باب : جس کے پاس تہبند نہ ہو تووہ پاجامہ پہن سکتا ہے
)
Sahi-Bukhari:
Penalty of Hunting while on Pilgrimage
(Chapter: If an Izar is not available, one can wear trousers)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1843.
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے ہمیں میدان عرفات میں خطبہ دیا اور فرمایا: ’’جس شخص کو تہبند نہ ملے وہ شلوار پہن لے اور جس شخص کو جوتے نہ ملیں وہ موزے پہن لے۔‘‘ حضرت عکرمہ نے کہا: اگر محرم کو دشمن سے خطرہ ہوتو ہتھیار پہن لے اس صورت میں اسے فدیہ دینا ہوگا، لیکن فدیہ دینے کے متعلق ان سے کسی نے اتفاق نہیں کیا۔
تشریح:
(1) احرام کی حالت میں تہبند کا ہونا اور پاؤں میں جوتا ہونا ہی مناسب ہے کیونکہ حج میں اللہ تعالیٰ کو یہی فقیرانہ ادا پسند ہے لیکن اگر کسی کو یہ چیزیں میسر نہ ہوں تو بوقت مجبوری پاجامہ، شلوار اور موزے بھی پہن سکتا ہے کیونکہ اسلام میں قدم قدم پر آسانیوں کو ملحوظ رکھا گیا ہے۔ شلوار پہننے کی اجازت اس صورت میں ہے جب ازار حاصل کرنے کی پوری کوشش کرے اور اسے حاصل نہ کر سکے۔ اس کے پاس اگر قیمت ہے تو اسے خرید لے۔ اگر ایسا ممکن نہ ہو تو شلوار یا پاجامہ پہن لے لیکن کیا اسے موزے کی طرح کاٹنا ضروری ہے؟ جمہور علماء تو اسے کاٹ کر پہننے کی اجازت دیتے ہیں۔ کاٹے بغیر پہن لینے والے کو فدیہ دینا ہو گا۔ امام احمد نے اس حدیث کے ظاہر پر عمل کرتے ہوئے فتویٰ دیا ہے کہ شلوار کو کاٹنے کی ضرورت نہیں کیونکہ اسے کاٹنے کا فتویٰ محض قیاس پر مبنی ہے۔ (2) عرب کے ہاں تنورہ پہننے کا رواج ہے، یعنی چادر کے دونوں کناروں کو سینے کے بعد اوپر لاسٹک لگا دی جاتی ہے تاکہ وہ کھل نہ سکے۔ ایسا کرنا جائز ہے کیونکہ محرم کے لیے ایسا سلا ہوا لباس منع ہے جو اعضاء کے مطابق کاٹ کر تیار کیا گیا ہو اور اسے معمول کے مطابق پہنا جاتا ہو۔ اس سے مراد ہر وہ چیز نہیں جس پر سلائی کا عمل ہوا ہو، لہذا اگر انسان احرام کے لیے پیوند لگی چادریں استعمال کرے تو اس میں کوئی حرج نہیں اگرچہ پیوند کاری کے لیے سلائی کی گئی ہو۔ بوقت مجبوری اس قسم کی سلائی والا کپڑا بھی پہنا جا سکتا ہے۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1791
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1843
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1843
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1843
تمہید کتاب
احرام پہننے کے بعد انسان جب حج یا عمرے کی نیت کرتا ہے تو اسے محرم کہتے ہیں۔ اس محرم پر احرام اور حرم کے حوالے سے کچھ پابندیاں ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے حج اور عمرے کے مسائل و احکام اور آداب و شرائط بیان کرنے کے بعد احرام اور حرم کی پابندیاں بیان کرنے کے لیے مذکورہ عنوان قائم کیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے خانہ کعبہ کو اپنا مقدس گھر قرار دیا ہے، اسی طرح شہر مکہ کو جس میں یہ گھر بیت اللہ واقع ہے، بلد اللہ الحرام قرار دیا ہے۔ گویا دنیا بھر کے گھروں میں جس طرح کعبہ مکرمہ کو اللہ تعالیٰ سے خاص نسبت ہے اسی طرح دنیا بھر کے شہروں میں مکہ مکرمہ کو اللہ تعالیٰ سے خاص نسبت کا شرف حاصل ہے، پھر اس نسبت سے اس کی سمت میں کئی کئی میل کے علاقے کو حرم، یعنی واجب الاحترام قرار دیا گیا ہے اور اس کے خاص آداب و احکام مقرر کیے گئے ہیں۔ اس ادب و احترام کے حوالے سے بہت سے کاموں اور باتوں کی وہاں ممانعت ہے جن کی باقی ساری دنیا میں اجازت ہے، مثلا: ان حدود میں کسی جانور کا شکار کرنے کی اجازت نہیں۔ درخت کاٹنے اور پتے چھاڑنے کی اجازت نہیں۔ اس محترم علاقے میں ان سب چیزوں کو ادب و احترام کے خلاف گناہ گارانہ جسارت قرار دیا گیا ہے۔ گویا پورے علاقۂ حرم کی تعظیم و حرمت اللہ تعالیٰ کے ساتھ بندگی کے صحیح تعلق اور سچی وفاداری کی علامت ہے۔ اسی طرح بیت اللہ میں حاضری کے لیے فقیرانہ لباس، احرام سے متعلق بھی کچھ پابندیاں ہیں جو اسے پہنتے وقت عائد ہو جاتی ہیں، خواہ وہ حدود حرم میں داخل نہ ہوا ہو، جن میں سے ایک شکار کرنے کی ممانعت بھی ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: (يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَيَبْلُوَنَّكُمُ اللَّـهُ بِشَيْءٍ مِّنَ الصَّيْدِ تَنَالُهُ أَيْدِيكُمْ وَرِمَاحُكُمْ لِيَعْلَمَ اللَّـهُ مَن يَخَافُهُ بِالْغَيْبِ ۚ فَمَنِ اعْتَدَىٰ بَعْدَ ذَٰلِكَ فَلَهُ عَذَابٌ أَلِيمٌ ﴿٩٤﴾) "اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ ایسے شکار کے ذریعے سے تمہاری آزمائش کرے گا جو تمہارے ہاتھوں اور نیزوں کی زد میں ہوں، یہ دیکھنے کے لیے کہ کون غائبانہ طور پر اللہ سے ڈرتا ہے، پھر اس کے بعد جو حد سے گزر گیا، اس کے لیے دردناک عذاب ہے۔" (المآئدۃ94:5) اس کے بعد اس پابندی کو واضح الفاظ میں بیان فرمایا کہ ایمان والو! تم حالت احرام میں شکار نہ کرو۔امام بخاری رحمہ اللہ نے احرام اور حرم کی پابندیوں کو بیان کرنے کے لیے چھیالیس مرفوع متصل احادیث کا انتخاب کیا ہے، پھر ان پر پابندیوں کے حوالے سے ستائیس چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں، جن سے امام بخاری رحمہ اللہ کی فقہی بصیرت اور اجتہادی قوت کا اندازہ ہوتا ہے۔ واضح رہے کہ یہ پابندیاں دو حصوں پر مشتمل ہیں: (1) احرام کی پابندیاں: ان میں میدانی شکار کی ممانعت سرفہرست ہے۔ اس حوالے سے امام بخاری رحمہ اللہ نے کچھ تفصیل بیان کی ہے جسے ہم جستہ جستہ بیان کریں گے۔ (2) حرم کی پابندیاں: ان میں حرم کے درخت نہ کاٹے جائیں۔ حرم میں شکار کو خوفزدہ نہ کیا جائے، وہاں جنگ و قتال اور لڑائی جھگڑا نہ کیا جائے۔کچھ جانور ایسے ہیں جنہیں حدود حرم اور حالتِ احرام میں مارنے کی اجازت ہے کیونکہ وہ نقصان دہ اور ضرر رساں ہیں۔ ان کی تفصیل بھی بیان کی گئی ہے۔ عنوان کی مناسبت سے کچھ مسائل کا تذکرہ ہے جن کے متعلق معلومات حاصل کرنا ضروری تھا: مثلا: محرم اگر دوران احرام میں مر جائے تو کیا کیا جائے؟ اگر کسی نے حج بیت اللہ کی نذر مانی ہے لیکن اسے پورا کیے بغیر مر گیا تو اس کے متعلق کیا حکم ہے؟ ایک آدمی پر حج فرض ہے لیکن وہ سواری پر نہیں بیٹھ سکتا اس کے متعلق شرعی حکم کیا ہے؟ بچوں اور عورتوں کے حج کی کیا حیثیت ہے؟ اسی طرح جو ننگے پاؤں پیدل بیت اللہ جانے کی نذر مانتا ہے اسے کس حد تک نذر پوری کرنے کی اجازت ہے؟ امام بخاری رحمہ اللہ نے ان کے علاوہ دیگر اسنادی مباحث بھی بیان کی ہیں۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ان گزارشات کو مدنظر رکھتے ہوئے مطالعہ کریں اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق دے۔ آمین
