باب: حیض والی عورت بیت اللہ کے طواف کے سوا تمام ارکان بجا لائے۔
)
Sahi-Bukhari:
Hajj (Pilgrimage)
(Chapter: A menstruating woman can perform all the ceremonies of Hajj except Tawaf)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور اگر کسی نے صفا اور مروہ کی سعی بغیر وضو کر لی تو کیا حکم ہے؟
1652.
حضرت حفصہ بنت سیرین سے روایت ہے کہ ہم اپنی نوجوان کنواری لڑکیوں کو باہر(عید گاہ میں) جانے سے منع کر تی تھیں، چنانچہ ایک عورت آئی اور بنو خلف کے محل میں ٹھہری۔ اس نے بیان کیاکہ ان کى ہمشیرہ رسول اللہ ﷺ کے صحابہ میں سے کسی ایک صحابی کی بیوی تھی۔ اس کے شوہر نے رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ بارہ غزوات میں شرکت کی تھی۔ میری ہمشیرہ بھی چھ غزوات میں اس کے ہمراہ تھیں۔ اس نے بیان کیا کہ ہم میدان جہاد میں زخمیوں کی مرہم پٹی اور مریضوں کی عیادت کرتی تھیں۔ میری بہن نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا: اگر ہم چادر نہ ہونے کی وجہ سے باہر(عید گاہ) نہ جائیں تو اس میں کوئی حرج تو نہیں ہے؟رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اس کی سہیلی اپنی چادر اسے دے دے اور وہ عورت خیر اور مسلمانوں کی دعاؤں میں ضرور شریک ہو۔‘‘ پھر جب ام عطیہ ؓ بصرہ آئیں تو ہم نے ان سے یہی مسئلہ دریافت کیا۔ حضرت ام عطیہ ؓ کی عادت تھی کہ وہ جب بھی رسول اللہ ﷺ کا ذکر کرتیں تو فرماتیں: میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں!ہم نے ان سے دریافت کیا کہ آپ نے رسول اللہ ﷺ سے اس اس طرح سنا ہے؟انھوں نے فرمایا: جی ہاں، میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’نوجوان کنواری لڑکیاں، پردہ دار خواتین اور حیض والی عورتیں باہر (عیدگاہ کی طرف) نکلیں، خیروبرکت اور مسلمانوں کی دعاؤں میں شریک ہوں، البتہ حیض والی عورتیں جائے نماز سے الگ رہیں۔‘‘ میں نےکہا: کیا حیض والی عورتیں بھی شریک ہوں؟انھوں نےفرمایا: کیا حیض والی عورت میدان عرفات اور فلاں، فلاں جگہ نہیں جاتی؟ (پھر عید گاہ جانے میں کیا امر مانع ہے)؟
تشریح:
(1) جب حائضہ عورت کو مقام نماز سے الگ رہنے کا حکم ہے تو کعبہ کے پاس جانا بھی اس کے لیے جائز نہ ہو گا اور نہ وہ بیت اللہ کا طواف ہی کر سکتی ہے جیسا کہ عنوان کا موضوع ہے۔ (2) بعض حضرات نے کہا ہے کہ جب حائضہ عورت عرفات میں حاضر ہو سکتی ہے، مزدلفہ جا سکتی ہے اور منیٰ میں رہتے ہوئے کنکریاں مار سکتی ہے، یعنی بیت اللہ کے طواف کے علاوہ تمام ارکان حج ادا کر سکتی ہے تو وہ صفا و مروہ کی سعی بھی کر سکتی ہے کیونکہ صفا و مروہ عرفات کی طرح ہے، لیکن یہ استدلال اس بنا پر محل نظر ہے کہ محض صفا و مروہ کی سعی سے کیا حاصل ہو گا جبکہ اس سے پہلے طواف نہ کیا ہو؟ جب حائضہ عورت طواف نہیں کر سکتی تو صفا و مروہ کی سعی کرنے کی اسے کیونکر اجازت دی جا سکتی ہے؟ پھر آج جبکہ صفا و مروہ کو مسجد حرام کا حصہ بنا دیا گیا ہے، ایسے حالات میں حائضہ عورت صفا و مروہ کی سعی نہیں کر سکتی۔ واللہ اعلم۔ (3) حافظ ابن حجر ؒ کہتے ہیں کہ ام عطیہ ؓ نے فرمایا: حائضہ عورت میدان عرفات اور فلاں فلاں جگہ پر حاضری نہیں دیتی، اسی طرح حضرت جابر ؓ کی روایت میں ہے کہ حائضہ عورت بیت اللہ کے طواف کے علاوہ تمام مناسک حج ادا کر سکتی ہے، ان دونوں کا مصداق ایک ہے اور اسی سے امام بخاری ؒ کے قائم کردہ عنوان کا پہلا جز ثابت ہوتا ہے کیونکہ جب اسے جائے نماز سے الگ رہنے کا حکم ہے تو مسجد بلکہ مسجد حرام بلکہ کعبہ سے ایک طرف رہنا بالاولیٰ ثابت ہوا۔ (فتح الباري: 638/3)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1606
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1652
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1652
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1652
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے متعلق فرمایا ہے: (كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ ﴿٢٩﴾) (الرحمٰن29:55) "وہ ہر روز ایک نئی شان میں ہوتا ہے۔" اس کی ایک شان یہ ہے کہ وہ صاحبِ جلال اور احکام الحاکمین ہے۔ ہم سب اس کے عاجز و محتاج بندے اور مملوک و محکوم ہیں۔ اور دوسری شان یہ ہے کہ وہ تمام ایسی صفاتِ کمال سے متصف ہے جن کی وجہ سے انسان کو کسی سے محبت ہوتی ہے، اس اعتبار سے صرف اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی ہی محبوبِ حقیقی ہے۔ اس کی پہلی شاہانہ اور حاکمانہ شان کا تقاضا ہے کہ بندے اس کے حضور نہایت ادب و نیاز کی تصویر بن کر حاضر ہوں اور دوسری شانِ محبوبیت کا تقاضا یہ ہے کہ بندوں کا اس کے ساتھ تعلق محبت و فدائیت کا ہو۔ فریضہ حج ادا کرتے وقت بندوں میں اس رنگ کو پورے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔سلے ہوئے کپڑوں کے بجائے ایک کفن نما لباس زیب تن کرنا، ننگے سر رہنا، حجامت نہ بنوانا، ناخن نہ ترشوانا، بالوں کو پراگندہ چھوڑنا، ان میں تیل اور کنگھی استعمال نہ کرنا، خوشبو نہ لگانا، چیخ چیخ کر لبیک لبیک پکارنا، دیوانوں کی طرح بیت اللہ کے گرد چکر لگانا، اس کے درودیوار سے لپٹنا، آہ زاری کرنا، پھر صفا و مروہ کے درمیان چکر لگانا، اس کے بعد مکہ سے باہر منیٰ، کبھی عرفات اور کبھی مزدلفہ کے صحراؤں میں ڈیرے لگانا، یہ تمام وہی اعمال ہیں جو محبت کے دیوانوں سے سرزد ہوا کرتے ہیں۔ ان اعمال کے مجموعے کا نام حج ہے۔حج کے لغوی معنی "قصد و ارادہ کرنا" ہیں۔ خلیل لغوی کے نزدیک اس کے معنی کسی محترم مقام کی طرف بکثرت اور بار بار ارادہ کرنا ہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں ایک مقررہوقت پر مخصوص افعال کی ادائیگی کے لیے مسجد حرام کی طرف سفر کا قصد کرنا اور دیوانوں کی طرح اللہ کے حضور،اس کے گھر میں حاضری دینا حج کہلاتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے مسائل زکاۃ کے بعد مناسکِ حج بیان کیے ہیں،حالانکہ ارکان اسلام کی ترتیب میں زکاۃ کے بعد رمضان کے روزے اور آخر میں فریضۂ حج کی ادائیگی ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:114(16))صحیح مسلم کی رویت میں ہے کہ راوئ حدیث نے حج کے بعد روزے کا ذکر کیا تو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:نہیں، پہلے رمضان کے روزے،اس کے بعد حج کا ذکر ہے۔میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی تربیت کے مطابق سنا ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:111(16))لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے حنظلہ بن ابو سفیان کی روایت پر بنیاد رکھتے ہوئے مذکورہ ترتیب کو اختیار کیا ہے کیونکہ اس روایت میں حج کے بعد صوم رمضان کا ذکر ہے۔(صحیح البخاری،الایمان،حدیث:8) صحیح مسلم کی ایک روایت بھی اسی ترتیب کے مطابق ہے۔(صحیح مسلم،الایمان،حدیث:113،112(16))جبکہ صحیح بخاری کی ایک روایت میں روزے کا ذکر زکاۃ سے بھی پہلے ہے۔( صحیح البخاری،التفسیر،حدیث:4514)اس کا مطلب یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے جس روایت کو بنیاد بنایا ہے وہ روایت بالمعنی ہے۔دراصل اعمال کی تین اقسام ہیں:٭خالص بدنی٭خالص مالی٭ بدنی اور مالی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اعمال کے اعتبار سے مذکورہ ترتیب کو ملحوظ رکھا ہے۔پہلے نماز جو خالص بدنی ہے،بھر زکاۃ جو خالص مالی ہے،اس کے بعد حج جس میں مالی اور بدنی دونوں قسم کے اعمال ہیں،روزے کا ذکر اس کے بعد کیا ہے کیونکہ اس کا تعلق ترک اشیاء سے ہے۔نفسیاتی اعتبار سے اگرچہ روزہ بھی ایک عمل ہے لیکن جسمانی اعتبار سے چند چیزوں کو عبادت کی نیت سے چھوڑ دینے کا نام روزہ ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت تقریبا دو سو ساٹھ(260) مرفوع متصل احادیث ذکر کی ہیں اور ان پر ایک سو اکیاون (151) چھوٹے چھوٹے عناوین قائم کیے ہیں جن میں وجوب حج،فضیلت حج، مواقیت حج، طریقۂ حج،احرام حج اور محذورات حج کو بڑے احسن انداز میں پیش کیا ہے۔ان کے علاوہ مکہ مکرمہ، حرم شریف، حجراسود،آب زمزم اور ہدی، یعنی قربانی کے متعلق بھی احکام ومسائل ذکر کیے ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی دلنواز اداؤں اور ان کے اللہ کے راستے پر چلنے کے طور طریقوں کو ایسے دلکش انداز میں پیش کیا ہے کہ قاری،ملت ابراہیم سے اپنی وابستگی اور وفاداری کے اظہار کےلیے اپنے اندر بڑی تڑپ محسوس کرتا ہے اور ابراہیمی جذبات وکیفیات کے رنگ میں رنگنے کے لیے خود کو مجبور پاتا ہے۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بڑے عنوان،کتاب الحج، کے تحت 312 احادیث ذکر کی ہیں،جن میں سے 57 معلق اور باقی متصل سند سے روايت كي ہيں۔ ان میں 191 مکرر اور 121 احادیث خالص ہیں۔33 احادیث کے علاوہ باقی احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے،مرفوع احادیث کے علاوہ متعدد صحابۂ کرام اور تابعین عظام کے تقریبا 60 معلق آثار واقوال بھی پیش کیے ہیں۔قارئین کرام سے التماس ہے کہ وہ اپنی معلومات میں اضافے کے طور پر نہیں بلکہ اپنی زندگی کو خالص اسلامی زندگی بنانے کے لیے ان احادیث کا مطالعہ کریں۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے اور قیامت کے دن وہ ہمیں اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع فرمائے۔آمین یا رب العالمین
