مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1889.
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ جب رسول اللہ ﷺ مدینہ طیبہ تشریف لائے تو حضرت ابو بکر ؓ اور حضرت بلال ؓ کو بخار آگیا۔ حضرت ابو بکر ؓ کو جب بخار آتا تو یہ شعر پڑھتے:’’ گھر میں اپنے صبح کرتا ہے ایک فرد بشر۔۔۔ موت اس کی جوتی کے تسمے سے ہے نزدیک تر،، حضر ت بلال ؓ کا جب بخار اترتا تو باآواز بلند یہ شعر کہتے: کاش !پھر مکہ کی وادی میں رہوں میں ایک رات۔۔۔ سب طرف اُگے ہوں وہاں جلیل و اذخر نبات۔۔۔ کاش!پھر دیکھوں میں شامہ، کاش! پھر دیکھوں طفیل۔۔۔اورپیوں پانی مجنہ کے جو ہیں آب حیات،،، اے اللہ!شیبہ بن ربیعہ، عتبہ بن ربیعہ اور امیہ بن خلف پر تیری لعنت ہو۔ جنھوں نے ہمارے ملک سے ہمیں نکال کر ایک وبائی زمین کی طرف دھکیل دیا۔ یہ سن کر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اے اللہ! مدینہ طیبہ کی محبت اس طرح ہمارے دلوں میں ڈال دے جس طرح مکہ سے محبت کرتے ہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ۔ اے اللہ!ہمارے صاع اور مد میں برکت فر اور مدینہ کی آب وہوا ہمارے لیے اچھی کردے اوراس کا بُخار جُحفہ کی طرف بھیج دے۔‘‘ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ جب ہم مدینہ طیبہ آئے تو وہ اللہ کی زمینوں میں سب سے وبائی زمین تھی اور اس وادی بطحان میں بدبودار اور بد مزہ پانی بہتا تھا۔
تشریح:
(1) اس حدیث سے امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ مدینہ طیبہ میں اقامت رکھنا ایک مومن کی پسندیدہ خواہش ہونی چاہیے۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کے لیے دعا فرمائی: ’’اے اللہ! اس کی آب و ہوا کو ہمارے لیے اچھا کر دے۔‘‘ (2) وطن سے محبت انسان کا ایک فطری جذبہ ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے صحابۂ کرام ؓ نے اگرچہ اللہ کی رضا کے لیے مکہ مکرمہ چھوڑا تھا لیکن شروع شروع میں وطن کی یاد بہت آیا کرتی تھی، نیز مدینہ طیبہ کا ماحول بھی اس وقت ناسازگار تھا، خاص طور پر اس کی آب و ہوا ان کے موافق نہ تھی، اس لیے انہیں بخار ہو جاتا۔ اس دوران میں حضرت بلال ؓ بڑے درد انگیز اشعار پڑھ کر اپنے جذبات کا اظہار کرتے۔ مکہ کا ماحول، وہاں کے پہاڑ حتی کہ وہاں کی گھاس تک کا اپنے اشعار میں ذکر کرتے مگر اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی محبت ان کے لیے سب سے زیادہ قیمتی تھی۔ حضرت بلال ؓ کے اشعار میں جلیل اور اذخر کا ذکر آیا ہے۔ یہ گھاس کے نام ہیں جو اطراف مکہ میں بکثرت پیدا ہوتی تھیں۔ شامہ اور طفیل مکہ سے تیس میل کے فاصلے پر دو پہاڑ ہیں۔ (3) رسول اللہ ﷺ مکے سے ہجرت کر کے مدینہ طیبہ تشریف لائے تو اس وقت مدینہ طیبہ ایک سخت وبائی آب و ہوا کی لپیٹ میں تھا، چنانچہ مدینہ طیبہ میں آنے والے سخت بخار میں مبتلا ہو جاتے۔ رسول اللہ ﷺ کی دعا سے یہ وبا جحفه منتقل ہو گئی جو اس وقت مشرکین کی بستی تھی اور مدینہ طیبہ نہ صرف آب و ہوا بلکہ ہر اعتبار سے جنت کا نمونہ بن گیا۔ الغرض آج مدینہ طیبہ کی ہر بستی بابرکت ہے جس سے ساری دنیا کو فیض پہنچ رہا ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1835
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1889
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1889
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1889
