باب: صدقہ وہی بہتر ہے جس کے بعد بھی آدمی مالدار ہی رہ جائے (بالکل خالی ہاتھ نہ ہو بیٹھے)۔
)
Sahi-Bukhari:
Obligatory Charity Tax (Zakat)
(Chapter: The wealthy only are required to give in charity)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور جو شخص خیرات کرے کہ خود محتاج ہو جائے یا اس کے بال بچے محتاج ہوں (تو ایسی خیرات درست نہیں) اسی طرح اگر قرضدار ہو تو صدقہ اور آزادی اور ہبہ پر قرض ادا کرنا مقدم ہو گا اور اس کا صدقہ اس پر پھیر دیا جائے گا اور اس کو یہ درست نہیں کہ (قرض نہ ادا کرے اور خیرات دے کر) لوگوں (قرض خواہوں) کی رقم تباہ کر دے اور نبی کریم ﷺنے فرمایا کہ جو شخص لوگوں کا مال (بطور قرض) تلف کرنے (یعنی نہ دینے) کی نیت سے لے تو اللہ اس کو برباد کر دے گا۔ البتہ اگر صبر اور تکلیف اٹھانے میں مشہور ہو تو اپنی خاص حاجت پر (فقیر کی حاجت کو) مقدم کر سکتا ہے۔ جیسے ابوبکر صدیقؓ نے اپنا سارا مال خیرات میں دے دیا اور اسی طرح انصار نے اپنی ضرورت پر مہاجرین کی ضروریات کو مقدم کیا۔ اور نبی کریمﷺنے مال کو تباہ کرنے سے منع فرمایا ہے تو جب اپنا مال تباہ کرنا منع ہوا تو پرائے لوگوں کا مال تباہ کرنا کسی طرح سے جائز نہ ہو گا۔ اور کعب بن مالک نے (جو جنگ تبوک سے پیچھے رہ گئے تھے) عرض کی یا رسول اللہ! میں اپنی توبہ کو اس طرح پورا کرتا ہوں کہ اپنا سارا مال اللہ اور رسول پر تصدق کر دوں۔ آپ ﷺنے فرمایا کہ نہیں کچھ تھوڑا مال رہنے بھی دے وہ تیرے حق میں بہتر ہے۔ کعب نے کہا بہت خوب میں اپنا خیبر کا حصہ رہنے دیتا ہوں حضرت امام بخاری نے اس باپ میں احادیث نبوی اور آثار صحابہ کی روشنی میں بہت سے اہم امور متعلق صدقہ خیرات پر روشنی ڈالی ہے جن کا خلاصہ یہ ہے کہ انسان کے لیے صدقہ خیرات کرنا اسی وقت بہتر ہو گا جب وہ شرعی حدود کو مد نظر رکھے اگر ایک شخص کے اہل و عیال خود ہی محتاج ہیں یا وہ دوسرں کا مقروض ہے پھر ان حالات میں بھی وہ صدقہ کرے اور نہ یہ اہل و عیال کا خیال رکھے نہ دوسرں کا قرض ادا کرے تو وہ خیرات اس کے لئے باعث اجر نہ ہوگی بلکہ وہ ایک طرح دوسروں کی حق تلفی کرنا اور جن کو دینا ضروری تھا ان کی رقم کو تلف کرنا ضروری تھا ارشاد نبوی ہے من اخذ اموال الناس يريد اتلافها كا یہی منشاہے ہاں صبر ایثار الگ چیز ہے ۔ اگر کوئی حضرت ابوبکر صدیقؓ جیسا صابر و شاکر مسلمان ہو اور انصار جیسا ایثار پیشہ ہو تو اس کے لئے زیادہ سے زیادہ ایثار پیش کرنا جائز ہو گا مگر آج کل ایسی مثالیں تلاش کرنا بے کار ہے جبکہ آج کل ایسے اشخاص ناپید ہو چکے ہیں ۔ حضرت کعب بن مالک ؓ وہ بزرگ ترین جلیل القدر صحابی ہیں جو جنگ تبوک میں پیچھے رہ گئے تھے بعد جب ان کو اپنی غلطی کا احساس ہوا تو انہوں نے اپنی تو بہ کے لئے اپنا سارا مال فی سبیل اللہ دے دینے کا خیال ظاہر کیا آنحضرت ﷺ نے سارے مال کو فی سبیل اللہ دینے سے منع فرمایا ہے تو انہوں نے اپنی جائداد خیبر کو بچا لیا ‘ باقی کو خیرات کردیا اس سے بھی اندازہ لگانا چاہیے کہ قرآن و حدیث کی یہ غرض ہر گز نہیں کہ کو ئی بھی مسلمان اپنے اہل و عیال سے بے نیاز ہو کر اپنی جائداد فی سبیل اللہ بخش دے اور وارثین کو محتاج مفلس کر کے دنیا سے جائے ۔ ایسا ہر گز نہ ہونا چاہیے کہ یہ وارثین کی حق تلفی ہوگی امیر المؤمنین فی الحدیث سیدنا امام بخاری کا یہی منشائے باب ہے ۔
1427.
