Sahi-Bukhari:
Penalty of Hunting while on Pilgrimage
(Chapter: Fighting is prohibited in Makkah)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور ابوشریح ؓ نے نبی کریم ﷺسے بیان کیا کہ وہاں خون نہ بہایا جائے۔
1834.
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے فتح مکہ کے روز فرمایا: ’’اب ہجرت باقی نہیں رہی، البتہ جہاد قائم اور خلوص نیت باقی رہے گا اور جب تمھیں جہاد کے لیے نکلنے کو کہا جائے تو فوراً نکل پڑو۔ بے شک یہ (مکہ) ایک ایسا شہر ہے کہ جس دن سے اللہ تعالیٰ نے زمین وآسمان کو پیدا کیا اسے قابل احترام ٹھہرایاہے اور وہ قیامت تک اللہ تعالیٰ کے حرام کرنے سے قابل احترام ہے۔ اس میں جنگ کرنا مجھ سے قبل کسی کے لیے حلال نہ ہوا، میرےلیے بھی دن کے کچھ حصے میں حلال ہوا، اب وہ اللہ کی حرمت سے قیامت تک کے لیے حرام ہے، اس لیے اس کا کانٹا نہ توڑاجائے اور نہ اس کے شکار ہی کو ہراساں کیا جائے۔ اس میں گری پڑی چیز بھی نہ اٹھائی جائے، ہاں جو شخص اس کی تشہیر کرے وہ اٹھا سکتا ہے۔ اس کا سبز گھاس کاٹنابھی جائز نہیں ہے۔ حضرت عباس ؓ نے عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ !اذخر (خوشبو دار گھاس ) کی اجازت دیجیے کیونکہ یہ سناروں اورلوگوں کے گھروں میں کام آتی ہے۔ آپ نے فرمایا: ’’ہاں اذخر (خوشبو دارگھاس) کی اجازت ہے۔‘‘
تشریح:
(1) عہد رسالت میں مکہ فتح ہوتے ہی ہجرت کا سلسلہ ختم ہو گیا کیونکہ اب مکہ دارالاسلام بن گیا اور مسلمانوں کو آزادی سے رہنے کی اجازت مل گئی، لیکن یہ حکم قیامت تک کے لیے باقی ہے کہ کسی بھی وقت کہیں سے بھی بوقت ضرورت مسلمان دارالاسلام کی طرف ہجرت کر سکتے ہیں، اس لیے اپنے دین کو محفوظ رکھنے کے لیے حسن نیت رکھنا ہر جگہ اور ہر وقت باقی ہے۔ اس کے ساتھ سلسلۂ جہاد بھی قیامت تک جاری رہے گا۔ جب بھی کسی جگہ کفر اور اسلام کی معرکہ آرائی ہو اور اسلامی سربراہ جہاد کے لیے اعلان کر دے تو ہر مسلمان پر اس کے اعلان پر لبیک کہنا ضروری ہے۔ جب مکہ مکرمہ فتح ہوا تو تھوڑی دیر کے لیے مدافعانہ جنگ کی اجازت ملی جو وہاں استحکام امن کے لیے ضروری تھی، اس کے بعد اس اجازت کو ختم کر دیا گیا۔ اب مکہ مکرمہ میں جنگ و قتال اور خونریزی کرنا ہمیشہ کے لیے حرام ہے۔ مکہ مکرمہ دارالامن ہے۔ اس کی یہ حیثیت قیامت تک باقی رہے گی۔ (2) واضح رہے کہ مکہ مکرمہ میں اذخر کے علاوہ ہر قسم کی گھاس کاٹنا ناجائز ہے، خواہ وہ تازہ ہو یا خشک کیونکہ خشک گھاس کاٹنے کی ممانعت کے متعلق بھی ایک روایت آئی ہے، البتہ حدود حرم میں ترکاریاں، سبزیاں اور کھیتیاں جو لوگ خود کاشت کرتے ہیں ان کا کاٹنا جائز ہے۔ (فتح الباري:64/4) بہرحال اللہ تعالیٰ نے مکہ مکرمہ کی حرمت کو زمین و آسمان کی پیدائش کے دن سے برقرار رکھا ہے اور قیامت تک قائم رہے گی۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1782
