Sahi-Bukhari:
Hajj (Pilgrimage)
(Chapter: The superiority of the Haram (of Makkah))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور اللہ تعالیٰ نے (سورۃ النمل میں) فرمایا ”مجھ کو تو یہی حکم ہے کہ عبادت کروں اس شہر کے رب کی جس نے اس کو حرمت والا بنایا اور ہر چیز اسی کے قبضہ و قدرت میں ہے اور مجھ کو حکم ہے تابعدار بن کر رہنے کا“ اور اللہ تعالیٰ نے سورۃ قصص میں فرمایا ”کیا ہم نے ان کو جگہ نہیں دی حرم میں جہاں امن ہے ان کے لیے اور کھنچے چلے آتے ہیں اس کی طرف، میوے ہر قسم کے جو روزی ہے ہماری طرف سے لیکن بہت سے ان میں نہیں جانتے۔“
1587.
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فتح مکہ کے موقع پر فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے اس شہر کو قابل احترام ٹھہرایا ہے۔ لہذا اس کے کانٹے نہ کاٹے جائیں اور نہ یہاں کے شکار ہی کو پریشان کیاجائے۔ نیز اس میں گری پڑی چیز بھی نہ اٹھائی جائے، ہاں! تشہیر واعلان کرانے والے کو وہ گری ہوئی چیز اٹھانے کی اجازت ہے۔‘‘
تشریح:
(1) اللہ تعالیٰ نے مکہ مکرمہ کو اس کی عزت و حرمت کی وجہ سے قابل احترام ٹھہرایا ہے۔ مکہ اور حرم مکہ کے ایک جیسے احکام ہیں۔ حرم مکی مدینہ کی طرف تین میل، یمن و عراق کی طرف سات میل اور جدہ کی طرف دس میل ہے۔ اس حدیث کے دیگر احکام و مسائل ہم حدیث: 1834 کے تحت بیان کریں گے۔ إن شاءاللہ۔ (2) بہرحال اس حدیث سے حرم مکی کی فضیلت ثابت ہوتی ہے۔ اسی حرم کی فضیلت کا تقاضا ہے کہ جس نے بیت اللہ کا حج یا عمرہ کرنا ہو وہ فقیرانہ لباس میں آئے اور اس شاہی دربار میں حاضری دے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم ؑ کے ذریعے سے اسے حرم قرار دیا ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1546
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1587
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1587
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1587
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے متعلق فرمایا ہے: (كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ ﴿٢٩﴾) (الرحمٰن29:55) "وہ ہر روز ایک نئی شان میں ہوتا ہے۔" اس کی ایک شان یہ ہے کہ وہ صاحبِ جلال اور احکام الحاکمین ہے۔ ہم سب اس کے عاجز و محتاج بندے اور مملوک و محکوم ہیں۔ اور دوسری شان یہ ہے کہ وہ تمام ایسی صفاتِ کمال سے متصف ہے جن کی وجہ سے انسان کو کسی سے محبت ہوتی ہے، اس اعتبار سے صرف اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی ہی محبوبِ حقیقی ہے۔ اس کی پہلی شاہانہ اور حاکمانہ شان کا تقاضا ہے کہ بندے اس کے حضور نہایت ادب و نیاز کی تصویر بن کر حاضر ہوں اور دوسری شانِ محبوبیت کا تقاضا یہ ہے کہ بندوں کا اس کے ساتھ تعلق محبت و فدائیت کا ہو۔ فریضہ حج ادا کرتے وقت بندوں میں اس رنگ کو پورے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔سلے ہوئے کپڑوں کے بجائے ایک کفن نما لباس زیب تن کرنا، ننگے سر رہنا، حجامت نہ بنوانا، ناخن نہ ترشوانا، بالوں کو پراگندہ چھوڑنا، ان میں تیل اور کنگھی استعمال نہ کرنا، خوشبو نہ لگانا، چیخ چیخ کر لبیک لبیک پکارنا، دیوانوں کی طرح بیت اللہ کے گرد چکر لگانا، اس کے درودیوار سے لپٹنا، آہ زاری کرنا، پھر صفا و مروہ کے درمیان چکر لگانا، اس کے بعد مکہ سے باہر منیٰ، کبھی عرفات اور کبھی مزدلفہ کے صحراؤں میں ڈیرے لگانا، یہ تمام وہی اعمال ہیں جو محبت کے دیوانوں سے سرزد ہوا کرتے ہیں۔ ان اعمال کے مجموعے کا نام حج ہے۔حج کے لغوی معنی "قصد و ارادہ کرنا" ہیں۔ خلیل لغوی کے نزدیک اس کے معنی کسی محترم مقام کی طرف بکثرت اور بار بار ارادہ کرنا ہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں ایک مقررہوقت پر مخصوص افعال کی ادائیگی کے لیے مسجد حرام کی طرف سفر کا قصد کرنا اور دیوانوں کی طرح اللہ کے حضور،اس کے گھر میں حاضری دینا حج کہلاتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے مسائل زکاۃ کے بعد مناسکِ حج بیان کیے ہیں،حالانکہ ارکان اسلام کی ترتیب میں زکاۃ کے بعد رمضان کے روزے اور آخر میں فریضۂ حج کی ادائیگی ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:114(16))صحیح مسلم کی رویت میں ہے کہ راوئ حدیث نے حج کے بعد روزے کا ذکر کیا تو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:نہیں، پہلے رمضان کے روزے،اس کے بعد حج کا ذکر ہے۔میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی تربیت کے مطابق سنا ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:111(16))لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے حنظلہ بن ابو سفیان کی روایت پر بنیاد رکھتے ہوئے مذکورہ ترتیب کو اختیار کیا ہے کیونکہ اس روایت میں حج کے بعد صوم رمضان کا ذکر ہے۔(صحیح البخاری،الایمان،حدیث:8) صحیح مسلم کی ایک روایت بھی اسی ترتیب کے مطابق ہے۔(صحیح مسلم،الایمان،حدیث:113،112(16))جبکہ صحیح بخاری کی ایک روایت میں روزے کا ذکر زکاۃ سے بھی پہلے ہے۔( صحیح البخاری،التفسیر،حدیث:4514)اس کا مطلب یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے جس روایت کو بنیاد بنایا ہے وہ روایت بالمعنی ہے۔دراصل اعمال کی تین اقسام ہیں:٭خالص بدنی٭خالص مالی٭ بدنی اور مالی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اعمال کے اعتبار سے مذکورہ ترتیب کو ملحوظ رکھا ہے۔پہلے نماز جو خالص بدنی ہے،بھر زکاۃ جو خالص مالی ہے،اس کے بعد حج جس میں مالی اور بدنی دونوں قسم کے اعمال ہیں،روزے کا ذکر اس کے بعد کیا ہے کیونکہ اس کا تعلق ترک اشیاء سے ہے۔نفسیاتی اعتبار سے اگرچہ روزہ بھی ایک عمل ہے لیکن جسمانی اعتبار سے چند چیزوں کو عبادت کی نیت سے چھوڑ دینے کا نام روزہ ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت تقریبا دو سو ساٹھ(260) مرفوع متصل احادیث ذکر کی ہیں اور ان پر ایک سو اکیاون (151) چھوٹے چھوٹے عناوین قائم کیے ہیں جن میں وجوب حج،فضیلت حج، مواقیت حج، طریقۂ حج،احرام حج اور محذورات حج کو بڑے احسن انداز میں پیش کیا ہے۔ان کے علاوہ مکہ مکرمہ، حرم شریف، حجراسود،آب زمزم اور ہدی، یعنی قربانی کے متعلق بھی احکام ومسائل ذکر کیے ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی دلنواز اداؤں اور ان کے اللہ کے راستے پر چلنے کے طور طریقوں کو ایسے دلکش انداز میں پیش کیا ہے کہ قاری،ملت ابراہیم سے اپنی وابستگی اور وفاداری کے اظہار کےلیے اپنے اندر بڑی تڑپ محسوس کرتا ہے اور ابراہیمی جذبات وکیفیات کے رنگ میں رنگنے کے لیے خود کو مجبور پاتا ہے۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بڑے عنوان،کتاب الحج، کے تحت 312 احادیث ذکر کی ہیں،جن میں سے 57 معلق اور باقی متصل سند سے روايت كي ہيں۔ ان میں 191 مکرر اور 121 احادیث خالص ہیں۔33 احادیث کے علاوہ باقی احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے،مرفوع احادیث کے علاوہ متعدد صحابۂ کرام اور تابعین عظام کے تقریبا 60 معلق آثار واقوال بھی پیش کیے ہیں۔قارئین کرام سے التماس ہے کہ وہ اپنی معلومات میں اضافے کے طور پر نہیں بلکہ اپنی زندگی کو خالص اسلامی زندگی بنانے کے لیے ان احادیث کا مطالعہ کریں۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے اور قیامت کے دن وہ ہمیں اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع فرمائے۔آمین یا رب العالمین
