Sahi-Bukhari:
Hajj (Pilgrimage)
(Chapter: The staying at 'Arafat)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1665.
حضرت عروہ بن زبیر سے روایت ہے کہ دور جاہلیت میں حمس کے علاوہ دوسرے لوگ بیت اللہ کا ننگے طواف کرتے تھے۔ حمس سے مراد قریش اور اس کی اولاد ہے۔ قریش نیکی سمجھ کر لوگوں کو کپڑے دیتے، مرد مرد کو کپڑے دیتا وہ ان میں طواف کرتا اور عورت عورت کو کپڑے دیتی وہ ان میں طواف کرتی۔ جسے قریش کپڑے نہ دیتے وہ ننگا ہوکر بیت اللہ کا طواف کرتا۔ دوسرے لوگ تو میدان عرفات سے واپس آتے لیکن حمس مزدلفہ ہی سے واپس آجاتے۔ حضرت عائشہ ؓ نے بتایا کہ درج ذیل آیت کریمہ قریش کے متعلق نازل ہوئی؛ ’’پھر تم لوگ وہاں سے واپس لوٹو جہاں سے دوسرے لوگ لوٹتے ہیں۔‘‘ راوی کہتے ہیں کہ قریش مزدلفہ سے پلٹ آتے تھے، اس لیے انھیں عرفات کی طرف بھیجا گیا۔
تشریح:
(1) قریش نے بیت اللہ کے نگران ہونے کے حوالے سے کئی ایک بدعات جاری کر رکھی تھیں۔ انہوں نے لوگوں میں مشہور کر رکھا تھا کہ جن کپڑوں میں گناہ کیے جائیں ان میں بیت اللہ کا طواف نہیں کرنا چاہیے، پھر وہ جنہیں کپڑے دیتے وہ تو احرام پہن کر بیت اللہ کا طواف کرتے اور جنہیں وہ کپڑے نہ دیتے وہ ننگے طواف شروع کر دیتے۔ رسول اللہ ﷺ نے باضابطہ اعلان کے ذریعے سے اس رسم کو ختم کیا۔ (2) قریش اپنے دین میں اتنے شدت پسند تھے کہ وہ منیٰ کے دنوں سائے تلے کھڑے نہ ہوتے تھے اور نہ اپنے گھروں میں دروازوں سے داخل ہی ہوتے تھے۔ انہوں نے ایک رسم یہ بھی جاری کر رکھی تھی کہ وہ حج کے موقع پر میدان عرفات میں نہیں جاتے تھے بلکہ مزدلفہ میں ٹھہر جاتے اور کہتے کہ ہم تو اہل اللہ ہیں، ہم حدود حرم سے باہر نہیں جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول ﷺ کے ذریعے سے اس رسم کی اصلاح فرمائی اور انہیں حکم دیا کہ وہ بھی دوسرے لوگوں کے ساتھ میدان عرفات جائیں اور وہاں سے لوٹ کر گھروں کو آئیں۔ (3) امام بخاری ؒ نے اس حدیث سے وقوف عرفہ ثابت کیا ہے۔ جمہور محدثین کے نزدیک یہ وقوف مسجد نمرہ میں نماز ظہر اور نماز عصر کو اکٹھا ادا کر لینے کے بعد ہونا چاہیے۔ میدان عرفات میں عجز و انکسار سے کھڑے ہونا، شام تک خود کو دعاؤں میں مصروف رکھنا، اللہ کے حضور ہاتھ پھیلانا حج کی روح ہے۔ اگر یہ رہ جائے تو حج نہیں ہوتا اور اس کی تلافی کسی صورت میں نہیں ہو سکتی۔ اگر کوئی شخص اس میں شریک ہو جائے تو اس کا حج ادا ہو جاتا ہے۔ حضرت اسامہ بن زید ؓ رسول اللہ ﷺ کے متعلق بیان فرماتے ہیں کہ میدان عرفات میں رسول اللہ ﷺ کی اونٹنی پر میں آپ کے پیچھے سوار تھا۔ آپ دونوں ہاتھ اٹھا کر دعائیں مانگ رہے تھے۔ اچانک آپ کی اونٹنی جھک گئی اور آپ کے ہاتھ سے اس کی نکیل چھوٹ گئی۔ آپ نے اپنا ایک ہاتھ نکیل اٹھانے کے لیے نیچے جھکا دیا اور دوسرے ہاتھ کو دعاؤں میں بدستور اٹھائے رکھا۔ (سنن النسائي، مناسك الحج، حدیث:3014) لہذا جو حاجی میدان عرفات میں پہنچ کر فضول باتوں اور لایعنی گفتگو میں اپنا وقت ضائع کرتے ہیں وہ وقوف کرنے کے باوجود بھی ’’بے وقوف‘‘ ہی رہتے ہیں۔ واللہ المستعان