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1834
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1834
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1834
تمہید کتاب
احرام پہننے کے بعد انسان جب حج یا عمرے کی نیت کرتا ہے تو اسے محرم کہتے ہیں۔ اس محرم پر احرام اور حرم کے حوالے سے کچھ پابندیاں ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے حج اور عمرے کے مسائل و احکام اور آداب و شرائط بیان کرنے کے بعد احرام اور حرم کی پابندیاں بیان کرنے کے لیے مذکورہ عنوان قائم کیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے خانہ کعبہ کو اپنا مقدس گھر قرار دیا ہے، اسی طرح شہر مکہ کو جس میں یہ گھر بیت اللہ واقع ہے، بلد اللہ الحرام قرار دیا ہے۔ گویا دنیا بھر کے گھروں میں جس طرح کعبہ مکرمہ کو اللہ تعالیٰ سے خاص نسبت ہے اسی طرح دنیا بھر کے شہروں میں مکہ مکرمہ کو اللہ تعالیٰ سے خاص نسبت کا شرف حاصل ہے، پھر اس نسبت سے اس کی سمت میں کئی کئی میل کے علاقے کو حرم، یعنی واجب الاحترام قرار دیا گیا ہے اور اس کے خاص آداب و احکام مقرر کیے گئے ہیں۔ اس ادب و احترام کے حوالے سے بہت سے کاموں اور باتوں کی وہاں ممانعت ہے جن کی باقی ساری دنیا میں اجازت ہے، مثلا: ان حدود میں کسی جانور کا شکار کرنے کی اجازت نہیں۔ درخت کاٹنے اور پتے چھاڑنے کی اجازت نہیں۔ اس محترم علاقے میں ان سب چیزوں کو ادب و احترام کے خلاف گناہ گارانہ جسارت قرار دیا گیا ہے۔ گویا پورے علاقۂ حرم کی تعظیم و حرمت اللہ تعالیٰ کے ساتھ بندگی کے صحیح تعلق اور سچی وفاداری کی علامت ہے۔ اسی طرح بیت اللہ میں حاضری کے لیے فقیرانہ لباس، احرام سے متعلق بھی کچھ پابندیاں ہیں جو اسے پہنتے وقت عائد ہو جاتی ہیں، خواہ وہ حدود حرم میں داخل نہ ہوا ہو، جن میں سے ایک شکار کرنے کی ممانعت بھی ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: (يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَيَبْلُوَنَّكُمُ اللَّـهُ بِشَيْءٍ مِّنَ الصَّيْدِ تَنَالُهُ أَيْدِيكُمْ وَرِمَاحُكُمْ لِيَعْلَمَ اللَّـهُ مَن يَخَافُهُ بِالْغَيْبِ ۚ فَمَنِ اعْتَدَىٰ بَعْدَ ذَٰلِكَ فَلَهُ عَذَابٌ أَلِيمٌ ﴿٩٤﴾) "اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ ایسے شکار کے ذریعے سے تمہاری آزمائش کرے گا جو تمہارے ہاتھوں اور نیزوں کی زد میں ہوں، یہ دیکھنے کے لیے کہ کون غائبانہ طور پر اللہ سے ڈرتا ہے، پھر اس کے بعد جو حد سے گزر گیا، اس کے لیے دردناک عذاب ہے۔" (المآئدۃ94:5) اس کے بعد اس پابندی کو واضح الفاظ میں بیان فرمایا کہ ایمان والو! تم حالت احرام میں شکار نہ کرو۔