تمہید باب
اس عنوان کو بایں طور ثابت کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس شہر کو اپنی طرف منسوب کیا ہے اور ایسا کرنا اس کے احترام و شرف کی وجہ سے ہے، پھر اس احترام کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے قریش کو بھی اس کے شہری ہونے کی وجہ سے بہت عزت اور وقار عطا فرمایا۔ عرب کے ڈاکوؤں اور لٹیروں سے ان کی جانیں اور ان کے مال محفوظ رہتے تھے۔ ان کے تجارتی قافلوں کو لوٹنے کی جراءت کوئی نہیں کرتا تھا۔ جسے وہ پروانہ راہداری لکھ دیتے اس پر کوئی ہاتھ نہیں ڈالتا تھا۔ حارث بن نوفل نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا تھا کہ اگر ہم ایمان لے آئیں تو ہم اپنے ہی ملک سے اچک لیے جائیں گے۔ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: تمہاری یہ تراشیدہ بات بھی "خوئے بدرا بہانہ بسیار" والی بات ہے کیونکہ یہ سیاسی اور معاشی فوائد تمہیں صرف اس بنا پر حاصل ہو رہے ہیں کہ ہم نے اس سرزمین کو قابل احترام بنا دیا ہے۔ یہاں عرب بھر کے قبائل حج کرنے کے لیے آتے ہیں، کعبہ پر تمہاری تولیت کی وجہ سے تمہارا بھی احترام کیا جاتا ہے۔ اس حرم کی دوسری برکت یہ ہے کہ اس بے آب و گیاہ علاقے میں دنیا جہاں کے میوے، پھل، غلے اور دوسری ضرورت کی اشیاء پہنچ جاتی ہیں اور اس کثرت سے پہنچتی ہیں کہ جہاں یہ اشیاء پیدا ہوتی ہیں وہاں بھی اتنی وافر مقدار میں دستیاب نہیں ہوتیں، گویا مکہ اس لحاظ سے عالمی تجارتی منڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ اگر کفر کی حالت میں یہ فوائد حاصل ہو رہے ہیں تو آخر ایمان لانے کے بعد یہ فوائد حاصل کیوں نہ ہوں گے۔ بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے ان آیات سے سرزمین حرم (مکہ) کی فضیلت ثابت کی ہے جو اظہر من الشمس ہے۔
اور اللہ تعالیٰ نے (سورۃ النمل میں) فرمایا ”مجھ کو تو یہی حکم ہے کہ عبادت کروں اس شہر کے رب کی جس نے اس کو حرمت والا بنایا اور ہر چیز اسی کے قبضہ و قدرت میں ہے اور مجھ کو حکم ہے تابعدار بن کر رہنے کا“ اور اللہ تعالیٰ نے سورۃ قصص میں فرمایا ”کیا ہم نے ان کو جگہ نہیں دی حرم میں جہاں امن ہے ان کے لیے اور کھنچے چلے آتے ہیں اس کی طرف، میوے ہر قسم کے جو روزی ہے ہماری طرف سے لیکن بہت سے ان میں نہیں جانتے۔“
حدیث ترجمہ:
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فتح مکہ کے موقع پر فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے اس شہر کو قابل احترام ٹھہرایا ہے۔ لہذا اس کے کانٹے نہ کاٹے جائیں اور نہ یہاں کے شکار ہی کو پریشان کیاجائے۔ نیز اس میں گری پڑی چیز بھی نہ اٹھائی جائے، ہاں! تشہیر واعلان کرانے والے کو وہ گری ہوئی چیز اٹھانے کی اجازت ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) اللہ تعالیٰ نے مکہ مکرمہ کو اس کی عزت و حرمت کی وجہ سے قابل احترام ٹھہرایا ہے۔ مکہ اور حرم مکہ کے ایک جیسے احکام ہیں۔ حرم مکی مدینہ کی طرف تین میل، یمن و عراق کی طرف سات میل اور جدہ کی طرف دس میل ہے۔ اس حدیث کے دیگر احکام و مسائل ہم حدیث: 1834 کے تحت بیان کریں گے۔ إن شاءاللہ۔ (2) بہرحال اس حدیث سے حرم مکی کی فضیلت ثابت ہوتی ہے۔ اسی حرم کی فضیلت کا تقاضا ہے کہ جس نے بیت اللہ کا حج یا عمرہ کرنا ہو وہ فقیرانہ لباس میں آئے اور اس شاہی دربار میں حاضری دے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم ؑ کے ذریعے سے اسے حرم قرار دیا ہے۔
