باب: مالداروں سے زکوٰۃ وصول کی جائے اور فقراء پر خرچ کر دی جائے خواہ وہ کہیں بھی ہوں۔
)
Sahi-Bukhari:
Obligatory Charity Tax (Zakat)
(Chapter: Zakat should be taken from the rich and given to the poor)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1496.
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا:رسول اللہ ﷺ نے جب حضرت معاذ ؓ کو یمن روانہ کیا تو ان سے فرمایا:’’تم ایک قوم کے پاس جارہے ہو جو اہل کتاب ہیں، ان کے پاس پہنچ کر انھیں دعوت دو کہ وہ لاإلٰه إلا اللہ محمد رسول اللہ کی شہادت دیں، اگر وہ اس میں تمہاری اطاعت کریں تو انھیں بتاؤ کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر دن رات میں پانچ نمازیں فرض کی ہیں، اگر وہ اس سلسلے میں تمہاری بات تسلیم کرلیں تو انھیں بتاؤ کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر زکوٰۃ فرض کی ہے۔ جو ان کے مالداروں سے وصول کرکے ان کے فقراء پر تقسیم کی جائے گی۔ اور اگر وہ اس میں تمہاری اطاعت کریں تو ان کے عمدہ مال لینے سے اجتناب کرو۔ اور مظلوم کی بددعا سے بھی بچو کیونکہ اس کی بد دعا اللہ کے درمیان کوئی حجاب نہیں ہوتا۔‘‘
تشریح:
(1) اس حدیث میں یہ الفاظ ہیں کہ زکاۃ مالداروں سے وصول کر کے ان کے فقراء میں تقسیم کر دی جائے۔ امام بخاری ؒ کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ ان الفاظ کو عام خیال کرتے ہیں کہ ایک ملک کی زکاۃ دوسرے ملک بھیجی جا سکتی ہے۔ لیکن امام بخاری ؒ مطلق طور پر یہ موقف نہیں رکھتے۔ ان کے نزدیک اگر اس شہر میں مستحقین نہ ہوں تو پھر دوسرے شہر منتقل کی جا سکتی ہے کیونکہ انہوں نے (حيث كانوا) کے الفاظ سے اشارہ کیا ہے کہ زکاۃ دوسرے ملک منتقل نہ کی جائے جبکہ وہاں مستحقین موجود ہوں۔ اگر کسی نے دوسرے ملک کے فقراء میں تقسیم کر دی تو اکثر اہل علم کے نزدیک بہتر نہیں ہے، جواز میں کسی کو کلام نہیں۔ (2) ہمارے نزدیک ضرورت اور مصلحت کے پیش نظر دوسرے شہر میں مال زکاۃ صرف کیا جا سکتا ہے، البتہ عام حالات میں بہتر ہے کہ جس علاقے سے زکاۃ وصول کی جائے اسی علاقے کے فقراء میں تقسیم کر دی جائے۔ جیسا کہ درج ذیل احادیث سے پتہ چلتا ہے۔ حضرت ابو جحیفہ ؓ سے روایت ہے کہ ہمارے پاس رسول اللہ ﷺ کی طرف سے زکاۃ وصول کرنے والا شخص آیا تو اس نے ہمارے مالداروں سے زکاۃ وصول کر کے ہمارے فقراء میں تقسیم کر دی۔ (جامع الترمذي، الزکاة، حدیث:649) حضرت عمران بن حصین ؓ کو زکاۃ وصول کرنے پر مقرر کیا گیا، جب وہ واپس آئے تو انہیں کہا گیا کہ مال زکاۃ کہاں ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہم نے مال وہاں سے لیا جہاں سے عہد رسالت میں لیا کرتے تھے اور وہیں تقسیم کر دیا جہاں پر عہد رسالت میں تقسیم کیا کرتے تھے۔ (سنن أبي داود، الزکاة، حدیث:1625) (3) واضح رہے کہ اس حدیث کے مخاطب مسلمان ہیں، لہذا غیر مسلم پر مال زکاۃ صرف نہیں کرنا چاہیے۔ (التوبة:103:9)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1457
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1496
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1496
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1496
تمہید کتاب