تمہید باب
اس عنوان کے دو حصے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے پہلے حصے کو پورے جزم و وثوق سے بیان کیا ہے کیونکہ حدیث سے واضح طور پر ثابت ہوتا ہے جبکہ دوسرے حصے کے متعلق استفہامیہ انداز اختیار کیا ہے کیونکہ اس کا واضح ثبوت نہیں بلکہ استنباط کا سہارا لیا ہے۔ صفا و مروہ کی وضو کے بغیر سعی کرنا، اس کی ہم آئندہ وضاحت کریں گے۔ ان شاءاللہ
اور اگر کسی نے صفا اور مروہ کی سعی بغیر وضو کر لی تو کیا حکم ہے؟
حدیث ترجمہ:
حضرت حفصہ بنت سیرین سے روایت ہے کہ ہم اپنی نوجوان کنواری لڑکیوں کو باہر(عید گاہ میں) جانے سے منع کر تی تھیں، چنانچہ ایک عورت آئی اور بنو خلف کے محل میں ٹھہری۔ اس نے بیان کیاکہ ان کى ہمشیرہ رسول اللہ ﷺ کے صحابہ میں سے کسی ایک صحابی کی بیوی تھی۔ اس کے شوہر نے رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ بارہ غزوات میں شرکت کی تھی۔ میری ہمشیرہ بھی چھ غزوات میں اس کے ہمراہ تھیں۔ اس نے بیان کیا کہ ہم میدان جہاد میں زخمیوں کی مرہم پٹی اور مریضوں کی عیادت کرتی تھیں۔ میری بہن نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا: اگر ہم چادر نہ ہونے کی وجہ سے باہر(عید گاہ) نہ جائیں تو اس میں کوئی حرج تو نہیں ہے؟رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اس کی سہیلی اپنی چادر اسے دے دے اور وہ عورت خیر اور مسلمانوں کی دعاؤں میں ضرور شریک ہو۔‘‘ پھر جب ام عطیہ ؓ بصرہ آئیں تو ہم نے ان سے یہی مسئلہ دریافت کیا۔ حضرت ام عطیہ ؓ کی عادت تھی کہ وہ جب بھی رسول اللہ ﷺ کا ذکر کرتیں تو فرماتیں: میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں!ہم نے ان سے دریافت کیا کہ آپ نے رسول اللہ ﷺ سے اس اس طرح سنا ہے؟انھوں نے فرمایا: جی ہاں، میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’نوجوان کنواری لڑکیاں، پردہ دار خواتین اور حیض والی عورتیں باہر (عیدگاہ کی طرف) نکلیں، خیروبرکت اور مسلمانوں کی دعاؤں میں شریک ہوں، البتہ حیض والی عورتیں جائے نماز سے الگ رہیں۔‘‘ میں نےکہا: کیا حیض والی عورتیں بھی شریک ہوں؟انھوں نےفرمایا: کیا حیض والی عورت میدان عرفات اور فلاں، فلاں جگہ نہیں جاتی؟ (پھر عید گاہ جانے میں کیا امر مانع ہے)؟
حدیث حاشیہ:
