Sahi-Bukhari:
Obligatory Charity Tax (Zakat)
(Chapter: The obligation of Zakat)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور اللہ عزوجل نے فرمایا کہ نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دو۔ ابن عباس ؓ نے کہا کہ ابوسفیان ؓنے مجھ سے بیان کیا ‘ انہوں نے نبی کریم ﷺسے متعلق (قیصر روم سے اپنی) گفتگو نقل کی کہ انہوں نے کہا تھا کہ ہمیں وہ نماز ‘ زکوٰۃ ‘ صلہ رحمی ‘ ناطہٰ جوڑنے اور حرام کاری سے بچنے کا حکم دیتے ہیں۔
1395.
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے حضرت معاذ ؓ کو یمن روانہ کیا تو فرمایا:’’سب سے پہلے اہل یمن کو اس بات کی دعوت دینا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں۔ اگر وہ یہ بات مان لیں تو ان سے کہنا کہ اللہ تعالیٰ نے شب و روز میں ان پر پانچ نمازیں فرض کی ہیں، اگر وہ اس بات کو بھی تسلیم کر لیں تو انھیں بتانا کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر ان کے مال کا صدقہ بھی فرض کیا ہے جو ان کے اہل قدرت سے وصول کر کے ان کے محتاجوں پر صرف کیا جائے گا۔‘‘
تشریح:
(1) رسول اللہ ﷺ نے غزوہ تبوک سے واپسی پر 9 ہجری میں حضرت معاذ بن جبل اور حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ کو یمن بھیجا تھا۔ حضرت معاذ ؓ وہاں کے قاضی تھے اور ان کی اضافی ذمہ داری یہ تھی کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے متعین کردہ عمال سے صدقہ و خیرات وصول کریں۔ آپ نے یمن میں پانچ آدمی بطور تحصیل دار مقرر کیے تھے۔ صنعاء کا علاقہ حضرت خالد بن سعید ؓ کے حوالے تھا اور مہاجر بن ابی امیہ ؓ کندہ پر تعینات تھے۔ حضر موت پر زیاد بن لبید ؓ کی ذمہ داری تھی اور جندل پر حضرت معاذ ؓ کو مقرر کیا تھا جبکہ زبید، عدن اور ساحل کا علاقہ حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ کی زیر نگرانی تھا۔ (عمدةالقاري:323/6) (2) امام بخاری ؒ نے اس حدیث کو وجوب زکاۃ کے لیے پیش کیا ہے۔ اس میں صراحت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر ان کے مال کا صدقہ بھی فرض کیا ہے۔ اس حدیث میں زکاۃ پر لفظ صدقہ کا اطلاق کیا گیا ہے، جیسا کہ قرآن کریم میں ہے کہ صدقات تو فقراء اور مساکین کے لیے ہے۔ (التوبة60:9) صدقات سے مراد مالِ زکاۃ ہے۔ بہرحال زکاۃ ادا کرنا فرض ہے اور اس سے انکار کفر ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1359
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1395
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1395
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1395
تمہید کتاب
لفظ زکاۃ لغوی طور پر بڑھنے، نشوونما پانے اور پاکیزہ ہونے کے معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ عربی زبان میں زكا الزرع کہا جاتا ہے جس کے معنی ہیں: کھیتی نے نشوونما پائی۔ اسی طرح مال کی بڑھوتری کے معنوں میں بھی اسے استعمال کرتے ہیں۔ شریعت نے بھی ان دونوں لغوی معنوں کو استعمال کیا ہے۔ زکاۃ کو زکاۃ اس لیے کہتے ہیں کہ اس کی ادائیگی سے مال مزید بڑھ جاتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ) "۔۔ اللہ تعالیٰ صدقات کو بڑھا دیتا ہے۔" (البقرۃ276:2) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس معنی کی تائید فرمائی ہے، حدیث میں ہے: (ما نقصت صدقة من مال) (صحیح مسلم،البروالصلۃ،حدیث:6592(2588)) "صدقہ مال میں کمی نہیں کرتا۔" (صحیح مسلم، البر والصلۃ، حدیث: 6592 (2588))زکاۃ مال کو پاک اور اسے استعمال کے قابل بنا دیتی ہے اور صاحب مال کو گناہوں اور بخل کی رذالت سے پاک کر دیتی ہے۔ یہ دونوں معانی ایک آیت میں استعمال ہوئے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِم بِهَا) "آپ ان کے اموال سے صدقہ لیں جس کے ذریعے سے آپ انہیں گناہوں سے پاک کریں اور ان کے اجرومال میں اضافہ کریں۔" (التوبۃ103:9) قرآن کریم میں اکثر مقامات پر یہ لفظ پاکیزگی کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (فَلَا تُزَكُّوا أَنفُسَكُمْ) "اپنے نفوس کی پاکیزگی کا دعویٰ نہ کرو۔" (النجم32:53) نیز فرمایا: (قَدْ أَفْلَحَ مَن تَزَكَّىٰ ﴿١٤﴾) "یقینا وہ کامیاب ہے جس نے اپنا تزکیہ کر لیا۔" (الاعلیٰ14:87) زکاۃ کو اس لیے بھی زکاۃ کہتے ہیں کہ یہ ایسے اموال سے لی جاتی ہے جن میں نشوونما اور بڑھنے کی صلاحیت ہوتی ہے، مثلا: تجارت اور زراعت وغیرہ۔اس کی شرعی تعریف یہ ہے کہ ایسا حق جو مقررہ نصاب پر سال گزرنے کے بعد واجب ہوتا ہے جسے کسی فقیر یا اس کے مثل کسی شخص کو دیا جاتا ہے جبکہ وہ شرعی موانع کے ساتھ متصف نہ ہو۔ زکاۃ کے لیے رکنِ اعظم یہ ہے کہ اس کی ادائیگی کے وقت انسان میں اخلاص ہو کیونکہ شہرت اور ریاکاری کی نیت سے زکاۃ دینا عنداللہ معتبر نہیں ہو گا۔ اس سے دنیا میں وجوب کی ادائیگی اور آخرت میں ثواب کا حصول مقصود ہے۔ اس کی حکمت یہ ہے کہ یہ انسانوں کو گناہوں اور بری خصلتوں سے پاک کر دیتی ہے اور ان کے درجات بلند کرتی ہے۔زکاۃ کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ شہادت توحید و رسالت اور اقامت صلاۃ کے بعد زکاۃ اسلام کا تیسرا رکن ہے۔ قرآن مجید میں نماز کے ساتھ زکاۃ کا بیان بیاسی (82) مقامات پر آیا ہے۔ گویا دین اسلام میں ان دونوں کا مقام اور مرتبہ قریب قریب ایک ہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جب بعض قبائل، جو بظاہر اسلام قبول کر چکے تھے، نے زکاۃ دینے سے انکار کر دیا تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان کے خلاف جہاد کیا۔ اس کی بنیاد یہ تھی کہ انہوں نے نماز اور زکاۃ میں تفریق کی تھی جو شریعت کی نظر میں انحراف و ارتداد ہے۔ زکاۃ ہجرت سے پہلے فرض ہو چکی تھی لیکن اس دور میں زکاۃ کا مطلب صرف یہ تھا کہ حاجت مندوں اور خیر کے دوسرے راستوں پر اپنی کمائی خرچ کی جائے، نظام زکاۃ کی تفصیل اور دیگر احکام و مسائل ہجرت کے دوسرے سال نازل ہوئے ہیں، چنانچہ ہجرت سے پہلے حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ نے نجاشی کے دربار میں کہا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں نماز پڑھنے اور زکاۃ دینے کا حکم دیتے ہیں، اسی طرح ہرقل کے سوال و جواب میں حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کہا تھا کہ وہ ہمیں نماز و زکاۃ کا حکم دیتے ہیں اور صلہ رحمی و پاک دامنی کی ہدایت کرتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ زکاۃ مکہ میں فرض ہو چکی تھی، البتہ اس کے تفصیلی احکام ہجرت کے بعد نازل ہوئے۔ مرکزی طور پر اس کی وصولی اور تقسیم کار کا نظام 8 ہجری کے بعد قائم ہوا جس کی تفصیل ہم آئندہ بیان کریں گے۔زکاۃ میں نیکی اور افادیت کے تین پہلو انتہائی اہمیت کے حامل ہیں جس کی تفصیل حسب ذیل ہے: بندہ مومن جس طرح نماز کے قیام اور رکوع و سجود کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کے حضور اپنی بندگی اور نیاز مندی کا مظاہرہ جسم و جان اور زبان سے کرتا ہے تاکہ اسے اللہ کی رضا اور اس کا قرب حاصل ہو، اسی طرح زکاۃ ادا کر کے وہ اس کی بارگاہ میں اپنا مالی نذرانہ اسی غرض سے پیش کرتا ہے کہ اس کے پاس جو کچھ ہے وہ اسی کا دیا ہوا ہے اور وہ اس کی رضا اور قرب حاصل کرنے کے لیے اسے قربان کرتا ہے۔ زکاۃ کا شمار عبادات میں اسی پہلو سے ہے۔زکاۃ کے ذریعے سے ضرورت مند اور پریشان حال لوگوں کی خدمت اور مدد ہوتی ہے۔ اس پہلو سے زکاۃ، اخلاقیات کا نہایت ہی اہم باب ہے کہ انسان دوسرے کے کام آتا ہے اور بوقت ضرورت ان کا تعاون کرنے میں پیش پیش ہوتا ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ بندہ اپنے بھائی کی مدد کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی مدد کرتا ہے، (صحیح مسلم،الذکروالدعاء،حدیث:6853(2699)) لہذا زکاۃ بھائی چارے کی فضا قائم کرنے میں بہت اہم کردار ادا کرتی ہے۔