لفظ زکاۃ لغوی طور پر بڑھنے، نشوونما پانے اور پاکیزہ ہونے کے معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ عربی زبان میں زكا الزرع کہا جاتا ہے جس کے معنی ہیں: کھیتی نے نشوونما پائی۔ اسی طرح مال کی بڑھوتری کے معنوں میں بھی اسے استعمال کرتے ہیں۔ شریعت نے بھی ان دونوں لغوی معنوں کو استعمال کیا ہے۔ زکاۃ کو زکاۃ اس لیے کہتے ہیں کہ اس کی ادائیگی سے مال مزید بڑھ جاتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ) "۔۔ اللہ تعالیٰ صدقات کو بڑھا دیتا ہے۔" (البقرۃ276:2) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس معنی کی تائید فرمائی ہے، حدیث میں ہے: (ما نقصت صدقة من مال) (صحیح مسلم،البروالصلۃ،حدیث:6592(2588)) "صدقہ مال میں کمی نہیں کرتا۔" (صحیح مسلم، البر والصلۃ، حدیث: 6592 (2588))زکاۃ مال کو پاک اور اسے استعمال کے قابل بنا دیتی ہے اور صاحب مال کو گناہوں اور بخل کی رذالت سے پاک کر دیتی ہے۔ یہ دونوں معانی ایک آیت میں استعمال ہوئے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِم بِهَا) "آپ ان کے اموال سے صدقہ لیں جس کے ذریعے سے آپ انہیں گناہوں سے پاک کریں اور ان کے اجرومال میں اضافہ کریں۔" (التوبۃ103:9) قرآن کریم میں اکثر مقامات پر یہ لفظ پاکیزگی کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (فَلَا تُزَكُّوا أَنفُسَكُمْ) "اپنے نفوس کی پاکیزگی کا دعویٰ نہ کرو۔" (النجم32:53) نیز فرمایا: (قَدْ أَفْلَحَ مَن تَزَكَّىٰ ﴿١٤﴾) "یقینا وہ کامیاب ہے جس نے اپنا تزکیہ کر لیا۔" (الاعلیٰ14:87) زکاۃ کو اس لیے بھی زکاۃ کہتے ہیں کہ یہ ایسے اموال سے لی جاتی ہے جن میں نشوونما اور بڑھنے کی صلاحیت ہوتی ہے، مثلا: تجارت اور زراعت وغیرہ۔اس کی شرعی تعریف یہ ہے کہ ایسا حق جو مقررہ نصاب پر سال گزرنے کے بعد واجب ہوتا ہے جسے کسی فقیر یا اس کے مثل کسی شخص کو دیا جاتا ہے جبکہ وہ شرعی موانع کے ساتھ متصف نہ ہو۔ زکاۃ کے لیے رکنِ اعظم یہ ہے کہ اس کی ادائیگی کے وقت انسان میں اخلاص ہو کیونکہ شہرت اور ریاکاری کی نیت سے زکاۃ دینا عنداللہ معتبر نہیں ہو گا۔ اس سے دنیا میں وجوب کی ادائیگی اور آخرت میں ثواب کا حصول مقصود ہے۔ اس کی حکمت یہ ہے کہ یہ انسانوں کو گناہوں اور بری خصلتوں سے پاک کر دیتی ہے اور ان کے درجات بلند کرتی ہے۔زکاۃ کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ شہادت توحید و رسالت اور اقامت صلاۃ کے بعد زکاۃ اسلام کا تیسرا رکن ہے۔ قرآن مجید میں نماز کے ساتھ زکاۃ کا بیان بیاسی (82) مقامات پر آیا ہے۔ گویا دین اسلام میں ان دونوں کا مقام اور مرتبہ قریب قریب ایک ہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جب بعض قبائل، جو بظاہر اسلام قبول کر چکے تھے، نے زکاۃ دینے سے انکار کر دیا تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان کے خلاف جہاد کیا۔ اس کی بنیاد یہ تھی کہ انہوں نے نماز اور زکاۃ میں تفریق کی تھی جو شریعت کی نظر میں انحراف و ارتداد ہے۔ زکاۃ ہجرت سے پہلے فرض ہو چکی تھی لیکن اس دور میں زکاۃ کا مطلب صرف یہ تھا کہ حاجت مندوں اور خیر کے دوسرے راستوں پر اپنی کمائی خرچ کی جائے، نظام زکاۃ کی تفصیل اور دیگر احکام و مسائل ہجرت کے دوسرے سال نازل ہوئے ہیں، چنانچہ ہجرت سے پہلے حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ نے نجاشی کے دربار میں کہا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں نماز پڑھنے اور زکاۃ دینے کا حکم دیتے ہیں، اسی طرح ہرقل کے سوال و جواب میں حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کہا تھا کہ وہ ہمیں نماز و زکاۃ کا حکم دیتے ہیں اور صلہ رحمی و پاک دامنی کی ہدایت کرتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ زکاۃ مکہ میں فرض ہو چکی تھی، البتہ اس کے تفصیلی احکام ہجرت کے بعد نازل ہوئے۔ مرکزی طور پر اس کی وصولی اور تقسیم کار کا نظام 8 ہجری کے بعد قائم ہوا جس کی تفصیل ہم آئندہ بیان کریں گے۔زکاۃ میں نیکی اور افادیت کے تین پہلو انتہائی اہمیت کے حامل ہیں جس کی تفصیل حسب ذیل ہے: بندہ مومن جس طرح نماز کے قیام اور رکوع و سجود کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کے حضور اپنی بندگی اور نیاز مندی کا مظاہرہ جسم و جان اور زبان سے کرتا ہے تاکہ اسے اللہ کی رضا اور اس کا قرب حاصل ہو، اسی طرح زکاۃ ادا کر کے وہ اس کی بارگاہ میں اپنا مالی نذرانہ اسی غرض سے پیش کرتا ہے کہ اس کے پاس جو کچھ ہے وہ اسی کا دیا ہوا ہے اور وہ اس کی رضا اور قرب حاصل کرنے کے لیے اسے قربان کرتا ہے۔ زکاۃ کا شمار عبادات میں اسی پہلو سے ہے۔زکاۃ کے ذریعے سے ضرورت مند اور پریشان حال لوگوں کی خدمت اور مدد ہوتی ہے۔ اس پہلو سے زکاۃ، اخلاقیات کا نہایت ہی اہم باب ہے کہ انسان دوسرے کے کام آتا ہے اور بوقت ضرورت ان کا تعاون کرنے میں پیش پیش ہوتا ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ بندہ اپنے بھائی کی مدد کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی مدد کرتا ہے، (صحیح مسلم،الذکروالدعاء،حدیث:6853(2699)) لہذا زکاۃ بھائی چارے کی فضا قائم کرنے میں بہت اہم کردار ادا کرتی ہے۔زکاۃ کی افادیت کا تیسرا پہلو یہ ہے کہ حُبِ مال اور دولت پرستی جو ایک ایمان کش اور مہلک روحانی بیماری ہے، زکاۃ سے اس کا علاج کیا جاتا ہے۔ اس قسم کی معاشرتی گندے جرائم اور زہریلے مواد کو زکاۃ کے ذریعے سے ختم کر کے انسانی نفس کو پاک اور صاف کیا جاتا ہے۔ قرآن مجید میں جگہ جگہ زکاۃ کے اس پہلو کو نمایاں کیا گیا ہے، غالبا اسی پہلو سے اس فریضے کا نام زکاۃ رکھا گیا ہے کیونکہ اس کے اصل معنی پاکیزگی کے ہیں جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ چونکہ امت کے نبض شناس ہیں، انہوں نے زکاۃ کے متعلقہ احکام و مسائل بیان کرنے کے لیے تقریبا ایک سو اٹھارہ (118) مرفوع متصل احادیث بیان کی ہیں، پھر ان پر اٹھتر (78) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو معاشرتی طور پر انتہائی کارآمد اور مفید ہیں۔ ان عناوین کے تحت آپ نے زکاۃ کا وجوب، اس کی اہمیت و افادیت، تجارتی، زرعی اور معدنی زکاۃ کے مسائل بڑی تفصیل سے بیان کیے ہیں۔ حیوانات سے زکاۃ کے پہلو کو بھی نمایاں کیا ہے، صدقہ فطر کے احکام بھی ذکر کیے ہیں اور اس کے متعلق اخلاقی پہلوؤں کا بھی جائزہ لیا ہے، نیز اس سے پہلوتہی کرنے پر جو وعید آئی ہے اسے بھی ذکر کیا ہے۔ الغرض زکاۃ کے متعلق جملہ مسائل و احکام بڑے ٹھوس اور خاموش انداز سے بیان کیے ہیں۔کتاب الزکاۃ ایک سو بہتر (172) مرفوع احادیث پر مشتمل ہے جن میں ایک سو اُنیس (119) احادیث موصول ہیں اور باقی متابعات اور معلقات ہیں۔ ان تمام میں سے سو (100) احادیث مکرر اور بہتر (72) احادیث خالص، یعنی غیر مکرر ہیں۔ سترہ (17) احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم نے اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے تقریبا بیس (20) آثار بھی مروی ہیں۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ احادیث کو صرف اضافہ معلومات کے طور پر ہرگز نہ پڑھا جائے بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنے ایمانی تعلق کو مضبوط کرنے کی غرض سے ان کا مطالعہ کیا جائے، نیز دوران مطالعہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت و محبت کو بھی دل میں بیدار کیا جائے۔ والله الموفق وهو يهدي من يشاء إليٰ صراط مستقيم
