باب : پہلے اور دوسرے جمرہ کے پاس جاکر دعا کے لیے ہاتھ اٹھانا
)
Sahi-Bukhari:
Hajj (Pilgrimage)
(Chapter: Invocation near Al-Jamrat-ud-Dunya and Al-Jamrat-ul-Wusta)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1752.
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے وہ جمرہ اولیٰ کو سات کنکریاں مارتے۔ ہر کنکری مارنے کے بعد وہ اللہ أکبر کہتے۔ پھر آگے بڑھتے اور نرم زمین میں قبلہ رو کھڑے ہوجاتے اور دیر تک کھڑے رہتے دعا کرتے اوراپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے۔ پھر جمرہ وسطی کو رمی کرتے اور بائیں جانب نرم زمین میں چلے جاتے اور دیر تک قبلہ رو ہوکر کھڑے رہتے دعا کرتے اور دونوں ہاتھ اٹھاتے۔ اس کے بعد جمرہ عقبہ کو وادی کے نشیب سے رمی کرتے اور اس کے پاس نہ ٹھہرتے اور فرماتے کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو اسی طرح کرتے دیکھا ہے۔
تشریح:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ پہلے اور دوسرے جمرے کو رمی کرنے کے بعد دونوں ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا سنت ہے، اس میں کسی کو اختلاف نہیں ہے۔ صرف امام مالک ؒ سے انکار منقول ہے۔ رسول اللہ ﷺ کی سنت کے مقابلے میں اس اختلاف کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ (2) یہ بھی معلوم ہوا کہ جمرہ عقبہ کے پاس کھڑے ہونا اور وہاں دعا کرنا ثابت نہیں۔ ایسے مواقع پر عقل کو کوئی دخل نہیں۔ صرف رسول اللہ ﷺ کی اتباع ضروری ہے۔ ایمان اور اطاعت اسی کا نام ہے کہ جہاں جو کام منقول ہو وہاں وہی کام سرانجام دیا جائے، اپنی ناقص عقل کو اس میں دخل کا کوئی حق نہیں۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1704
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1752
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1752
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1752
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے متعلق فرمایا ہے: (كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ ﴿٢٩﴾) (الرحمٰن29:55) "وہ ہر روز ایک نئی شان میں ہوتا ہے۔" اس کی ایک شان یہ ہے کہ وہ صاحبِ جلال اور احکام الحاکمین ہے۔ ہم سب اس کے عاجز و محتاج بندے اور مملوک و محکوم ہیں۔ اور دوسری شان یہ ہے کہ وہ تمام ایسی صفاتِ کمال سے متصف ہے جن کی وجہ سے انسان کو کسی سے محبت ہوتی ہے، اس اعتبار سے صرف اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی ہی محبوبِ حقیقی ہے۔ اس کی پہلی شاہانہ اور حاکمانہ شان کا تقاضا ہے کہ بندے اس کے حضور نہایت ادب و نیاز کی تصویر بن کر حاضر ہوں اور دوسری شانِ محبوبیت کا تقاضا یہ ہے کہ بندوں کا اس کے ساتھ تعلق محبت و فدائیت کا ہو۔ فریضہ حج ادا کرتے وقت بندوں میں اس رنگ کو پورے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔سلے ہوئے کپڑوں کے بجائے ایک کفن نما لباس زیب تن کرنا، ننگے سر رہنا، حجامت نہ بنوانا، ناخن نہ ترشوانا، بالوں کو پراگندہ چھوڑنا، ان میں تیل اور کنگھی استعمال نہ کرنا، خوشبو نہ لگانا، چیخ چیخ کر لبیک لبیک پکارنا، دیوانوں کی طرح بیت اللہ کے گرد چکر لگانا، اس کے درودیوار سے لپٹنا، آہ زاری کرنا، پھر صفا و مروہ کے درمیان چکر لگانا، اس کے بعد مکہ سے باہر منیٰ، کبھی عرفات اور کبھی مزدلفہ کے صحراؤں میں ڈیرے لگانا، یہ تمام وہی اعمال ہیں جو محبت کے دیوانوں سے سرزد ہوا کرتے ہیں۔ ان اعمال کے مجموعے کا نام حج ہے۔حج کے لغوی معنی "قصد و ارادہ کرنا" ہیں۔ خلیل لغوی کے نزدیک اس کے معنی کسی محترم مقام کی طرف بکثرت اور بار بار ارادہ کرنا ہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں ایک مقررہوقت پر مخصوص افعال کی ادائیگی کے لیے مسجد حرام کی طرف سفر کا قصد کرنا اور دیوانوں کی طرح اللہ کے حضور،اس کے گھر میں حاضری دینا حج کہلاتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے مسائل زکاۃ کے بعد مناسکِ حج بیان کیے ہیں،حالانکہ ارکان اسلام کی ترتیب میں زکاۃ کے بعد رمضان کے روزے اور آخر میں فریضۂ حج کی ادائیگی ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:114(16))صحیح مسلم کی رویت میں ہے کہ راوئ حدیث نے حج کے بعد روزے کا ذکر کیا تو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:نہیں، پہلے رمضان کے روزے،اس کے بعد حج کا ذکر ہے۔میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی تربیت کے مطابق سنا ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:111(16))لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے حنظلہ بن ابو سفیان کی روایت پر بنیاد رکھتے ہوئے مذکورہ ترتیب کو اختیار کیا ہے کیونکہ اس روایت میں حج کے بعد صوم رمضان کا ذکر ہے۔(صحیح البخاری،الایمان،حدیث:8) صحیح مسلم کی ایک روایت بھی اسی ترتیب کے مطابق ہے۔(صحیح مسلم،الایمان،حدیث:113،112(16))جبکہ صحیح بخاری کی ایک روایت میں روزے کا ذکر زکاۃ سے بھی پہلے ہے۔( صحیح البخاری،التفسیر،حدیث:4514)اس کا مطلب یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے جس روایت کو بنیاد بنایا ہے وہ روایت بالمعنی ہے۔دراصل اعمال کی تین اقسام ہیں:٭خالص بدنی٭خالص مالی٭ بدنی اور مالی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اعمال کے اعتبار سے مذکورہ ترتیب کو ملحوظ رکھا ہے۔پہلے نماز جو خالص بدنی ہے،بھر زکاۃ جو خالص مالی ہے،اس کے بعد حج جس میں مالی اور بدنی دونوں قسم کے اعمال ہیں،روزے کا ذکر اس کے بعد کیا ہے کیونکہ اس کا تعلق ترک اشیاء سے ہے۔نفسیاتی اعتبار سے اگرچہ روزہ بھی ایک عمل ہے لیکن جسمانی اعتبار سے چند چیزوں کو عبادت کی نیت سے چھوڑ دینے کا نام روزہ ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت تقریبا دو سو ساٹھ(260) مرفوع متصل احادیث ذکر کی ہیں اور ان پر ایک سو اکیاون (151) چھوٹے چھوٹے عناوین قائم کیے ہیں جن میں وجوب حج،فضیلت حج، مواقیت حج، طریقۂ حج،احرام حج اور محذورات حج کو بڑے احسن انداز میں پیش کیا ہے۔ان کے علاوہ مکہ مکرمہ، حرم شریف، حجراسود،آب زمزم اور ہدی، یعنی قربانی کے متعلق بھی احکام ومسائل ذکر کیے ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی دلنواز اداؤں اور ان کے اللہ کے راستے پر چلنے کے طور طریقوں کو ایسے دلکش انداز میں پیش کیا ہے کہ قاری،ملت ابراہیم سے اپنی وابستگی اور وفاداری کے اظہار کےلیے اپنے اندر بڑی تڑپ محسوس کرتا ہے اور ابراہیمی جذبات وکیفیات کے رنگ میں رنگنے کے لیے خود کو مجبور پاتا ہے۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بڑے عنوان،کتاب الحج، کے تحت 312 احادیث ذکر کی ہیں،جن میں سے 57 معلق اور باقی متصل سند سے روايت كي ہيں۔ ان میں 191 مکرر اور 121 احادیث خالص ہیں۔33 احادیث کے علاوہ باقی احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے،مرفوع احادیث کے علاوہ متعدد صحابۂ کرام اور تابعین عظام کے تقریبا 60 معلق آثار واقوال بھی پیش کیے ہیں۔قارئین کرام سے التماس ہے کہ وہ اپنی معلومات میں اضافے کے طور پر نہیں بلکہ اپنی زندگی کو خالص اسلامی زندگی بنانے کے لیے ان احادیث کا مطالعہ کریں۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے اور قیامت کے دن وہ ہمیں اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع فرمائے۔آمین یا رب العالمین
تمہید باب
جمہور علماءکے نزدیک ہاتھ اٹھا کر جمرہ اولی اور جمرہ وسطیٰ کے پاس دعا مانگنا مستحب ہے، ابن قدامہ نے کہا کہ میں اس میں کسی کا اختلاف نہیں پاتا مگر امام مالک سے اس کے خلاف منقول ہے قال ابن المنذر لا اعلم احدا انکر رفع الیدین فی الدعاءعند الجمرۃ الا ما حکاہ ابن القاسم عن مالک انتہی(فتح)