زکاۃ کی افادیت کا تیسرا پہلو یہ ہے کہ حُبِ مال اور دولت پرستی جو ایک ایمان کش اور مہلک روحانی بیماری ہے، زکاۃ سے اس کا علاج کیا جاتا ہے۔ اس قسم کی معاشرتی گندے جرائم اور زہریلے مواد کو زکاۃ کے ذریعے سے ختم کر کے انسانی نفس کو پاک اور صاف کیا جاتا ہے۔ قرآن مجید میں جگہ جگہ زکاۃ کے اس پہلو کو نمایاں کیا گیا ہے، غالبا اسی پہلو سے اس فریضے کا نام زکاۃ رکھا گیا ہے کیونکہ اس کے اصل معنی پاکیزگی کے ہیں جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ چونکہ امت کے نبض شناس ہیں، انہوں نے زکاۃ کے متعلقہ احکام و مسائل بیان کرنے کے لیے تقریبا ایک سو اٹھارہ (118) مرفوع متصل احادیث بیان کی ہیں، پھر ان پر اٹھتر (78) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو معاشرتی طور پر انتہائی کارآمد اور مفید ہیں۔ ان عناوین کے تحت آپ نے زکاۃ کا وجوب، اس کی اہمیت و افادیت، تجارتی، زرعی اور معدنی زکاۃ کے مسائل بڑی تفصیل سے بیان کیے ہیں۔ حیوانات سے زکاۃ کے پہلو کو بھی نمایاں کیا ہے، صدقہ فطر کے احکام بھی ذکر کیے ہیں اور اس کے متعلق اخلاقی پہلوؤں کا بھی جائزہ لیا ہے، نیز اس سے پہلوتہی کرنے پر جو وعید آئی ہے اسے بھی ذکر کیا ہے۔ الغرض زکاۃ کے متعلق جملہ مسائل و احکام بڑے ٹھوس اور خاموش انداز سے بیان کیے ہیں۔کتاب الزکاۃ ایک سو بہتر (172) مرفوع احادیث پر مشتمل ہے جن میں ایک سو اُنیس (119) احادیث موصول ہیں اور باقی متابعات اور معلقات ہیں۔ ان تمام میں سے سو (100) احادیث مکرر اور بہتر (72) احادیث خالص، یعنی غیر مکرر ہیں۔ سترہ (17) احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم نے اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے تقریبا بیس (20) آثار بھی مروی ہیں۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ احادیث کو صرف اضافہ معلومات کے طور پر ہرگز نہ پڑھا جائے بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنے ایمانی تعلق کو مضبوط کرنے کی غرض سے ان کا مطالعہ کیا جائے، نیز دوران مطالعہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت و محبت کو بھی دل میں بیدار کیا جائے۔ والله الموفق وهو يهدي من يشاء إليٰ صراط مستقيم
تمہید باب
زکاۃ فرض ہے اور اس کا منکر دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ حاکم وقت کو چاہیے کہ وہ منکر زکاۃ شخص کے خلاف جہاد کرے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کی فرضیت بیان کرنے کے لیے حسب عادت قرآنی آیت کا حوالہ دیا ہے جس میں زکاۃ ادا کرنے کا حکم ہے اور حکم وجوب کے لیے ہوتا ہے، پھر آپ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی حدیث ذکر کی ہے جو کتاب بدء الوحی میں تفصیل سے گزر چکی ہے۔ اس حصے سے فرضیت زکاۃ کی طرف اشارہ کیا ہے، نیز اس حقیقت سے بھی آگاہ کیا ہے کہ فرضیت زکاۃ کا حکم مکہ مکرمہ میں نازل ہوا تھا کیونکہ حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ کے مذکورہ الفاظ انہوں نے شاہِ روم کے دربار میں کہے تھے اور اس وقت وہ مسلمان نہیں ہوئے تھے، نیز اس واقعہ کا تعلق بھی مکی دور سے ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ زکاۃ مکہ مکرمہ میں فرض ہو چکی تھی اگرچہ اس کی تفصیلات اور حدود و مصارف مدینہ طیبہ میں نازل ہوئے ہیں جیسا کہ ہم نے پہلے بیان کیا ہے۔والله أعلم
