باب:اس بارے میں کہ کوئی شخص دو اینٹوں پر بیٹھ کر قضاء حاجت کرے (تو کیا حکم ہے؟)
)
Sahi-Bukhari:
Ablutions (Wudu')
(Chapter: Defecating while sitting over two bricks)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
145.
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں: کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ جب تم قضائے حاجت کے لیے بیٹھو تو بیت اللہ اور بیت المقدس کی طرف منہ نہ کرو، حالانکہ میں ایک دن اپنے گھر کی چھت پر چڑھا تو دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ قضائے حاجت کے لیے دو کچی اینٹوں پر بیت المقدس کی طرف منہ کر کے بیٹھے ہیں۔ حضرت ابن عمر ؓ نے واسع بن حبان سے کہا: شاید تم ان لوگوں میں سے ہو جو اپنی سرینوں پر نماز پڑھتے ہیں۔ (یعنی زمین سے چمٹ کر) واسع نے کہا: واللہ! میں نہیں جانتا (کہ آپ کا مطلب کیا ہے؟) مالک کہتے ہیں: (ابن عمر) اس سے وہ شخص مراد لیتے ہیں جو نماز پڑھے اور زمین سے اونچا نہ ہو، سجدہ اس طرح کرے کہ زمین سے لگا رہے۔
تشریح:
1۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی تراجم کے متعلق ایک اور عادت ہے کہ آپ کسی عنوان کے تحت متعدد احادیث لاتے ہیں، پھر ان احادیث میں سے کوئی ایک حدیث کسی فائدے پردلالت کرتی ہے تو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اس فائدے سے آگاہ کرنے کے لیے ایک دوسرا عنوان قائم کردیتے ہیں جو مستقل نہیں ہوتا بلکہ باب در باب کی حیثیت رکھتا ہے جیسا کہ مذکورہ حدیث بنیادی طور پر پہلے عنوان سے متعلق ہے لیکن اس میں ایک مزید فائدہ مذکور تھا، اس لیے آپ نے اس پر عنوان قائم کردیا۔ دراصل عربوں کی یہ عادت تھی کہ وہ قضائے حاجت کے لیے باہرمیدانی علاقے کا رخ کرتے تھے پھر وہاں بھی ایسے مقام کی تلاش کرتے جو گڑھے(الغائط) کی شکل میں ہوتا تاکہ قضائے حاجت کرنے والا لوگوں کی نظروں سے اوجھل رہے۔ اس بنا پر آبادی میں اینٹوں پربیٹھ کر قضائے حاجت کرنے کا مسئلہ دولحاظ سے قابل بحث تھا۔ (الف)۔ ایسا کرنا عرب کی عام عادت کے خلاف ہے۔ (ب)۔ اینٹوں کے اونچا ہونے کی وجہ سے پردہ پوشی کے برعکس ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کے جواز کے لیے یہ حدیث پیش کی ہے اور اس پر ایک عنوان قائم کیا ہے۔ 2۔ آخر میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے واسع بن حبان کو تنبیہ کے طور پر جو بات کہی ہے، اس کا مفہوم کئی طرح سے بیان کیا گیا ہے۔ صحیح مسلم کی روایت کے سیاق سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت واسع بن حبان رحمۃ اللہ علیہ نے مسجد میں نماز پڑھی جبکہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بھی وہیں تشریف فرما تھے۔ انھیں شک گزرا کہ واسع زمین کے ساتھ چمٹ کر سجدہ کرتے ہیں۔ اور شاید یہ ایسا اس وجہ سے کرتے ہیں کہ پورے طور پر سجدہ کرنے سے عضو مستور کا رخ قبلے کی طرف ہو جاتا ہے۔ جب واسع بن حبان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نماز سےفارغ ہوکر ابن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس گئے تو انھوں نے پہلے مرفوع حدیث بیان کر کے ان لوگوں کی تردید کی جوعمارت میں بھی بیت اللہ کی طرف منہ کر کے قضائے حاجت کو ناجائز سمجھتے تھے۔ بعد ازاں ان سے پوچھا کہ شاید تم بھی انھی لوگوں میں سے ہو جن کا یہ موقف ہے اور شاید اسی وجہ سے تم سجدہ بھی اس انداز سے کرتے ہو؟ اس پر واسع بن حبان رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ مجھے نہیں معلوم کہ میں نے ایسا سجدہ کیا ہو۔ شاید لاشعوری طور پر ایسا ہوگیا ہو تاہم میرا یہ موقف نہیں۔ (شرح صحیح البخاري محمد بن صالح العثمین رحمة الله عليه: 294،295/1) 3۔ مذکورہ حدیث سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ گھر میں بنائے گئے بیت الخلاء میں قضائے حاجت درست ہے کیونکہ اس میں پردہ پوشی کے ساتھ ساتھ نجاست سے بُعد بھی ہے۔ زمین سے متصل بیٹھ کر پیشاب کریں تو اس کے چھینٹوں سے بدن اور کپڑوں کے آلودہ ہونے کا اندیشہ ہے جبکہ بیت الخلاء میں پردے کے ساتھ اس خطرے کا سدباب بھی ہے۔ واللہ أعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
147
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
145
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
145
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
145
تمہید کتاب
ہر مکلف پر سب سے پہلے ایمان کی پابندی عائد ہوتی ہے ، پھر وہ چیزیں جو ایمان کے لیے مطلوب ہیں اور جن پر عمل پیرا ہونے سے ایمان میں کمال پیدا ہوتا ہے۔ ان کا حصول علم کے بغیر ممکن نہیں، ایمان کے بعد اعمال کی ضرورت ہے کیونکہ اعمال ہی ایمان کے لیے سیڑھی کاکام دیتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:(إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ) "صاف ستھرے کلمات اللہ کی طرف چڑھتے ہیں اور نیک عمل انھیں بلند کرتے ہیں۔"( فاطر:35۔10۔) اعمال میں سب سے افضل عمل نماز ہے کیونکہ قیامت کے دن سب سے پہلے نماز کے متعلق سوال ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ ارکان اسلام میں سے نماز کی ادائیگی کے متعلق قرآن مجید نے بہت زور دیا ہے، نماز کی قبولیت طہارت پر موقوف ہے اور طہارت نماز کے لیے شرط ہے اور شرط ہمیشہ مشروط پر مقدم ہوتی ہے ،اس لیے عبادات سے پہلے کتاب ولوضو کو بیان کیا گیا ہے۔لفظ وضو وضاءۃسے مشتق ہے جس کے لغوی معنی خوبصورتی اور چمک ہیں۔شرعی اصطلاح میں ایک خاص طریقے سے مخصوص اعضاء کو دھونا وضو کہلاتا ہے۔ لغوی معنی سے اس کی مطابقت یہ ہے کہ وضو کرنے والا بھی پانی کے استعمال کرنے سے صاف ستھرا اور خوبصورت ہو جاتا ہے۔نیز قیامت کے دن اعضائے وضو خوبصورت ہوں گے اور ان پر چمک ہوگی۔ لفظ وضو کی داؤ پر اگر پیش پڑھی جائے تو معنی اصطلاحی وضو ہوتے ہیں، واؤ فتحہ کے ساتھ ہوتو وہ پانی مراد ہوتا ہے جو اس عمل کا ذریعہ ہے۔ اور واؤ کو کسرے کے ساتھ پڑھنے سے وہ برتن مراد ہوتا ہے جس میں وضو کے لیے پانی ڈالا جاتا ہے۔وضو ،دروضو و ضو تازہ دار"وضو کا پانی وضو کے برتن میں وضو تازہ کرو۔"