باب: کہ میت کو کسی خاص وجہ سے قبر یا لحد سے باہر نکالا جا سکتا ہے؟
)
Sahi-Bukhari:
Funerals (Al-Janaa'iz)
(Chapter: Can the dead body be taken out of its grave)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1351.
حضرت جابر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: جب اُحد کا واقعہ پیش آیا تو میرے والد گرامی حضرت عبد اللہ ؓ نے مجھے اس رات بلایا اور فرمایا کہ میرے گمان کے مطابق نبی ﷺ کے صحابہ کرام ؓ میں سے جو شہید ہوں گے۔ ان میں پہلا مقتول میں خود ہوں گا اور میں رسول اللہ ﷺ کی ذات کریمہ کے سوا اپنے بعد کسی کو تجھ سے زیادہ عزیز نہیں چھوڑرہا ہوں۔ مجھ پر قرض ہے۔ اسے ادا کردینا اور اپنی بہنوں سے اچھا برتاؤ کرنا۔ صبح ہوئی تو سب سے پہلے شہید ہونے والے وہی تھے، چنانچہ ان کے ساتھ قبر میں ایک دوسرے شہید کو بھی دفن کردیا گیا، لیکن میرے دل کو یہ بات اچھی نہ لگی کہ میں اپنے والد گرامی کو دوسرے شخص کے ساتھ چھوڑدوں، اس لیے میں نے چھ ماہ بعد انھیں قبر سے نکال لیا۔ وہ اسی طرح تھے جس طرح میں نے انھیں دفن کیا تھا، صرف کان کا تھوڑا سا حصہ متاثرہوا تھا ۔
تشریح:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جس سبب کے پیش نظر میت کو نکالا جا سکتا ہے، اس کا تعلق میت کے بجائے اس کے کسی عزیز سے بھی ہو سکتا ہے، کیونکہ حضرت جابر ؓ کے والد گرامی کو صرف ان کی خواہش کی تکمیل کے پیش نظر نکالا گیا، اس ضرورت کا تعلق میت سے نہیں تھا، کیونکہ اگر کسی کو دوسرے کے ساتھ دفن کر دیا جائے تو اسے کسی قسم کا نقصان نہیں پہنچتا۔ صرف حضرت جابر ؓ کو ان کا دوسرے کے ساتھ دفن ہونا اچھا نہ لگا، اس لیے انہوں نے نکال کر دوسری جگہ دفن کر دیا۔ (2) واضح رہے کہ حضرت جابر ؓ کے والد گرامی کے ساتھ دفن ہونے والے شہید حضرت عمرو بن جموح ؓ تھے جو ان کے والد محترم کے مخلص دوست اور بہنوئی تھے۔ ان کی بہن ہند بنت عمرو اپنے بھائی عبداللہ بن عمرو اور اپنے خاوند عمرو بن جموح کو اونٹ پر لاد کر مدینہ منورہ لے آئی تھی تاکہ انہیں جنت البقیع میں دفن کیا جائے، لیکن رسول اللہ ﷺ نے انہیں واپس میدانِ اُحد میں بھیج دیا اور وہیں دفن کرنے کا حکم دیا۔ (فتح الباري:275/3)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1314
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1351
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1351
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1351
تمہید کتاب
لفظ جنائز، جنازه کی جمع ہے جس کے دو معنی ہیں: اگر جیم کے کسرہ (زیر) کے ساتھ ہو تو اس سے مراد میت ہے اور اگر جیم کے فتحہ (زبر) کے ساتھ پڑھا جائے تو اس کے معنی اس چارپائی یا تابوت کے ہیں جس پر میت پڑی ہو۔ امام نووی اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لفظ جنائز میں جیم پر صرف فتحہ متعین کیا ہے۔ لغوی طور پر اس کا ماخذ لفظ جنز ہے جسے چھپانے کے معنی میں استعمال کیا جاتا ہے۔اس حقیقت سے انکار نہیں کہ جو انسان دنیا میں آیا ہے اسے ایک دن موت کی آغوش میں جانا ہے۔ اگرچہ کسی انسان کو اپنی موت کے وقت کا علم نہیں، تاہم ہر شخص کی موت کا ایک معین اور اٹل وقت ہے، اس لیے مسلمان کو چاہیے کہ وہ اس سے لمحہ بھر کے لیے بھی غافل نہ ہو، اسے ہمیشہ یاد رکھے اور آخرت کے اس سفر کی تیاری کرتا رہے جسے اس نے اکیلے ہی طے کرنا ہے۔ اس سلسلے میں عافیت کا صرف ایک ہی راستہ ہے کہ ہم مرض و موت اور دیگر مصائب و آلام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات پر عمل کرتے رہیں۔ یہ ایک حقیقت اور تجربہ ہے کہ ایسا کرنے سے قلب و روح کو بڑا سکون نصیب ہوتا ہے اور آپ کی تعلیم و رہنمائی زخمی دل کا مرہم اور صدمے کی دوا بن جاتی ہے۔ علاوہ ازیں موت تو لقاء الٰہی (اللہ کی ملاقات) کا وسیلہ ہونے کی حیثیت سے بندہ مومن کے لیے محبوب و مطلوب بن جاتی ہے۔ یہ تو شرعی ہدایات کی دنیوی اور نقد برکات ہیں، آخرت میں وہ سب کچھ سامنے آئے گا جس کا آیات و احادیث میں وعدہ کیا گیا ہے۔محدثین کا عام دستور ہے کہ وہ کتاب الصلاۃ کے آخر میں کتاب الجنائز کے تحت مرض اور دیگر مصائب و آلام اور حوادث، مرض الموت اور موت کے وقت شرعی طرز عمل، پھر غسل میت، تجہیز و تکفین، نماز جنازہ، دفن، تعزیت یہاں تک کہ زیارت قبور سے متعلقہ احادیث لاتے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی اپنے اسلاف کا اتباع کرتے ہوئے کتاب الصلاۃ کے آخر میں کتاب الجنائز کو بیان کیا ہے کیونکہ انسان کی دو ہی حالتیں ہیں: ایک حالت زندگی سے متعلق ہے اور دوسری کا تعلق موت کے بعد سے ہے۔ اور ہر حالت کے متعلق عبادات اور معاملات کے احکام وابستہ ہیں۔ عبادات میں اہم چیز نماز ہے۔ جب زندگی کے متعلق اہم عبادت نماز سے فراغت ہوئی تو موت سے متعلق نماز وغیرہ کا بیان ضروری ہوا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں دو صد دس (210) احادیث بیان کی ہیں جن میں چھپن (56) معلق اور متابع ہیں اور باقی متصل اسانید سے ذکر کی گئی ہیں۔ ان میں سے تقریبا ایک سو نو (109) احادیث مکرر اور باقی ایک سو ایک (101) احادیث خالص ہیں۔ امام مسلم رحمہ اللہ نے چوبیس (24) احادیث کے علاوہ دیگر بیان کردہ احادیث کو اپنی صحیح میں ذکر کیا ہے۔ مرفوع متصل احادیث کے علاوہ اڑتالیس (48) آثار ہیں جو مختلف صحابہ کرام اور تابعین عظام سے مروی ہیں۔ ان میں سے چھ (6) موصول اور باقی معلق ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر تقریبا اٹھانوے (98) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو افادیت و معنویت کے اعتبار سے بے نظیر اور انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ ان عنوانات کے ذریعے سے امام بخاری رحمہ اللہ نے کئی ایک متعارض احادیث میں تطبیق دی اور ان کی تشریح فرمائی ہے، اس کے علاوہ محدثانہ اسرار و رموز بھی بیان کیے ہیں جن کی ہم ان کے مقامات پر وضاحت کریں گے۔بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے جنازہ اور متعلقات جنازہ کے متعلق مکمل ہدایات دی ہیں، بلکہ قبر اور بعد القبر کے حقائق سے بھی پردہ اٹھایا ہے۔ ان تمہیدی گزارشات کو سامنے رکھتے ہوئے احادیث کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے فکروعمل کو اپنے ہاں شرف قبولیت سے نوازے۔آمين
حضرت جابر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: جب اُحد کا واقعہ پیش آیا تو میرے والد گرامی حضرت عبد اللہ ؓ نے مجھے اس رات بلایا اور فرمایا کہ میرے گمان کے مطابق نبی ﷺ کے صحابہ کرام ؓ میں سے جو شہید ہوں گے۔ ان میں پہلا مقتول میں خود ہوں گا اور میں رسول اللہ ﷺ کی ذات کریمہ کے سوا اپنے بعد کسی کو تجھ سے زیادہ عزیز نہیں چھوڑرہا ہوں۔ مجھ پر قرض ہے۔ اسے ادا کردینا اور اپنی بہنوں سے اچھا برتاؤ کرنا۔ صبح ہوئی تو سب سے پہلے شہید ہونے والے وہی تھے، چنانچہ ان کے ساتھ قبر میں ایک دوسرے شہید کو بھی دفن کردیا گیا، لیکن میرے دل کو یہ بات اچھی نہ لگی کہ میں اپنے والد گرامی کو دوسرے شخص کے ساتھ چھوڑدوں، اس لیے میں نے چھ ماہ بعد انھیں قبر سے نکال لیا۔ وہ اسی طرح تھے جس طرح میں نے انھیں دفن کیا تھا، صرف کان کا تھوڑا سا حصہ متاثرہوا تھا ۔
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جس سبب کے پیش نظر میت کو نکالا جا سکتا ہے، اس کا تعلق میت کے بجائے اس کے کسی عزیز سے بھی ہو سکتا ہے، کیونکہ حضرت جابر ؓ کے والد گرامی کو صرف ان کی خواہش کی تکمیل کے پیش نظر نکالا گیا، اس ضرورت کا تعلق میت سے نہیں تھا، کیونکہ اگر کسی کو دوسرے کے ساتھ دفن کر دیا جائے تو اسے کسی قسم کا نقصان نہیں پہنچتا۔ صرف حضرت جابر ؓ کو ان کا دوسرے کے ساتھ دفن ہونا اچھا نہ لگا، اس لیے انہوں نے نکال کر دوسری جگہ دفن کر دیا۔ (2) واضح رہے کہ حضرت جابر ؓ کے والد گرامی کے ساتھ دفن ہونے والے شہید حضرت عمرو بن جموح ؓ تھے جو ان کے والد محترم کے مخلص دوست اور بہنوئی تھے۔ ان کی بہن ہند بنت عمرو اپنے بھائی عبداللہ بن عمرو اور اپنے خاوند عمرو بن جموح کو اونٹ پر لاد کر مدینہ منورہ لے آئی تھی تاکہ انہیں جنت البقیع میں دفن کیا جائے، لیکن رسول اللہ ﷺ نے انہیں واپس میدانِ اُحد میں بھیج دیا اور وہیں دفن کرنے کا حکم دیا۔ (فتح الباري:275/3)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے مسدد نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم کو بشربن مفضل نے خبر دی‘ کہا کہ ہم سے حسین معلم نے بیان کیا‘ ان سے عطاءبن ابی رباح نے‘ ان سے جابر ؓ نے بیان کیا کہ جب جنگ احد کا وقت قریب آگیا تو مجھے میرے باپ عبداللہ نے رات کو بلاکر کہا کہ مجھے ایسا دکھائی دیتا ہے کہ نبی کریم ﷺ کے اصحاب میں سب سے پہلا مقتول میں ہی ہوں گا اور دیکھو نبی کریم ﷺ کے سوا دوسرا کوئی مجھے ( اپنے عزیزوں اور وارثوں میں ) تم سے زیادہ عزیز نہیں ہے‘ میں مقروض ہوں اس لیے تم میرا قرض ادا کردینا اور اپنی ( نو ) بہنوں سے اچھا سلوک کرنا۔ چنانچہ جب صبح ہوئی تو سب سے پہلے میرے والد ہی شہید ہوئے۔ قبر میں آپ کے ساتھ میں نے ایک دوسرے شخص کو بھی دفن کیا تھا۔ پر میرا دل نہیں مانا کہ انہیں دوسرے صاحب کے ساتھ یوں ہی قبر میں رہنے دوں۔ چنانچہ چھ مہینے کے بعد میں نے ان کی لاش کو قبر سے نکالا دیکھا تو صرف کان تھوڑا سا گلنے کے سوا باقی سارا جسم اسی طرح تھا جیسے دفن کیا گیا تھا۔
حدیث حاشیہ:
جابر ؓ کے والد عبداللہ ؓ آنحضرت ﷺ کے سچے جاں نثار تھے اور ان کے دل میں جنگ کا جوش بھرا ہوا تھا۔ انہوں نے یہ ٹھان لی کہ میں کافروں کو ماروں گا اور مروں گا۔ کہتے ہیں کہ انہوں نے ایک خواب بھی دیکھا تھا کہ مبشربن عبداللہ جو جنگ بدر میں شہید ہوئے تھے وہ ان کو کہہ رہے تھے کہ تم ہمارے پاس ان ہی دنوں میں آنا چاہتے ہو۔ انہوں نے یہ خواب آنحضرت ﷺ کی خدمت میں بیان کیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ تمہاری قسمت میں شہادت لکھی ہوئی ہے۔ چنانچہ یہ خواب سچا ثابت ہوا۔ اس حدیث سے ایک مومن کی شان بھی معلوم ہوئی کہ اس کو آنحضرت ﷺ سب سے زیادہ عزیز ہوں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Jabir (RA): When the time of the Battle of Uhud approached, my father called me at night and said, "I think that I will be the first amongst the companions of the Prophet (ﷺ) to be martyred. I do not leave anyone after me dearer to me than you, except Allah's Apostle's soul and I owe some debt and you should repay it and treat your sisters favorably (nicely and politely)." So in the morning he was the first to be martyred and was buried along with another (martyr). I did not like to leave him with the other (martyr) so I took him out of the grave after six months of his burial and he was in the same condition as he was on the day of burial, except a slight change near his ear. ________