باب : اگر ناواقفیت کی وجہ سے کوئی کرتہ پہنے ہوئے احرام باندھے؟
)
Sahi-Bukhari:
Penalty of Hunting while on Pilgrimage
(Chapter: If somebody ignorantly assumed Ihram while wearing a shirt (will Fidya be compulsory?))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور عطاءبن ابی رباح نے کہا ناواقفیت میں یا بھول کر اگر کوئی محرم شخص خوشبو لگائے، سلا ہو ا کپڑا پہن لے تو اس پر کفارہ نہیں ہے۔امام شافعی کا یہی قول ہے اورامام مالک نے کہا اگر اسی وقت اتار ڈالے یا خوشبو دھو ڈالے تو کفارہ نہ ہوگا، ورنہ کفارہ لازم ہوگا۔ دلائل کی رو سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے مسلک کو ترجیح معلوم ہوتی ہے جیسا کہ امام شافعی کا یہی مسلک ہے۔
1848.
حضرت یعلی بن اُمیہ ؓ ہی سے روایت ہے کہ ایک مرد نے کسی دوسرے شخص کا ہاتھ چبا ڈالا تو اس نے اپنا ہاتھ کھینچاجس سے اس کا دانت نکل گیا، اس پر نبی ﷺ نے اس کے بدلے کو باطل فرمادیا۔
تشریح:
(1) جس شخص نے بھول کر یا نادانستہ طور پر بحالت احرام قمیص پہن لی تو اس پر فدیہ ہو گا یا نہیں؟ مذکورہ حدیث میں فدیہ نہ ہونے کے متعلق کوئی حکم نہیں، البتہ امام بخاری ؒ نے اپنے رجحان کے پیش نظر حضرت عطاء کا قول پیش کیا ہے کہ ایسے انسان پر کوئی فدیہ نہیں۔ چونکہ حضرت عطاء اس حدیث کے راوی ہیں، لہذا اگر فدیہ لازم ہوتا تو کم از کم ان پر مخفی نہ رہتا۔ امام شافعی ؒ نے بھی یہی موقف اختیار کیا ہے جبکہ امام مالک ؒ کا موقف ہے کہ اگر اسی وقت قمیص اتار دے یا خوشبو دھو ڈالے تو کوئی کفارہ نہیں بصورت دیگر کفارہ دینا ہو گا۔ دلائل کے اعتبار سے امام بخاری ؒ کا مسلک راجح معلوم ہوتا ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے اس کو قمیص اتارنے اور خوشبو دھو ڈالنے کا حکم دیا، اس کے علاوہ کچھ نہیں کہا۔ (2) دوسری حدیث پہلی حدیث کا تتمہ ہے۔ اس کا عنوان کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ اسے بالتبع ذکر کر دیا گیا ہے۔ اس کی تشریح ہم آئندہ کتاب الدیات میں کریں گے۔ بإذن الله
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1795.01
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1848
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1848
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1848
تمہید کتاب
احرام پہننے کے بعد انسان جب حج یا عمرے کی نیت کرتا ہے تو اسے محرم کہتے ہیں۔ اس محرم پر احرام اور حرم کے حوالے سے کچھ پابندیاں ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے حج اور عمرے کے مسائل و احکام اور آداب و شرائط بیان کرنے کے بعد احرام اور حرم کی پابندیاں بیان کرنے کے لیے مذکورہ عنوان قائم کیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے خانہ کعبہ کو اپنا مقدس گھر قرار دیا ہے، اسی طرح شہر مکہ کو جس میں یہ گھر بیت اللہ واقع ہے، بلد اللہ الحرام قرار دیا ہے۔ گویا دنیا بھر کے گھروں میں جس طرح کعبہ مکرمہ کو اللہ تعالیٰ سے خاص نسبت ہے اسی طرح دنیا بھر کے شہروں میں مکہ مکرمہ کو اللہ تعالیٰ سے خاص نسبت کا شرف حاصل ہے، پھر اس نسبت سے اس کی سمت میں کئی کئی میل کے علاقے کو حرم، یعنی واجب الاحترام قرار دیا گیا ہے اور اس کے خاص آداب و احکام مقرر کیے گئے ہیں۔ اس ادب و احترام کے حوالے سے بہت سے کاموں اور باتوں کی وہاں ممانعت ہے جن کی باقی ساری دنیا میں اجازت ہے، مثلا: ان حدود میں کسی جانور کا شکار کرنے کی اجازت نہیں۔ درخت کاٹنے اور پتے چھاڑنے کی اجازت نہیں۔ اس محترم علاقے میں ان سب چیزوں کو ادب و احترام کے خلاف گناہ گارانہ جسارت قرار دیا گیا ہے۔ گویا پورے علاقۂ حرم کی تعظیم و حرمت اللہ تعالیٰ کے ساتھ بندگی کے صحیح تعلق اور سچی وفاداری کی علامت ہے۔ اسی طرح بیت اللہ میں حاضری کے لیے فقیرانہ لباس، احرام سے متعلق بھی کچھ پابندیاں ہیں جو اسے پہنتے وقت عائد ہو جاتی ہیں، خواہ وہ حدود حرم میں داخل نہ ہوا ہو، جن میں سے ایک شکار کرنے کی ممانعت بھی ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: (يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَيَبْلُوَنَّكُمُ اللَّـهُ بِشَيْءٍ مِّنَ الصَّيْدِ تَنَالُهُ أَيْدِيكُمْ وَرِمَاحُكُمْ لِيَعْلَمَ اللَّـهُ مَن يَخَافُهُ بِالْغَيْبِ ۚ فَمَنِ اعْتَدَىٰ بَعْدَ ذَٰلِكَ فَلَهُ عَذَابٌ أَلِيمٌ ﴿٩٤﴾) "اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ ایسے شکار کے ذریعے سے تمہاری آزمائش کرے گا جو تمہارے ہاتھوں اور نیزوں کی زد میں ہوں، یہ دیکھنے کے لیے کہ کون غائبانہ طور پر اللہ سے ڈرتا ہے، پھر اس کے بعد جو حد سے گزر گیا، اس کے لیے دردناک عذاب ہے۔" (المآئدۃ94:5) اس کے بعد اس پابندی کو واضح الفاظ میں بیان فرمایا کہ ایمان والو! تم حالت احرام میں شکار نہ کرو۔امام بخاری رحمہ اللہ نے احرام اور حرم کی پابندیوں کو بیان کرنے کے لیے چھیالیس مرفوع متصل احادیث کا انتخاب کیا ہے، پھر ان پر پابندیوں کے حوالے سے ستائیس چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں، جن سے امام بخاری رحمہ اللہ کی فقہی بصیرت اور اجتہادی قوت کا اندازہ ہوتا ہے۔ واضح رہے کہ یہ پابندیاں دو حصوں پر مشتمل ہیں: (1) احرام کی پابندیاں: ان میں میدانی شکار کی ممانعت سرفہرست ہے۔ اس حوالے سے امام بخاری رحمہ اللہ نے کچھ تفصیل بیان کی ہے جسے ہم جستہ جستہ بیان کریں گے۔ (2) حرم کی پابندیاں: ان میں حرم کے درخت نہ کاٹے جائیں۔ حرم میں شکار کو خوفزدہ نہ کیا جائے، وہاں جنگ و قتال اور لڑائی جھگڑا نہ کیا جائے۔کچھ جانور ایسے ہیں جنہیں حدود حرم اور حالتِ احرام میں مارنے کی اجازت ہے کیونکہ وہ نقصان دہ اور ضرر رساں ہیں۔ ان کی تفصیل بھی بیان کی گئی ہے۔ عنوان کی مناسبت سے کچھ مسائل کا تذکرہ ہے جن کے متعلق معلومات حاصل کرنا ضروری تھا: مثلا: محرم اگر دوران احرام میں مر جائے تو کیا کیا جائے؟ اگر کسی نے حج بیت اللہ کی نذر مانی ہے لیکن اسے پورا کیے بغیر مر گیا تو اس کے متعلق کیا حکم ہے؟ ایک آدمی پر حج فرض ہے لیکن وہ سواری پر نہیں بیٹھ سکتا اس کے متعلق شرعی حکم کیا ہے؟ بچوں اور عورتوں کے حج کی کیا حیثیت ہے؟ اسی طرح جو ننگے پاؤں پیدل بیت اللہ جانے کی نذر مانتا ہے اسے کس حد تک نذر پوری کرنے کی اجازت ہے؟ امام بخاری رحمہ اللہ نے ان کے علاوہ دیگر اسنادی مباحث بھی بیان کی ہیں۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ان گزارشات کو مدنظر رکھتے ہوئے مطالعہ کریں اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق دے۔ آمین
تمہید باب
حضرت عطاء کے اثر کو ابن منذر نے الاوسط اور امام طبرانی نے المعجم الکبیر میں بیان کیا ہے۔ (فتح الباری:4/82)
اور عطاءبن ابی رباح نے کہا ناواقفیت میں یا بھول کر اگر کوئی محرم شخص خوشبو لگائے، سلا ہو ا کپڑا پہن لے تو اس پر کفارہ نہیں ہے۔امام شافعی کا یہی قول ہے اورامام مالک نے کہا اگر اسی وقت اتار ڈالے یا خوشبو دھو ڈالے تو کفارہ نہ ہوگا، ورنہ کفارہ لازم ہوگا۔ دلائل کی رو سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے مسلک کو ترجیح معلوم ہوتی ہے جیسا کہ امام شافعی کا یہی مسلک ہے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت یعلی بن اُمیہ ؓ ہی سے روایت ہے کہ ایک مرد نے کسی دوسرے شخص کا ہاتھ چبا ڈالا تو اس نے اپنا ہاتھ کھینچاجس سے اس کا دانت نکل گیا، اس پر نبی ﷺ نے اس کے بدلے کو باطل فرمادیا۔
حدیث حاشیہ:
(1) جس شخص نے بھول کر یا نادانستہ طور پر بحالت احرام قمیص پہن لی تو اس پر فدیہ ہو گا یا نہیں؟ مذکورہ حدیث میں فدیہ نہ ہونے کے متعلق کوئی حکم نہیں، البتہ امام بخاری ؒ نے اپنے رجحان کے پیش نظر حضرت عطاء کا قول پیش کیا ہے کہ ایسے انسان پر کوئی فدیہ نہیں۔ چونکہ حضرت عطاء اس حدیث کے راوی ہیں، لہذا اگر فدیہ لازم ہوتا تو کم از کم ان پر مخفی نہ رہتا۔ امام شافعی ؒ نے بھی یہی موقف اختیار کیا ہے جبکہ امام مالک ؒ کا موقف ہے کہ اگر اسی وقت قمیص اتار دے یا خوشبو دھو ڈالے تو کوئی کفارہ نہیں بصورت دیگر کفارہ دینا ہو گا۔ دلائل کے اعتبار سے امام بخاری ؒ کا مسلک راجح معلوم ہوتا ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے اس کو قمیص اتارنے اور خوشبو دھو ڈالنے کا حکم دیا، اس کے علاوہ کچھ نہیں کہا۔ (2) دوسری حدیث پہلی حدیث کا تتمہ ہے۔ اس کا عنوان کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ اسے بالتبع ذکر کر دیا گیا ہے۔ اس کی تشریح ہم آئندہ کتاب الدیات میں کریں گے۔ بإذن الله
ترجمۃ الباب:
حضرت عطاء بیان کرتے ہیں کہ جس نے جہالت سے یا بھول کر خوشبو لگائی یا لباس پہن لیا اس پر کوئی کفارہ نہیں۔
حدیث ترجمہ:
ایک شخص نے دوسرے شخص کے ہاتھ میں دانت سے کاٹا تھا، دوسرے نے جو اپنا ہاتھ کھینچا تو اس کا دانت اکھڑ گیا نبی کریم ﷺ نے اس کا کوئی بدلہ نہیں دلوایا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
A man bit the hand of another man but in that process the latter broke one incisor tooth of the former, and the Prophet (ﷺ) forgave the latter.