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1619
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1665
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1665
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1665
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے متعلق فرمایا ہے: (كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ ﴿٢٩﴾) (الرحمٰن29:55) "وہ ہر روز ایک نئی شان میں ہوتا ہے۔" اس کی ایک شان یہ ہے کہ وہ صاحبِ جلال اور احکام الحاکمین ہے۔ ہم سب اس کے عاجز و محتاج بندے اور مملوک و محکوم ہیں۔ اور دوسری شان یہ ہے کہ وہ تمام ایسی صفاتِ کمال سے متصف ہے جن کی وجہ سے انسان کو کسی سے محبت ہوتی ہے، اس اعتبار سے صرف اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی ہی محبوبِ حقیقی ہے۔ اس کی پہلی شاہانہ اور حاکمانہ شان کا تقاضا ہے کہ بندے اس کے حضور نہایت ادب و نیاز کی تصویر بن کر حاضر ہوں اور دوسری شانِ محبوبیت کا تقاضا یہ ہے کہ بندوں کا اس کے ساتھ تعلق محبت و فدائیت کا ہو۔ فریضہ حج ادا کرتے وقت بندوں میں اس رنگ کو پورے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔سلے ہوئے کپڑوں کے بجائے ایک کفن نما لباس زیب تن کرنا، ننگے سر رہنا، حجامت نہ بنوانا، ناخن نہ ترشوانا، بالوں کو پراگندہ چھوڑنا، ان میں تیل اور کنگھی استعمال نہ کرنا، خوشبو نہ لگانا، چیخ چیخ کر لبیک لبیک پکارنا، دیوانوں کی طرح بیت اللہ کے گرد چکر لگانا، اس کے درودیوار سے لپٹنا، آہ زاری کرنا، پھر صفا و مروہ کے درمیان چکر لگانا، اس کے بعد مکہ سے باہر منیٰ، کبھی عرفات اور کبھی مزدلفہ کے صحراؤں میں ڈیرے لگانا، یہ تمام وہی اعمال ہیں جو محبت کے دیوانوں سے سرزد ہوا کرتے ہیں۔ ان اعمال کے مجموعے کا نام حج ہے۔حج کے لغوی معنی "قصد و ارادہ کرنا" ہیں۔ خلیل لغوی کے نزدیک اس کے معنی کسی محترم مقام کی طرف بکثرت اور بار بار ارادہ کرنا ہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں ایک مقررہوقت پر مخصوص افعال کی ادائیگی کے لیے مسجد حرام کی طرف سفر کا قصد کرنا اور دیوانوں کی طرح اللہ کے حضور،اس کے گھر میں حاضری دینا حج کہلاتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے مسائل زکاۃ کے بعد مناسکِ حج بیان کیے ہیں،حالانکہ ارکان اسلام کی ترتیب میں زکاۃ کے بعد رمضان کے روزے اور آخر میں فریضۂ حج کی ادائیگی ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:114(16))صحیح مسلم کی رویت میں ہے کہ راوئ حدیث نے حج کے بعد روزے کا ذکر کیا تو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:نہیں، پہلے رمضان کے روزے،اس کے بعد حج کا ذکر ہے۔میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی تربیت کے مطابق سنا ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:111(16))لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے حنظلہ بن ابو سفیان کی روایت پر بنیاد رکھتے ہوئے مذکورہ ترتیب کو اختیار کیا ہے کیونکہ اس روایت میں حج کے بعد صوم رمضان کا ذکر ہے۔(صحیح البخاری،الایمان،حدیث:8) صحیح مسلم کی ایک روایت بھی اسی ترتیب کے مطابق ہے۔(صحیح مسلم،الایمان،حدیث:113،112(16))جبکہ صحیح بخاری کی ایک روایت میں روزے کا ذکر زکاۃ سے بھی پہلے ہے۔( صحیح البخاری،التفسیر،حدیث:4514)اس کا مطلب یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے جس روایت کو بنیاد بنایا ہے وہ روایت بالمعنی ہے۔دراصل اعمال کی تین اقسام ہیں:٭خالص بدنی٭خالص مالی٭ بدنی اور مالی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اعمال کے اعتبار سے مذکورہ ترتیب کو ملحوظ رکھا ہے۔پہلے نماز جو خالص بدنی ہے،بھر زکاۃ جو خالص مالی ہے،اس کے بعد حج جس میں مالی اور بدنی دونوں قسم کے اعمال ہیں،روزے کا ذکر اس کے بعد کیا ہے کیونکہ اس کا تعلق ترک اشیاء سے ہے۔نفسیاتی اعتبار سے اگرچہ روزہ بھی ایک عمل ہے لیکن جسمانی اعتبار سے چند چیزوں کو عبادت کی نیت سے چھوڑ دینے کا نام روزہ ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت تقریبا دو سو ساٹھ(260) مرفوع متصل احادیث ذکر کی ہیں اور ان پر ایک سو اکیاون (151) چھوٹے چھوٹے عناوین قائم کیے ہیں جن میں وجوب حج،فضیلت حج، مواقیت حج، طریقۂ حج،احرام حج اور محذورات حج کو بڑے احسن انداز میں پیش کیا ہے۔ان کے علاوہ مکہ مکرمہ، حرم شریف، حجراسود،آب زمزم اور ہدی، یعنی قربانی کے متعلق بھی احکام ومسائل ذکر کیے ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی دلنواز اداؤں اور ان کے اللہ کے راستے پر چلنے کے طور طریقوں کو ایسے دلکش انداز میں پیش کیا ہے کہ قاری،ملت ابراہیم سے اپنی وابستگی اور وفاداری کے اظہار کےلیے اپنے اندر بڑی تڑپ محسوس کرتا ہے اور ابراہیمی جذبات وکیفیات کے رنگ میں رنگنے کے لیے خود کو مجبور پاتا ہے۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بڑے عنوان،کتاب الحج، کے تحت 312 احادیث ذکر کی ہیں،جن میں سے 57 معلق اور باقی متصل سند سے روايت كي ہيں۔ ان میں 191 مکرر اور 121 احادیث خالص ہیں۔33 احادیث کے علاوہ باقی احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے،مرفوع احادیث کے علاوہ متعدد صحابۂ کرام اور تابعین عظام کے تقریبا 60 معلق آثار واقوال بھی پیش کیے ہیں۔قارئین کرام سے التماس ہے کہ وہ اپنی معلومات میں اضافے کے طور پر نہیں بلکہ اپنی زندگی کو خالص اسلامی زندگی بنانے کے لیے ان احادیث کا مطالعہ کریں۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے اور قیامت کے دن وہ ہمیں اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع فرمائے۔آمین یا رب العالمین
تمہید باب