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا:رسول اللہ ﷺ نے جب حضرت معاذ ؓ کو یمن روانہ کیا تو ان سے فرمایا:’’تم ایک قوم کے پاس جارہے ہو جو اہل کتاب ہیں، ان کے پاس پہنچ کر انھیں دعوت دو کہ وہ لاإلٰه إلا اللہ محمد رسول اللہ کی شہادت دیں، اگر وہ اس میں تمہاری اطاعت کریں تو انھیں بتاؤ کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر دن رات میں پانچ نمازیں فرض کی ہیں، اگر وہ اس سلسلے میں تمہاری بات تسلیم کرلیں تو انھیں بتاؤ کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر زکوٰۃ فرض کی ہے۔ جو ان کے مالداروں سے وصول کرکے ان کے فقراء پر تقسیم کی جائے گی۔ اور اگر وہ اس میں تمہاری اطاعت کریں تو ان کے عمدہ مال لینے سے اجتناب کرو۔ اور مظلوم کی بددعا سے بھی بچو کیونکہ اس کی بد دعا اللہ کے درمیان کوئی حجاب نہیں ہوتا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث میں یہ الفاظ ہیں کہ زکاۃ مالداروں سے وصول کر کے ان کے فقراء میں تقسیم کر دی جائے۔ امام بخاری ؒ کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ ان الفاظ کو عام خیال کرتے ہیں کہ ایک ملک کی زکاۃ دوسرے ملک بھیجی جا سکتی ہے۔ لیکن امام بخاری ؒ مطلق طور پر یہ موقف نہیں رکھتے۔ ان کے نزدیک اگر اس شہر میں مستحقین نہ ہوں تو پھر دوسرے شہر منتقل کی جا سکتی ہے کیونکہ انہوں نے (حيث كانوا) کے الفاظ سے اشارہ کیا ہے کہ زکاۃ دوسرے ملک منتقل نہ کی جائے جبکہ وہاں مستحقین موجود ہوں۔ اگر کسی نے دوسرے ملک کے فقراء میں تقسیم کر دی تو اکثر اہل علم کے نزدیک بہتر نہیں ہے، جواز میں کسی کو کلام نہیں۔ (2) ہمارے نزدیک ضرورت اور مصلحت کے پیش نظر دوسرے شہر میں مال زکاۃ صرف کیا جا سکتا ہے، البتہ عام حالات میں بہتر ہے کہ جس علاقے سے زکاۃ وصول کی جائے اسی علاقے کے فقراء میں تقسیم کر دی جائے۔ جیسا کہ درج ذیل احادیث سے پتہ چلتا ہے۔ حضرت ابو جحیفہ ؓ سے روایت ہے کہ ہمارے پاس رسول اللہ ﷺ کی طرف سے زکاۃ وصول کرنے والا شخص آیا تو اس نے ہمارے مالداروں سے زکاۃ وصول کر کے ہمارے فقراء میں تقسیم کر دی۔ (جامع الترمذي، الزکاة، حدیث:649) حضرت عمران بن حصین ؓ کو زکاۃ وصول کرنے پر مقرر کیا گیا، جب وہ واپس آئے تو انہیں کہا گیا کہ مال زکاۃ کہاں ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہم نے مال وہاں سے لیا جہاں سے عہد رسالت میں لیا کرتے تھے اور وہیں تقسیم کر دیا جہاں پر عہد رسالت میں تقسیم کیا کرتے تھے۔ (سنن أبي داود، الزکاة، حدیث:1625) (3) واضح رہے کہ اس حدیث کے مخاطب مسلمان ہیں، لہذا غیر مسلم پر مال زکاۃ صرف نہیں کرنا چاہیے۔ (التوبة:103:9)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن مقاتل نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ ہمیں عبداللہ نے خبر دی ‘ انہوں نے کہا کہ ہمیں زکریا ابن اسحاق نے خبر دی ‘ انہیں یحیٰی بن عبداللہ بن صیفی نے ‘ انہیں ابن عباس ؓ کے غلام ابومعبد نے اور ان سے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے معاذ ؓ کو جب یمن بھیجا ‘ تو ان سے فرمایا کہ تم ایک ایسی قوم کے پاس جارہے ہو جو اہل کتاب ہیں۔ اس لیے جب تم وہاں پہنچو تو پہلے انہیں دعوت دو کہ وہ اس بات کی گواہی دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد ( ﷺ ) اللہ کے سچے رسول ہیں۔ وہ اس بات میں جب تمہاری بات مان لیں تو انہیں بتاؤ کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر روزانہ دن رات میں پانچ وقت کی نمازیں فرض کی ہیں۔ جب وہ تمہاری یہ بات بھی مان لیں تو انہیں بتاؤ کہ ان کے لیے اللہ تعالیٰ نے زکوٰۃ دینا ضروری قرار دیا ہے ‘ یہ ان کے مالداروں سے لی جائے گی اور ان کے غریبوں پر خرچ کی جائے گی۔ پھر جب وہ اس میں بھی تمہاری بات مان لیں تو ان کے اچھے مال لینے سے بچو اور مظلوم کی آہ سے ڈرو کہ اس کے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان کوئی رکاوٹ نہیں ہوتی۔