حضرت حکیم بن حزام ؓ سے رویت ہے، وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا:’’اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہترہے اور صدقے کی ابتدا ان لوگوں سے کر جن کی تو عیال داری کرتا ہے۔ اور بہتر صدقہ وہ ہے جس کے بعد مال داری قائم رہے۔ اور جو کوئی لوگوں سے سوال کرنے سے پرہیز کرنا چاہے، اللہ تعالیٰ اسے بچاتا ہے، نیز جولوگوں سے بے نیاز ہونا چاہے اللہ اسے بے نیاز کردیتا ہے۔‘‘
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1390
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1427
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1427
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1427
تمہید کتاب
لفظ زکاۃ لغوی طور پر بڑھنے، نشوونما پانے اور پاکیزہ ہونے کے معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ عربی زبان میں زكا الزرع کہا جاتا ہے جس کے معنی ہیں: کھیتی نے نشوونما پائی۔ اسی طرح مال کی بڑھوتری کے معنوں میں بھی اسے استعمال کرتے ہیں۔ شریعت نے بھی ان دونوں لغوی معنوں کو استعمال کیا ہے۔ زکاۃ کو زکاۃ اس لیے کہتے ہیں کہ اس کی ادائیگی سے مال مزید بڑھ جاتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ) "۔۔ اللہ تعالیٰ صدقات کو بڑھا دیتا ہے۔" (البقرۃ276:2) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس معنی کی تائید فرمائی ہے، حدیث میں ہے: (ما نقصت صدقة من مال) (صحیح مسلم،البروالصلۃ،حدیث:6592(2588)) "صدقہ مال میں کمی نہیں کرتا۔" (صحیح مسلم، البر والصلۃ، حدیث: 6592 (2588))زکاۃ مال کو پاک اور اسے استعمال کے قابل بنا دیتی ہے اور صاحب مال کو گناہوں اور بخل کی رذالت سے پاک کر دیتی ہے۔ یہ دونوں معانی ایک آیت میں استعمال ہوئے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِم بِهَا) "آپ ان کے اموال سے صدقہ لیں جس کے ذریعے سے آپ انہیں گناہوں سے پاک کریں اور ان کے اجرومال میں اضافہ کریں۔" (التوبۃ103:9) قرآن کریم میں اکثر مقامات پر یہ لفظ پاکیزگی کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (فَلَا تُزَكُّوا أَنفُسَكُمْ) "اپنے نفوس کی پاکیزگی کا دعویٰ نہ کرو۔" (النجم32:53) نیز فرمایا: (قَدْ أَفْلَحَ مَن تَزَكَّىٰ ﴿١٤﴾) "یقینا وہ کامیاب ہے جس نے اپنا تزکیہ کر لیا۔" (الاعلیٰ14:87) زکاۃ کو اس لیے بھی زکاۃ کہتے ہیں کہ یہ ایسے اموال سے لی جاتی ہے جن میں نشوونما اور بڑھنے کی صلاحیت ہوتی ہے، مثلا: تجارت اور زراعت وغیرہ۔اس کی شرعی تعریف یہ ہے کہ ایسا حق جو مقررہ نصاب پر سال گزرنے کے بعد واجب ہوتا ہے جسے کسی فقیر یا اس کے مثل کسی شخص کو دیا جاتا ہے جبکہ وہ شرعی موانع کے ساتھ متصف نہ ہو۔ زکاۃ کے لیے رکنِ اعظم یہ ہے کہ اس کی ادائیگی کے وقت انسان میں اخلاص ہو کیونکہ شہرت اور ریاکاری کی نیت سے زکاۃ دینا عنداللہ معتبر نہیں ہو گا۔ اس سے دنیا میں وجوب کی ادائیگی اور آخرت میں ثواب کا حصول مقصود ہے۔ اس کی حکمت یہ ہے کہ یہ انسانوں کو گناہوں اور بری خصلتوں سے پاک کر دیتی ہے اور ان کے درجات بلند کرتی ہے۔زکاۃ کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ شہادت توحید و رسالت اور اقامت صلاۃ کے بعد زکاۃ اسلام کا تیسرا رکن ہے۔ قرآن مجید میں نماز کے ساتھ زکاۃ کا بیان بیاسی (82) مقامات پر آیا ہے۔ گویا دین اسلام میں ان دونوں کا مقام اور مرتبہ قریب قریب ایک ہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جب بعض قبائل، جو بظاہر اسلام قبول کر چکے تھے، نے زکاۃ دینے سے انکار کر دیا تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان کے خلاف جہاد کیا۔ اس کی بنیاد یہ تھی کہ انہوں نے نماز اور زکاۃ میں تفریق کی تھی جو شریعت کی نظر میں انحراف و ارتداد ہے۔ زکاۃ ہجرت سے پہلے فرض ہو چکی تھی لیکن اس دور میں زکاۃ کا مطلب صرف یہ تھا کہ حاجت مندوں اور خیر کے دوسرے راستوں پر اپنی کمائی خرچ کی جائے، نظام زکاۃ کی تفصیل اور دیگر احکام و مسائل ہجرت کے دوسرے سال نازل ہوئے ہیں، چنانچہ ہجرت سے پہلے حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ نے نجاشی کے دربار میں کہا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں نماز پڑھنے اور زکاۃ دینے کا حکم دیتے ہیں، اسی طرح ہرقل کے سوال و جواب میں حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کہا تھا کہ وہ ہمیں نماز و زکاۃ کا حکم دیتے ہیں اور صلہ رحمی و پاک دامنی کی ہدایت کرتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ زکاۃ مکہ میں فرض ہو چکی تھی، البتہ اس کے تفصیلی احکام ہجرت کے بعد نازل ہوئے۔ مرکزی طور پر اس کی وصولی اور تقسیم کار کا نظام 8 ہجری کے بعد قائم ہوا جس کی تفصیل ہم آئندہ بیان کریں گے۔زکاۃ میں نیکی اور افادیت کے تین پہلو انتہائی اہمیت کے حامل ہیں جس کی تفصیل حسب ذیل ہے: بندہ مومن جس طرح نماز کے قیام اور رکوع و سجود کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کے حضور اپنی بندگی اور نیاز مندی کا مظاہرہ جسم و جان اور زبان سے کرتا ہے تاکہ اسے اللہ کی رضا اور اس کا قرب حاصل ہو، اسی طرح زکاۃ ادا کر کے وہ اس کی بارگاہ میں اپنا مالی نذرانہ اسی غرض سے پیش کرتا ہے کہ اس کے پاس جو کچھ ہے وہ اسی کا دیا ہوا ہے اور وہ اس کی رضا اور قرب حاصل کرنے کے لیے اسے قربان کرتا ہے۔ زکاۃ کا شمار عبادات میں اسی پہلو سے ہے۔زکاۃ کے ذریعے سے ضرورت مند اور پریشان حال لوگوں کی خدمت اور مدد ہوتی ہے۔ اس پہلو سے زکاۃ، اخلاقیات کا نہایت ہی اہم باب ہے کہ انسان دوسرے کے کام آتا ہے اور بوقت ضرورت ان کا تعاون کرنے میں پیش پیش ہوتا ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ بندہ اپنے بھائی کی مدد کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی مدد کرتا ہے، (صحیح مسلم،الذکروالدعاء،حدیث:6853(2699)) لہذا زکاۃ بھائی چارے کی فضا قائم کرنے میں بہت اہم کردار ادا کرتی ہے۔زکاۃ کی افادیت کا تیسرا پہلو یہ ہے کہ حُبِ مال اور دولت پرستی جو ایک ایمان کش اور مہلک روحانی بیماری ہے، زکاۃ سے اس کا علاج کیا جاتا ہے۔ اس قسم کی معاشرتی گندے جرائم اور زہریلے مواد کو زکاۃ کے ذریعے سے ختم کر کے انسانی نفس کو پاک اور صاف کیا جاتا ہے۔ قرآن مجید میں جگہ جگہ زکاۃ کے اس پہلو کو نمایاں کیا گیا ہے، غالبا اسی پہلو سے اس فریضے کا نام زکاۃ رکھا گیا ہے کیونکہ اس کے اصل معنی پاکیزگی کے ہیں جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ چونکہ امت کے نبض شناس ہیں، انہوں نے زکاۃ کے متعلقہ احکام و مسائل بیان کرنے کے لیے تقریبا ایک سو اٹھارہ (118) مرفوع متصل احادیث بیان کی ہیں، پھر ان پر اٹھتر (78) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو معاشرتی طور پر انتہائی کارآمد اور مفید ہیں۔ ان عناوین کے تحت آپ نے زکاۃ کا وجوب، اس کی اہمیت و افادیت، تجارتی، زرعی اور معدنی زکاۃ کے مسائل بڑی تفصیل سے بیان کیے ہیں۔ حیوانات سے زکاۃ کے پہلو کو بھی نمایاں کیا ہے، صدقہ فطر کے احکام بھی ذکر کیے ہیں اور اس کے متعلق اخلاقی پہلوؤں کا بھی جائزہ لیا ہے، نیز اس سے پہلوتہی کرنے پر جو وعید آئی ہے اسے بھی ذکر کیا ہے۔ الغرض زکاۃ کے متعلق جملہ مسائل و احکام بڑے ٹھوس اور خاموش انداز سے بیان کیے ہیں۔کتاب الزکاۃ ایک سو بہتر (172) مرفوع احادیث پر مشتمل ہے جن میں ایک سو اُنیس (119) احادیث موصول ہیں اور باقی متابعات اور معلقات ہیں۔ ان تمام میں سے سو (100) احادیث مکرر اور بہتر (72) احادیث خالص، یعنی غیر مکرر ہیں۔ سترہ (17) احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم نے اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے تقریبا بیس (20) آثار بھی مروی ہیں۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ احادیث کو صرف اضافہ معلومات کے طور پر ہرگز نہ پڑھا جائے بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنے ایمانی تعلق کو مضبوط کرنے کی غرض سے ان کا مطالعہ کیا جائے، نیز دوران مطالعہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت و محبت کو بھی دل میں بیدار کیا جائے۔ والله الموفق وهو يهدي من يشاء إليٰ صراط مستقيم
تمہید باب
امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنے عنوان کی خود تشریح کی ہے کہ صدقہ کرنے والا خود محتاج نہ ہو اور نہ اس کے گھر والے ہی اس کے محتاج ہوں اور اس پر قرض وغیرہ بھی نہ ہو کیونکہ قرض کی ادائیگی ضروری ہے۔ فرائض کی ادائیگی نوافل سے مقدم ہوتی ہے۔ اگر فرض ادا کیے بغیر صدقہ و خیرات کرتا ہے تو لوگوں کے مالی حقوق ضائع کرنے کے مترادف ہے۔ پھر ایک استثنائی صورت بیان کی ہے کہ جس نے اپنا سارا مال صدقہ کر دیا اور وہ خود تندرست ہے اور اس کی عقل بھی قائم ہے اس پر قرض وغیرہ بھی نہیں اور فاقہ بھی برداشت کر سکتا ہے اور عیال دار بھی نہیں اور اگر ہے تو وہ بھی اس جیسے صابر و شاکر ہیں تو ایسے شخص کے لیے اپنا سارا مال صدقہ کرنے کی اجازت ہے جیسا کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنا سارا مال صدقہ کر دیا تھا۔ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کو سارا مال خرچ کرنے سے منع کر دیا کیونکہ ان میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ جیسا توکل اور صبرواستقامت نہ تھی۔ واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے لیے ایک حدیث کے الفاظ کو منتخب کیا ہے جسے امام احمد نے اپنی مسند میں بیان کیا ہے۔ (مسنداحمد:2/230) پھر اس کی تشریح میں پانی معلق روایات بیان کی ہیں: پہلی معلق روایت کہ "جو شخص لوگوں کا مال ضائع کرنے کے لیے ان سے قرض لیتا ہے ۔۔" اسے بخاری رحمہ اللہ نے خود ہی متصل سند سے بیان کیا ہے۔ (صحیح البخاری،الاستقراض،حدیث:2387) دوسری حدیث جس میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے حوالے سے بیان ہوا ہے کہ انہوں نے اپنا سب مال صدقہ کر دیا تھا، اسے سیرت کی کتابوں میں دیکھا جا سکتا ہے۔ (فتح الباری:3/373) تیسری حدیث میں انصار کے ایثار کو بیان کیا گیا ہے۔ اسے بھی سیرت کی کتابوں میں تلاش کیا جا سکتا ہے۔ (فتح الباری:3/373) چوتھی روایت کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مال ضائع کرنے سے منع کیا ہے۔ اسے امام بخاری رحمہ اللہ نے خود ہی متصل سند سے بیان کیا ہے۔ (صحیح البخاری،الزکاۃ،حدیث:1477) پانچویں حدیث جس میں حضرت کعب بن مالک کے صدقہ کرنے کا بیان ہے، یہ بھی امام بخاری رحمہ اللہ نے بیان کی ہے۔ (صحیح البخاری،التفسیر،حدیث:4676)
اور جو شخص خیرات کرے کہ خود محتاج ہو جائے یا اس کے بال بچے محتاج ہوں (تو ایسی خیرات درست نہیں) اسی طرح اگر قرضدار ہو تو صدقہ اور آزادی اور ہبہ پر قرض ادا کرنا مقدم ہو گا اور اس کا صدقہ اس پر پھیر دیا جائے گا اور اس کو یہ درست نہیں کہ (قرض نہ ادا کرے اور خیرات دے کر) لوگوں (قرض خواہوں) کی رقم تباہ کر دے اور نبی کریم ﷺنے فرمایا کہ جو شخص لوگوں کا مال (بطور قرض) تلف کرنے (یعنی نہ دینے) کی نیت سے لے تو اللہ اس کو برباد کر دے گا۔ البتہ اگر صبر اور تکلیف اٹھانے میں مشہور ہو تو اپنی خاص حاجت پر (فقیر کی حاجت کو) مقدم کر سکتا ہے۔ جیسے ابوبکر صدیقؓ نے اپنا سارا مال خیرات میں دے دیا اور اسی طرح انصار نے اپنی ضرورت پر مہاجرین کی ضروریات کو مقدم کیا۔ اور نبی کریمﷺنے مال کو تباہ کرنے سے منع فرمایا ہے تو جب اپنا مال تباہ کرنا منع ہوا تو پرائے لوگوں کا مال تباہ کرنا کسی طرح سے جائز نہ ہو گا۔ اور کعب بن مالک نے (جو جنگ تبوک سے پیچھے رہ گئے تھے) عرض کی یا رسول اللہ! میں اپنی توبہ کو اس طرح پورا کرتا ہوں کہ اپنا سارا مال اللہ اور رسول پر تصدق کر دوں۔ آپ ﷺنے فرمایا کہ نہیں کچھ تھوڑا مال رہنے بھی دے وہ تیرے حق میں بہتر ہے۔ کعب نے کہا بہت خوب میں اپنا خیبر کا حصہ رہنے دیتا ہوں حضرت امام بخاری نے اس باپ میں احادیث نبوی اور آثار صحابہ کی روشنی میں بہت سے اہم امور متعلق صدقہ خیرات پر روشنی ڈالی ہے جن کا خلاصہ یہ ہے کہ انسان کے لیے صدقہ خیرات کرنا اسی وقت بہتر ہو گا جب وہ شرعی حدود کو مد نظر رکھے اگر ایک شخص کے اہل و عیال خود ہی محتاج ہیں یا وہ دوسرں کا مقروض ہے پھر ان حالات میں بھی وہ صدقہ کرے اور نہ یہ اہل و عیال کا خیال رکھے نہ دوسرں کا قرض ادا کرے تو وہ خیرات اس کے لئے باعث اجر نہ ہوگی بلکہ وہ ایک طرح دوسروں کی حق تلفی کرنا اور جن کو دینا ضروری تھا ان کی رقم کو تلف کرنا ضروری تھا ارشاد نبوی ہے من اخذ اموال الناس يريد اتلافها كا یہی منشاہے ہاں صبر ایثار الگ چیز ہے ۔ اگر کوئی حضرت ابوبکر صدیقؓ جیسا صابر و شاکر مسلمان ہو اور انصار جیسا ایثار پیشہ ہو تو اس کے لئے زیادہ سے زیادہ ایثار پیش کرنا جائز ہو گا مگر آج کل ایسی مثالیں تلاش کرنا بے کار ہے جبکہ آج کل ایسے اشخاص ناپید ہو چکے ہیں ۔ حضرت کعب بن مالک ؓ وہ بزرگ ترین جلیل القدر صحابی ہیں جو جنگ تبوک میں پیچھے رہ گئے تھے بعد جب ان کو اپنی غلطی کا احساس ہوا تو انہوں نے اپنی تو بہ کے لئے اپنا سارا مال فی سبیل اللہ دے دینے کا خیال ظاہر کیا آنحضرت ﷺ نے سارے مال کو فی سبیل اللہ دینے سے منع فرمایا ہے تو انہوں نے اپنی جائداد خیبر کو بچا لیا ‘ باقی کو خیرات کردیا اس سے بھی اندازہ لگانا چاہیے کہ قرآن و حدیث کی یہ غرض ہر گز نہیں کہ کو ئی بھی مسلمان اپنے اہل و عیال سے بے نیاز ہو کر اپنی جائداد فی سبیل اللہ بخش دے اور وارثین کو محتاج مفلس کر کے دنیا سے جائے ۔ ایسا ہر گز نہ ہونا چاہیے کہ یہ وارثین کی حق تلفی ہوگی امیر المؤمنین فی الحدیث سیدنا امام بخاری کا یہی منشائے باب ہے ۔