(1) جب حائضہ عورت کو مقام نماز سے الگ رہنے کا حکم ہے تو کعبہ کے پاس جانا بھی اس کے لیے جائز نہ ہو گا اور نہ وہ بیت اللہ کا طواف ہی کر سکتی ہے جیسا کہ عنوان کا موضوع ہے۔ (2) بعض حضرات نے کہا ہے کہ جب حائضہ عورت عرفات میں حاضر ہو سکتی ہے، مزدلفہ جا سکتی ہے اور منیٰ میں رہتے ہوئے کنکریاں مار سکتی ہے، یعنی بیت اللہ کے طواف کے علاوہ تمام ارکان حج ادا کر سکتی ہے تو وہ صفا و مروہ کی سعی بھی کر سکتی ہے کیونکہ صفا و مروہ عرفات کی طرح ہے، لیکن یہ استدلال اس بنا پر محل نظر ہے کہ محض صفا و مروہ کی سعی سے کیا حاصل ہو گا جبکہ اس سے پہلے طواف نہ کیا ہو؟ جب حائضہ عورت طواف نہیں کر سکتی تو صفا و مروہ کی سعی کرنے کی اسے کیونکر اجازت دی جا سکتی ہے؟ پھر آج جبکہ صفا و مروہ کو مسجد حرام کا حصہ بنا دیا گیا ہے، ایسے حالات میں حائضہ عورت صفا و مروہ کی سعی نہیں کر سکتی۔ واللہ اعلم۔ (3) حافظ ابن حجر ؒ کہتے ہیں کہ ام عطیہ ؓ نے فرمایا: حائضہ عورت میدان عرفات اور فلاں فلاں جگہ پر حاضری نہیں دیتی، اسی طرح حضرت جابر ؓ کی روایت میں ہے کہ حائضہ عورت بیت اللہ کے طواف کے علاوہ تمام مناسک حج ادا کر سکتی ہے، ان دونوں کا مصداق ایک ہے اور اسی سے امام بخاری ؒ کے قائم کردہ عنوان کا پہلا جز ثابت ہوتا ہے کیونکہ جب اسے جائے نماز سے الگ رہنے کا حکم ہے تو مسجد بلکہ مسجد حرام بلکہ کعبہ سے ایک طرف رہنا بالاولیٰ ثابت ہوا۔ (فتح الباري: 638/3)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے مومل بن ہشام نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے اسماعیل بن علیہ نے بیان کیا، ان سے ایوب سختیانی نے اور ان سے حفصہ بنت سیرین نے بیان کیا کہ ہم اپنی کنواری لڑکیوں کو باہر نکلنے سے روکتے تھے۔ پھر ایک خاتون آئیں اور بنی خلف کے محل میں ( جو بصرے میں تھا ) ٹھہریں۔ انہوں نے بیان کیا کہ ان کی بہن ( ام عطیہ ؓ ) نبی کریم ﷺ کے ایک صحابی کے گھرمیں تھیں۔ ان کے شوہر نے آنحضور ﷺ کے ساتھ بارہ جہاد کئے تھے او رمیری بہن چھ جہادوں میں ان کے ساتھ رہی تھیں۔ وہ بیان کرتی تھیں کہ ہم ( میدان جنگ میں ) زخمیوں کی مرہم پٹی کرتی تھیں اور مریضوں کی تیمارداری کرتی تھی۔ میری بہن نے رسول ﷺ سے پوچھا کہ اگر ہمارے پاس چادر نہ ہو تو کیا کوئی حرج ہے اگر ہم عید گاہ جانے کے لیے باہر نہ نکلیں؟ آنحضور ﷺ نے فرمایا، اس کی سہیلی کو اپنی چادر اسے اڑھا دینی چاہئے اور پھر مسلمانوں کی دعا اور نیک کاموں میں شرکت کرنا چاہئے۔ پھر جب ام عطیہ ؓ خود بصرہ آئیں تو میں نے ان سے بھی یہی پوچھا یا یہ کہا کہ ہم نے ان سے پوچھا انہو ں نے بیان کیا ام عطیہ ؓ جب بھی رسول اللہ ﷺ کا ذکر کرتیں تو کہتیں میرے باپ آپ پر فدا ہوں۔ ہاں تو میں نے ان سے پوچھا، کیا آپ نے رسول اللہ ﷺ سے اس طرح سنا ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ ہاں میرے باپ آپ پر فدا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ کنواری لڑکیاں اور پردہ والیاں بھی باہر نکلیں یا یہ فرمایا کہ پردہ والی دوشیزائیں اور حائضہ عورتیں سب باہر نکلیں اور مسلمانوں کی دعا اور خیر کے کاموں میں شرکت کریں۔ لیکن حائضہ عورتیں نماز کی جگہ سے الگ رہیں۔ میں نے کہا اور حائضہ بھی نکلیں؟ انہو ں نے فرمایا کہ کیا حائضہ عورت عرفات اور فلاں فلاں جگہ نہیں جاتی ہیں؟ ( پھر عید گاہ ہی جانے میں کیا حرج ہے )