اور اللہ عزوجل نے فرمایا کہ نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دو۔ ابن عباس ؓ نے کہا کہ ابوسفیان ؓنے مجھ سے بیان کیا ‘ انہوں نے نبی کریم ﷺسے متعلق (قیصر روم سے اپنی) گفتگو نقل کی کہ انہوں نے کہا تھا کہ ہمیں وہ نماز ‘ زکوٰۃ ‘ صلہ رحمی ‘ ناطہٰ جوڑنے اور حرام کاری سے بچنے کا حکم دیتے ہیں۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے حضرت معاذ ؓ کو یمن روانہ کیا تو فرمایا:’’سب سے پہلے اہل یمن کو اس بات کی دعوت دینا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں۔ اگر وہ یہ بات مان لیں تو ان سے کہنا کہ اللہ تعالیٰ نے شب و روز میں ان پر پانچ نمازیں فرض کی ہیں، اگر وہ اس بات کو بھی تسلیم کر لیں تو انھیں بتانا کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر ان کے مال کا صدقہ بھی فرض کیا ہے جو ان کے اہل قدرت سے وصول کر کے ان کے محتاجوں پر صرف کیا جائے گا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) رسول اللہ ﷺ نے غزوہ تبوک سے واپسی پر 9 ہجری میں حضرت معاذ بن جبل اور حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ کو یمن بھیجا تھا۔ حضرت معاذ ؓ وہاں کے قاضی تھے اور ان کی اضافی ذمہ داری یہ تھی کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے متعین کردہ عمال سے صدقہ و خیرات وصول کریں۔ آپ نے یمن میں پانچ آدمی بطور تحصیل دار مقرر کیے تھے۔ صنعاء کا علاقہ حضرت خالد بن سعید ؓ کے حوالے تھا اور مہاجر بن ابی امیہ ؓ کندہ پر تعینات تھے۔ حضر موت پر زیاد بن لبید ؓ کی ذمہ داری تھی اور جندل پر حضرت معاذ ؓ کو مقرر کیا تھا جبکہ زبید، عدن اور ساحل کا علاقہ حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ کی زیر نگرانی تھا۔ (عمدةالقاري:323/6) (2) امام بخاری ؒ نے اس حدیث کو وجوب زکاۃ کے لیے پیش کیا ہے۔ اس میں صراحت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر ان کے مال کا صدقہ بھی فرض کیا ہے۔ اس حدیث میں زکاۃ پر لفظ صدقہ کا اطلاق کیا گیا ہے، جیسا کہ قرآن کریم میں ہے کہ صدقات تو فقراء اور مساکین کے لیے ہے۔ (التوبة60:9) صدقات سے مراد مالِ زکاۃ ہے۔ بہرحال زکاۃ ادا کرنا فرض ہے اور اس سے انکار کفر ہے۔
ترجمۃ الباب:
ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اور نماز قائم کرواور زکاۃ ادا کرو۔ "
حضرت عباس ؓ نے فرمایا: مجھ سے حضرت ابو سفیان ؓ نے نبی ﷺ کی حدیث بیان کی اور کہا: آپ ہمیں نماز پڑھنے، زکاۃدینے، صلہ رحمی کرنے اور پاکدامنی اختیار کرنے کا حکم دیتے ہیں۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابوعاصم ضحاک بن مخلد نے بیان کیا‘ ان سے زکریا بن اسحاق نے بیان کیا‘ ان سے یحیٰی بن عبداللہ بن صیفی نے بیان کیا‘ ان سے ابومعبد نے اور ان سے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے جب معاذ ؓ کو یمن ( کا حاکم بناکر ) بھیجا تو فرمایا کہ تم انہیں اس کلمہ کی گواہی کی دعوت دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ میں اللہ کا رسول ہوں۔ اگر وہ لوگ یہ بات مان لیں تو پھر انہیں بتانا کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر روزانہ پانچ وقت کی نمازیں فرض کی ہیں۔ اگر وہ لوگ یہ بات بھی مان لیں تو پھر انہیں بتانا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے مال پر کچھ صدقہ فرض کیا ہے جو ان کے مالدار لوگوں سے لے کر انہیں کے محتاجوں میں لوٹا دیا جائے گا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn Abbas (RA): Thy Prophet (ﷺ) sent Muadh to Yemen and said, "Invite the people to testify that none has the right to be worshipped but Allah and I am Allah's Apostle, and if they obey you to do so, then teach them that Allah has enjoined on them five prayers in every day and night (in twenty-four hours), and if they obey you to do so, then teach them that Allah has made it obligatory for them to pay the Zakat from their property and it is to be taken from the wealthy among them and given to the poor." ________