تمہید کتاب
دور جاہلیت میں مدینہ طیبہ کا نام یثرب تھا۔ یہ لفظ تثريب سے مشتق ہے جس کے معنی توبیخ و ملامت کرنا ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت سے پہلے یہاں آنے والوں کو ملامت کیا کرتے تھے کیونکہ اس کی آب و ہوا اچھی نہ تھی، لیکن یہ نام مدینہ طیبہ کے شایان شان نہ تھا۔ قرآن کریم نے اس نام کی نسبت منافقین کی طرف کی ہے اور اسے بطور حکایت نقل کیا ہے۔ (الاحزاب13:33) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں اپنی تشریف آوری کے بعد اس نام کو پسند نہیں کیا بلکہ اس کا نام طیبہ رکھا۔ (صحیح مسلم،الحج،حدیث:3356(1384)) مسند ابی داود طیالسی اور معجم الکبیر طبرانی کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (إن الله أمرني أن أسمي المدينة طيبة) "یقینا اللہ ذوالجلال نے مجھے اس کا نام طیبہ رکھنے کا حکم دیا ہے۔" (صحیح الجامع الصغیر للالبانی،حدیث:1723) ایک روایت میں ہے: "اللہ تعالیٰ نے مدینہ طیبہ کا نام طابہ منتخب کیا ہے۔" (صحیح مسلم،الحج،حدیث:3357(1385)) طابہ اور طیبہ دونوں کے معنی پاکیزہ اور خوشگوار کے ہیں، چنانچہ مدینہ طیبہ میں قلوب و اذہان کے لیے جو سکون و اطمینان اور خوشگواری ہے وہ اسی شہر کا حصہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے بایں الفاظ دعا کی ہے: "اے اللہ! حضرت ابراہیم علیہ السلام تیرے خاص بندے، تیرے خلیل اور تیرے نبی تھے۔ میں بھی تیرا بندہ اور تیرا نبی ہوں۔ انہوں نے مکہ کے لیے تجھ سے دعا کی اور میں مدینہ کے لیے تجھ سے ویسی ہی دعا کرتا ہوں اور اس کے ساتھ مزید اتنے کی دعا کرتا ہوں۔" (صحیح مسلم،الحج،حدیث:3334(1373)) قرآن کریم میں مکہ کے لیے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا کا ذکر ہے جو انہوں نے بے آب و گیاہ وادی میں اپنے اہل و عیال کو وہاں بسا کر کی تھی۔ وہ اس طرح ہے: "اے اللہ! تو اپنے بندوں کے دلوں میں ان کی محبت و الفت ڈال دے اور یہاں ان کی ضرورت کے مطابق پھل مہیا کر، نیز یہاں کے لیے امن و سلامتی مقدر فرما۔" (ابراھیم37:14) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینے کی خیر و برکت کے لیے بایں الفاظ دعا فرمائی: "اے اللہ! مدینہ طیبہ میں مکہ مکرمہ کے اعتبار سے دو چند خیروبرکت عطا فرما۔" (صحیح مسلم،الحج،حدیث:3326(1369))آپ کی اس دعا کا ثمرہ ہے کہ دنیا بھر میں جن اہل ایمان کو مکہ سے عقیدت ہے ان سب کو مدینہ طیبہ سے محبت ہے اور اس محبوبیت میں مدینہ طیبہ کا حصہ مکہ مکرمہ سے یقینا زیادہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کے قابل احترام ہونے کا اعلان کیا تھا اور میں مدینہ طیبہ کے حرم قرار دیے جانے کا اعلان کرتا ہوں۔ اس کے دونوں طرف کے دروں کا درمیانی رقبہ واجب الاحترام ہے۔ اس میں کسی قسم کی خونریزی نہ کی جائے اور نہ کسی کے خلاف ہتھیار اٹھائے جائیں اور چارے کی ضرورت کے علاوہ یہاں درختوں کے پتے نہ جھاڑے جائیں۔" (صحیح مسلم،الحج،حدیث:3336(1374)) اس سے معلوم ہوا کہ مدینہ طیبہ بھی سرکاری علاقے کی طرح واجب الاحترام ہے اور وہاں ہر وہ اقدام منع ہے جو اس کی عظمت و حرمت کے منافی ہو لیکن اس کے احکام مکہ جیسے نہیں کیونکہ مدینہ طیبہ میں جانوروں کے چارے کے لیے درختوں کے پتے جھاڑے جا سکتے ہیں جبکہ حرم مکہ میں اس کی بھی اجازت نہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی حرمت و فضیلت کو اجاگر کرتے ہوئے مزید فرمایا: "میرا جو امتی ایمان کے ساتھ مدینہ طیبہ کی سختیوں اور تکلیفوں کو صبر و استقامت سے برداشت کرے گا اور وہاں پڑا رہے گا، میں قیامت کے دن اس کی سفارش کروں گا۔" (صحیح مسلم،الحج،حدیث:3339(1374)) سفارش کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی خطاؤں کو معاف کر دے اور اس کے گناہوں سے درگزر فرمائے۔