عبادت نماز کے لیے وضو کا عمل ان خصوصیات اسلام میں سے ہے جن کی نظیر دیگر مذاہب عالم میں نہیں ملتی، اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس بڑے عنوان کے تحت وضو سے متعلق چھوٹے چھوٹے 75 ذیلی عنوان قائم کیے ہیں جن میں اس کا وجوب ،علت وجوب ، اہمیت،وافادیت ،فضیلت وخصوصیت ،شرائط وواجبات ، صفات و مقدمات اور احکام و آداب بیان فرمائے ہیں۔چونکہ وضو سے پہلے انسانی حاجات سے فارغ ہونا ضروری ہے، اس لیے گھر اور باہر اس سے فراغت کے آداب واحکام اور حدود و شرائط بیان کی ہیں پھر جس پانی سے وضو کیا جاتا ہے اور جس برتن میں پانی ڈالاجاتا ہے اس کی طہارت ، نجاست آلود ہونے کی صورت میں اس کا طریقہ طہارت ، پھر وضو کے لیے مقدار پانی اور نواقص وضو کی وضاحت کی ہے وضو سے بچا ہوا پانی اس کا استعمال کن چیزوں کے استعمال کے بعد وضو ضروری ہے یا ضروری نہیں۔؟اس مناسبت سے پیشاب کے ااحکام ،حیوانات کے بول و براز کے مسائل پھر مسواک کے فوائد بیان کیے ہیں آخر میں ہمیشہ باوضو رہنے کی فضیلت بیان کر کے اس قسم کے پاکیزہ عمل کو اپنانے کی تلقین فرمائی ہے۔ الغرض امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب الوضوء میں بے شمار معارف وحقائق اور لطائف و دقائق بیان کیے ہیں۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اس مختصر تمہید کو ذہن میں رکھتے ہوئے اس کا مطالعہ کریں تاکہ ہمیں حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی روایت و فقاہت کا عملی تجربہ ہو۔ واللہ ولی التوفیق وھو الہادی من یشاء الی صراط مستقیم ۔
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں: کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ جب تم قضائے حاجت کے لیے بیٹھو تو بیت اللہ اور بیت المقدس کی طرف منہ نہ کرو، حالانکہ میں ایک دن اپنے گھر کی چھت پر چڑھا تو دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ قضائے حاجت کے لیے دو کچی اینٹوں پر بیت المقدس کی طرف منہ کر کے بیٹھے ہیں۔ حضرت ابن عمر ؓ نے واسع بن حبان سے کہا: شاید تم ان لوگوں میں سے ہو جو اپنی سرینوں پر نماز پڑھتے ہیں۔ (یعنی زمین سے چمٹ کر) واسع نے کہا: واللہ! میں نہیں جانتا (کہ آپ کا مطلب کیا ہے؟) مالک کہتے ہیں: (ابن عمر) اس سے وہ شخص مراد لیتے ہیں جو نماز پڑھے اور زمین سے اونچا نہ ہو، سجدہ اس طرح کرے کہ زمین سے لگا رہے۔
حدیث حاشیہ:
1۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی تراجم کے متعلق ایک اور عادت ہے کہ آپ کسی عنوان کے تحت متعدد احادیث لاتے ہیں، پھر ان احادیث میں سے کوئی ایک حدیث کسی فائدے پردلالت کرتی ہے تو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اس فائدے سے آگاہ کرنے کے لیے ایک دوسرا عنوان قائم کردیتے ہیں جو مستقل نہیں ہوتا بلکہ باب در باب کی حیثیت رکھتا ہے جیسا کہ مذکورہ حدیث بنیادی طور پر پہلے عنوان سے متعلق ہے لیکن اس میں ایک مزید فائدہ مذکور تھا، اس لیے آپ نے اس پر عنوان قائم کردیا۔ دراصل عربوں کی یہ عادت تھی کہ وہ قضائے حاجت کے لیے باہرمیدانی علاقے کا رخ کرتے تھے پھر وہاں بھی ایسے مقام کی تلاش کرتے جو گڑھے(الغائط) کی شکل میں ہوتا تاکہ قضائے حاجت کرنے والا لوگوں کی نظروں سے اوجھل رہے۔ اس بنا پر آبادی میں اینٹوں پربیٹھ کر قضائے حاجت کرنے کا مسئلہ دولحاظ سے قابل بحث تھا۔ (الف)۔ ایسا کرنا عرب کی عام عادت کے خلاف ہے۔ (ب)۔ اینٹوں کے اونچا ہونے کی وجہ سے پردہ پوشی کے برعکس ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کے جواز کے لیے یہ حدیث پیش کی ہے اور اس پر ایک عنوان قائم کیا ہے۔ 2۔ آخر میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے واسع بن حبان کو تنبیہ کے طور پر جو بات کہی ہے، اس کا مفہوم کئی طرح سے بیان کیا گیا ہے۔ صحیح مسلم کی روایت کے سیاق سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت واسع بن حبان رحمۃ اللہ علیہ نے مسجد میں نماز پڑھی جبکہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بھی وہیں تشریف فرما تھے۔ انھیں شک گزرا کہ واسع زمین کے ساتھ چمٹ کر سجدہ کرتے ہیں۔ اور شاید یہ ایسا اس وجہ سے کرتے ہیں کہ پورے طور پر سجدہ کرنے سے عضو مستور کا رخ قبلے کی طرف ہو جاتا ہے۔ جب واسع بن حبان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نماز سےفارغ ہوکر ابن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس گئے تو انھوں نے پہلے مرفوع حدیث بیان کر کے ان لوگوں کی تردید کی جوعمارت میں بھی بیت اللہ کی طرف منہ کر کے قضائے حاجت کو ناجائز سمجھتے تھے۔ بعد ازاں ان سے پوچھا کہ شاید تم بھی انھی لوگوں میں سے ہو جن کا یہ موقف ہے اور شاید اسی وجہ سے تم سجدہ بھی اس انداز سے کرتے ہو؟ اس پر واسع بن حبان رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ مجھے نہیں معلوم کہ میں نے ایسا سجدہ کیا ہو۔ شاید لاشعوری طور پر ایسا ہوگیا ہو تاہم میرا یہ موقف نہیں۔ (شرح صحیح البخاري محمد بن صالح العثمین رحمة الله عليه: 294،295/1) 3۔ مذکورہ حدیث سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ گھر میں بنائے گئے بیت الخلاء میں قضائے حاجت درست ہے کیونکہ اس میں پردہ پوشی کے ساتھ ساتھ نجاست سے بُعد بھی ہے۔ زمین سے متصل بیٹھ کر پیشاب کریں تو اس کے چھینٹوں سے بدن اور کپڑوں کے آلودہ ہونے کا اندیشہ ہے جبکہ بیت الخلاء میں پردے کے ساتھ اس خطرے کا سدباب بھی ہے۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہم کو امام مالک نے یحییٰ بن سعید سے خبر دی۔ وہ محمد بن یحییٰ بن حبان سے، وہ اپنے چچا واسع بن حبان سے روایت کرتے ہیں، وہ عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت کرتے ہیں۔ وہ فرماتے تھے کہ لوگ کہتے تھے کہ جب قضاء حاجت کے لیے بیٹھو تو نہ قبلہ کی طرف منہ کرو نہ بیت المقدس کی طرف (یہ سن کر) عبداللہ بن عمر ؓ نے فرمایا کہ ایک دن میں اپنے گھر کی چھت پر چڑھا تو میں نے آنحضرت ﷺ کو دیکھا کہ آپ بیت المقدس کی طرف منہ کر کے دو اینٹوں پر قضاء حاجت کے لیے بیٹھے ہیں۔ پھر عبداللہ بن عمر ؓ نے (واسع سے) کہا کہ شاید تم ان لوگوں میں سے ہو جو اپنے چوتڑوں کے بل نماز پڑھتے ہیں۔ تب میں نے کہا خدا کی قسم! میں نہیں جانتا (کہ آپ کا مطلب کیا ہے) امام مالک نے کہا کہ عبداللہ بن عمر ؓ نے اس سے وہ شخص مراد لیا جو نماز میں زمین سے اونچا نہ رہے، سجدہ میں زمین سے چمٹ جائے۔
