باب: صدقہ اس زمانے سے پہلے کہ اس کا لینے والا کوئی باقی نہ رہے گا
)
Sahi-Bukhari:
Obligatory Charity Tax (Zakat)
(Chapter: To practise charity before such time when nobody would accept it)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1413.
حضرت عدی بن حاتم ؓ سے روایت ہے،انھوں نے فرمایا: میں رسول اللہ ﷺ کے پاس موجود تھا، اس دوران میں دوآدمی آئے۔ ایک نے غربت و تنگ دستی کا شکوہ کیا اور دوسرےنے چوری اور ڈاکہ زنی کی شکایت کی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’راستے کی بدامنی کے متعلق تو تھوڑی مدت گزرے گی کہ مکہ تک ایک قافلہ بغیر کسی محافظ کے جائے گا، باقی رہی تنگ دستی تو قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی یہاں تک کہ تم میں سے ایک اپنا صدقہ لے کر پھرے گا مگر اسے قبول کرنے والا نہیں ملے گا، پھر (قیامت کے دن ) تم میں سے ہر شخص اللہ کے سامنے کھڑا ہوگا جبکہ اس کے اور اللہ کے درمیان کوئی پردہ حائل نہیں ہوگا اور نہ کوئی ترجمان ہی ہوگا جو اس کی گفتگونقل کرے، بلاشبہ پھر اللہ اس سے فرمائے گا:کیا میں نے تجھے مال نہ دیا تھا؟وہ عرض کرے گا: کیوں نہیں! پھر اللہ فرمائے گا:کیا میں نے تیرے پاس ایک عظیم پیغمبرنہیں بھیجا تھا؟ وہ عرض کرے گا:کیوں نہیں!پھر وہ اپنی دائیں طرف دیکھے گا تو آگ کے علاوہ اسے وہاں کوئی چیز نظر نہیں آئے گی اور اپنی بائیں طرف نظر ڈالے گا تو ادھر بھی سوائے آگ کے کچھ نہیں ہو گا۔ لہٰذا تم میں سے ہر شخص کو ہر ممکن آگ سے بچنا چاہیے۔ اگرچہ کھجور کا ٹکڑا ہی دے، اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو اچھی بات ہی کہہ دے۔ (کیونکہ یہ بھی صدقہ ہے۔)‘‘
تشریح:
(1) اس حدیث میں بیان ہوا ہے کہ آدمی اپنا صدقہ لے کر نکلے گا، لیکن اسے کوئی قبول کرنے والا نہیں ملے گا، ایسے حالات قربِ قیامت کے وقت پیش آئیں گے، کیونکہ مذکورہ حدیث کی ایک روایت سے ایسا اشارہ ملتا ہے کہ مال و دولت کی فراوانی حضرت عدی بن حاتم کی زندگی میں نہیں ہوئی، آپ نے فرمایا کہ اگر تمہاری زندگی ہوئی تو تم رسول اللہ ﷺ کے اس فرمان کی تصدیق خود ملاحظہ کرو گے۔ (صحیح البخاري، المناقب، حدیث:3595) کیونکہ ان کی وفات حضرت معاویہ ؓ کے دور حکومت میں ہوئی جو کہ فتوحات کا دور تھا۔ محدث ابن التین فرماتے ہیں کہ یہ دور حضرت عیسیٰ ؑ کے نزول کے بعد ہو گا جبکہ روئے زمین پر کوئی کافر نہیں ہو گا اور زمین کی برکات کا یہ عالم ہو گا کہ ایک انار سے پورا کنبہ سیر ہو جائے گا۔ (فتح الباری:356/3) (2) امام بیہقی ؒ نے اسے حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ کے دور خلافت پر محمول کیا ہے جن کا دور صرف تیس ماہ کا تھا اور اس دور میں لوگ اس قدر مال دار ہو گئے تھے کہ کوئی صدقہ لینے والا نہیں ملتا تھا۔ (دلائل النبوة للبیھقي، با ب ما جاء في إخبارہ صلی اللہ علیه وسلم بالشرالذي یکون بعدالخیر۔۔۔۔۔۔493/6) لیکن قرب قیامت کا قول زیادہ راجح معلوم ہوتا ہے، کیونکہ حضرت عدی بن حاتم نے فرمایا تھا کہ اگر تمہاری زندگی طویل ہوئی تو تم اسے دیکھ لو گے، اس سے قریب قیامت کے راجح ہونے کا اشارہ ملتا ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1376