اکثر محدثین کا دستور ہے کہ وہ اپنی تالیفات میں مناسک حج وغیرہ سے فراغت کے بعد "فضائل مدینہ" کے تحت مدینہ طیبہ کی عظمت و حرمت پر مشتمل احادیث بیان کرتے ہیں۔ اسی طریقے کی پیروی کرتے ہوئے امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی مسائل حج و عمرہ کے بعد کتاب فضائل المدینۃ کے تحت مدینہ طیبہ کی عظمت پر مشتمل چھبیس احادیث بیان کی ہیں۔ پھر ان پر بارہ چھوٹے چھوٹے ابواب قائم کیے ہیں جن میں دو بلا عنوان ہیں۔ عنوانات کی فہرست حسب ذیل ہے: ٭ مدینہ کا قابل احترام ہونا۔ ٭ مدینہ طیبہ کی فضیلت، نیز وہ برے آدمی کو نکال دیتا ہے۔ ٭ مدینہ طیبہ طابہ ہے۔ ٭ مدینہ طیبہ کے دو کنارے۔ ٭ جس نے مدینہ طیبہ سے اعراض کیا۔ ٭ ایمان مدینہ طیبہ کی طرف سمٹ آئے گا۔ ٭ اہل مدینہ کے ساتھ مکروفریب کرنے کا گناہ۔ ٭ مدینہ طیبہ کے محلات۔ ٭ مدینہ طیبہ میں دجال داخل نہیں ہو گا۔ ٭ مدینہ طیبہ خباثت کو دور کر دیتا ہے۔ ٭ مدینہ طیبہ کو بے آباد کرنے کی کراہت۔ ٭ بلا عنوان۔امام بخاری رحمہ اللہ کی بیان کردہ چھبیس احادیث میں سے چار معلق اور بائیس متصل سند سے مروی ہیں۔ ان میں نو مکرر اور باقی سترہ خالص ہیں۔ ان میں سے دو احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی روایت کیا ہے۔ آخر میں امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ایک اثر بیان کیا ہے جس سے اس عنوان کے حسن اختتام کی طرف اشارہ ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کا ایمان پر خاتمہ کرے۔ آمین۔ اے اللہ! ہمیں حق پہچان کر اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرما۔
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ جب رسول اللہ ﷺ مدینہ طیبہ تشریف لائے تو حضرت ابو بکر ؓ اور حضرت بلال ؓ کو بخار آگیا۔ حضرت ابو بکر ؓ کو جب بخار آتا تو یہ شعر پڑھتے:’’ گھر میں اپنے صبح کرتا ہے ایک فرد بشر۔۔۔ موت اس کی جوتی کے تسمے سے ہے نزدیک تر،، حضر ت بلال ؓ کا جب بخار اترتا تو باآواز بلند یہ شعر کہتے: کاش !پھر مکہ کی وادی میں رہوں میں ایک رات۔۔۔ سب طرف اُگے ہوں وہاں جلیل و اذخر نبات۔۔۔ کاش!پھر دیکھوں میں شامہ، کاش! پھر دیکھوں طفیل۔۔۔اورپیوں پانی مجنہ کے جو ہیں آب حیات،،، اے اللہ!شیبہ بن ربیعہ، عتبہ بن ربیعہ اور امیہ بن خلف پر تیری لعنت ہو۔ جنھوں نے ہمارے ملک سے ہمیں نکال کر ایک وبائی زمین کی طرف دھکیل دیا۔ یہ سن کر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اے اللہ! مدینہ طیبہ کی محبت اس طرح ہمارے دلوں میں ڈال دے جس طرح مکہ سے محبت کرتے ہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ۔ اے اللہ!ہمارے صاع اور مد میں برکت فر اور مدینہ کی آب وہوا ہمارے لیے اچھی کردے اوراس کا بُخار جُحفہ کی طرف بھیج دے۔‘‘ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ جب ہم مدینہ طیبہ آئے تو وہ اللہ کی زمینوں میں سب سے وبائی زمین تھی اور اس وادی بطحان میں بدبودار اور بد مزہ پانی بہتا تھا۔