حدیث حاشیہ:
حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما اپنی کسی ضرورت سے کوٹھے پر چڑھے۔ اتفاقیہ ان کی نگاہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر پڑگئی۔ ابن عمر کے اس قول کا منشا کہ بعض لوگ اپنے چوتڑوں پر نماز پڑھتے ہیں۔ شاید یہ ہو کہ قبلہ کی طرف شرمگاہ کا رخ اس حال میں منع ہے کہ جب آدمی رفع حاجت وغیرہ کے لیے ننگا ہو۔ ورنہ لباس پہن کر پھر یہ تکلیف کرنا کہ کسی قبلہ کی طرف سامنا یا پشت نہ ہو، یہ نرا تکلف ہے۔ جیسا کہ انھوں نے کچھ لوگوں کو دیکھا کہ وہ سجدہ اس طرح کرتے ہیں کہ اپنا پیٹ بالکل رانوں سے ملا لیتے ہیں اسی کو یصلون علی أوراکهم سے تعبیر کیا گیا مگر صحیح تفسیر وہی ہے جو مالک سے نقل ہوئی۔ صاحب انوار الباری کا عجیب اجہتاد: احناف میں عورتوں کی نماز مردوں کی نماز سے کچھ مختلف قسم کی ہوتی ہے۔ صاحب انوارالباری نے لفظ مذکور یصلون علی أوراکهم سے عورتوں کی اس مروجہ نماز پر اجتہاد فرمایا ہے۔ چنانچہ ارشاد ہے: ’’یصلون علی اوراکهم‘‘ سے عورتوں والی نشست اور سجدہ کی حالت بتلائی گئی ہے کہ عورتیں نماز میں کولہے اور سرین پر بیٹھتی ہیں اور سجدہ بھی خوب سمٹ کر کرتی ہیں۔ کہ پیٹ رانوں کے اوپر کے حصوں سے مل جاتا ہے۔ تاکہ ستر زیادہ سے زیادہ چھپ سکے لیکن ایسا کرنا مردوں کے لیے خلاف سنت ہے۔ ان کو سجدہ اس طرح کرنا چاہئیے کہ پیٹ ران وغیرہ حصوں سے بالکل الگ رہے۔ اور سجدہ اچھی طرح کھل کر کیا جائے۔ غرض عورتوں کی نماز میں بیٹھنے اور سجدہ کرنے کی حالت مردوں سے بالکل مختلف ہوتی ہے۔‘‘ (انوارالباری،ج4،ص: 187) صاحب انوارالباری کی اس وضاحت سے ظاہر ہے کہ مردوں کے لیے ایسا کرنا خلاف سنت ہے اور عورتوں کے لیے عین سنت کے مطابق ہے۔ شاید آپ کے اس بیان کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواجِ مطہرات سے ایسی ہی نماز ثابت ہوگی۔ کاش! آپ ان احادیث نبوی کو بھی نقل کر دیتے جن سے عورتوں اور مردوں کی نمازوں میں یہ تفریق ثابت ہوتی ہے یا ازواج مطہرات ہی کا عمل نقل فرمادیتے۔ ہم دعویٰ سے کہتے ہیں کہ عورتوں اور مردوں کی نمازوں میں یہ تفریق مجوزہ محض صاحب انوارالباری ہی کا اجتہاد ہے۔ ہمارے علم میں احادیث صحیحہ سے یہ تفریق ثابت نہیں ہے۔ مزید تفصیل اپنے مقام پر آئے گی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah bin 'Umar (RA): People say, "Whenever you sit for answering the call of nature, you should not face the Qibla or Bait-ulMaqdis (Jerusalem)." I told them. "Once I went up the roof of our house and I saw Allah's Apostle (ﷺ) answering the call of nature while sitting on two bricks facing Bait-ul-Maqdis (Jerusalem) (but there was a screen covering him. ' (FatehAl-Bari, Page 258, Vol. 1).