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1413
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1413
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1413
تمہید کتاب
لفظ زکاۃ لغوی طور پر بڑھنے، نشوونما پانے اور پاکیزہ ہونے کے معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ عربی زبان میں زكا الزرع کہا جاتا ہے جس کے معنی ہیں: کھیتی نے نشوونما پائی۔ اسی طرح مال کی بڑھوتری کے معنوں میں بھی اسے استعمال کرتے ہیں۔ شریعت نے بھی ان دونوں لغوی معنوں کو استعمال کیا ہے۔ زکاۃ کو زکاۃ اس لیے کہتے ہیں کہ اس کی ادائیگی سے مال مزید بڑھ جاتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ) "۔۔ اللہ تعالیٰ صدقات کو بڑھا دیتا ہے۔" (البقرۃ276:2) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس معنی کی تائید فرمائی ہے، حدیث میں ہے: (ما نقصت صدقة من مال) (صحیح مسلم،البروالصلۃ،حدیث:6592(2588)) "صدقہ مال میں کمی نہیں کرتا۔" (صحیح مسلم، البر والصلۃ، حدیث: 6592 (2588))زکاۃ مال کو پاک اور اسے استعمال کے قابل بنا دیتی ہے اور صاحب مال کو گناہوں اور بخل کی رذالت سے پاک کر دیتی ہے۔ یہ دونوں معانی ایک آیت میں استعمال ہوئے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِم بِهَا) "آپ ان کے اموال سے صدقہ لیں جس کے ذریعے سے آپ انہیں گناہوں سے پاک کریں اور ان کے اجرومال میں اضافہ کریں۔" (التوبۃ103:9) قرآن کریم میں اکثر مقامات پر یہ لفظ پاکیزگی کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (فَلَا تُزَكُّوا أَنفُسَكُمْ) "اپنے نفوس کی پاکیزگی کا دعویٰ نہ کرو۔" (النجم32:53) نیز فرمایا: (قَدْ أَفْلَحَ مَن تَزَكَّىٰ ﴿١٤﴾) "یقینا وہ کامیاب ہے جس نے اپنا تزکیہ کر لیا۔" (الاعلیٰ14:87) زکاۃ کو اس لیے بھی زکاۃ کہتے ہیں کہ یہ ایسے اموال سے لی جاتی ہے جن میں نشوونما اور بڑھنے کی صلاحیت ہوتی ہے، مثلا: تجارت اور زراعت وغیرہ۔اس کی شرعی تعریف یہ ہے کہ ایسا حق جو مقررہ نصاب پر سال گزرنے کے بعد واجب ہوتا ہے جسے کسی فقیر یا اس کے مثل کسی شخص کو دیا جاتا ہے جبکہ وہ شرعی موانع کے ساتھ متصف نہ ہو۔ زکاۃ کے لیے رکنِ اعظم یہ ہے کہ اس کی ادائیگی کے وقت انسان میں اخلاص ہو کیونکہ شہرت اور ریاکاری کی نیت سے زکاۃ دینا عنداللہ معتبر نہیں ہو گا۔ اس سے دنیا میں وجوب کی ادائیگی اور آخرت میں ثواب کا حصول مقصود ہے۔ اس کی حکمت یہ ہے کہ یہ انسانوں کو گناہوں اور بری خصلتوں سے پاک کر دیتی ہے اور ان کے درجات بلند کرتی ہے۔زکاۃ کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ شہادت توحید و رسالت اور اقامت صلاۃ کے بعد زکاۃ اسلام کا تیسرا رکن ہے۔ قرآن مجید میں نماز کے ساتھ زکاۃ کا بیان بیاسی (82) مقامات پر آیا ہے۔ گویا دین اسلام میں ان دونوں کا مقام اور مرتبہ قریب قریب ایک ہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جب بعض قبائل، جو بظاہر اسلام قبول کر چکے تھے، نے زکاۃ دینے سے انکار کر دیا تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان کے خلاف جہاد کیا۔ اس کی بنیاد یہ تھی کہ انہوں نے نماز اور زکاۃ میں تفریق کی تھی جو شریعت کی نظر میں انحراف و ارتداد ہے۔ زکاۃ ہجرت سے پہلے فرض ہو چکی تھی لیکن اس دور میں زکاۃ کا مطلب صرف یہ تھا کہ حاجت مندوں اور خیر کے دوسرے راستوں پر اپنی کمائی خرچ کی جائے، نظام زکاۃ کی تفصیل اور دیگر احکام و مسائل ہجرت کے دوسرے سال نازل ہوئے ہیں، چنانچہ ہجرت سے پہلے حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ نے نجاشی کے دربار میں کہا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں نماز پڑھنے اور زکاۃ دینے کا حکم دیتے ہیں، اسی طرح ہرقل کے سوال و جواب میں حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کہا تھا کہ وہ ہمیں نماز و زکاۃ کا حکم دیتے ہیں اور صلہ رحمی و پاک دامنی کی ہدایت کرتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ زکاۃ مکہ میں فرض ہو چکی تھی، البتہ اس کے تفصیلی احکام ہجرت کے بعد نازل ہوئے۔ مرکزی طور پر اس کی وصولی اور تقسیم کار کا نظام 8 ہجری کے بعد قائم ہوا جس کی تفصیل ہم آئندہ بیان کریں گے۔زکاۃ میں نیکی اور افادیت کے تین پہلو انتہائی اہمیت کے حامل ہیں جس کی تفصیل حسب ذیل ہے: بندہ مومن جس طرح نماز کے قیام اور رکوع و سجود کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کے حضور اپنی بندگی اور نیاز مندی کا مظاہرہ جسم و جان اور زبان سے کرتا ہے تاکہ اسے اللہ کی رضا اور اس کا قرب حاصل ہو، اسی طرح زکاۃ ادا کر کے وہ اس کی بارگاہ میں اپنا مالی نذرانہ اسی غرض سے پیش کرتا ہے کہ اس کے پاس جو کچھ ہے وہ اسی کا دیا ہوا ہے اور وہ اس کی رضا اور قرب حاصل کرنے کے لیے اسے قربان کرتا ہے۔ زکاۃ کا شمار عبادات میں اسی پہلو سے ہے۔زکاۃ کے ذریعے سے ضرورت مند اور پریشان حال لوگوں کی خدمت اور مدد ہوتی ہے۔ اس پہلو سے زکاۃ، اخلاقیات کا نہایت ہی اہم باب ہے کہ انسان دوسرے کے کام آتا ہے اور بوقت ضرورت ان کا تعاون کرنے میں پیش پیش ہوتا ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ بندہ اپنے بھائی کی مدد کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی مدد کرتا ہے، (صحیح مسلم،الذکروالدعاء،حدیث:6853(2699)) لہذا زکاۃ بھائی چارے کی فضا قائم کرنے میں بہت اہم کردار ادا کرتی ہے۔زکاۃ کی افادیت کا تیسرا پہلو یہ ہے کہ حُبِ مال اور دولت پرستی جو ایک ایمان کش اور مہلک روحانی بیماری ہے، زکاۃ سے اس کا علاج کیا جاتا ہے۔ اس قسم کی معاشرتی گندے جرائم اور زہریلے مواد کو زکاۃ کے ذریعے سے ختم کر کے انسانی نفس کو پاک اور صاف کیا جاتا ہے۔ قرآن مجید میں جگہ جگہ زکاۃ کے اس پہلو کو نمایاں کیا گیا ہے، غالبا اسی پہلو سے اس فریضے کا نام زکاۃ رکھا گیا ہے کیونکہ اس کے اصل معنی پاکیزگی کے ہیں جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ چونکہ امت کے نبض شناس ہیں، انہوں نے زکاۃ کے متعلقہ احکام و مسائل بیان کرنے کے لیے تقریبا ایک سو اٹھارہ (118) مرفوع متصل احادیث بیان کی ہیں، پھر ان پر اٹھتر (78) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو معاشرتی طور پر انتہائی کارآمد اور مفید ہیں۔ ان عناوین کے تحت آپ نے زکاۃ کا وجوب، اس کی اہمیت و افادیت، تجارتی، زرعی اور معدنی زکاۃ کے مسائل بڑی تفصیل سے بیان کیے ہیں۔ حیوانات سے زکاۃ کے پہلو کو بھی نمایاں کیا ہے، صدقہ فطر کے احکام بھی ذکر کیے ہیں اور اس کے متعلق اخلاقی پہلوؤں کا بھی جائزہ لیا ہے، نیز اس سے پہلوتہی کرنے پر جو وعید آئی ہے اسے بھی ذکر کیا ہے۔ الغرض زکاۃ کے متعلق جملہ مسائل و احکام بڑے ٹھوس اور خاموش انداز سے بیان کیے ہیں۔کتاب الزکاۃ ایک سو بہتر (172) مرفوع احادیث پر مشتمل ہے جن میں ایک سو اُنیس (119) احادیث موصول ہیں اور باقی متابعات اور معلقات ہیں۔ ان تمام میں سے سو (100) احادیث مکرر اور بہتر (72) احادیث خالص، یعنی غیر مکرر ہیں۔ سترہ (17) احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم نے اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے تقریبا بیس (20) آثار بھی مروی ہیں۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ احادیث کو صرف اضافہ معلومات کے طور پر ہرگز نہ پڑھا جائے بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنے ایمانی تعلق کو مضبوط کرنے کی غرض سے ان کا مطالعہ کیا جائے، نیز دوران مطالعہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت و محبت کو بھی دل میں بیدار کیا جائے۔ والله الموفق وهو يهدي من يشاء إليٰ صراط مستقيم
حضرت عدی بن حاتم ؓ سے روایت ہے،انھوں نے فرمایا: میں رسول اللہ ﷺ کے پاس موجود تھا، اس دوران میں دوآدمی آئے۔ ایک نے غربت و تنگ دستی کا شکوہ کیا اور دوسرےنے چوری اور ڈاکہ زنی کی شکایت کی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’راستے کی بدامنی کے متعلق تو تھوڑی مدت گزرے گی کہ مکہ تک ایک قافلہ بغیر کسی محافظ کے جائے گا، باقی رہی تنگ دستی تو قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی یہاں تک کہ تم میں سے ایک اپنا صدقہ لے کر پھرے گا مگر اسے قبول کرنے والا نہیں ملے گا، پھر (قیامت کے دن ) تم میں سے ہر شخص اللہ کے سامنے کھڑا ہوگا جبکہ اس کے اور اللہ کے درمیان کوئی پردہ حائل نہیں ہوگا اور نہ کوئی ترجمان ہی ہوگا جو اس کی گفتگونقل کرے، بلاشبہ پھر اللہ اس سے فرمائے گا:کیا میں نے تجھے مال نہ دیا تھا؟وہ عرض کرے گا: کیوں نہیں! پھر اللہ فرمائے گا:کیا میں نے تیرے پاس ایک عظیم پیغمبرنہیں بھیجا تھا؟ وہ عرض کرے گا:کیوں نہیں!پھر وہ اپنی دائیں طرف دیکھے گا تو آگ کے علاوہ اسے وہاں کوئی چیز نظر نہیں آئے گی اور اپنی بائیں طرف نظر ڈالے گا تو ادھر بھی سوائے آگ کے کچھ نہیں ہو گا۔ لہٰذا تم میں سے ہر شخص کو ہر ممکن آگ سے بچنا چاہیے۔ اگرچہ کھجور کا ٹکڑا ہی دے، اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو اچھی بات ہی کہہ دے۔ (کیونکہ یہ بھی صدقہ ہے۔)‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث میں بیان ہوا ہے کہ آدمی اپنا صدقہ لے کر نکلے گا، لیکن اسے کوئی قبول کرنے والا نہیں ملے گا، ایسے حالات قربِ قیامت کے وقت پیش آئیں گے، کیونکہ مذکورہ حدیث کی ایک روایت سے ایسا اشارہ ملتا ہے کہ مال و دولت کی فراوانی حضرت عدی بن حاتم کی زندگی میں نہیں ہوئی، آپ نے فرمایا کہ اگر تمہاری زندگی ہوئی تو تم رسول اللہ ﷺ کے اس فرمان کی تصدیق خود ملاحظہ کرو گے۔ (صحیح البخاري، المناقب، حدیث:3595) کیونکہ ان کی وفات حضرت معاویہ ؓ کے دور حکومت میں ہوئی جو کہ فتوحات کا دور تھا۔ محدث ابن التین فرماتے ہیں کہ یہ دور حضرت عیسیٰ ؑ کے نزول کے بعد ہو گا جبکہ روئے زمین پر کوئی کافر نہیں ہو گا اور زمین کی برکات کا یہ عالم ہو گا کہ ایک انار سے پورا کنبہ سیر ہو جائے گا۔ (فتح الباری:356/3) (2) امام بیہقی ؒ نے اسے حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ کے دور خلافت پر محمول کیا ہے جن کا دور صرف تیس ماہ کا تھا اور اس دور میں لوگ اس قدر مال دار ہو گئے تھے کہ کوئی صدقہ لینے والا نہیں ملتا تھا۔ (دلائل النبوة للبیھقي، با ب ما جاء في إخبارہ صلی اللہ علیه وسلم بالشرالذي یکون بعدالخیر۔۔۔۔۔۔493/6) لیکن قرب قیامت کا قول زیادہ راجح معلوم ہوتا ہے، کیونکہ حضرت عدی بن حاتم نے فرمایا تھا کہ اگر تمہاری زندگی طویل ہوئی تو تم اسے دیکھ لو گے، اس سے قریب قیامت کے راجح ہونے کا اشارہ ملتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے ابوعاصم نبیل نے بیان کیا‘ کہا کہ ہمیں سعد ان بن بشیر نے خبر دی ‘ کہا کہ ہم سے ابومجاہد سعد طائی نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے محل بن خلیفہ طائی نے بیان کیا‘ کہا کہ میں نے عدی بن حاتم طائی ؓ سے سنا‘ انہوں نے کہا کہ میں نبی کریم ﷺ کی خدمت میں موجود تھا کہ دو شخص آئے‘ ایک فقروفاقہ کی شکایت لیے ہوئے تھا اور دوسرے کو راستوں کے غیر محفوظ ہونے کی شکایت تھی۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جہاں تک راستوں کے غیر محفوظ ہونے کا تعلق ہے تو بہت جلد ایسا زمانہ آنے والا ہے کہ جب ایک قافلہ مکہ سے کسی محافظ کے بغیرنکلے گا۔ ( اور اسے راستے میں کوئی خطرہ نہ ہوگا ) اور رہا فقروفاقہ تو قیامت اس وقت تک نہیں آئے گی جب تک ( مال ودولت کی کثرت کی وجہ سے یہ حال نہ ہوجائے کہ ) ایک شخص اپنا صدقہ لے کر تلاش کرے، لیکن کوئی اسے لینے والا نہ ملے۔ پھر اللہ تعالیٰ کے درمیان کوئی پردہ نہ ہوگا اور نہ ترجمان کے لیے کوئی ترجمان ہوگا۔ پھر اللہ تعالیٰ اس سے پوچھے گا کہ کیا میں نے تجھے دنیا میں مال نہیں دیا تھا؟ وہ کہے گا کہ ہاں دیا تھا۔ پھر اللہ تعالیٰ پوچھے گا کہ کیا میں نے تیرے پاس پیغمبر نہیں بھیجا تھا؟ وہ کہے گا کہ ہاں بھیجا تھا۔ پھر وہ شخص اپنے دائیں طرف دیکھے گا تو آگ کے سوا اور کچھ نظر نہیں آئے گا پھر بائیں طرف دیکھے گا اور ادھر بھی آگ ہی آگ ہوگی۔ پس تمہیں جہنم سے ڈرنا چاہیے خواہ ایک کھجور کے ٹکڑے ہی ( کاصدقہ کرکے اس سے اپنا بچاؤ کرسکو ) اگر یہ بھی میسر نہ آسکے تو اچھی بات ہی منہ سے نکالے۔
