Sahi-Bukhari:
Penalty of Hunting while on Pilgrimage
(Chapter: The taking of a bath by a Muhrim)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور حضرت ابن عباس ؓ نے کہا کہ محرم (غسل کے لیے ) حمام میں جاسکتا ہے۔ ابن عمر اور عائشہؓ بدن کو کھجانے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے۔ابن منذر نے کہا محرم کو غسل جنابت بالاجماع درست ہے لیکن غسل صفائی اور پاکیزگی میں اختلاف ہے امام مالک نے اس کو مکروہ جانا ہے کہ محرم اپنا سر پانی میں ڈبائے اور موطا میں نافع سے روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ احرام کی حالت میں اپنا سرنہیں دھوتے تھے، لیکن جب احتلام ہوتا تو دھوتے۔
1840.
حضرت عبد اللہ بن حنین سے روایت ہے کہ مقام ابواء میں عبداللہ بن عباس ؓ اور مسور بن مخرمہ ؓ کا ایک مسئلے میں اختلاف ہوا۔ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ نے کہا: محرم آدمی اپنا سر دھوسکتا ہے اور حضرت مسور ؓ کہا کہ محرم انسان اپنا سر نہیں دھو سکتا۔ حضرت عبد اللہ بن عباس نے مجھے حضرت ابو ایوب انصاری ؓ کے پاس بھیجا تو میں نے انھیں کنویں کی دو لکڑیوں کے درمیان غسل کرتے دیکھا جبکہ ان پر کپڑے کا پردہ کیا ہواتھا۔ میں نے انھیں سلام کیا تو انھوں نے کہا: یہ کون ہے؟میں نے عرض کیاکہ عبداللہ بن حنین ہوں۔ مجھے حضرت ابن عباس ؓ نے آپ کے پاس بھیجا ہے کہ آپ سے ایک مسئلے کی تحقیق کروں۔ (وہ یہ ہے کہ) رسول اللہ ﷺ بحالت احرام اپنا سر مبارک کیسے دھویا کرتے تھے؟حضرت ابو ایوب ؓ نے اپنا ہاتھ کپڑے پر رکھا اور اسے نیچے کیا یہاں تک کہ میرے سامنے ان کا سر ظاہر ہوا۔ پھر انھوں نے کسی شخص سے کہا کہ وہ ان پر پانی ڈالے۔ اس نے ان کے سر پر پانی ڈالا تو انھوں نے اپنے سر کو دونوں ہاتھوں سے ہلایا۔ اپنے ہاتھوں کو آگے لائے اور پیچھے لے گئے اور فرمایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو ایسے ہی کرتے دیکھا ہے۔
تشریح:
(1) محرم کے لیے غسل جنابت تو بالاتفاق جائز ہے، البتہ غسل نظافت میں اختلاف ہے۔ امام بخاری ؒ نے عنوان سے امام مالک کے موقف کی طرف اشارہ کیا ہے۔ وہ محرم کے لیے پانی میں ڈبکی لگانے کو مکروہ خیال کرتے تھے۔ مؤطا میں حضرت ابن عمر ؓ کے متعلق روایت ہے کہ وہ حالت احرام میں اپنا سر نہیں دھوتے تھے، البتہ غسل جنابت ضرور کرتے تھے۔ (الموطأ للإمام مالك، الحج:298/1) (2) حضرت ابن عباس ؓ کے پاس اس مسئلے کے متعلق نص موجود تھی، اس لیے انہوں نے عبداللہ بن حنین کو حضرت ابو ایوب انصاری ؓ کے پاس بھیجا کہ وہ محرم کے لیے سر دھونے کا طریقہ معلوم کرے۔ سر کے متعلق اس لیے سوال کیا کہ محل اختلاف سر ہی ہے کیونکہ اس کے دھونے سے بال وغیرہ اکھڑنے کا اندیشہ ہے۔ جب انہوں نے حضرت ابو ایوب ؓ کو سر دھوتے دیکھا تو واپس جا کر حقیقت حال سے آگاہ کیا۔ اس کے بعد حضرت مسور ؓ نے حضرت ابن عباس ؓ سے کہا: آئندہ میں آپ سے کسی مسئلے میں نہیں الجھوں گا۔ (3) اس سے معلوم ہوا کہ صحابۂ کرام ؓ اختلاف کے وقت حق کی طرف رجوع کرتے تھے۔ (فتح الباري:74/4) (4) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ محرم آدمی غسل کر سکتا ہے اور اپنے بال بھی دھو سکتا ہے۔ جمہور علماء کا یہی موقف ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1788