ترجمۃ الباب:
ارشاد باری تعالیٰ ہے: "(اے نبیﷺ!کہہ دیجیے) مجھے تو یہی حکم ہوا کہ میں اس شہر(مکہ) کے مالک حقیقی کی اطاعت کروں جس نے اسے احترام بخشا ہے اور وہ ہر چیز کا مالک ہے۔ اور مجھے تو حکم دیا گیا ہے کہ میں فرمانبردار بن کر رہوں۔ "
نیز فرمان الٰہی ہے: " کیا ہم نے پر امن حرم کو ان کی جائے قیام نہیں بنایا، جہاں ہماری طرف سے رزق کے طور پر ہر طرح کےپھل کھچے چلے آتے ہیں۔ لیکن ان میں سے اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے علی بن عبداللہ بن جعفر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے جریر بن عبدالحمید نے منصور سے بیان کیا ان سے مجاہد نے، ان سے طاوس نے اور ان سے ابن عباس ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فتح مکہ پر فرمایا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اس شہر ( مکہ ) کو حرمت والا بنایا ہے ( یعنی عزت دی ہے ) پس اس کے ( درختوں کے ) کانٹے تک بھی نہیں کاٹے جاسکتے یہاں کے شکار بھی نہیں ہنکائے جاسکتے۔ اور ان کے علاوہ جو اعلان کرکے ( مالک تک پہنچانے کا ارادہ رکھتے ہوں ) کوئی شخص یہاں کی گری پڑی چیز بھی نہیں اٹھا سکتا ہے۔
حدیث حاشیہ:
مسند احمد وغیرہ میں عیاش بن ابی ربیعہ سے مروی ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا: «لا تزال هذه الأمة بخير ما عظموا هذه الحرمة حق تعظيمها، فإذا تركوها وضيعوها هلكوا»یعنی یہ امت ہمیشہ خیرو بھلائی کے ساتھ رہے گی جب تک یہ پورے طورپر کعبہ کی تعظیم کرتے رہیں گے اور جب اس کو ضائع کردیں گے، ہلاک ہوجائیں گے۔ معلوم ہوا کہ کعبہ شریف اور اس کے اطراف ساری ارض حرم بلکہ سارا شہرامت مسلمہ کے لیے انتہائی معزز ومؤقرمقامات ہیں۔ ان کے بارے میں جو بھی تعظیم وتکریم سے متعلق ہدایات کتاب وسنت میں دی گئی ہیں، ان کو ہمہ وقت ملحوظ رکھنا بے حد ضروری ہے۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ حرمت کعبہ کے ساتھ ملت اسلامیہ کی حیات وابستہ ہے۔ باب کے تحت جو آیات قرآنی حضرت امام بخاری ؒ لائے ہیں ان میں بہت سے حقائق کا بیان ہے خاص طورپر اس کا کہ اللہ پاک نے شہر مکہ میں یہ برکت رکھی ہے کہ یہاں چاروں طرف سے ہر قسم کے میوے پھل اناج غلے کھنچے چلے آتے ہیں۔ دنیا ہر ایک پھل وہاں کے بازاروں میں دستیاب ہوجاتا ہے۔ خاص طورپر آج کے زمانہ میں حکومت سعودیہ خلدها اللہ تعالیٰ نے اس مقدس شہر کو جو ترقی دی ہے اور اس کی تعمیر جدید جن جن خطوط پر کی ہے اور کررہی ہے وہ پوری ملت اسلامیہ کے لیے حد درجہ قابل تشکر ہیں۔ أیدهم اللہ بنصرہ العزیز۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn Abbas (RA): On the Day of the Conquest of Makkah, Allah's Apostle (ﷺ) said, "Allah has made this town a sanctuary. Its thorny bushes should not be cut, its game should not be chased, and its fallen things should not be picked up except by one who would announce it publicly."