امام بخاری رحمہ اللہ نے احرام اور حرم کی پابندیوں کو بیان کرنے کے لیے چھیالیس مرفوع متصل احادیث کا انتخاب کیا ہے، پھر ان پر پابندیوں کے حوالے سے ستائیس چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں، جن سے امام بخاری رحمہ اللہ کی فقہی بصیرت اور اجتہادی قوت کا اندازہ ہوتا ہے۔ واضح رہے کہ یہ پابندیاں دو حصوں پر مشتمل ہیں: (1) احرام کی پابندیاں: ان میں میدانی شکار کی ممانعت سرفہرست ہے۔ اس حوالے سے امام بخاری رحمہ اللہ نے کچھ تفصیل بیان کی ہے جسے ہم جستہ جستہ بیان کریں گے۔ (2) حرم کی پابندیاں: ان میں حرم کے درخت نہ کاٹے جائیں۔ حرم میں شکار کو خوفزدہ نہ کیا جائے، وہاں جنگ و قتال اور لڑائی جھگڑا نہ کیا جائے۔کچھ جانور ایسے ہیں جنہیں حدود حرم اور حالتِ احرام میں مارنے کی اجازت ہے کیونکہ وہ نقصان دہ اور ضرر رساں ہیں۔ ان کی تفصیل بھی بیان کی گئی ہے۔ عنوان کی مناسبت سے کچھ مسائل کا تذکرہ ہے جن کے متعلق معلومات حاصل کرنا ضروری تھا: مثلا: محرم اگر دوران احرام میں مر جائے تو کیا کیا جائے؟ اگر کسی نے حج بیت اللہ کی نذر مانی ہے لیکن اسے پورا کیے بغیر مر گیا تو اس کے متعلق کیا حکم ہے؟ ایک آدمی پر حج فرض ہے لیکن وہ سواری پر نہیں بیٹھ سکتا اس کے متعلق شرعی حکم کیا ہے؟ بچوں اور عورتوں کے حج کی کیا حیثیت ہے؟ اسی طرح جو ننگے پاؤں پیدل بیت اللہ جانے کی نذر مانتا ہے اسے کس حد تک نذر پوری کرنے کی اجازت ہے؟ امام بخاری رحمہ اللہ نے ان کے علاوہ دیگر اسنادی مباحث بھی بیان کی ہیں۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ان گزارشات کو مدنظر رکھتے ہوئے مطالعہ کریں اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق دے۔ آمین
تمہید باب
یہ معلق روایت قبل ازیں حدیث: 1832 کے تحت متصل سند سے بیان ہو چکی ہے۔
اور ابوشریح ؓ نے نبی کریم ﷺسے بیان کیا کہ وہاں خون نہ بہایا جائے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے فتح مکہ کے روز فرمایا: ’’اب ہجرت باقی نہیں رہی، البتہ جہاد قائم اور خلوص نیت باقی رہے گا اور جب تمھیں جہاد کے لیے نکلنے کو کہا جائے تو فوراً نکل پڑو۔ بے شک یہ (مکہ) ایک ایسا شہر ہے کہ جس دن سے اللہ تعالیٰ نے زمین وآسمان کو پیدا کیا اسے قابل احترام ٹھہرایاہے اور وہ قیامت تک اللہ تعالیٰ کے حرام کرنے سے قابل احترام ہے۔ اس میں جنگ کرنا مجھ سے قبل کسی کے لیے حلال نہ ہوا، میرےلیے بھی دن کے کچھ حصے میں حلال ہوا، اب وہ اللہ کی حرمت سے قیامت تک کے لیے حرام ہے، اس لیے اس کا کانٹا نہ توڑاجائے اور نہ اس کے شکار ہی کو ہراساں کیا جائے۔ اس میں گری پڑی چیز بھی نہ اٹھائی جائے، ہاں جو شخص اس کی تشہیر کرے وہ اٹھا سکتا ہے۔ اس کا سبز گھاس کاٹنابھی جائز نہیں ہے۔ حضرت عباس ؓ نے عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ !اذخر (خوشبو دار گھاس ) کی اجازت دیجیے کیونکہ یہ سناروں اورلوگوں کے گھروں میں کام آتی ہے۔ آپ نے فرمایا: ’’ہاں اذخر (خوشبو دارگھاس) کی اجازت ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) عہد رسالت میں مکہ فتح ہوتے ہی ہجرت کا سلسلہ ختم ہو گیا کیونکہ اب مکہ دارالاسلام بن گیا اور مسلمانوں کو آزادی سے رہنے کی اجازت مل گئی، لیکن یہ حکم قیامت تک کے لیے باقی ہے کہ کسی بھی وقت کہیں سے بھی بوقت ضرورت مسلمان دارالاسلام کی طرف ہجرت کر سکتے ہیں، اس لیے اپنے دین کو محفوظ رکھنے کے لیے حسن نیت رکھنا ہر جگہ اور ہر وقت باقی ہے۔ اس کے ساتھ سلسلۂ جہاد بھی قیامت تک جاری رہے گا۔ جب بھی کسی جگہ کفر اور اسلام کی معرکہ آرائی ہو اور اسلامی سربراہ جہاد کے لیے اعلان کر دے تو ہر مسلمان پر اس کے اعلان پر لبیک کہنا ضروری ہے۔ جب مکہ مکرمہ فتح ہوا تو تھوڑی دیر کے لیے مدافعانہ جنگ کی اجازت ملی جو وہاں استحکام امن کے لیے ضروری تھی، اس کے بعد اس اجازت کو ختم کر دیا گیا۔ اب مکہ مکرمہ میں جنگ و قتال اور خونریزی کرنا ہمیشہ کے لیے حرام ہے۔ مکہ مکرمہ دارالامن ہے۔ اس کی یہ حیثیت قیامت تک باقی رہے گی۔ (2) واضح رہے کہ مکہ مکرمہ میں اذخر کے علاوہ ہر قسم کی گھاس کاٹنا ناجائز ہے، خواہ وہ تازہ ہو یا خشک کیونکہ خشک گھاس کاٹنے کی ممانعت کے متعلق بھی ایک روایت آئی ہے، البتہ حدود حرم میں ترکاریاں، سبزیاں اور کھیتیاں جو لوگ خود کاشت کرتے ہیں ان کا کاٹنا جائز ہے۔ (فتح الباري:64/4) بہرحال اللہ تعالیٰ نے مکہ مکرمہ کی حرمت کو زمین و آسمان کی پیدائش کے دن سے برقرار رکھا ہے اور قیامت تک قائم رہے گی۔
ترجمۃ الباب:
حضرت ابو شریح ؓ نبی ﷺ سے بیان کرتےہیں کہ (آپ نے فرمایا: )"مکہ مکرمہ میں کوئی انسان خونریزی نہ کرے۔ "
حدیث ترجمہ:
ہم سے عثمان بن ابی شیبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر نے بیان کیا، ان سے منصور نے، ان سے مجاہد نے، ان سے طاؤس نے اور ان سے ابن عباس ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فتح مکہ کے دن فرمایا اب ہجرت فرض نہیں رہی لیکن (اچھی ) نیت اور جہاد اب بھی باقی ہے اس لیے جب تمہیں جہاد کے لیے بلایا جائے تو تیار ہو جانا۔ اس شہر (مکہ ) کو اللہ تعالیٰ نے اسی دن حرمت عطاءکی تھی جس دن اس نے آسمان اور زمین پیدا کئے، اس لیے یہ اللہ کی مقرر کی ہوئی حرمت کی وجہ سے محترم ہے یہاں کسی کے لیے بھی مجھ سے پہلے لڑائی جائز نہیں تھی اور مجھے بھی صرف ایک دن گھڑی بھر کے لیے (فتح مکہ کے دن اجازت ملی تھی ) اب ہمیشہ یہ شہر اللہ کی قائم کی ہوئی حرمت کی وجہ سے قیامت تک کے لیے حرمت والا ہے پس اس کا کانٹا کاٹا جائے نہ اس کے شکار ہانکے جائیں اور اس شخص کے سوا جو اعلان کرنے کا ارادہ رکھتا ہو کوئی یہاں کی گری ہوئی چیز نہ اٹھائے اور نہ یہاں کی گھاس اکھاڑی جائے۔ عباس ؓ نے کہا یا رسول اللہ ! اذخر (ایک گھاس ) کی اجازت تو دیجئے کیوں کہ یہاں یہ کاری گروں اور گھروں کے لیے ضروری ہے تو آپ ے فرمایا کہ اذخر کی اجازت ہے۔