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1840
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1840
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1840
تمہید کتاب
احرام پہننے کے بعد انسان جب حج یا عمرے کی نیت کرتا ہے تو اسے محرم کہتے ہیں۔ اس محرم پر احرام اور حرم کے حوالے سے کچھ پابندیاں ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے حج اور عمرے کے مسائل و احکام اور آداب و شرائط بیان کرنے کے بعد احرام اور حرم کی پابندیاں بیان کرنے کے لیے مذکورہ عنوان قائم کیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے خانہ کعبہ کو اپنا مقدس گھر قرار دیا ہے، اسی طرح شہر مکہ کو جس میں یہ گھر بیت اللہ واقع ہے، بلد اللہ الحرام قرار دیا ہے۔ گویا دنیا بھر کے گھروں میں جس طرح کعبہ مکرمہ کو اللہ تعالیٰ سے خاص نسبت ہے اسی طرح دنیا بھر کے شہروں میں مکہ مکرمہ کو اللہ تعالیٰ سے خاص نسبت کا شرف حاصل ہے، پھر اس نسبت سے اس کی سمت میں کئی کئی میل کے علاقے کو حرم، یعنی واجب الاحترام قرار دیا گیا ہے اور اس کے خاص آداب و احکام مقرر کیے گئے ہیں۔ اس ادب و احترام کے حوالے سے بہت سے کاموں اور باتوں کی وہاں ممانعت ہے جن کی باقی ساری دنیا میں اجازت ہے، مثلا: ان حدود میں کسی جانور کا شکار کرنے کی اجازت نہیں۔ درخت کاٹنے اور پتے چھاڑنے کی اجازت نہیں۔ اس محترم علاقے میں ان سب چیزوں کو ادب و احترام کے خلاف گناہ گارانہ جسارت قرار دیا گیا ہے۔ گویا پورے علاقۂ حرم کی تعظیم و حرمت اللہ تعالیٰ کے ساتھ بندگی کے صحیح تعلق اور سچی وفاداری کی علامت ہے۔ اسی طرح بیت اللہ میں حاضری کے لیے فقیرانہ لباس، احرام سے متعلق بھی کچھ پابندیاں ہیں جو اسے پہنتے وقت عائد ہو جاتی ہیں، خواہ وہ حدود حرم میں داخل نہ ہوا ہو، جن میں سے ایک شکار کرنے کی ممانعت بھی ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: (يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَيَبْلُوَنَّكُمُ اللَّـهُ بِشَيْءٍ مِّنَ الصَّيْدِ تَنَالُهُ أَيْدِيكُمْ وَرِمَاحُكُمْ لِيَعْلَمَ اللَّـهُ مَن يَخَافُهُ بِالْغَيْبِ ۚ فَمَنِ اعْتَدَىٰ بَعْدَ ذَٰلِكَ فَلَهُ عَذَابٌ أَلِيمٌ ﴿٩٤﴾) "اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ ایسے شکار کے ذریعے سے تمہاری آزمائش کرے گا جو تمہارے ہاتھوں اور نیزوں کی زد میں ہوں، یہ دیکھنے کے لیے کہ کون غائبانہ طور پر اللہ سے ڈرتا ہے، پھر اس کے بعد جو حد سے گزر گیا، اس کے لیے دردناک عذاب ہے۔" (المآئدۃ94:5) اس کے بعد اس پابندی کو واضح الفاظ میں بیان فرمایا کہ ایمان والو! تم حالت احرام میں شکار نہ کرو۔امام بخاری رحمہ اللہ نے احرام اور حرم کی پابندیوں کو بیان کرنے کے لیے چھیالیس مرفوع متصل احادیث کا انتخاب کیا ہے، پھر ان پر پابندیوں کے حوالے سے ستائیس چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں، جن سے امام بخاری رحمہ اللہ کی فقہی بصیرت اور اجتہادی قوت کا اندازہ ہوتا ہے۔ واضح رہے کہ یہ پابندیاں دو حصوں پر مشتمل ہیں: (1) احرام کی پابندیاں: ان میں میدانی شکار کی ممانعت سرفہرست ہے۔ اس حوالے سے امام بخاری رحمہ اللہ نے کچھ تفصیل بیان کی ہے جسے ہم جستہ جستہ بیان کریں گے۔ (2) حرم کی پابندیاں: ان میں حرم کے درخت نہ کاٹے جائیں۔ حرم میں شکار کو خوفزدہ نہ کیا جائے، وہاں جنگ و قتال اور لڑائی جھگڑا نہ کیا جائے۔کچھ جانور ایسے ہیں جنہیں حدود حرم اور حالتِ احرام میں مارنے کی اجازت ہے کیونکہ وہ نقصان دہ اور ضرر رساں ہیں۔ ان کی تفصیل بھی بیان کی گئی ہے۔ عنوان کی مناسبت سے کچھ مسائل کا تذکرہ ہے جن کے متعلق معلومات حاصل کرنا ضروری تھا: مثلا: محرم اگر دوران احرام میں مر جائے تو کیا کیا جائے؟ اگر کسی نے حج بیت اللہ کی نذر مانی ہے لیکن اسے پورا کیے بغیر مر گیا تو اس کے متعلق کیا حکم ہے؟ ایک آدمی پر حج فرض ہے لیکن وہ سواری پر نہیں بیٹھ سکتا اس کے متعلق شرعی حکم کیا ہے؟ بچوں اور عورتوں کے حج کی کیا حیثیت ہے؟ اسی طرح جو ننگے پاؤں پیدل بیت اللہ جانے کی نذر مانتا ہے اسے کس حد تک نذر پوری کرنے کی اجازت ہے؟ امام بخاری رحمہ اللہ نے ان کے علاوہ دیگر اسنادی مباحث بھی بیان کی ہیں۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ان گزارشات کو مدنظر رکھتے ہوئے مطالعہ کریں اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق دے۔ آمین
تمہید باب
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے اثر کو امام دار قطنی اور امام بیہقی رحمہما اللہ نے موصولا بیان کیا ہے کہ محرم حمام میں جا سکتا ہے، اپنا دانت نکلوا سکتا ہے اور اگر اس کا ناخن اکھڑ جائے تو اسے توڑ کر پھینک سکتا ہے۔ مزید فرماتے ہیں: اپنے سے تکلیف دور کرو، اللہ تعالیٰ تمہیں تکلیف میں رکھنا پسند نہیں کرتا۔ (سنن الدارقطنی:2/232،والسنن الکبرٰی للبیھقی:5/62) حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کے اثر کو امام بیہقی نے بیان کیا ہے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ احرام کی حالت میں اپنا سر کھجلا لیتے تھے۔ (السنن الکبرٰی للبیھقی:5/64) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے اثر کو امام مالک نے روایت کیا ہے کہ وہ محرم کے لیے کھجلی کرنے میں کوئی حرج خیال نہیں کرتی تھیں۔ (المؤطاللامام مالک،الحج:1/329) غسل اور خارش کرنے میں وجہ اشتراک یہ ہے کہ ان دونوں سے تکلیف دور کی جاتی ہے۔ (فتح الباری:4/73)
اور حضرت ابن عباس ؓ نے کہا کہ محرم (غسل کے لیے ) حمام میں جاسکتا ہے۔ ابن عمر اور عائشہؓ بدن کو کھجانے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے۔ابن منذر نے کہا محرم کو غسل جنابت بالاجماع درست ہے لیکن غسل صفائی اور پاکیزگی میں اختلاف ہے امام مالک نے اس کو مکروہ جانا ہے کہ محرم اپنا سر پانی میں ڈبائے اور موطا میں نافع سے روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ احرام کی حالت میں اپنا سرنہیں دھوتے تھے، لیکن جب احتلام ہوتا تو دھوتے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت عبد اللہ بن حنین سے روایت ہے کہ مقام ابواء میں عبداللہ بن عباس ؓ اور مسور بن مخرمہ ؓ کا ایک مسئلے میں اختلاف ہوا۔ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ نے کہا: محرم آدمی اپنا سر دھوسکتا ہے اور حضرت مسور ؓ کہا کہ محرم انسان اپنا سر نہیں دھو سکتا۔ حضرت عبد اللہ بن عباس نے مجھے حضرت ابو ایوب انصاری ؓ کے پاس بھیجا تو میں نے انھیں کنویں کی دو لکڑیوں کے درمیان غسل کرتے دیکھا جبکہ ان پر کپڑے کا پردہ کیا ہواتھا۔ میں نے انھیں سلام کیا تو انھوں نے کہا: یہ کون ہے؟میں نے عرض کیاکہ عبداللہ بن حنین ہوں۔ مجھے حضرت ابن عباس ؓ نے آپ کے پاس بھیجا ہے کہ آپ سے ایک مسئلے کی تحقیق کروں۔ (وہ یہ ہے کہ) رسول اللہ ﷺ بحالت احرام اپنا سر مبارک کیسے دھویا کرتے تھے؟حضرت ابو ایوب ؓ نے اپنا ہاتھ کپڑے پر رکھا اور اسے نیچے کیا یہاں تک کہ میرے سامنے ان کا سر ظاہر ہوا۔ پھر انھوں نے کسی شخص سے کہا کہ وہ ان پر پانی ڈالے۔ اس نے ان کے سر پر پانی ڈالا تو انھوں نے اپنے سر کو دونوں ہاتھوں سے ہلایا۔ اپنے ہاتھوں کو آگے لائے اور پیچھے لے گئے اور فرمایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو ایسے ہی کرتے دیکھا ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) محرم کے لیے غسل جنابت تو بالاتفاق جائز ہے، البتہ غسل نظافت میں اختلاف ہے۔ امام بخاری ؒ نے عنوان سے امام مالک کے موقف کی طرف اشارہ کیا ہے۔ وہ محرم کے لیے پانی میں ڈبکی لگانے کو مکروہ خیال کرتے تھے۔ مؤطا میں حضرت ابن عمر ؓ کے متعلق روایت ہے کہ وہ حالت احرام میں اپنا سر نہیں دھوتے تھے، البتہ غسل جنابت ضرور کرتے تھے۔ (الموطأ للإمام مالك، الحج:298/1) (2) حضرت ابن عباس ؓ کے پاس اس مسئلے کے متعلق نص موجود تھی، اس لیے انہوں نے عبداللہ بن حنین کو حضرت ابو ایوب انصاری ؓ کے پاس بھیجا کہ وہ محرم کے لیے سر دھونے کا طریقہ معلوم کرے۔ سر کے متعلق اس لیے سوال کیا کہ محل اختلاف سر ہی ہے کیونکہ اس کے دھونے سے بال وغیرہ اکھڑنے کا اندیشہ ہے۔ جب انہوں نے حضرت ابو ایوب ؓ کو سر دھوتے دیکھا تو واپس جا کر حقیقت حال سے آگاہ کیا۔ اس کے بعد حضرت مسور ؓ نے حضرت ابن عباس ؓ سے کہا: آئندہ میں آپ سے کسی مسئلے میں نہیں الجھوں گا۔ (3) اس سے معلوم ہوا کہ صحابۂ کرام ؓ اختلاف کے وقت حق کی طرف رجوع کرتے تھے۔ (فتح الباري:74/4) (4) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ محرم آدمی غسل کر سکتا ہے اور اپنے بال بھی دھو سکتا ہے۔ جمہور علماء کا یہی موقف ہے۔
ترجمۃ الباب:
حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ محرم انسان غسل خانے میں داخل ہوسکتا ہے۔ حضرت ابن عمر اور حضرت عائشہ ؓعنہا کے نزدیک محرم کے لیے بدن کھجانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں زید بن اسلم نے، انہیں ابراہیم بن عبداللہ بن حنین نے، انہیں ان کے والد نے کہ عبداللہ بن عباس اور مسور بن مخرمہ ؓ کا مقام ابواءمیں (ایک مسئلہ پر ) اختلاف ہوا۔ عبداللہ بن عباس ؓ نے مجھے ابو ایوب ؓ کے یہاں (مسئلہ پوچھنے کے لیے ) بھیجا، میں جب ان کی خدمت میں پہنچا تو وہ کنوئیں کى دو لکڑیوں کے بیچ غسل کر رہے تھے، ایک کپڑے سے انہوں نے پردہ کر رکھا تھا میں نے پہنچ کر سلام کیا تو انہوں نے دریافت فرمایا کہ کون ہو؟ میں نے عرض کی کہ میں عبداللہ بن حنین ہوں، آپ ؓ کی خدمت میں مجھے عبداللہ بن عباس ؓ نے بھیجا ہے یہ دریافت کرنے کے لیے کہ احرام کی حالت میں رسول اللہ ﷺ سر مبارک کس طرح دھوتے تھے۔ یہ سن کر انہوں نے کپڑے پر (جس سے پردہ تھا ) ہاتھ رکھ کراسے نیچے کیا۔ اب آپ کا سر دکھائی دے رہا تھا، جو شخص ان کے بدن پر پانی ڈال رہا تھا، اس سے انہوں نے پانی ڈالنے کے لیے کہا۔ اس نے ان کے سر پر پانی ڈالا، پھر انہوں نے اپنے سر کو دونوں ہاتھ سے ہلایا اور دونوں ہاتھ آگے لے گئے اور پھر پیچھے لائے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو (احرام کی حالت میں ) اسی طرح کرتے دیکھا تھا۔
حدیث حاشیہ:
حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں: و في الحدیث من الفوائد مناظرة الصحابة في الأحکام و رجوعهم إلی النصوص و قبولهم لخبر الواحد و لو کان تابعیا و إن قول بعضهم لیس بحجة علی بعض الخ۔ اس حدیث کے فوائد میں سے صحابہ کرام کا باہمی طور پر مسائل احکام سے متعلق مناظرہ کرنا، پھر نص کی طرف رجوع کرنا اور ان کا خبر واحد کو قبول کرلینا بھی ہے اگرچہ وہ تابعی ہی کیوں نہ ہو اوریہ اس حدیث کے فوائد میں سے ہے کہ ان کے بعض کا کوئی محض قول بعض کے لیے حجت نہیں گردانا جاتا تھا۔ انہیں سطروں کو لکھتے وقت ایک صاحب جو دیوبند مسلک رکھتے ہیں ان کا مضمون پڑھ رہا ہوں جنہوں نے بزور قلم ثابت فرمایا کہ صحابہ کرام تقلید شخصی کیا کرتے تھے، لہٰذا تقلیدشخصی کا جواز بلکہ وجوب ثابت ہوا۔ اس دعویٰ پر انہوں نے جو دلائل واقعات کی شکل میں پیش فرمائے ہیں وہ متنازعہ تقلید شخصی کی تعریف میں بالکل نہیں آتے مگر تقلید شخصی کے اس حامی بزرگ کو قدم قدم پر یہی نظر آرہا ہے کہ تقلید شخصی صحابہ میں عام طور پر مروج تھی۔ حافظ ابن حجر کا مذکورہ بیان ایسے کمزور دلائل کے جواب کے لیے کافی وافی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah bin Hunain: Abdullah bin Al-Abbas and Al-Miswar bin Makhrama differed at Al-Abwa'; Ibn 'Abbas (RA) said that a Muhrim could wash his head; while Al-Miswar maintained that he should not do so. 'Abdullah bin 'Abbas (RA) sent me to Abu Aiyub Al-Ansari and I found him bathing between the two wooden posts (of the well) and was screened with a sheet of cloth. I greeted him and he asked who I was. I replied, "I am 'Abdullah bin Hunain and I have been sent to you by Ibn 'Abbas (RA) to ask you how Allah's Apostle (ﷺ) used to wash his head while in the state of lhram." Abu Aiyub Al-Ansarl caught hold of the sheet of cloth and lowered it till his head appeared before me, and then told somebody to pour water on his head. He poured water on his head, and he (Abu Aiyub) rubbed his head with his hands by bringing them from back to front and from front to back and said, "I saw the Prophet (ﷺ) doing like this."