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث سے امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ مدینہ طیبہ میں اقامت رکھنا ایک مومن کی پسندیدہ خواہش ہونی چاہیے۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کے لیے دعا فرمائی: ’’اے اللہ! اس کی آب و ہوا کو ہمارے لیے اچھا کر دے۔‘‘ (2) وطن سے محبت انسان کا ایک فطری جذبہ ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے صحابۂ کرام ؓ نے اگرچہ اللہ کی رضا کے لیے مکہ مکرمہ چھوڑا تھا لیکن شروع شروع میں وطن کی یاد بہت آیا کرتی تھی، نیز مدینہ طیبہ کا ماحول بھی اس وقت ناسازگار تھا، خاص طور پر اس کی آب و ہوا ان کے موافق نہ تھی، اس لیے انہیں بخار ہو جاتا۔ اس دوران میں حضرت بلال ؓ بڑے درد انگیز اشعار پڑھ کر اپنے جذبات کا اظہار کرتے۔ مکہ کا ماحول، وہاں کے پہاڑ حتی کہ وہاں کی گھاس تک کا اپنے اشعار میں ذکر کرتے مگر اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی محبت ان کے لیے سب سے زیادہ قیمتی تھی۔ حضرت بلال ؓ کے اشعار میں جلیل اور اذخر کا ذکر آیا ہے۔ یہ گھاس کے نام ہیں جو اطراف مکہ میں بکثرت پیدا ہوتی تھیں۔ شامہ اور طفیل مکہ سے تیس میل کے فاصلے پر دو پہاڑ ہیں۔ (3) رسول اللہ ﷺ مکے سے ہجرت کر کے مدینہ طیبہ تشریف لائے تو اس وقت مدینہ طیبہ ایک سخت وبائی آب و ہوا کی لپیٹ میں تھا، چنانچہ مدینہ طیبہ میں آنے والے سخت بخار میں مبتلا ہو جاتے۔ رسول اللہ ﷺ کی دعا سے یہ وبا جحفه منتقل ہو گئی جو اس وقت مشرکین کی بستی تھی اور مدینہ طیبہ نہ صرف آب و ہوا بلکہ ہر اعتبار سے جنت کا نمونہ بن گیا۔ الغرض آج مدینہ طیبہ کی ہر بستی بابرکت ہے جس سے ساری دنیا کو فیض پہنچ رہا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبید بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا، ان سے ہشام نے، ان سے ان کے والد عروہ نے اور ان سے عائشہ ؓ نے کہ جب رسول کریم ﷺ مدینہ تشریف لائے تو ابوبکر اور بلال ؓ بخار میں مبتلا ہوگئے، ابوبکر ؓ جب بخار میں مبتلا ہوئے تویہ شعر پڑھتے : ہر آدمی اپنے گھر والوں میں صبح کرتا ہے حالانکہ اس کی موت اس کی جوتی کے تسمہ سے بھی زیادہ قریب ہے اور بلال ؓ کا جب بخار اترتا تو آپ بلند آواز سے یہ اشعار پڑھتے : کاش ! میں ایک رات مکہ کی وادی میں گزار سکتا اور میرے چاروں طرف اذخر اور جلیل (گھاس ) ہوتیں۔ کاش ! ایک دن میں مجنہ کے پانی پر پہنچتا اور کاش ! میں شامہ اور طفیل (پہاڑوں ) کو دیکھ سکتا۔ کہا کہ اے میرے اللہ ! شیبہ بن ربیعہ، عتبہ بن ربیعہ ا ور امیہ بن خلف مردودوں پر لعنت کر۔ انہوں نے اپنے وطن سے اس وبا کی زمین میں نکالا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے یہ سن کر فرمایا اے اللہ ! ہمارے دلوں میں مدینہ کی محبت اسی طرح پیدا کردے جس طرح مکہ کی محبت ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ ! اے اللہ ! ہمارے صاع اور ہمارے مد میں برکت عطا فر اور مدینہ کی آب و ہوا ہمارے لیے صحت خیز کردے یہاں کے بخار کو جحیفہ میں بھیج دے۔ عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ جب ہم مدینہ آئے تو یہ خدا کی سب سے زیادہ وبا والی سرزمین تھی۔ انہوں نے کہا مدینہ میں بطحان نامی ایک نالہ سے ذرا ذرا بدمزہ اور بدبودار پانی بہا کرتا تھا۔
حدیث حاشیہ:
وطن کی محبت انسان کا ایک فطری جذبہ ہے، صحابہ کرام مہاجرین ؓ اگرچہ برضا و رغبت اللہ و رسول ﷺ کی رضا کی خاطر اپنے وطن، اپنے گھر در سب کو چھوڑ کر مدینہ آگئے تھے مگر شروع شروع میں ان کو وطن کی یاد آیا ہی کرتی تھی اور اس لیے بھی کہ ہر لحاظ سے اس وقت مدینہ کا ماحول ان کے لیے ناساز گار تھا، خاص طور پر مدینہ کی آب و ہوا ان دنوں ان کے موافق نہ تھی۔ اسی لیے وہ بخار میں مبتلا ہو جایا کرتے تھے۔ حضرت بلال ؓ کے درد انگیز اشعار ظاہر کرتے ہیں کہ مکہ شریف کا ماحول وہاں کے پہاڑ حتی کہ وہاں کی گھاس تک ان کو کس قدر محبوب تھی مگر اللہ و رسول اللہ ﷺ کی محبت ان کے لیے سب سے زیادہ قیمتی تھی، حضرت بلال ؓ کے اشعار میں ذکر کردہ جلیل اور اذخر دو قسم کی گھاس ہیں جو اطراف مکہ میں بکثرت پیدا ہوتی ہیں اور شامہ اور طفیل مکہ سے تین میل کے فاصلے پر دو پہاڑ ہیں۔ مجنہ مکہ سے چند میل مر الظہران کے قریب ایک مقام ہے جہاں کا پانی بے حد شیریں ہے، حضرت بلال ؓ نے اپنے ان اشعار میں ان ہی سب کا ذکر فرمایا ہے۔ حضرت مولانا وحید الزماں مرحوم نے بلالی اشعار کا اردو ترجمہ اشعار میں یوں فرمایا :
أَلَا لَيْتَ شِعْرِي هَلْ أَبِيتَنَّ لَيْلَةً کاش ! پھر مکہ کی وادی میں رہوں میں ایک رات
بِوَادٍ وَحَوْلِي إِذْخِرٌ وَجَلِيلُ سب طرف میرے اگے ہوئےں واں
إِذْخِرٌ وَجَلِيلُ وَهَلْ أَرِدَنْ يَوْمًا مِيَاهَ مَجَنَّةٍ اور پیؤں پانی مجنہ کے جو آب حیات
وَهَلْ يَبْدُوَنْ لِي شَامَةٌ وَطَفِيلُ کاش ! پھر دیکھوں میں شامہ کاش ! پھر دیکھوں
طفیل اللہ پاک نے اپنے حبیب پاک ﷺ کی دعا قبول فرمائی کہ مدینہ نہ صرف آب و ہوا بلکہ ہر لحاظ سے ایک جنت کا نمونہ شہر بن گیا اور اللہ نے اسے ہر قسم کی برکتوں سے نوازا اور سب سے بڑا شرف جو کائنات عالم میں اسے حاصل ہے وہ یہ کہ یہاں سرکار دو عالم رسول اکرم ﷺ آرام فرما رہے ہیں۔ سچ ہے :
اخترت بین أماکن الغبراء دار الکرامة بقعة الزوراء( صلی اللہ علیه وسلم )
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Aisha (RA): When Allah's Apostle (ﷺ) reached Medina, Abu Bakr (RA) and Bilal (RA) became ill. When Abu Bakr's fever got worse, he would recite (this poetic verse): "Everybody is staying alive with his People, yet Death is nearer to him than His shoe laces." And Bilal (RA) , when his fever deserted him, would recite: "Would that I could stay overnight in A valley wherein I would be Surrounded by Idhkhir and Jalil (kinds of good-smelling grass). Would that one day I could Drink the water of the Majanna, and Would that (The two mountains) Shama and Tafil would appear to me!" The Prophet (ﷺ) said, "O Allah! Curse Shaiba bin Rabi'a and 'Utba bin Rabi'a and Umaiya bin Khalaf as they turned us out of our land to the land of epidemics." Allah's Apostle (ﷺ) then said, "O Allah! Make us love Madinah as we love Makkah or even more than that. O Allah! Give blessings in our Sa and our Mudd (measures symbolizing food) and make the climate of Madinah suitable for us, and divert its fever towards Aljuhfa." Aisha (RA) added: When we reached Medina, it was the most unhealthy of Allah's lands, and the valley of Bathan (the valley of Medina) used to flow with impure colored water.