باب: نیک میت چارپائی پر کہتا ہے کہ مجھے آگے بڑھائے چلو (جلد دفناؤ)۔
)
Sahi-Bukhari:
Funerals (Al-Janaa'iz)
(Chapter: The saying of the deceased while he is being carried on the bier, "Take me quickly.")
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1316.
حضرت ابو خدری ؓ سے روایت ہے،انھوں نے کہا:نبی ﷺ نے فرمایا:’’جب جنازہ تیار کر کے رکھ دیا جا تا ہے اور لوگ اسے اپنے کندھوں پر اٹھالیتے ہیں تو اگر وہ نیک ہو تو کہتا ہے:مجھے جلدی آگے لے چلو اور اگر وہ نیک نہ ہو تو وہ اپنے گھر والوں سے کہتا ہے:افسوس! تم مجھے کہاں لے جا رہے ہو؟ انسانوں کے علاوہ اس کی آواز کو ہر چیز سنتی ہے۔ اگر انسان اسے سن لیں تو(مارےدہشت کے) بے ہوش ہو جائیں۔‘‘
تشریح:
(1) امام بخاری ؒ نے مذکورہ حدیث پر ایک اور عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے: (كلام الميت علی الجنازة)’’میت کا چارپائی پر کلام کرنا‘‘ یہ تکرار نہیں، کیونکہ اس حدیث سے جنازے کو جلدی لے کر چلنا ثابت کیا گیا ہے۔ گویا یہ پہلے عنوان کا تکملہ اور تتمہ ہے اور یہ باب فی باب کی قبیل سے ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ جنازہ اٹھاتے ہی اس کی پیشی شروع ہو جاتی ہے۔ (2) واضح رہے کہ جنازہ اٹھاتے وقت اللہ تعالیٰ میت کو برزخی زبان عطا کر دیتا ہے۔ اگر وہ جنتی ہے تو اس جنت کے شوق میں کہتا ہے کہ مجھے جلدی جلدی لے چلو تاکہ میں اپنی مراد کو حاصل کروں اور اگر دوزخی ہے تو گھبرا کر کہتا ہے کہ مجھے کہاں لے جا رہے ہو؟ اس وقت اللہ تعالیٰ ایسے طریقے سے بولنے کی طاقت دیتا ہے کہ اس کی آواز کو جنوں اور انسانوں کے علاوہ تمام مخلوق سنتی ہے۔ (3) اس حدیث سے بعض حضرات نے سماع موتیٰ کا مسئلہ کشید کیا ہے جو بالکل بے بنیاد ہے۔ اس کی وضاحت ہم حدیث: 3976 میں کریں گے۔ (4) (إذا وضعت الجنازة) کے دو مفہوم ہیں: ایک یہ کہ جب میت کو تیار کر کے چارپائی پر رکھ دیا جاتا ہے، دوسرا یہ کہ جب میت کو گردنوں پر اٹھا لیا جاتا ہے۔ پہلا مفہوم زیادہ واضح ہے اور اس کی تائید اس حدیث سے ہوتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’نیک آدمی کو جب چارپائی پر رکھا جاتا ہے تو کہتا ہے کہ مجھے جلد لے چلو، مجھے جلد لے چلو۔‘‘(سنن النسائي، الجنائز، حدیث: 1909)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1280
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1316
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1316
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1316
تمہید کتاب
لفظ جنائز، جنازه کی جمع ہے جس کے دو معنی ہیں: اگر جیم کے کسرہ (زیر) کے ساتھ ہو تو اس سے مراد میت ہے اور اگر جیم کے فتحہ (زبر) کے ساتھ پڑھا جائے تو اس کے معنی اس چارپائی یا تابوت کے ہیں جس پر میت پڑی ہو۔ امام نووی اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لفظ جنائز میں جیم پر صرف فتحہ متعین کیا ہے۔ لغوی طور پر اس کا ماخذ لفظ جنز ہے جسے چھپانے کے معنی میں استعمال کیا جاتا ہے۔اس حقیقت سے انکار نہیں کہ جو انسان دنیا میں آیا ہے اسے ایک دن موت کی آغوش میں جانا ہے۔ اگرچہ کسی انسان کو اپنی موت کے وقت کا علم نہیں، تاہم ہر شخص کی موت کا ایک معین اور اٹل وقت ہے، اس لیے مسلمان کو چاہیے کہ وہ اس سے لمحہ بھر کے لیے بھی غافل نہ ہو، اسے ہمیشہ یاد رکھے اور آخرت کے اس سفر کی تیاری کرتا رہے جسے اس نے اکیلے ہی طے کرنا ہے۔ اس سلسلے میں عافیت کا صرف ایک ہی راستہ ہے کہ ہم مرض و موت اور دیگر مصائب و آلام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات پر عمل کرتے رہیں۔ یہ ایک حقیقت اور تجربہ ہے کہ ایسا کرنے سے قلب و روح کو بڑا سکون نصیب ہوتا ہے اور آپ کی تعلیم و رہنمائی زخمی دل کا مرہم اور صدمے کی دوا بن جاتی ہے۔ علاوہ ازیں موت تو لقاء الٰہی (اللہ کی ملاقات) کا وسیلہ ہونے کی حیثیت سے بندہ مومن کے لیے محبوب و مطلوب بن جاتی ہے۔ یہ تو شرعی ہدایات کی دنیوی اور نقد برکات ہیں، آخرت میں وہ سب کچھ سامنے آئے گا جس کا آیات و احادیث میں وعدہ کیا گیا ہے۔محدثین کا عام دستور ہے کہ وہ کتاب الصلاۃ کے آخر میں کتاب الجنائز کے تحت مرض اور دیگر مصائب و آلام اور حوادث، مرض الموت اور موت کے وقت شرعی طرز عمل، پھر غسل میت، تجہیز و تکفین، نماز جنازہ، دفن، تعزیت یہاں تک کہ زیارت قبور سے متعلقہ احادیث لاتے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی اپنے اسلاف کا اتباع کرتے ہوئے کتاب الصلاۃ کے آخر میں کتاب الجنائز کو بیان کیا ہے کیونکہ انسان کی دو ہی حالتیں ہیں: ایک حالت زندگی سے متعلق ہے اور دوسری کا تعلق موت کے بعد سے ہے۔ اور ہر حالت کے متعلق عبادات اور معاملات کے احکام وابستہ ہیں۔ عبادات میں اہم چیز نماز ہے۔ جب زندگی کے متعلق اہم عبادت نماز سے فراغت ہوئی تو موت سے متعلق نماز وغیرہ کا بیان ضروری ہوا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں دو صد دس (210) احادیث بیان کی ہیں جن میں چھپن (56) معلق اور متابع ہیں اور باقی متصل اسانید سے ذکر کی گئی ہیں۔ ان میں سے تقریبا ایک سو نو (109) احادیث مکرر اور باقی ایک سو ایک (101) احادیث خالص ہیں۔ امام مسلم رحمہ اللہ نے چوبیس (24) احادیث کے علاوہ دیگر بیان کردہ احادیث کو اپنی صحیح میں ذکر کیا ہے۔ مرفوع متصل احادیث کے علاوہ اڑتالیس (48) آثار ہیں جو مختلف صحابہ کرام اور تابعین عظام سے مروی ہیں۔ ان میں سے چھ (6) موصول اور باقی معلق ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر تقریبا اٹھانوے (98) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو افادیت و معنویت کے اعتبار سے بے نظیر اور انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ ان عنوانات کے ذریعے سے امام بخاری رحمہ اللہ نے کئی ایک متعارض احادیث میں تطبیق دی اور ان کی تشریح فرمائی ہے، اس کے علاوہ محدثانہ اسرار و رموز بھی بیان کیے ہیں جن کی ہم ان کے مقامات پر وضاحت کریں گے۔بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے جنازہ اور متعلقات جنازہ کے متعلق مکمل ہدایات دی ہیں، بلکہ قبر اور بعد القبر کے حقائق سے بھی پردہ اٹھایا ہے۔ ان تمہیدی گزارشات کو سامنے رکھتے ہوئے احادیث کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے فکروعمل کو اپنے ہاں شرف قبولیت سے نوازے۔آمين