90.01۔۔۔اس عنوان کے تحت امام بخاری رحمہ اللہ نے گزشتہ حدیث کے پیش نظر کسی اور حدیث کا اندراج نہیں کیا کیونکہ اس میں یہ الفاظ ہیں: "اگر تو سنت کی اتباع کرنا چاہتا ہے تو خطبہ مختصر اور وقوف میں جلدی کرنا۔" صحیح بخاری کے بعض نسخوں میں حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کے یہ الفاظ مذکور ہیں۔ اس عنوان کے تحت وہی حدیث لکھنے کا پروگرام تھا جسے امام مالک نے امام ابن شہاب زہری سے بیان کیا ہے لیکن میں چاہتا ہوں کہ اس کتاب میں وہی حدیث لاؤں جو بلا فائدہ مکرر نہ ہو۔ اس عبارت سے واضح ہوتا ہے کہ صحیح بخاری میں کوئی حدیث مکرر نہیں ہے جو احادیث بظاہر مکرر نظر آتی ہیں ان میں تقیید و اطلاق، اضافہ و کمی اور سند وغیرہ میں ضرر و تفاوت ہوتا ہے۔ واللہ اعلم
حضرت عروہ بن زبیر سے روایت ہے کہ دور جاہلیت میں حمس کے علاوہ دوسرے لوگ بیت اللہ کا ننگے طواف کرتے تھے۔ حمس سے مراد قریش اور اس کی اولاد ہے۔ قریش نیکی سمجھ کر لوگوں کو کپڑے دیتے، مرد مرد کو کپڑے دیتا وہ ان میں طواف کرتا اور عورت عورت کو کپڑے دیتی وہ ان میں طواف کرتی۔ جسے قریش کپڑے نہ دیتے وہ ننگا ہوکر بیت اللہ کا طواف کرتا۔ دوسرے لوگ تو میدان عرفات سے واپس آتے لیکن حمس مزدلفہ ہی سے واپس آجاتے۔ حضرت عائشہ ؓ نے بتایا کہ درج ذیل آیت کریمہ قریش کے متعلق نازل ہوئی؛ ’’پھر تم لوگ وہاں سے واپس لوٹو جہاں سے دوسرے لوگ لوٹتے ہیں۔‘‘ راوی کہتے ہیں کہ قریش مزدلفہ سے پلٹ آتے تھے، اس لیے انھیں عرفات کی طرف بھیجا گیا۔
حدیث حاشیہ:
(1) قریش نے بیت اللہ کے نگران ہونے کے حوالے سے کئی ایک بدعات جاری کر رکھی تھیں۔ انہوں نے لوگوں میں مشہور کر رکھا تھا کہ جن کپڑوں میں گناہ کیے جائیں ان میں بیت اللہ کا طواف نہیں کرنا چاہیے، پھر وہ جنہیں کپڑے دیتے وہ تو احرام پہن کر بیت اللہ کا طواف کرتے اور جنہیں وہ کپڑے نہ دیتے وہ ننگے طواف شروع کر دیتے۔ رسول اللہ ﷺ نے باضابطہ اعلان کے ذریعے سے اس رسم کو ختم کیا۔ (2) قریش اپنے دین میں اتنے شدت پسند تھے کہ وہ منیٰ کے دنوں سائے تلے کھڑے نہ ہوتے تھے اور نہ اپنے گھروں میں دروازوں سے داخل ہی ہوتے تھے۔ انہوں نے ایک رسم یہ بھی جاری کر رکھی تھی کہ وہ حج کے موقع پر میدان عرفات میں نہیں جاتے تھے بلکہ مزدلفہ میں ٹھہر جاتے اور کہتے کہ ہم تو اہل اللہ ہیں، ہم حدود حرم سے باہر نہیں جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول ﷺ کے ذریعے سے اس رسم کی اصلاح فرمائی اور انہیں حکم دیا کہ وہ بھی دوسرے لوگوں کے ساتھ میدان عرفات جائیں اور وہاں سے لوٹ کر گھروں کو آئیں۔ (3) امام بخاری ؒ نے اس حدیث سے وقوف عرفہ ثابت کیا ہے۔ جمہور محدثین کے نزدیک یہ وقوف مسجد نمرہ میں نماز ظہر اور نماز عصر کو اکٹھا ادا کر لینے کے بعد ہونا چاہیے۔ میدان عرفات میں عجز و انکسار سے کھڑے ہونا، شام تک خود کو دعاؤں میں مصروف رکھنا، اللہ کے حضور ہاتھ پھیلانا حج کی روح ہے۔ اگر یہ رہ جائے تو حج نہیں ہوتا اور اس کی تلافی کسی صورت میں نہیں ہو سکتی۔ اگر کوئی شخص اس میں شریک ہو جائے تو اس کا حج ادا ہو جاتا ہے۔ حضرت اسامہ بن زید ؓ رسول اللہ ﷺ کے متعلق بیان فرماتے ہیں کہ میدان عرفات میں رسول اللہ ﷺ کی اونٹنی پر میں آپ کے پیچھے سوار تھا۔ آپ دونوں ہاتھ اٹھا کر دعائیں مانگ رہے تھے۔ اچانک آپ کی اونٹنی جھک گئی اور آپ کے ہاتھ سے اس کی نکیل چھوٹ گئی۔ آپ نے اپنا ایک ہاتھ نکیل اٹھانے کے لیے نیچے جھکا دیا اور دوسرے ہاتھ کو دعاؤں میں بدستور اٹھائے رکھا۔ (سنن النسائي، مناسك الحج، حدیث:3014) لہذا جو حاجی میدان عرفات میں پہنچ کر فضول باتوں اور لایعنی گفتگو میں اپنا وقت ضائع کرتے ہیں وہ وقوف کرنے کے باوجود بھی ’’بے وقوف‘‘ ہی رہتے ہیں۔ واللہ المستعان
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے فروہ بن ابی المغراءنے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے علی بن مسہر نے بیان کیا، ان سے ہشام بن عروہ نے، ان سے عروہ بن زبیر ؓ نے کہا کہ حمس کے سوا بقیہ سب لوگ جاہلیت میں ننگے ہو کر طواف کرتے تھے، حمس قریش اور اس کی آل اولا دکوکہتے تھے، (اور بنی کنانہ وغیرہ، جیسے خزاعہ ) لوگوں کو (اللہ کے واسطے ) کپڑے دیا کرتے تھے۔ (قریش ) کے مرد دوسرے مردوں کو تاکہ انہیں پہن کر طواف کرسکیں اور (قریش کی ) عورتیں دوسری عورتوں کو تاکہ وہ انہیں پہن کر طواف کرسکیں، اور جن کو قریش کپڑا نہیں دیتے وہ بیت اللہ کا طواف ننگے ہو کر کرتے۔ دوسرے سب لوگ تو عرفات سے واپس ہوتے لیکن قریش مزدلفہ ہی سے (جو حرم میں تھا ) واپس ہو جاتے۔ ہشام بن عروہ نے کہا کہ میرے باپ عروہ بن زبیر نے مجھے ام المومنین حضرت عائشہ ؓ سے خبر دی کہ یہ آیت قریش کے بارے میں نازل ہوئی کہ ’’پھر تم بھی (قریش ) وہیں سے واپس آؤ جہاں سے اور لوگ واپس آتے ہیں‘‘ (یعنی عرفات سے، سورۃ بقرہ ) انہوں نے بیان کیا کہ قریش مزدلفہ ہی سے لوٹ آتے تھے اس لیے انہیں بھی عرفات سے لوٹنے کا حکم ہوا۔
حدیث حاشیہ:
کعبہ شریف سے میدان عرفات تقریباً پندرہ میل کے فاصلے پر واقع ہے، یہ جگہ حرم سے خارج ہے، اس اطراف میں وادی عرفہ، قریہ عرفات، جبل عرفات، مشرقی سڑک واقع ہیں، یہاں سے طائف کے لیے راستہ جاتا ہے۔ جب حضرت جبرئیل ؑ خلیل اللہ ؑ کو مناسک سکھلاتے ہوئے اس میدان تک لائے تو کہا ''هل عرف'' آپ نے مناسک حج کو جان لیا؟ اس وقت سے اس کا نام میدان عرفات ہوا۔ ( در منشور ) یہ جگہ ملت ابراہیمی میں ایک اہم تاریخی جگہ ہے اور اس میں وقوف کرنا ہی حج کی جان ہے اگر کسی کا یہ وقوف فوت ہو جائے تو اس کا حج نہیں ہوا۔ آنحضرت ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر فرمایا تھا : قفوا علی مشاعرکم فإنکم علی إرث أبیکم إبراهیم۔یعنی میدان عرفات میں جہاں اتر چکے ہو وہاں پر وقوف کرو، تم سب اپنے باپ ابراہیم علیہ السلام کی موروثہ زمین پر ہو۔ آنحضرت ﷺ نے اسلام کے قانون اساسی کا اعلان اسی مقام پر فرمایا تھا۔ حجۃ الوداع کے موقع پر آپ کا مشہور خطبہ عرفات اسی کی یادگار ہے۔ حضرت اسامہ بن زید ؓ کہتے ہیں : «كُنْتُ رَدِيفَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِعَرَفَاتٍ، فَرَفَعَ يَدَيْهِ يَدْعُو، فَمَالَتْ بِهِ نَاقَتُهُ، فَسَقَطَ خِطَامُهَا فَتَنَاوَلَ الْخِطَامَ بِإِحْدَى يَدَيْهِ، وَهُوَ رَافِعٌ يَدَهُ الْأُخْرَى» (رواہ النسائي)عرفا ت میں آنحضرت ﷺ کی اونٹنی پر میں آپ ﷺ کے پیچھے سوار تھا، آپ ﷺ اپنے دونوں ہاتھوں کو اٹھا کر دعائیں مانگ رہے تھے، اچانک آپ ﷺ کی اونٹنی جھک گئی اور آپ ﷺ کے ہاتھ سے اس کی نکیل چھوٹ گئی، آپ ﷺ نے اپنا ایک ہاتھ اس کے اٹھانے کے لیے نیچے جھکا دیا اور دوسرا ہاتھ دعاؤں میں بدستور اٹھائے رکھا۔ میدان عرفات میں یہی وقوف یعنی کھڑا ہونا اور شام تک دعاؤں کے لیے اللہ کے سامنے ہاتھ پھیلانا یہی حج کی روح ہے، یہ فوت ہوا تو حج فوت ہو گیا اور اگر اس میں کوئی شخص شریک ہوگیا اس کا حج ادا ہو گیا۔ جمہور کے نزدیک عرفات کا یہ وقوف ظہر عصر کی نماز جمع کرکے نمرہ میں ادا کرلینے کے بعد ہونا چاہئے، حضرت علامہ شوکانی فرماتے ہیں : أنه صلی اللہ علیه وسلم و الخلفاء الراشدین بعدہ لم یقفوا إلا بعد الزوال و لم ینقل عن أحد أنه وقف قبله۔ (نیل) یعنی آنحضرت ﷺ اور آپ ﷺ کے بعد خلفاءراشدین سب کا یہی عمل رہا ہے کہ زوال کے بعد ہی عرفات کا وقوف کیا ہے، زوال سے پہلے وقوف کرنا کسی سے بھی ثابت نہیں ہے۔ وقوف سے مرادظہر اور عصر ملا کر پڑھ لینے کے بعد میدان عرفات میں داخل ہونا اور وہاں شام تک کھڑے کھڑے دعائیں کرنا ہے، یہی وقوف حج کی جان ہے، اس مبارک موقع پر جس قدر بھی دعائیں کی جائیں کم ہیں، کیوں کہ آج اللہ پاک اپنے بندوں پر فخر کر رہا ہے جو دور دراز ملکوں سے جمع ہو کر آسمان کے نیچے ایک کھلے میدان میں اللہ پاک کے سامنے ہاتھ پھیلا کر دعائیں کررہے ہیں، اللہ پاک حاجی صاحبان کی دعائیں قبول کرے اور ان کو حج مبرور نصیب ہو آمین۔ جو حاجی میدان میں عرفات میں جاکر بھی حقہ بازی کرتے رہتے ہیں وہ بڑے بدنصیب ہیں خدا ان کو ہدایت بخشے۔ ( آمین )
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Urwa (RA): During the pre-lslamic period of Ignorance, the people used to perform Tawaf of the Ka’bah naked except the Hums; and the Hums were Quraish and their offspring. The Hums used to give clothes to the men who would perform the Tawaf wearing them; and women (of the Hums) used to give clothes to the women who would perform the Tawaf wearing them. Those to whom the Hums did not give clothes would perform Tawaf round the Ka’bah naked. Most of the people used to go away (disperse) directly from 'Arafat but they (Hums) used to depart after staying at Al-Muzdalifa. 'Urwa added, "My father narrated that 'Aisha (RA) had said, 'The following verses were revealed about the Hums: Then depart from the place whence all the people depart--(2.199) 'Urwa added, "They (the Hums) used to stay at Al-Muzdalifa and used to depart from there (to Mina) and so they were sent to 'Arafat (by Allah's order)."