حدیث حاشیہ:
عہد رسالت میں ہجر ت کا سلسلہ فتح مکہ پر ختم ہو گیا تھا کیوں کہ اب خود مکہ شریف ہی دار الاسلام بن گیا اور مسلمانوں کو آزادی سے رہنا نصیب ہو گیا لیکن یہ حکم قیامت تک کے لیے باقی ہے کہ کسی زمانہ میں کہیں بھی دار الحرب سے بوقت ضرورت مسلمان دار الاسلام کی طرف ہجرت کرسکتے ہیں۔ اس لیے فرمایا کہ اپنے دین ایمان کو بہرحال محفوظ رکھنے کے لیے حسن نیت رکھنا ہر زمانہ میں ہر وقت باقی ہے۔ ساتھ ہی سلسلہ جہاد بھی قیامت تک کے لیے باقی ہے جب بھی کسی جگہ کفر اور اسلام کی معرکہ آرائی ہو اور اسلامی سربراہ جہاد کے لیے اعلان کرے تو ہر مسلمان پر اس کے اعلان پر لبیک کہنا فرض ہو جاتا ہے، جب مکہ شریف فتح ہوا تو تھوڑی دیر کے لیے مدافعانہ جنگ کی اجازت ملی تھی، جو وہاں استحکام امن کے لیے ضروری تھی بعد میں وہ اجازت جلدی ہی ختم ہو گئی اور اب مکہ شریف میں جنگ کرنا ہمیشہ کے لیے حرام ہے۔ مکہ سب کے لیے دار الامن ہے جو قیامت تک اسی حیثیت میں رہے گا۔
بکۃ مبارکہ : روایت مذکورہ میں مقدس شہر کا ذکر ہے جسے قرآن مجید میں لفظ بکہ سے بھی یا دکیا گیا ہے اس سلسلہ کی کچھ تفصیلات ہم مولانا ابوالجلال صاحب ندوی کے قلم سے اپنے ناظرین کی خدمت میں پیش کرتے ہیں۔ مولانا ندوہ کے ان فضلاءمیں سے ہیں جن کو قدیم عبرانی و سریانی زبانوں پر عبور حاصل ہے اور اس موضوع پر ان کے متعدد علمی مقالات علمی رسائل میں شائع شدہ موجودہ ہیں ہم بکہ مبارکہ کے عنوان سے آپ کے ایک علمی مقالہ کا ایک حصہ معارف ص2 جلد نمبر6 سے اپنے قارئین کے سامنے رکھ رہے ہیں۔ امید ہے کہ اہل علم اسے بغور مطالعہ فرمائیں گے۔ صاحب مقالہ مرحوم ہو چکے ہیں اللہ ان کو جنت نصیب فرمائے آمین۔ توراۃ کے اندر مذکور ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ نے خدا کے حکم سے اپنا آبائی وطن چھوڑا تو ارض کنعان میں شکم کے مقام سے مورہ تک سفر کرتے رہے۔ (تکوین 6112) شکم اسی مقام کا نام تھا جسے ان دنوں نابلس کہتے ہیں، مورہ کا مقام بحث طلب ہے۔ حضرت ابراہیم ؑ جب سفر کرتے ہوئے اس مقام پر پہنچے تو یہاں ان کو خدواند عالم کی تجلی نظر آئی۔ مقام تجلی پر انہوں نے خدا کے لیے ایک قربان گاہ بنائی (تکوین 7:12) توراۃ کے بیان کے مطابق اس مقام کے علاوہ حضرت ابراہیم ؑ اور ان کے بیٹوں پوتوں نے اور مقامات کو بھی عبادت گاہ مقرر کیا لیکن قدامت کے لحاظ سے اولین معبد یہی مور ہ کے پاس والا تھا۔ مورہ نام کے بائبل میں دو مقامات کا ذکر ہے ایک مورہ جلجال کے مقابل کنعانیوں کے سرزمین میں پردن کے پار مغرب جانب واقع تھا جہاں قاضی جدعون کے زمانہ میں بنواسرائیل اور بنو مدین سے جنگ ہوئی تھی۔ (استشاء:30:11 و قاصیون 10:7) دوسرے مورہ کا ذکر زبورمیں وارد ہے بائبل کے مترجموں نے اس مورہ کے ذکر کو پردہ خفا میں رکھنے کی انتہائی کوشش کی ہے لیکن حقیقت کا چھپانا نہایت ہی مشکل کام ہے حضرت داؤد ؑ کے اشاروں کا اردو میں حسب ذیل ترجمہ کیا ہے : ”اے لشکروں کے خداوند ! تیرے مسکن کیا ہی دلکش ہیں، میری روح خداوند کے بارگاہوں کے لیے آرزو مند ہے، بلکہ گداز ہوتی ہے، میرا من اور تن زندہ خدا کے لیے للکارتا ہے، گورے نے بھی اپنی گھونسلا بنایا، اور ابابیل نے اپنا آشیانہ پایا جہاں وے اپنے بچے رکھیں، تیری قربان گاہوں کو اے لشکروں کے خدواند ! میرے بادشاہ میرے خدا۔ مبارک ہو وہ جو تیرے گھر میں بستے ہیں، وہ سدا تیری ستائش کرتے رہیں گے، سلاہ۔ مبارک ہیں وہ انسان جن کی قوت تجھ سے ہیں۔ ان کے دل میں تیری راہیں ہیں، وے بکا کی وادی میں گزرتے ہوئے اسے ایک کنواں بناتے ہیں، پہلی برسات اسے برکتوں سے ڈھانپ لیتی ہے۔ وہ قوت سے قوت تک ترقی کرتے چلے جاتے ہیں، یہاں تک کہ خدا کے آگے صیہون میں حاضر ہوتے ہیں۔‘‘ ( زبور نمبر 84 ) چھٹی اور ساتویں آیت کا ترجمہ انگریزی میں بھی تقریباً یہی کیا گیا ہے اور غالباً مترجمین نے ترجمہ میں ارادۃ غلطی سے کام لیا ہے، صحیح ترجمہ حسب دیل ہے : عبری بعمق ہبکہ، معین بسیتوہو۔ گم برکوف یعطنہ مودہ، بلکو محیل ال حیل براءال الوہم یصیون۔ وہ بکہ کے بطحا میں چلتے ہیں، ایک کنویں کے پاس پھرتے ہیں، جمیع برکتیں، مورہ کی ڈھانپ لیتی ہیں، وہ قوت سے قوت تک چلتے ہیں، خدائے صیہون سے ڈرتے ہیں۔ مورہ درحقیقت وہی لفظ ہے، جسے قرآن کریم میں ہم بصورت مروہ پاتے ہیں۔ خدا نے فرمایا إِن الصفا و المروةَ من شعائرِ اللہِ یقینا صفا اور مروہ اللہ کے مشاعر میں سے ہیں۔ زبور نمبر84 سے ایک بیت اللہ، ایک کنویں، اور ایک مروہ کا وادی بکہ میں ہونا صراحت کے ساتھ ثابت ہے، اس سے خانہ کعبہ کی بڑی عظمت اور اہمیت ظاہر ہوتی ہے، ہمارے پادری صاحبان کے نزدیک مناسب نہیں ہے کہ لوگوں کے دلوں میں کعبہ کا احترام پیدا ہو، اس لیے انہوں نے زبور84 کے ترجمہ میں دانستہ غلطی سے کام لیا، بہرحال بائبل کے اندر مورہ نام کے دو مقامات کا ذکر ہے، جن میں سے ایک جلجال کے پاس یعنی ارض فسلطین میں تھا اور ایک وادی بکہ میں ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ کا پہلا معبد کس مورہ کے پاس تھا۔ 9ھ میں نجران کے نصرانیوں کا ایک وفد مدینہ منورہ آیا، ان نصرانیوں نے جیسا کہ سورۃ آل عمران کی بہت سی آیتوں سے معلوم ہوتا ہے، یہود مسلمانوں اور مشرکین کے ساتھ مذہبی بحثیں کی تھیں، ان بحثوں کے درمیان یہ سوال بھی اٹھایا تھا کہ ملت ابراہیم کا اولین معبد کون تھا، اس کے جواب میں خدا نے ارشاد فرمایا ﴿إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِي بِبَكَّةَ مُبَارَكًا وَهُدًى لِلْعَالَمِينَ (96) فِيهِ آيَاتٌ بَيِّنَاتٌ مَقَامُ إِبْرَاهِيمَ وَمَنْ دَخَلَهُ كَانَ آمِنًا وَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا وَمَنْ كَفَرَ فَإِنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ عَنِ الْعَالَمِينَ﴾(آل عمران : 196)بلاشبہ پہلا خانہ خدا جو لوگوں کے لیے بنایا گیا وہی ہے، جو بکہ میں واقع ہے، مبارک ہے اور سارے لوگوں کے لیے ہدایت کا سرچشمہ ہے، اس میں کھلی نشانیاں ہیں، یعنی مقام ابراہیم ہے۔ جو اس میں داخل ہوا اس نے امان پائی اور لوگوں پر اللہ کے لیے اس گھر کا حج فرض ہے بشرطیکہ راستہ چلنا ممکن ہو، اور اگر کوئی کافر کہا نہیں مانتا، یاد رہے اللہ سارے جہاں سے بے نیاز ہے۔ جلجال کے قریب جو مورہ تھا اس کے پاس کسی مقدس معبد کا پوری تاریخ یہود کے کسی عہد میں سراغ نہیں ملتا، اس لیے یقینی طور پر ملت ابراہیم کا پہلا معبد وہی ہے جس کا ذکر زبور میں ہے اور یہی خانہ کعبہ ہے۔ خانہ کعبہ جس شہر یا علاقہ میں واقع ہے اس کا معروف ترین نام بکہ نہیں بلکہ مکہ ہے، قرآن پاک میں ایک جگہ مکہ کے نام سے بھی اس کا ذکر آیا ہے، زیر بحث آیت میں شہر کے معروف تر نام کی جگہ غیر مشہور نام کو ترجیح دی گئی ہے، اس کی دو وجہیں ہیں ایک یہ کہ اہل کتاب کو یہ بتانا مقصود تھا کہ وہ مورہ جس کے پاس توراۃ کے اندر مذکور معبد اول کو ہونا چاہئے، جلجال کے پاس نہیں، بلکہ اس وادی بکہ میں واقع ہے، جس کا زبور میں ذکر ہے، دوسری یہ ہے کہ مکہ دراصل بکہ کے نام کی بدلی ہوئی صورت ہے، تحریری نام اس شہر کا بکہ تھا، لیکن عوام کی زبان نے اسے مکہ بنادیا۔ سب سے قدیم نوشتہ جس میں ہم کو ”مکہ“ کا نام ملتا ہے وہ قرآن مجید ہے لیکن بکہ کا نام قرآن سے پیشتر زبور میں ملتا ہے، حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر شریف جب 35 برس کی تھی تو قریش نے خانہ کعبہ کی دوبارہ تعمیر کی، اس زمانہ میں خانہ کعبہ کی بنیاد کے اندر سے چند پتھر ملے، جن پر کچھ عبارتیں منقوش تھیں، قریش نے یمن سے ایک یہودی اور ایک نصرانی راہب کو بلا کر وہ تحریریں پڑھوایں ایک پتھر کے پہلو پر لکھا ہوا تھا کہ أنا للہ ذوبکة میں ہوں اللہ بکہ کا حاکم،حفظتها بسبعة أملاك حنفاء میں نے اس کی حفاظت کی سات خدا پرست فرشتوں سے، بارکت لأهلها في الماء و اللحم اس کے باشندوں کے لیے پانی اور گوشت میں برکت دی مختلف روایات میں کچھ اور الفاظ بھی ہیں لیکن ہم نے جتنے الفاظ نقل کئے ہیں ان پر سب روایتوں کا اتفاق ہے، روایات کے مطابق یہ نوشتہ کعبہ کی بنائے ابراہیم کے اندر ملا تھا۔ سچ ہے
یہی گھر ہے کہ جس میں شوکت اسلام پنہاں ہے اسی سے صاحب فاران کی عظمت نمایاں ہے راز
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn 'Abbas (RA): their blacksmiths and for their domestic purposes)." So, the Prophet (ﷺ) s