حضرت ابو خدری ؓ سے روایت ہے،انھوں نے کہا:نبی ﷺ نے فرمایا:’’جب جنازہ تیار کر کے رکھ دیا جا تا ہے اور لوگ اسے اپنے کندھوں پر اٹھالیتے ہیں تو اگر وہ نیک ہو تو کہتا ہے:مجھے جلدی آگے لے چلو اور اگر وہ نیک نہ ہو تو وہ اپنے گھر والوں سے کہتا ہے:افسوس! تم مجھے کہاں لے جا رہے ہو؟ انسانوں کے علاوہ اس کی آواز کو ہر چیز سنتی ہے۔ اگر انسان اسے سن لیں تو(مارےدہشت کے) بے ہوش ہو جائیں۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) امام بخاری ؒ نے مذکورہ حدیث پر ایک اور عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے: (كلام الميت علی الجنازة)’’میت کا چارپائی پر کلام کرنا‘‘ یہ تکرار نہیں، کیونکہ اس حدیث سے جنازے کو جلدی لے کر چلنا ثابت کیا گیا ہے۔ گویا یہ پہلے عنوان کا تکملہ اور تتمہ ہے اور یہ باب فی باب کی قبیل سے ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ جنازہ اٹھاتے ہی اس کی پیشی شروع ہو جاتی ہے۔ (2) واضح رہے کہ جنازہ اٹھاتے وقت اللہ تعالیٰ میت کو برزخی زبان عطا کر دیتا ہے۔ اگر وہ جنتی ہے تو اس جنت کے شوق میں کہتا ہے کہ مجھے جلدی جلدی لے چلو تاکہ میں اپنی مراد کو حاصل کروں اور اگر دوزخی ہے تو گھبرا کر کہتا ہے کہ مجھے کہاں لے جا رہے ہو؟ اس وقت اللہ تعالیٰ ایسے طریقے سے بولنے کی طاقت دیتا ہے کہ اس کی آواز کو جنوں اور انسانوں کے علاوہ تمام مخلوق سنتی ہے۔ (3) اس حدیث سے بعض حضرات نے سماع موتیٰ کا مسئلہ کشید کیا ہے جو بالکل بے بنیاد ہے۔ اس کی وضاحت ہم حدیث: 3976 میں کریں گے۔ (4) (إذا وضعت الجنازة) کے دو مفہوم ہیں: ایک یہ کہ جب میت کو تیار کر کے چارپائی پر رکھ دیا جاتا ہے، دوسرا یہ کہ جب میت کو گردنوں پر اٹھا لیا جاتا ہے۔ پہلا مفہوم زیادہ واضح ہے اور اس کی تائید اس حدیث سے ہوتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’نیک آدمی کو جب چارپائی پر رکھا جاتا ہے تو کہتا ہے کہ مجھے جلد لے چلو، مجھے جلد لے چلو۔‘‘(سنن النسائي، الجنائز، حدیث: 1909)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے لیث نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے سعید مقبری نے بیان کیا۔ ان سے ان کے والد ( کیسان ) نے اور انہوں نے ابوسعید خدری ؓ سے سنا‘ آپ نے کہا کہ نبی کریم ﷺ فرمایا کرتے تھے کہ جب میت چارپائی پر رکھی جاتی ہے اور لوگ اسے کاندھوں پر اٹھاتے ہیں اس وقت اگر وہ مرنے والا نیک ہوتا ہے تو کہتا ہے کہ مجھے جلد آگے بڑھائے چلو۔ لیکن اگر نیک نہیں ہوتا تو کہتا ہے کہ ہائے بربادی! مجھے کہاں لیے جارہے ہو۔ اس کی یہ آواز انسان کے سواہر مخلوق خدا سنتی ہے۔ کہیں اگر انسان سن پائے تو بے ہوش ہوجائے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Sa'id Al-Khudri The Prophet (ﷺ) said, "When a funeral is ready and the men carry the deceased on their necks (shoulders), if it was pious then it will say, 'Present me quickly', and if it was not pious, then it will say, 'Woe to it (me), where are they taking it (me)?' And its voice is heard by everything except mankind and if he heard it he would fall unconscious." ________