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے امام بخاری ؒ نے یہ نکالا کہ حیض والی طواف نہ کرے جو ترجمہ باب کا ایک مطلب تھا کیونکہ حیض والی عورت کو جب نماز کے مقام سے الگ رہنے کا حکم ہوا تو کعبہ کے پاس جانا بھی اس کو جائز نہ ہوگا۔ بعضوں نے کہا باب کا دوسرا مطلب بھی اس سے نکلتا ہے۔ یعنی صفا مروہ کی سعی حائضہ کرسکتی ہے کیونکہ حائضہ عرفات کا وقوف کرسکتی ہے اور صفا مروہ عرفات کی طرح ہے ( وحیدی )
ترجمہ میں کھلی ہوئی تحریف: کسی بھی مسلمان کا کسی بھی مسئلہ کے متعلق مسلک کچھ بھی ہو مگر جہاں قرآن مجید و احادیث نبوی کا کھلا ہوا متن آجائے، دیانتداری کا تقاضا یہ ہے کہ اس کا ترجمہ بلا کم وکیف بالکل صحیح کیا جائے۔ خواہ اس سے ہمارے مزعومہ مسلک پر کیسی ہی چوٹ کیوں نہ لگتی ہو۔ اس لئے کہ اللہ اور اس کے حبیب ﷺ کا کلام بڑی اہمیت رکھتا ہے اور اس میں ایک ذرہ برابر بھی ترجمہ وتشریح کے نام پر کمی بیشی کرنا وہ بد ترین جرم ہے جس کی وجہ سے یہودی تباہ وبرباد ہوگئے۔ اللہ پاک نے صاف لفظوں میں اس کی اس حرکت کا نوٹس لیاہے۔ جیسا کہ ارشادِہے ﴿يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَنْ مَوَاضِعِهِ﴾(المائدة:13) یعنی اپنے مقام سے آیات الٰہی کی تحریف کرنا علماء یہود کا بدن ترین شیوہ تھا۔ مگر صد افسوس کہ یہی شیوہ کچھ علماء اسلام کی تحریرات میں نظر آتا ہے۔ جس سے اس کلام نبوی کی تصدیق ہوتی ہے جو آپ نے فرمایا کہ تم پہلے یہود ونصاریٰ کے قدم برقدم چلنے کی راہ اختیار کر کے گمراہ ہوجاؤ گے۔
اصل مسئلہ! عورتوں کا عیدگاہ میں جانا حتی کہ کنواری لڑکیوں اور حیض والی عورتوں کا نکلنا اور عید کی دعاؤں میں شریک ہونا ایسا مسئلہ ہے جو متعدد احادیث نبوی سے ثابت ہے اور یہ مسلمہ امر ہے کہ عہدرسالت میں سختی کے ساتھ اس پر عمل درآمد تھا اور جملہ خواتین اسلام عید گاہ جایا کرتی تھیں۔ بعد میں مختلف فقہی خیالات وجود پذیر ہوئے اور محترم علماء احناف نے عورتوں کا میدان عید گاہ جانا مطلقاً نا جائز قرار دیا۔ بہرحال اپنے خیالات کے وہ خود ذمہ دار ہیں مگر جن احادیث میں عہد نبوی میں عورتوں کا عید گاہ جانا مذکور ہے ان کے ترجمہ میں رد و بدل کرنا انتہائی غیر ذمہ داری ہے۔ اور صد افسوس کہ ہم موجودہ تراجم بخاری شریف میں جو علماء دیوبند کے قلم سے نکل رہے ہیں ایسی غیر ذمہ داریوں کی بکثرت مثالیں دیکھتے ہیں۔ ” تفہیم البخاری“ ہمارے سامنے ہے۔ جس کا ترجمہ وتشریحات بہت محتاط اندازے پر لکھا گیا ہے۔ مگر مسلکی تعصب نے بعض جگہ ہمارے محترم فاضل مترجم تفہیم البخاری کو بھی جادہ اعتدال سے دورکردیا ہے۔ یہاں حدیث حفصہ کے سیاق وسباق سے صاف ظاہر ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے ایسی عورت کے عیدگاہ جانے نہ جانے کے بارے میں پوچھا جارہا ہے کہ جس کے پاس اوڑھنے کے لئے چادرنہیں ہے۔ آپ ﷺ نے جواب دیا کہ اس کی سہیلی کو چاہئے کہ اپنی چادر اس کو عاریتاً اوڑھا دے تاکہ وہ اس خیر اور دعائے مسلمین کے موقع پر ( عیدگاہ میں ) مسلمانوں کے ساتھ شریک ہوسکے۔ اس کا ترجمہ مترجم موصوف نے یوں کیا ہے ” اگر ہمارے پاس چادر ( برقعہ ) نہ ہو تو کیا کوئی حرج ہے اگر ہم مسلمانوں کے دینی اجتماعات میں شریک ہونے کے لئے باہر نہ نکلیں؟“ ایک بادی النظر سے بخاری شریف کا مطالعہ کرنے والا اس ترجمہ کو پڑھ کر یہ سوچ بھی نہیں سکتا کہ یہاں عیدگاہ جانے نہ جانے کے متعلق پوچھا جارہا ہے۔ دینی اجتماعات سے وعظ ونصیحت کی مجالس مراد ہوسکتی ہیں۔ اور ان سب میں عورتوں کا شریک ہونا بلا اختلاف جائز ہے اور عہد نبوی میں بھی عورتیں ایسے اجتماعات میں برابر شرکت کرتی تھیں۔ پھر بھلا اس سوال کا مطلب کیا ہوسکتا ہے؟ بہرحال یہ ترجمہ بالکل غلط ہے۔ اللہ توفیق دے کہ علماء کرام اپنے مزعومہ مسالک سے بلند ہو کر احتیاط سے قرآن وحدیث کا ترجمہ کیا کریں۔ وباللہ التوفیق۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Hafsah (RA): (On 'Id) We used to forbid our virgins to go out (for 'Id prayer). A lady came and stayed at the Palace of Bani Khalaf. She mentioned that her sister was married to one of the companions of Allah's Apostle (ﷺ) who participated in twelve Ghazawats along with Allah's Apostle (ﷺ) and her sister was with him in six of them. She said, "We used to dress the wounded and look after the patients." She (her sister) asked Allah's Apostle (ﷺ) , "Is there any harm for a woman to stay at home if she doesn't have a veil?" He said, "She should cover herself with the veil of her companion and she should take part in the good deeds and in the religious gatherings of the believers." When Um 'Atiyya came, I asked her. "Did you hear anything about that?" Um 'Atiyya said, "Bi Abi" and she never mentioned the name of Allah's Apostle (ﷺ) without saying "Bi Abi" (i.e. 'Let my father be sacrificed for you'). We asked her, "Have you heard Allah's Apostle (ﷺ) saying so and so (about women)?" She replied in the affirmative and said, "Let my father be sacrificed for him. He told us that unmarried mature virgins who stay often screened or unmarried young virgins and mature girls who stay often screened should come out and take part in the good deeds and in the religious gatherings of the believers. But the menstruating women should keep away from the Musalla (praying place)." I asked her, "The menstruating women?" She replied, "Don't they present themselves at 'Arafat and at such and such places?"