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے وہ جمرہ اولیٰ کو سات کنکریاں مارتے۔ ہر کنکری مارنے کے بعد وہ اللہ أکبر کہتے۔ پھر آگے بڑھتے اور نرم زمین میں قبلہ رو کھڑے ہوجاتے اور دیر تک کھڑے رہتے دعا کرتے اوراپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے۔ پھر جمرہ وسطی کو رمی کرتے اور بائیں جانب نرم زمین میں چلے جاتے اور دیر تک قبلہ رو ہوکر کھڑے رہتے دعا کرتے اور دونوں ہاتھ اٹھاتے۔ اس کے بعد جمرہ عقبہ کو وادی کے نشیب سے رمی کرتے اور اس کے پاس نہ ٹھہرتے اور فرماتے کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو اسی طرح کرتے دیکھا ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ پہلے اور دوسرے جمرے کو رمی کرنے کے بعد دونوں ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا سنت ہے، اس میں کسی کو اختلاف نہیں ہے۔ صرف امام مالک ؒ سے انکار منقول ہے۔ رسول اللہ ﷺ کی سنت کے مقابلے میں اس اختلاف کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ (2) یہ بھی معلوم ہوا کہ جمرہ عقبہ کے پاس کھڑے ہونا اور وہاں دعا کرنا ثابت نہیں۔ ایسے مواقع پر عقل کو کوئی دخل نہیں۔ صرف رسول اللہ ﷺ کی اتباع ضروری ہے۔ ایمان اور اطاعت اسی کا نام ہے کہ جہاں جو کام منقول ہو وہاں وہی کام سرانجام دیا جائے، اپنی ناقص عقل کو اس میں دخل کا کوئی حق نہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے اسماعیل بن عبداللہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے میرے بھائی (عبدالحمید ) نے بیان کیا، ان سے سلیمان نے بیان کیا، ان سے یونس بن یزید نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا، ان سے سالم بن عبداللہ نے بیان کیا کہ عبداللہ بن عمر ؓ پہلے جمرہ کی رمی سات کنکریوں کے ساتھ کرتے اور ہر کنکری پر اللہ أکبر کہتے تھے، اس کے بعد آگے بڑھتے اور ایک نرم ہموار زمین پر قبلہ رخ کھڑے ہو جاتے، دعائیں کرتے رہتے اور دونوں ہاتھوں کو اٹھاتے پھر جمرہ وسطی کی رمی میں بھی اسی طرح کرتے اور بائیں طرف آگے بڑھ کر ایک نرم زمین پر قبلہ رخ کھڑے ہوجاتے، بہت دیر تک اسی طرح کھڑے ہو کر دعائیں کرتے رہتے، پھر جمرہ عقبہ کی رمی بطن وادی سے کرتے لیکن وہاں ٹھہرتے نہیں تھے، آپ فرماتے تھے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کی اسی طرح کرتے دیکھا ہے۔
حدیث حاشیہ:
یہ حدیث کئی جگہ نقل ہوئی ہے اور اس سے حضرت مجتہد مطلق امام بخاری ؒ نے بہت سے مسائل کا اخراج فرمایا ہے، جو آپ کے تفقہ کی دلیل ہے ان لوگوں پر بے حد افسوس جو ایسے فقیہ اعظم فاضل مکرم امام معظم ؒ کی شان میں تنقیص کرتے ہوئے آپ کی فقاہت اور درایت کا انکار کرتے ہیں اور آپ کو محض ناقل مطلق کہہ کر اپنی ناسمجھی یا تعصب باطنی کا ثبوت دیتے ہیں، بعض علماء احناف کا رویہ اس بارے میں انتہائی تکلیف دہ ہے جو محدثین کرام خصوصاً امام بخاری ؒ کی شان میں اپنی زبان بے لگام چلا کر خود ائمہ دین مجتہدین کی تنقیص کرتے ہیں۔ امام بخاری ؒ کو اللہ پاک نے جو مقام عظمت عطا فرمایا ہے وہ ایسی واہی تباہی باتوں سے گرایا نہیں جاسکتا ہاں ایسے کور باطن نام نہاد علماءکی نشان دہی ضرور کردیتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Salim bin Abdullah (RA): 'Abdullah bin 'Umar used to do Rami of the Jamrat-ud-Dunya with seven small pebbles and used to recite Takbir on throwing each stone. He, then, would proceed further till he reached the level ground, where he would stay for a long time, facing the Qibla to invoke (Allah) while raising his hands. Then he would do Rami of the Jamrat-ul-Wusta similarly and would go to the left towards the level ground, where he would stand for a long time facing the Qibla to invoke (Allah) while raising his hands. Then he would do Rami of the Jamrat-ul-'Aqabah from the middle of the valley, but he would not stay by it. Ibn 'Umar (RA) used to say, "I saw Allah's Apostle (ﷺ) doing like that."