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے ہمیں میدان عرفات میں خطبہ دیا اور فرمایا: ’’جس شخص کو تہبند نہ ملے وہ شلوار پہن لے اور جس شخص کو جوتے نہ ملیں وہ موزے پہن لے۔‘‘ حضرت عکرمہ نے کہا: اگر محرم کو دشمن سے خطرہ ہوتو ہتھیار پہن لے اس صورت میں اسے فدیہ دینا ہوگا، لیکن فدیہ دینے کے متعلق ان سے کسی نے اتفاق نہیں کیا۔
حدیث حاشیہ:
(1) احرام کی حالت میں تہبند کا ہونا اور پاؤں میں جوتا ہونا ہی مناسب ہے کیونکہ حج میں اللہ تعالیٰ کو یہی فقیرانہ ادا پسند ہے لیکن اگر کسی کو یہ چیزیں میسر نہ ہوں تو بوقت مجبوری پاجامہ، شلوار اور موزے بھی پہن سکتا ہے کیونکہ اسلام میں قدم قدم پر آسانیوں کو ملحوظ رکھا گیا ہے۔ شلوار پہننے کی اجازت اس صورت میں ہے جب ازار حاصل کرنے کی پوری کوشش کرے اور اسے حاصل نہ کر سکے۔ اس کے پاس اگر قیمت ہے تو اسے خرید لے۔ اگر ایسا ممکن نہ ہو تو شلوار یا پاجامہ پہن لے لیکن کیا اسے موزے کی طرح کاٹنا ضروری ہے؟ جمہور علماء تو اسے کاٹ کر پہننے کی اجازت دیتے ہیں۔ کاٹے بغیر پہن لینے والے کو فدیہ دینا ہو گا۔ امام احمد نے اس حدیث کے ظاہر پر عمل کرتے ہوئے فتویٰ دیا ہے کہ شلوار کو کاٹنے کی ضرورت نہیں کیونکہ اسے کاٹنے کا فتویٰ محض قیاس پر مبنی ہے۔ (2) عرب کے ہاں تنورہ پہننے کا رواج ہے، یعنی چادر کے دونوں کناروں کو سینے کے بعد اوپر لاسٹک لگا دی جاتی ہے تاکہ وہ کھل نہ سکے۔ ایسا کرنا جائز ہے کیونکہ محرم کے لیے ایسا سلا ہوا لباس منع ہے جو اعضاء کے مطابق کاٹ کر تیار کیا گیا ہو اور اسے معمول کے مطابق پہنا جاتا ہو۔ اس سے مراد ہر وہ چیز نہیں جس پر سلائی کا عمل ہوا ہو، لہذا اگر انسان احرام کے لیے پیوند لگی چادریں استعمال کرے تو اس میں کوئی حرج نہیں اگرچہ پیوند کاری کے لیے سلائی کی گئی ہو۔ بوقت مجبوری اس قسم کی سلائی والا کپڑا بھی پہنا جا سکتا ہے۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے عمرو بن دینار نے بیان کیا، ان سے جابر بن زید نے اور ان سے ابن عباس ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے ہم کو میدان عرفات میں وعظ سنایا، اس میں آپ نے فرمایا کہ اگر کسی کو احرام کے لیے تہبند نہ ملے تو وہ پاجامہ پہن لے اور اگر کسی کو جوتے نہ ملیں تو وہ موزے پہن لے۔
حدیث حاشیہ:
مطلب آپ کا یہ تھا کہ احرام میں تہ بند کا ہونا اور پیروں میں جوتیوں کا ہونا ہی مناسب ہے، لیکن اگر کسی کو یہ چیزیں میسر نہ ہوں تو مجبوراً پاجامہ اور موزے پہن سکتا ہے کیوں کہ اسلام میں ہر ہر قدم پر آسانیوں کو ملحوظ رکھا گیاہے، امام احمد نے اسی حدیث کے ظاہر پر فتویٰ دیا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn Abbas (RA): The Prophet (ﷺ) delivered a sermon at 'Arafat and said, "Whoever does not get an Izar can wear trousers, and whoever cannot get a pair of shoes can wear Khuffs."