مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1386.
حضرت سمرہ بن جندب ؓ سے روایت ہے،انھوں نے فرمایا:نبی کریم ﷺ جب نماز(فجر) سے فارغ ہوتے تو ہماری طرف منہ کرکے فرماتے:’’تم میں سے کسی نے آج رات کوئی خواب دیکھا ہے؟‘‘ اگر کسی نے کوئی خواب دیکھاہوتا تو وہ بیان کردیتا،پھر جو کچھ اللہ چاہتا آپ اس کی تعبیر بیان کرتے، چنانچہ اسی طرح ایک دن آپ نے ہم سے پوچھا:’’کیا تم میں سے کسی نے کوئی خواب دیکھا ہے؟‘‘ ہم نے عرض کیا:نہیں آپ نے فرمایا:’’مگر میں نے آج رات دو آدمیوں کو خواب میں دیکھا کہ وہ میرے پاس آئے اور میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے ایک مقدس زمین پر لے گئے۔ وہاں میں کیا دیکھتا ہوں کہ ایک آدمی بیٹھا اور دوسرا کھڑا ہے جس کے ہاتھ میں لوہے کا آنکڑا ہے جسے وہ بیٹھے ہوئے آدمی کے جبڑے میں داخل کرتا ہے جو اس طرف کوچیرتا ہوا،اس کی گدی تک پہنچ جاتا ہے، پھر اس کے دوسرے جبڑے میں بھی ایسا ہی کرتا ہے۔ اس عرصے میں پہلاجبڑا ٹھیک ہوجاتا ہے۔ پھر یہ دوبارہ ایسے ہی کر دیتا ہے۔ میں نےپوچھا:یہ کیا ہے؟ ان دونوں نے مجھے کہا:آگے چلیے ۔ ہم چلے تو ایک ایسے شخص کے پاس پہنچے جو بالکل چت لیٹا ہوا ہے۔ اور ایک آدمی اس کے سرہانے ایک پتھر لیے کھڑا ہے۔ وہ اس پتھر سے اس کا سر پھوڑرہا ہے۔ جب پتھر مارتا ہے تو وہ لڑھک کردور چلا جاتا ہے، پھر وہ اسے جاکر اٹھالاتاہے۔ اور جب اس لیٹے ہوئے شخص کے پاس لوٹ کرآتاہے تو اس وقت تک اس کا سر جڑ کراچھا ہوجاتا ہے اور جیسے پہلے تھا اسی طرح ہوجاتا ہے۔ پھر اسے دوبارہ مارتا ہے۔ میں نے پوچھا:یہ کون ہے؟ ان دونوں نے کہا: آگے چلیے، چنانچہ ہم ایک گڑھے کی طرف چلے جو تنور کی طرح تھا۔ اس کا منہ تنگ اور پیندا چوڑا تھا۔ اس میں آگ جل رہی تھی اور اس میں برہنہ مرد اور عورتیں تھیں جب آگ بھڑکتی تو وہ (برہنہ لوگ) شعلوں کے ساتھ اچھل پڑتے اور نکلنے کے قریب ہوجاتے، پھر جب آگ دھیمی ہوجاتی تو وہ بھی دھڑام سے نیچے گرپڑتے۔ میں نے کہا:یہ کون ہے؟ ان دونوں نے کہا: آگے چلیے، چنانچہ ہم چلے اور ایک خونی نہر پر پہنچے۔ اس میں ایک شخص کھڑا تھا اور اس کے کنارے پر دوسراآدمی تھا جس کے سامنے بہت سے پتھر پڑے تھے، نہر کے اندر والاآدمی جب باہر آنا چاہتا تو کنارے والا آدمی اسکے منہ پر اس زور سے پتھر مارتا کہ وہ پھر اپنی جگہ پر لوٹ جاتا، پھر ایسا ہی کرتا رہا۔ جب بھی ہو نکلنا چاہتا تو دوسرا اس زور سے اس کے منہ پر پتھر مارتا کہ اسے اپنی جگہ پر لوٹا دیتا۔ میں نے پوچھا:یہ کون ہے؟ان دونوں نے کہا:آگے چلیے۔ ہم چل دیے۔ چلتے چلتے ہم ایک سرسبز باغ میں پہنچے جس میں ایک بڑا سا درخت تھا۔ اس کی جڑ کے قریب ایک بوڑھا آدمی اور کچھ بچے بیٹھے تھے۔ اب اچانک میں کیادیکھتا ہوں کہ اس درخت کے پاس ایک اور آدمی ہے جس کے سامنے آگ ہے اور وہ اسے سلگا رہا ہے۔ پھر وہ دونوں مجھے اس درخت پر چڑھا لے گئے اور وہاں انھوں نے مجھے ایک ایسے مکان میں داخل کیاجس سے بہتر مکان میں نے کبھی نہیں دیکھااس میں کچھ بوڑھے، کچھ جوان، کچھ عورتیں اور کچھ بچے تھے۔ پھر وہ دونوں مجھ کو وہاں سے نکال لائے اور درخت پر چڑھایا۔ وہاں بھی ایک مکان تھا جس میں مجھے داخل کیا۔ یہ مکان پہلے سے بھی زیادہ عمدہ اورشاندار تھا۔ اس میں بھی کچھ بوڑھے اور جوان آدمی موجود تھے۔ تب میں نے ان دونوں سے کہا:’’تم نے مجھے رات بھر پھرایا ہے، اب میں نے جو کچھ دیکھا ہے اس کی حقیقت بتاؤ؟