حدیث حاشیہ:
یہ بھی ایک بڑا صدقہ ہے یعنی اگرخیرات نہ دے تو اس کو نرمی سے ہی جواب دے کہ اس وقت میں مجبور ہوں‘ معاف کرو‘ گھر کنا جھگڑنا منع ہے۔ ترجمان وہ ہے جو ترجمہ کرکے بندے کا کلام اللہ سے عرض کرے اور اللہ کا ارشاد بندے کو سنائے بلکہ خود اللہ پاک کلام فرمائے گا۔ اس حدیث سے ان لوگوں کا رد ہوا جو کہتے ہیں کہ اللہ کے کلام میں آواز اور حروف نہیں‘ اگر آواز اور حروف نہ ہوں تو بندہ سنے گا کیسے اور سمجھے گا کیسے؟ ( وحیدی ) اس حدیث میں یہ پیش گوئی بھی ہے کہ ایک دن عرب میں امن وامان عام ہوگا‘ چور ڈاکو عام طورپر ختم ہوجائیں گے‘ یہاں تک کہ قافلے مکہ شریف سے ( خفیر ) کے بغیر نکلا کریں گے۔ خفیر اس شخص کو کہا جاتا تھا جو عرب میں ہر ہر قبیلہ سے قافلہ کے ساتھ سفر کرکے اپنے قبیلہ کی سرحد امن وعافیت کے ساتھ پار کرا دیتا تھا وہ راستہ بھی بتلاتا اور لوٹ مار کرنے والوں سے بھی بچاتا تھا۔ آج اس چودھویں صدی میں حکومت عربیہ سعودیہ نے حرمین شریف کو امن کا اس قدر گہوارہ بنا دیا ہے کہ مجال نہیں کوئی کسی پر دست اندازی کرسکے۔ اللہ پاک اس حکومت کو قائم دائم رکھے اور حاسدین ومعاندین کے اوپر اس کو ہمیشہ غلبہ عطا فرمائے۔ ( آمین )
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Adi bin Hatim (RA): While I was sitting with Allah's Apostle (ﷺ) two person came to him; one of them complained about his poverty and the other complained about the prevalence of robberies. Allah's Apostle (ﷺ) said, "As regards stealing and robberies, there will shortly come a time when a caravan will go to Makkah (from Medina) without any guard. And regarding poverty, The Hour (Day of Judgment) will not be established till one of you wanders about with his object of charity and will not find anybody to accept it And (no doubt) each one of you will stand in front of Allah and there will be neither a curtain nor an interpreter between him and Allah, and Allah will ask him, 'Did not I give you wealth?' He will reply in the affirmative. Allah will further ask, 'Didn't I send a messenger to you?' And again that person will reply in the affirmative Then he will look to his right and he will see nothing but Hell-fire, and then he will look to his left and will see nothing but Hell-fire. And so, any (each one) of you should save himself from the fire even by giving half of a date-fruit (in charity). And if you do not find a half date-fruit, then (you can do it through saying) a good pleasant word (to your brethren). (See Hadith No. 793 Vol. 4). ________