حدیث ترجمہ:
حضرت حکیم بن حزام ؓ سے رویت ہے، وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا:’’اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہترہے اور صدقے کی ابتدا ان لوگوں سے کر جن کی تو عیال داری کرتا ہے۔ اور بہتر صدقہ وہ ہے جس کے بعد مال داری قائم رہے۔ اور جو کوئی لوگوں سے سوال کرنے سے پرہیز کرنا چاہے، اللہ تعالیٰ اسے بچاتا ہے، نیز جولوگوں سے بے نیاز ہونا چاہے اللہ اسے بے نیاز کردیتا ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
جو خود محتاج ہویا اس کے اہل وعیال ضرورت مند ہوں، یا اس پر قرض ہوتو صدقے، غلام کو آزادی دینے اورہبہ وغیرہ سےبہتر ہے کہ چلے قرض ادا کیاجائے۔ یہ چیزیں اس کو واپس کی جائیں گی اسے حق نہیں پہنچتا کہ وہ صدقے کے بہانے لوگوں کے مال ضائع کرے۔ نبی کریمﷺکاارشاد گرامی ہے: "جولوگوں سے مال لے کر اسے تلف کرنا چاہتا ہے اللہ اسے تلف کردے گا۔ "الا یہ کہ جو شخص صبر میں مشہور ہو اور دوسروں کوا پنی ذات پر ترجیح دیتا ہو اگرچہ اسے خود ضرورت ہوجیسا کہ حضرت ابو بکرؓ کی ذات گرامی ہے کہ انھوں نے اپنا سارا مال صدقہ کردیاتھا اور اسی طرح انصار نے مہاجرین کواپنے اوپر ترجیح دی تھی۔ اس کے علاوہ نبی کریم ﷺ نے مال ضائع کرنے سے منع فرمایا ہے۔ اس بنا پر کسی شخص کو یہ اجازت نہیں دی جاسکتی کہ وہ صدقہ وخیرات کرنے کے بہانے لوگوں کے مال ضائع کرے۔ حضرت کعب بن مالک ؓنے عرض کیاتھا: اللہ کے رسولﷺم !میری توبہ کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ میں اپنے مال سے دست بردار ہوکر وہ سب کا سب اللہ اور اس کے رسول ﷺ پر قربان کردوں۔ آپ نے ان سے فرمایا تھا: "اپنے مال کاکچھ حصہ اپنے لیے روک لو، یہ تمہارے لیے بہتر ہے۔ "میں نے کہا: ٹھیک ہے میں اپنا خیبر والا حصہ روک لیتا ہوں
حدیث ترجمہ:
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا کہا کہ ہم سے وہیب نے بیان کیا کہا کہ ہم سے ہشام بن عروہ نے اپنے باپ سے بیان کیاان سے حکیم بن حزام ؓ نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے اور پہلے انہیں دو جو تمہارے بال بچے اور عزیز ہیں اور بہترین صدقہ وہ ہے جسے دے کر آدمی مالدار رہے اور جو کوئی سوال سے بچنا چاہے گا، اسے اللہ تعالیٰ بھی محفوظ رکھتا ہے اور جو دوسروں ( کے مال ) سے بے نیاز رہتا ہے، اسے اللہ تعالیٰ بے نیاز ہی بنا دیتا ہے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Hakim bin Hizam The Prophet (ﷺ) said, "The upper hand is better than the lower hand (i.e. he who gives in charity is better than him who takes it). One should start giving first to his dependents. And the best object of charity is that which is given by a wealthy person (from the money which is left after his expenses). And whoever abstains from asking others for some financial help, Allah will give him and save him from asking others, Allah will make him self-sufficient."