‘‘ انھوں نے جواب دیا:اچھا۔ وہ شخص جسے آپ نے دیکھا کہ اس کا جبڑا چیرا جارہاتھا وہ بہت جھوٹا آدمی تھا اور جھوٹی باتیں کیاکرتاتھا جو اس سے نقل ہوکر تمام اطراف عالم میں پہنچ جاتی تھیں۔اسلیے قیامت تک اس کے ساتھ ایسا ہی معاملہ ہوتا رہے گا اور وہ شخص جسے آپ نے دیکھا کہ اس کاسر کچلاجارہا ہے۔یہ وہ شخص ہے جسے اللہ نے قرآن کا علم دیا تھا مگر وہ قرآن کو چھوڑ کر رات بھر سوتا رہتا اور دن میں بھی اس پر عمل نہیں کرتا تھا۔ روز قیامت تک اس کے سر پر یہی عمل ہوتا رہے گا۔ اور وہ لوگ جنھیں آپ نے گڑھے میں دیکھا، وہ زانی ہیں۔ اور جسے آپ نے نہر میں دیکھا وہ سود خور ہیں۔ وہ بوڑھا انسان جو درخت کی جڑ کے قریب بیٹھا ہوا تھا، وہ حضرت ابراہیم ؑ تھے اور چھوٹے بچے جو ان کے گرد بیٹھے ہوئے تھے، وہ لوگوں کے وہ بچے تھے جو(بلوغ سے پہلے) مرگئے۔ اور جو آدمی آگ تیز کررہا تھا وہ مالک، جہنم کا داروغہ تھا۔ اور وہ پہلا مکان جس میں آپ تشریف لے گئے تھے عام مسلمانوں کا گھر ہے اور یہ دوسرا شہیدوں کے لیے ہے ۔ میں جبرائیل ہوں اور یہ میکائل ہیں۔ اب آپ اپنا سر ا ٹھائیں۔ میں نے سراٹھایا تو یکایک دیکھتا ہوں کہ میرے اوپر ابر کی طرح کوئی چیز ہے۔ انھوں نے بتایا کہ یہ آپ کی اقامت گاہ ہے۔ میں نے کہا:’’مجھے اپنے مکان میں جانے دو۔‘‘ تو انھوں نےکہا:ابھی آپ کی کچھ عمر باقی ہے، اگر آپ اسے پورا کرچکے ہوتے تو اپنی رہائش گاہ میں جاسکتے تھے۔‘‘
تشریح:
(1) اس حدیث پر باب بلا عنوان ہے، گویا عنوان سابق کا تکملہ اور تتمہ ہے۔ (2) اس حدیث سے امام بخاری ؒ نے ثابت کیا ہے کہ لوگ مشرک ہوں یا مومن ان کی نابالغ اولاد جنت میں ہو گی، کیونکہ اس حدیث میں فرشتوں نے وضاحت کی ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ کے ارد گرد بیٹھے ہوئے بچے لوگوں کی نابالغ اولاد ہے۔ لوگوں کی اولاد کا لفظ عام ہے جو مشرکین کی اولاد کو بھی شامل ہے۔ اس میں کسی کی تخصیص نہیں۔ امام بخاری ؒ نے اس روایت کو كتاب التعبير میں بایں الفاظ بیان کیا ہے: ’’وہ بچے جو آپ نے حضرت ابراہیم ؑ کے گرد دیکھے تھے، وہ تھے جنہیں فطرت پر موت آئی تھی۔‘‘ صحابہ میں سے کسی نے کہا اللہ کے رسول! مشرکین کی اولاد بھی، آپ نے فرمایا: ’’مشرکین کی اولاد بھی ان میں شامل ہے۔‘‘(صحیح البخاري، التعبیر، حدیث:7047) اس روایت میں صراحت ہے کہ مشرکین کی وہ اولاد جو بلوغ سے پہلے مر گئی، ان کی موت فطرت پر تھی اور رسول اللہ ﷺ نے انہیں جنت میں دیکھا تھا۔ اس سے یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچتی ہے کہ مشرکین کے بچے بھی مسلمانوں کے بچوں کی طرح جنت میں ہوں گے۔ حافظ ابن حجر ؒ نے اس موقف کی تائید میں چند ایک روایات بھی پیش کی ہیں۔ حضرت انس ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’میں نے اپنے رب سے سوال کیا کہ اولاد آدم میں سے جو بے خبر ہیں انہیں عذاب میں مبتلا نہ کرنا۔ اللہ تعالیٰ نے میری اس دعا کو قبول کر لیا ہے۔‘‘(مسند أبي یعلیٰ:397/3، رقم:4087، طبع دارالکتب العلمیة، بیروت) روایت میں وضاحت ہے کہ ’’بےخبر‘‘ سے مراد معصوم بچے ہیں۔ خنساء بنت معاویہ اپنی پھوپھی سے بیان کرتی ہیں، انہوں نے کہا، میں نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا کہ جنت میں کون ہوں گے؟ تو آپ نے فرمایا: ’’انبیاء، شہداء اور نومولود بچے جنت میں ہوں گے۔‘‘(سنن أبي داود، الجھاد، حدیث:2521) ان دونوں احادیث کی اسناد حسن ہیں۔ (فتح الباري:312/3)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1347