حدیث حاشیہ:
اس حدیث کے ذیل مولانا عبیداللہ صاحب شیخ الحدیث ؒ فرماتے ہیں: ''قال الحافظ استدل به علی أن الإمام الذي یتولی قبض الزکوٰة وصوفها أما بنفسه وأما بنائبه فمن امتنع منها أخذت منه قهراً''یعنی حافظ ابن حجر نے کہا کہ اس حدیث کے جملہ تؤخذ من اغنیائہم سے دلیل لی گئی ہے کہ زکوٰۃ امام وقت وصول کرے گا۔ اور وہی اسے اس کے مصارف میں خرچ کرے گا۔ وہ خود کرے یا اپنے نائب سے کرائے۔ اگر کوئی زکوٰۃ اسے نہ دے تو وہ زبردستی اس سے وصول کرے گا۔ بعض لوگوں نے یہاں جانوروں کی زکوٰۃ مراد لی ہے اور سونے چاندی کی زکوٰۃ میں مختار قرار دیا ہے۔ فإن أدی زکوٰتهما خفیة یجزء للہ ۔ لیکن حضرت مولانا عبیداللہ مد ظلہ فرماتے ہیں: والظاهر عندي أن ولایة أخذ الإمام ظاهرة وباطنة فإن لم یکن إمام فرقها المالك في مصارفها وقد حقق ذلك الشوکاني في السیل الجرار بما لا مزید علیه فلیرجع إلیه۔یعنی میرے نزدیک تو ظاہر وباطن ہر قسم کے اموال کے لیے امام وقت کی تولیت ضروری ہے۔ اور اگر امام نہ ہو ( جیسے کہ دور حاضرہ میں کوئی امام خلیفۃ المسلمین نہیں ) تو مالک کو اختیار ہے کہ اس کے مصارف میں خود اس مال زکوٰۃ کو خرچ کردے اس مسئلہ کو امام شوکانی نے سیل الجرار میں بڑی ہی تفصیل کے ساتھ لکھا ہے جس سے زیادہ ممکن نہیں۔ جو چاہے ادھر رجوع کرسکتا ہے۔ یہ مسئلہ کہ اموال زکوٰۃ کو دوسرے شہروں میں نقل کرنا جائز ہے یا نہیں‘ اس بارے میں بھی حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کا مسلک اس باب سے ظاہر ہے کہ مسلمان فقراءجہاں بھی ہوں ان پر وہ صرف کیا جاسکتا ہے۔ حضرت امام رحمہ اللہ کے نزدیک: ترد علی فقرآئهم کی ضمیر اہل اسلام کی طرف لوٹتی ہے۔ قال ابن المنیر اختار البخاري جواز نقل الزکوٰة من بلد المال لعموم قوله فترد في فقرائهم لأن الضمیر یعود للمسلمین فأي فقیر منهم ردت فیه الصدقة في أي جهة کان فقد وافق عموم الحدیث انتهی۔ المحدث الکبیر مولانا عبدالرحمن مبارکپوری ؒ فرماتے ہیں: والظاهر عندي عدم النقل إلا إذا فقد المستحقون لها أوتکون في النقل مصلحة أنفع وأهم من عدمه واللہ تعالیٰ أعلم(مرعاة جلد 3ص 4)یعنی زکوٰۃ نقل نہ ہونی چاہیے مگر جب مستحق مفقود ہوں یا نقل کرنے میں زیادہ فائدہ ہو۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Ma'bad,: (the slave of Ibn Abbas (RA) ) Allah's Apostle (ﷺ) said to Muadh when he sent him to Yemen, "You will go to the people of the Scripture. So, when you reach there, invite them to testify that none has the right to be worshipped but Allah, and that Muhammad is His Apostle. And if they obey you in that, tell them that Allah has enjoined on them five prayers in each day and night. And if they obey you in that tell them that Allah has made it obligatory on them to pay the Zakat which will be taken from the rich among them and given to the poor among them. If they obey you in that, then avoid taking the best of their possessions, and be afraid of the curse of an oppressed person because there is no screen between his invocation and Allah." ________