بھی ہمارے اسلامی آداب کا ایک اہم حصہ ہے۔ جہاں تک علمی بات معلوم کرنے کا تعلق ہے تو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما یقینی طور پر جانتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود اس پہیلی کا جواب دیں گے ۔ باقی رہا حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا اظہار افسوس، تو اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ انھوں نے ان کی خاموشی کو برا محسوس کیا ہو۔ بہر حال امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کی خاموشی غیر مستحسن نہیں ہے۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حضرت مجاہد کہتے ہیں: حیا کرنے والا اور تکبر کرنے والا علم حاصل نہیں کر سکتا۔ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں: انصار کی عورتیں کیا خوب ہیں، انہیں دین میں سمجھ حاصل کرنے میں شرم دامن گیر نہیں ہوتی۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے اسماعیل نے بیان کیا، ان سے مالک نے عبداللہ بن دینار کے واسطے سے بیان کیا، وہ عبداللہ بن عمر سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے (ایک مرتبہ) فرمایا کہ درختوں میں سے ایک درخت (ایسا) ہے۔ جس کے پتے (کبھی) نہیں جھڑتے اور اس کی مثال مسلمان جیسی ہے۔ مجھے بتلاؤ وہ کیا (درخت) ہے؟ تو لوگ جنگلی درختوں (کی سوچ) میں پڑ گئے اور میرے دل میں آیا (کہ میں بتلا دوں) کہ وہ کھجور (کا پیڑ) ہے، عبداللہ کہتے ہیں کہ پھر مجھے شرم آ گئی (اور میں چپ ہی رہا) تب لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! آپ ہی (خود) اس کے بارہ میں بتلائیے، آپ ﷺ نے فرمایا، وہ کھجور ہے۔ عبداللہ کہتے ہیں کہ میرے جی میں جو بات تھی وہ میں نے اپنے والد (حضرت عمر ؓ) کو بتلائی، وہ کہنے لگے کہ اگر تو (اس وقت) کہہ دیتا تو میرے لیے ایسے ایسے قیمتی سرمایہ سے زیادہ محبوب ہوتا۔
حدیث حاشیہ:
اس سے قبل بھی دوسرے باب کے تحت یہ حدیث آچکی ہے۔ یہاں اس لیے بیان کی ہے کہ ا س میں شرم کا ذکر ہے۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اگرشرم نہ کرتے تو جواب دینے کی فضیلت انھیں حاصل ہوجاتی، جس کی طرف حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اشارہ فرمایا کہ اگر تم بتلا دیتے تو میرے لیے بہت بڑی خوشی ہوتی۔ اس حدیث سے بھی معلوم ہوا کہ ایسے موقع پر شرم سے کام نہ لینا چاہئیے۔ اس سے اولاد کی نیکیوں اور علمی صلاحیتوں پر والدین کا خوش ہونا بھی ثابت ہوا جو ایک فطری امرہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah bin 'Umar (RA): Once Allah's Apostle (ﷺ) said, "Amongst the trees there is a tree, the leaves of which do not fall and is like a Muslim, tell me the name of that tree." Everybody started thinking about the trees of the desert areas and I thought of the date-palm tree but felt shy (to answer). The others asked, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! inform us of it." He replied, "it is the date-palm tree." I told my father what had come to my mind and on that he said, "Had you said it I would have preferred it to such and such a thing that I might possess."