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1386
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1386
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1386
تمہید کتاب
لفظ جنائز، جنازه کی جمع ہے جس کے دو معنی ہیں: اگر جیم کے کسرہ (زیر) کے ساتھ ہو تو اس سے مراد میت ہے اور اگر جیم کے فتحہ (زبر) کے ساتھ پڑھا جائے تو اس کے معنی اس چارپائی یا تابوت کے ہیں جس پر میت پڑی ہو۔ امام نووی اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لفظ جنائز میں جیم پر صرف فتحہ متعین کیا ہے۔ لغوی طور پر اس کا ماخذ لفظ جنز ہے جسے چھپانے کے معنی میں استعمال کیا جاتا ہے۔اس حقیقت سے انکار نہیں کہ جو انسان دنیا میں آیا ہے اسے ایک دن موت کی آغوش میں جانا ہے۔ اگرچہ کسی انسان کو اپنی موت کے وقت کا علم نہیں، تاہم ہر شخص کی موت کا ایک معین اور اٹل وقت ہے، اس لیے مسلمان کو چاہیے کہ وہ اس سے لمحہ بھر کے لیے بھی غافل نہ ہو، اسے ہمیشہ یاد رکھے اور آخرت کے اس سفر کی تیاری کرتا رہے جسے اس نے اکیلے ہی طے کرنا ہے۔ اس سلسلے میں عافیت کا صرف ایک ہی راستہ ہے کہ ہم مرض و موت اور دیگر مصائب و آلام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات پر عمل کرتے رہیں۔ یہ ایک حقیقت اور تجربہ ہے کہ ایسا کرنے سے قلب و روح کو بڑا سکون نصیب ہوتا ہے اور آپ کی تعلیم و رہنمائی زخمی دل کا مرہم اور صدمے کی دوا بن جاتی ہے۔ علاوہ ازیں موت تو لقاء الٰہی (اللہ کی ملاقات) کا وسیلہ ہونے کی حیثیت سے بندہ مومن کے لیے محبوب و مطلوب بن جاتی ہے۔ یہ تو شرعی ہدایات کی دنیوی اور نقد برکات ہیں، آخرت میں وہ سب کچھ سامنے آئے گا جس کا آیات و احادیث میں وعدہ کیا گیا ہے۔محدثین کا عام دستور ہے کہ وہ کتاب الصلاۃ کے آخر میں کتاب الجنائز کے تحت مرض اور دیگر مصائب و آلام اور حوادث، مرض الموت اور موت کے وقت شرعی طرز عمل، پھر غسل میت، تجہیز و تکفین، نماز جنازہ، دفن، تعزیت یہاں تک کہ زیارت قبور سے متعلقہ احادیث لاتے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی اپنے اسلاف کا اتباع کرتے ہوئے کتاب الصلاۃ کے آخر میں کتاب الجنائز کو بیان کیا ہے کیونکہ انسان کی دو ہی حالتیں ہیں: ایک حالت زندگی سے متعلق ہے اور دوسری کا تعلق موت کے بعد سے ہے۔ اور ہر حالت کے متعلق عبادات اور معاملات کے احکام وابستہ ہیں۔ عبادات میں اہم چیز نماز ہے۔ جب زندگی کے متعلق اہم عبادت نماز سے فراغت ہوئی تو موت سے متعلق نماز وغیرہ کا بیان ضروری ہوا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں دو صد دس (210) احادیث بیان کی ہیں جن میں چھپن (56) معلق اور متابع ہیں اور باقی متصل اسانید سے ذکر کی گئی ہیں۔ ان میں سے تقریبا ایک سو نو (109) احادیث مکرر اور باقی ایک سو ایک (101) احادیث خالص ہیں۔ امام مسلم رحمہ اللہ نے چوبیس (24) احادیث کے علاوہ دیگر بیان کردہ احادیث کو اپنی صحیح میں ذکر کیا ہے۔ مرفوع متصل احادیث کے علاوہ اڑتالیس (48) آثار ہیں جو مختلف صحابہ کرام اور تابعین عظام سے مروی ہیں۔ ان میں سے چھ (6) موصول اور باقی معلق ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر تقریبا اٹھانوے (98) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو افادیت و معنویت کے اعتبار سے بے نظیر اور انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ ان عنوانات کے ذریعے سے امام بخاری رحمہ اللہ نے کئی ایک متعارض احادیث میں تطبیق دی اور ان کی تشریح فرمائی ہے، اس کے علاوہ محدثانہ اسرار و رموز بھی بیان کیے ہیں جن کی ہم ان کے مقامات پر وضاحت کریں گے۔بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے جنازہ اور متعلقات جنازہ کے متعلق مکمل ہدایات دی ہیں، بلکہ قبر اور بعد القبر کے حقائق سے بھی پردہ اٹھایا ہے۔ ان تمہیدی گزارشات کو سامنے رکھتے ہوئے احادیث کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے فکروعمل کو اپنے ہاں شرف قبولیت سے نوازے۔آمين
حضرت سمرہ بن جندب ؓ سے روایت ہے،انھوں نے فرمایا:نبی کریم ﷺ جب نماز(فجر) سے فارغ ہوتے تو ہماری طرف منہ کرکے فرماتے:’’تم میں سے کسی نے آج رات کوئی خواب دیکھا ہے؟‘‘ اگر کسی نے کوئی خواب دیکھاہوتا تو وہ بیان کردیتا،پھر جو کچھ اللہ چاہتا آپ اس کی تعبیر بیان کرتے، چنانچہ اسی طرح ایک دن آپ نے ہم سے پوچھا:’’کیا تم میں سے کسی نے کوئی خواب دیکھا ہے؟‘‘ ہم نے عرض کیا:نہیں آپ نے فرمایا:’’مگر میں نے آج رات دو آدمیوں کو خواب میں دیکھا کہ وہ میرے پاس آئے اور میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے ایک مقدس زمین پر لے گئے۔ وہاں میں کیا دیکھتا ہوں کہ ایک آدمی بیٹھا اور دوسرا کھڑا ہے جس کے ہاتھ میں لوہے کا آنکڑا ہے جسے وہ بیٹھے ہوئے آدمی کے جبڑے میں داخل کرتا ہے جو اس طرف کوچیرتا ہوا،اس کی گدی تک پہنچ جاتا ہے، پھر اس کے دوسرے جبڑے میں بھی ایسا ہی کرتا ہے۔ اس عرصے میں پہلاجبڑا ٹھیک ہوجاتا ہے۔ پھر یہ دوبارہ ایسے ہی کر دیتا ہے۔ میں نےپوچھا:یہ کیا ہے؟ ان دونوں نے مجھے کہا:آگے چلیے ۔ ہم چلے تو ایک ایسے شخص کے پاس پہنچے جو بالکل چت لیٹا ہوا ہے۔ اور ایک آدمی اس کے سرہانے ایک پتھر لیے کھڑا ہے۔ وہ اس پتھر سے اس کا سر پھوڑرہا ہے۔ جب پتھر مارتا ہے تو وہ لڑھک کردور چلا جاتا ہے، پھر وہ اسے جاکر اٹھالاتاہے۔ اور جب اس لیٹے ہوئے شخص کے پاس لوٹ کرآتاہے تو اس وقت تک اس کا سر جڑ کراچھا ہوجاتا ہے اور جیسے پہلے تھا اسی طرح ہوجاتا ہے۔ پھر اسے دوبارہ مارتا ہے۔ میں نے پوچھا:یہ کون ہے؟ ان دونوں نے کہا: آگے چلیے، چنانچہ ہم ایک گڑھے کی طرف چلے جو تنور کی طرح تھا۔ اس کا منہ تنگ اور پیندا چوڑا تھا۔ اس میں آگ جل رہی تھی اور اس میں برہنہ مرد اور عورتیں تھیں جب آگ بھڑکتی تو وہ (برہنہ لوگ) شعلوں کے ساتھ اچھل پڑتے اور نکلنے کے قریب ہوجاتے، پھر جب آگ دھیمی ہوجاتی تو وہ بھی دھڑام سے نیچے گرپڑتے۔ میں نے کہا:یہ کون ہے؟ ان دونوں نے کہا: آگے چلیے، چنانچہ ہم چلے اور ایک خونی نہر پر پہنچے۔ اس میں ایک شخص کھڑا تھا اور اس کے کنارے پر دوسراآدمی تھا جس کے سامنے بہت سے پتھر پڑے تھے، نہر کے اندر والاآدمی جب باہر آنا چاہتا تو کنارے والا آدمی اسکے منہ پر اس زور سے پتھر مارتا کہ وہ پھر اپنی جگہ پر لوٹ جاتا، پھر ایسا ہی کرتا رہا۔ جب بھی ہو نکلنا چاہتا تو دوسرا اس زور سے اس کے منہ پر پتھر مارتا کہ اسے اپنی جگہ پر لوٹا دیتا۔ میں نے پوچھا:یہ کون ہے؟ان دونوں نے کہا:آگے چلیے۔ ہم چل دیے۔ چلتے چلتے ہم ایک سرسبز باغ میں پہنچے جس میں ایک بڑا سا درخت تھا۔ اس کی جڑ کے قریب ایک بوڑھا آدمی اور کچھ بچے بیٹھے تھے۔ اب اچانک میں کیادیکھتا ہوں کہ اس درخت کے پاس ایک اور آدمی ہے جس کے سامنے آگ ہے اور وہ اسے سلگا رہا ہے۔ پھر وہ دونوں مجھے اس درخت پر چڑھا لے گئے اور وہاں انھوں نے مجھے ایک ایسے مکان میں داخل کیاجس سے بہتر مکان میں نے کبھی نہیں دیکھااس میں کچھ بوڑھے، کچھ جوان، کچھ عورتیں اور کچھ بچے تھے۔ پھر وہ دونوں مجھ کو وہاں سے نکال لائے اور درخت پر چڑھایا۔ وہاں بھی ایک مکان تھا جس میں مجھے داخل کیا۔ یہ مکان پہلے سے بھی زیادہ عمدہ اورشاندار تھا۔ اس میں بھی کچھ بوڑھے اور جوان آدمی موجود تھے۔ تب میں نے ان دونوں سے کہا:’’تم نے مجھے رات بھر پھرایا ہے، اب میں نے جو کچھ دیکھا ہے اس کی حقیقت بتاؤ؟‘‘ انھوں نے جواب دیا:اچھا۔ وہ شخص جسے آپ نے دیکھا کہ اس کا جبڑا چیرا جارہاتھا وہ بہت جھوٹا آدمی تھا اور جھوٹی باتیں کیاکرتاتھا جو اس سے نقل ہوکر تمام اطراف عالم میں پہنچ جاتی تھیں۔اسلیے قیامت تک اس کے ساتھ ایسا ہی معاملہ ہوتا رہے گا اور وہ شخص جسے آپ نے دیکھا کہ اس کاسر کچلاجارہا ہے۔یہ وہ شخص ہے جسے اللہ نے قرآن کا علم دیا تھا مگر وہ قرآن کو چھوڑ کر رات بھر سوتا رہتا اور دن میں بھی اس پر عمل نہیں کرتا تھا۔ روز قیامت تک اس کے سر پر یہی عمل ہوتا رہے گا۔ اور وہ لوگ جنھیں آپ نے گڑھے میں دیکھا، وہ زانی ہیں۔ اور جسے آپ نے نہر میں دیکھا وہ سود خور ہیں۔ وہ بوڑھا انسان جو درخت کی جڑ کے قریب بیٹھا ہوا تھا، وہ حضرت ابراہیم ؑ تھے اور چھوٹے بچے جو ان کے گرد بیٹھے ہوئے تھے، وہ لوگوں کے وہ بچے تھے جو(بلوغ سے پہلے) مرگئے۔ اور جو آدمی آگ تیز کررہا تھا وہ مالک، جہنم کا داروغہ تھا۔ اور وہ پہلا مکان جس میں آپ تشریف لے گئے تھے عام مسلمانوں کا گھر ہے اور یہ دوسرا شہیدوں کے لیے ہے ۔ میں جبرائیل ہوں اور یہ میکائل ہیں۔ اب آپ اپنا سر ا ٹھائیں۔ میں نے سراٹھایا تو یکایک دیکھتا ہوں کہ میرے اوپر ابر کی طرح کوئی چیز ہے۔ انھوں نے بتایا کہ یہ آپ کی اقامت گاہ ہے۔ میں نے کہا:’’مجھے اپنے مکان میں جانے دو۔‘‘ تو انھوں نےکہا:ابھی آپ کی کچھ عمر باقی ہے، اگر آپ اسے پورا کرچکے ہوتے تو اپنی رہائش گاہ میں جاسکتے تھے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث پر باب بلا عنوان ہے، گویا عنوان سابق کا تکملہ اور تتمہ ہے۔ (2) اس حدیث سے امام بخاری ؒ نے ثابت کیا ہے کہ لوگ مشرک ہوں یا مومن ان کی نابالغ اولاد جنت میں ہو گی، کیونکہ اس حدیث میں فرشتوں نے وضاحت کی ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ کے ارد گرد بیٹھے ہوئے بچے لوگوں کی نابالغ اولاد ہے۔ لوگوں کی اولاد کا لفظ عام ہے جو مشرکین کی اولاد کو بھی شامل ہے۔ اس میں کسی کی تخصیص نہیں۔ امام بخاری ؒ نے اس روایت کو كتاب التعبير میں بایں الفاظ بیان کیا ہے: ’’وہ بچے جو آپ نے حضرت ابراہیم ؑ کے گرد دیکھے تھے، وہ تھے جنہیں فطرت پر موت آئی تھی۔‘‘ صحابہ میں سے کسی نے کہا اللہ کے رسول! مشرکین کی اولاد بھی، آپ نے فرمایا: ’’مشرکین کی اولاد بھی ان میں شامل ہے۔‘‘(صحیح البخاري، التعبیر، حدیث:7047) اس روایت میں صراحت ہے کہ مشرکین کی وہ اولاد جو بلوغ سے پہلے مر گئی، ان کی موت فطرت پر تھی اور رسول اللہ ﷺ نے انہیں جنت میں دیکھا تھا۔ اس سے یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچتی ہے کہ مشرکین کے بچے بھی مسلمانوں کے بچوں کی طرح جنت میں ہوں گے۔ حافظ ابن حجر ؒ نے اس موقف کی تائید میں چند ایک روایات بھی پیش کی ہیں۔ حضرت انس ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’میں نے اپنے رب سے سوال کیا کہ اولاد آدم میں سے جو بے خبر ہیں انہیں عذاب میں مبتلا نہ کرنا۔ اللہ تعالیٰ نے میری اس دعا کو قبول کر لیا ہے۔‘‘(مسند أبي یعلیٰ:397/3، رقم:4087، طبع دارالکتب العلمیة، بیروت) روایت میں وضاحت ہے کہ ’’بےخبر‘‘ سے مراد معصوم بچے ہیں۔ خنساء بنت معاویہ اپنی پھوپھی سے بیان کرتی ہیں، انہوں نے کہا، میں نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا کہ جنت میں کون ہوں گے؟ تو آپ نے فرمایا: ’’انبیاء، شہداء اور نومولود بچے جنت میں ہوں گے۔‘‘(سنن أبي داود، الجھاد، حدیث:2521) ان دونوں احادیث کی اسناد حسن ہیں۔ (فتح الباري:312/3)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا کہا ہم سے جریربن حازم نے بیان کیا کہا کہ ہم سے ابورجاءعمران بن تمیم نے بیان کیا اور ان سے سمرہ بن جندب ؓ نے کہ نبی کریم ﷺ نماز ( فجر ) پڑھنے کے بعد ( عموماً ) ہماری طرف منہ کرکے بیٹھ جاتے اور پوچھتے کہ آج رات کسی نے کوئی خواب دیکھا ہو تو بیان کرو۔ راوی نے کہا کہ اگر کسی نے کوئی خواب دیکھا ہوتا تو اسے وہ بیان کردیتا اور آپ اس کی تعبیر اللہ کو جو منظور ہوتی بیان فرماتے۔ ایک دن آپ نے معمول کے مطابق ہم سے دریافت فرمایا کیا، آج رات کسی نے تم میں کوئی خواب دیکھا ہے؟ ہم نے عرض کی کہ کسی نے نہیں دیکھا۔ آپ نے فرمایا لیکن میں نے آج رات ایک خواب دیکھا ہے کہ دو آدمی میرے پاس آئے۔ انہوں نے میرے ہاتھ تھام لیے اور وہ مجھے ارض مقدس کی طرف لے گئے۔ ( اور وہاں سے عالم بالا کی مجھ کو سیر کرائی ) وہاں کیا دیکھتا ہوں کہ ایک شخص تو بیٹھا ہوا ہے اور ایک شخص کھڑا ہے اور اس کے ہاتھ میں ( امام بخاری نے کہا کہ ) ہمارے بعض اصحاب نے ( غالباً عباس بن فضیل اسقاطی نے موسیٰ بن اسماعیل سے یوں روایت کیا ہے ) لوہے کا آنکس تھا جسے وہ بیٹھنے والے کے جبڑے میں ڈال کر اس کے سرکے پیچھے تک چیردیتا پھر دوسرے جبڑے کے ساتھ بھی اسی طرح کرتا تھا۔ اس دوران میں اس کا پہلا جبڑا صحیح اور اپنی اصلی حالت پر آجاتا اور پھر پہلے کی طرح وہ اسے دوبارہ چیرتا۔ میں نے پوچھا کہ یہ کیاہورہا ہے؟ میرے ساتھ کے دونوں آدمیوں نے کہا کہ آگے چلو۔ چنانچہ ہم آگے بڑھے تو ایک ایسے شخص کے پاس آئے جو سر کے بل لیٹا ہوا تھا اور دوسرا شخص ایک بڑا سا پتھر لیے اس کے سرپر کھڑا تھا۔ اس پتھر سے وہ لیٹے ہوئے شخص کے سرکو کچل دیتا تھا۔ جب وہ اس کے سرپر پتھر مارتا تو سرپر لگ کروہ پتھر دور چلا جاتا اور وہ اسے جاکر اٹھا لاتا۔ ابھی پتھر لے کر واپس بھی نہیں آتا تھا کہ سر دوبارہ درست ہوجاتا۔ بالکل ویسا ہی جیسا پہلے تھا۔ واپس آکر وہ پھر اسے مارتا۔ میں نے پوچھا کہ یہ کون لوگ ہیں؟ ان دونوں نے جواب دیا کہ ابھی اور آگے چلو۔ چنانچہ ہم آگے بڑھے تو ایک تنور جیسے گڑھے کی طرف چلے۔ جس کے اوپر کا حصہ تو تنگ تھا، لیکن نیچے سے خوب فراخ۔ نیچے آگ بھڑک رہی تھی۔ جب آگ کے شعلے بھڑک کر اوپر کو اٹھتے تو اس میں جلنے والے لوگ بھی اوپر اٹھ آتے اور ایسا معلوم ہوتا کہ اب وہ باہر نکل جائیں گے، لیکن جب شعلے دب جاتے تو وہ لوگ بھی نیچے چلے جاتے۔ اس تنور میں ننگے مرد اور عورتیں تھیں۔ میں نے اس موقع پر بھی پوچھا کہ یہ کیا ہے؟ لیکن اس مرتبہ بھی جواب یہی ملا کہا کہ ابھی اور آگے چلو‘ ہم آگے چلے۔ اب ہم خون کی ایک نہر کے اوپر تھے نہر کے اندر ایک شخص کھڑا تھا اور اس کے بیچ میں ( یزیدبن ہارون اور وہب بن جریر نے جریر بن حازم کے واسطہ سے وسطہ النہر کے بجائے شط النہر نہر کے کنارے کے الفاظ نقل کئے ہیں ) ایک شخص تھا۔ جس کے سامنے پتھر رکھا ہوا تھا۔ نہر کا آدمی جب باہر نکلنا چاہتا تو پتھر والا شخص اس کے منہ پر اتنی زور سے پتھر مارتا کہ وہ اپنی پہلی جگہ پر چلا جاتا اور اسی طرح جب بھی وہ نکلنے کی کوشش کرتا وہ شخص اس کے منہ پر پتھر اتنی ہی زور سے پھر مارتا کہ وہ اپنی اصلی جگہ پر نہر میں چلا جاتا۔ میں نے پوچھا یہ کیاہورہا ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ ابھی اور آگے چلو۔ چنانچہ ہم اور آگے بڑھے اور ایک ہرے بھرے باغ میں آئے۔ جس میں ایک بہت بڑا درخت تھا اس درخت کی جڑ میں ایک بڑی عمر والے بزرگ بیٹھے ہوئے تھے اور ان کے ساتھ کچھ بچے بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ درخت سے قریب ہی ایک شخص اپنے آگے آگ سلگارہا تھا۔ وہ میرے دونوں ساتھی مجھے لے کر اس درخت پر چڑھے۔ اس طرح وہ مجھے ایک ایسے گھر میں اندر لے گئے کہ اس سے زیادہ حسین وخوبصورت اور بابرکت گھر میں نے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اس گھر میں بوڑھے، جوان‘ عورتیں اور بچے ( سب ہی قسم کے لوگ ) تھے۔ میرے ساتھی مجھے اس گھر سے نکال کر پھر ایک اور درخت پر چڑھا کر مجھے ایک اور دوسرے گھر میں لے گئے جو نہایت خوبصورت اور بہتر تھا۔ اس میں بھی بہت سے بوڑھے اور جوان تھے۔ میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا تم لوگوں نے مجھے رات بھر خوب سیر کرائی۔ کیا جو کچھ میں نے دیکھا اس کی تفصیل بھی کچھ بتلاؤ گے؟ انہو ںنے کہا ہاں وہ جو تم نے دیکھا تھا اس آدمی کا جبڑا لوہے کے آنکس سے پھاڑا جارہا تھا تو وہ جھوٹا آدمی تھا جو جھوٹی باتیں بیان کیا کرتا تھا۔ اس سے وہ جھوٹی باتیں دوسرے لوگ سنتے۔ اس طرح ایک جھوٹی بات دور دور تک پھیل جایا کرتی تھی۔ اسے قیامت تک یہی عذاب ہوتا رہے گا۔ جس شخص کو تم نے دیکھا کہ اس کا سرکچلا جارہا تھا تو وہ ایک ایسا انسان تھا جسے اللہ تعالیٰ نے قرآن کا علم دیا تھا، لیکن وہ رات کو پڑا سوتا رہتا اور دن میں اس پر عمل نہیں کرتا تھا۔ اسے بھی یہ عذاب قیامت تک ہوتا رہے گا اور جنہیں تم نے تنور میں دیکھا تو وہ زنا کار تھے۔ اور جس کو تم نے نہر میں دیکھا وہ سود خوار تھا اور وہ بزرگ جو درخت کی جڑ میں بیٹھے ہوئے تھے وہ ابراہیم ؑ تھے اور ان کے ارد گرد والے بچے‘ لوگوں کی نابالغ اولاد تھی اور جو شخص آگ جلارہا تھا وہ دوزخ کا داروغہ تھا اور وہ گھر جس میں تم پہلے داخل ہوئے جنت میں عام مومنوں کا گھر تھا اور یہ گھر جس میں تم اب کھڑے ہو‘ یہ شہداءکا گھر ہے اور میں جبرئیل ہوں اور یہ میرے ساتھ میکائیکل ہیں۔ اچھا اب اپنا سراٹھاؤ میں نے جو سراٹھایا تو کیا دیکھتا ہوں کہ میرے اوپر بادل کی طرح کوئی چیز ہے۔ میرے ساتھیوں نے کہا کہ یہ تمہارا مکان ہے۔ اس پر میں نے کہا کہ پھر مجھے اپنے مکان میں جانے دو۔ انہوں نے کہا کہ ابھی تمہاری عمر باقی ہے جو تم نے پوری نہیں کی اگر آپ وہ پوری کرلیتے تو اپنے مکان میں آجاتے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Samura bin Jundab (RA): Whenever the Prophet (ﷺ) finished the (morning) prayer, he would face us and ask, "Who amongst you had a dream last night?" So if anyone had seen a dream he would narrate it. The Prophet (ﷺ) would say: "Ma sha'a-llah" (An Arabic maxim meaning literally, 'What Allah wished,' and it indicates a good omen.) One day, he asked us whether anyone of us had seen a dream. We replied in the negative. The Prophet (ﷺ) said, "But I had seen (a dream) last night that two men came to me, caught hold of my hands, and took me to the Sacred Land (Jerusalem). There, I saw a person sitting and another standing with an iron hook in his hand pushing it inside the mouth of the former till it reached the jaw-bone, and then tore off one side of his cheek, and then did the same with the other side; in the mean-time the first side of his cheek became normal again and then he repeated the same operation again. I said, 'What is this?' They told me to proceed on and we went on till we came to a man Lying flat on his back, and another man standing at his head carrying a stone or a piece of rock, and crushing the head of the Lying man, with that stone. Whenever he struck him, the stone rolled away. The man went to pick it up and by the time he returned to him, the crushed head had returned to its normal state and the man came back and struck him again (and so on). I said, 'Who is this?' They told me to proceed on; so we proceeded on and passed by a hole like an oven; with a narrow top and wide bottom, and the fire was kindling underneath that hole. Whenever the fire-flame went up, the people were lifted up to such an extent that they about to get out of it, and whenever the fire got quieter, the people went down into it, and there were naked men and women in it. I said, 'Who is this?' They told me to proceed on. So we proceeded on till we reached a river of blood and a man was in it, and another man was standing at its bank with stones in front of him, facing the man standing in the river. Whenever the man in the river wanted to come out, the other one threw a stone in his mouth and caused him to retreat to his original position; and so whenever he wanted to come out the other would throw a stone in his mouth, and he would retreat to his original position. I asked, 'What is this?' They told me to proceed on and we did so till we reached a well-flourished green garden having a huge tree and near its root was sitting an old man with some children. (I saw) Another man near the tree with fire in front of him and he was kindling it up. Then they (i.e. my two companions) made me climb up the tree and made me enter a house, better than which I have ever seen. In it were some old men and young men, women and children.