باب : اگر روزہ دار بھول کر کھا پی لے تو روزہ نہیں جاتا
)
Sahi-Bukhari:
Fasting
(Chapter: If a person observing Saum ate or drank forgetfully)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور عطاءنے کہا کہ اگر کسی روزہ دار نے ناک میں پانی ڈالا اور وہ پانی حلق کے اندر چلا گیا تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں اگر اس کو نکال نہ سکے اور امام حسن بصری نے کہا کہ اگر روزہ دار کے حلق میں مکھی چلی گئی تو اس کا روزہ نہیں جاتا اور امام حسن بصری اور مجاہد نے کہا کہ اگر بھول کر جماع کر لے تو اس پر قضاءواجب نہ ہوگی۔
1933.
حضرت ابو ہریرۃ ؓ سے روایت ہے وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ’’ اگر کوئی شخص بھول کر کھا پی لے تو وہ اپنے روزے کو پورا کرےکیونکہ یہ اللہ تعالیٰ نے اس کو کھلایا پلایا ہے۔‘‘
تشریح:
امام مالک کے علاوہ تمام محدثین نے اس حدیث کے مطابق فیصلہ دیا ہے کہ بھول کر کھانے پینے سے روزہ نہیں ٹوٹتا اور نہ اس سے قضا ہی دینی پڑتی ہے بلکہ امت کی آسانی اور رفع حرج کا بھی یہی تقاضا ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1876
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1933
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1933
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1933
تمہید کتاب
عربی زبان میں روزے کے لیے صوم کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ لغوی طور پر اس کے معنی رک جانا ہیں، یعنی کھانے پینے، بولنے، جماع کرنے یا چلنے سے رک جانا۔ شرعی تعریف یہ ہے کہ مخصوص شرائط کے ساتھ مخصوص ایام میں مخصوص اشیاء سے مخصوص وقت میں رک جانا کا نام صوم ہے۔ دوسرے لفظوں میں عبادت کی نیت سے طلوع فجر سے غروب آفتاب تک کھانے، پینے اور ازدواجی تعلقات سے باز رہنے کا نام روزہ ہے۔دراصل انسان کو اللہ تعالیٰ نے روحانیت اور حیوانیت سے مرکب بنایا ہے۔ اس کی طبیعت میں وہ سارے مادی اور سفلی تقاضے بھی ہیں جو دوسرے حیوانوں میں ہوتے ہیں اور اس کی فطرت میں روحانیت کا وہ نورانی جوہر بھی ہے جو فرشتوں کے لیے خاص غذا اور دولت ہے۔ انسان کی سعادت کا دارومدار اسی پر ہے کہ اس کا روحانی عنصر، حیوانی عنصر پر غالب رہے اور اسے حدود کا پابند رکھے جو اللہ تعالیٰ نے اس پر عائد کی ہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ انسان کا حیوانی پہلو اس کے روحانی پہلو کا فرمانبردار اور اطاعت شعار ہو جائے اور اس کے مقابلے میں سرکشی اور بغاوت نہ کرے۔ روزے کا مقصد بھی یہی ہے کہ اس کے ذریعے سے انسان کی حیوانیت کو کنٹرول کیا جائے اور اسے شرعی احکام کی پابندی، نیز ایمانی اور روحانی تقاضوں کی فرمانبرداری کا عادی بنایا جائے۔ روزہ چونکہ انسان کی حیوانی قوت کو اس کی روحانی قوت کے تابع رکھنے اور اللہ کے احکام کے مقابلے میں خواہشات نفس اور تقاضائے شہوت کو دبانے کی عادت ڈالنے کا خاص ذریعہ ہے، اس لیے سابقہ امتوں کو بھی اس کا حکم دیا گیا تھا۔ اگرچہ روزوں کی مدت اور دوسرے تفصیلی احکام میں خاص حالات و ضروریات کے لحاظ سے کچھ فرق بھی تھا، تاہم مقصد میں یکسانیت ضرور تھی جسے اللہ تعالیٰ نے بایں الفاظ بیان کیا ہے (لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ) "تاکہ تم تقویٰ شعار بن جاؤ۔" (البقرۃ183:2)اس امت کے لیے سال میں ایک ماہ کے روزے فرض کیے گئے اور روزے کا وقت طلوع سحر سے غروب آفتاب تک رکھا گیا۔ بلاشبہ یہ مدت اور یہ وقت مذکورہ بالا مقصد کے حصول کے لیے نہایت معتدل اور مناسب ہے کیونکہ اس سے کم مدت میں نفس کی تربیت کا مقصد حاصل نہیں ہوتا۔ اور اگر وقت اس سے زیادہ رکھا جاتا تو اکثریت کے لیے ناقابل برداشت ہوتا۔ بہرحال طلوع فجر سے غروب آفتاب تک کا وقت اور سال میں ایک مہینے کی مدت عام انسان کے حالات و ظروف کے اعتبار سے مقصد تربیت کے لیے بالکل مناسب اور متعدل ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کے تحت ایک سو ستاون احادیث ذکر کیں ہیں، پھر ان احادیث پر ستر کے قریب چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کر کے روزے کے متعلق متعدد احکام و مسائل کا استنباط کیا ہے۔ ہم چند ایک کا بطور نمونہ ذکر کرتے ہیں۔وجوب روزہ، فضیلت روزہ، ماہ رمضان میں سخاوت کرنا، روزے کی ابتدا اور انتہائے سحری کے مسائل، اس کا وقت، بحالت جنابت روزہ رکھنا، دن کے وقت روزے کی نیت کرنا، دوران روزہ بیوی سے بوس و کنار کرنا، بحالت روزہ غسل کرنا، بھول کر کھا پی لینا، دوران روزہ تازہ یا خشک مسواک کرنا، بحالت روزہ بیوی سے جماع اور اس کا کفارہ، روزے کی حالت میں سنگی لگوانا یا قے کرنا، دوران سفر میں روزے رکھنا، روزے کی قضا کا وقت، حائضہ عورت کے لیے روزے کے احکام، افطاری کے مسائل، افطاری کے بعد اگر سورج نظر آ جائے، وصال کی شرعی حیثیت، نفلی روزے اور اسوۂ نبوی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے مذکورہ مسائل اور دیگر احکام براہ راست احادیث سے اخذ کیے ہیں، جن سے امام صاحب کی بصیرت و فراست کا پتہ چلتا ہے۔ بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے ایک سو ستاون احادیث بیان کی ہیں جن میں چھتیس معلق اور باقی موصول ہیں، ان میں اڑسٹھ مکرر اور خالص نواسی احادیث ہیں۔ پچیس احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔ احادیث کے علاوہ تقریبا ساٹھ آثار بھی بیان کیے ہیں جو متعدد صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ سے مروی ہیں۔ ان میں اکثر معلق اور چند موصول ہیں۔واضح رہے کہ اس مہینے کو رمضان اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس کے معنی جلنے کے ہیں اور جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تھے اس وقت سخت گرمی تھی، اس لیے یہ مہینہ رمضان سے موسوم ہوا، نیز اس ماہ میں روزہ رکھنے والوں کے گناہ جل جاتے ہیں۔ عورت، مریض اور مسافر کے لیے کچھ رعایت بھی ہے جس کا آئندہ تفصیل سے ذکر ہو گا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ماہ رمضان کے روزوں کا بیان ارکان اسلام کے آخر میں کیا ہے، اس کے متعلق علامہ عینی نے لکھا ہے کہ قبل ازیں کتاب الزکاۃ کے بعد کتاب الحج کو ذکر کیا کیونکہ ان دونوں میں مال خرچ ہوتا ہے، اب روزے کے احکام کے لیے اور کوئی محل نہیں تھا، اس لیے ان کے احکام و مسائل کو آخر میں بیان کیا ہے۔ (عمدۃالقاری:8/3) قارئین کرام سے استدعا ہے کہ وہ امام بخاری رحمہ اللہ کے قائم کردہ عناوین اور پیش کردہ احادیث کا مطالعہ کرتے وقت ہماری ان گزارشات کو ضرور پیش نظر رکھیں، اس سے حضرت امام کی فقہی بصیرت اور قوت استنباط اور دقت نظر کا اندازہ ہو گا۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان احادیث پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے اور قیامت کے دن ہمیں زمرۂ محدثین میں اٹھائے۔ آمین یا رب العالمین
تمہید باب
امام بخاری رحمہ اللہ کے نزدیک سہو و نسیان اور خطا و ذہول میں کوئی فرق نہیں، اس لیے ان تمام کا حکم ایک ہے۔ نسیان اس آفت کو کہتے ہیں جو دماغ میں تھکاوٹ یا اضطراب کی بنا پر پیدا ہوتی ہے لیکن خطا اس غلطی کو کہتے ہیں جو نادانستہ طور پر سرزد ہو جائے۔ سہو بھی یہی ہوتا ہے لیکن خطا میں انسان دیر سے متنبہ ہوتا ہے جبکہ سہو میں جلدی احساس ہو جاتا ہے۔ ناک میں پانی ڈالنے کے بعد اس کا غیر شعوری طور پر حلق میں اتر جانا وہی حکم رکھتا ہے جو بھول کر پانی پینے کا ہے، یعنی اس پر کوئی قضا نہیں۔ حضرت عطاء کے قول کو مصنف عبدالرزاق (4/174) میں متصل سند سے بیان کیا گیا ہے۔ بحالت روزہ مکھی کا حلق میں اتر جانے کا وہی حکم ہے جو بھول کر کھا لینے کا ہے، اس پر بھی قضا لازم نہیں۔ حسن بصری کے قول کو بھی مصنف ابن ابی شیبہ (4/172) میں متصل سند سے بیان کیا گیا ہے۔ اسی طرح اگر منہ میں گردوغبار یا دھواں چلا جائے، اس سے بھی روزہ خراب نہیں ہوتا۔ (عمدۃالقاری:8/96) بھول کر جماع کر لینے سے روزہ خراب نہیں ہوتا۔ یہ فتویٰ مسئلے کی وضاحت کے لیے ہے۔ اس قسم کی صورتحال سے انسان شاذ و نادر ہی دوچار ہوتا ہے کہ انسان روزے کی حالت میں بھول کر جماع کرے۔ اگر اسے یاد نہ ہو تو عورت اسے یاد دلا دے گی۔ یہ ناممکن سی بات ہے کہ دونوں کو سہو یا نسیان ہو جائے۔ قصداً بحالت روزہ جماع بہت سنگین جرم ہے جس کی آئندہ وضاحت ہو گی۔ واضح رہے کہ جماع کے متعلق حضرت حسن بصری اور امام مجاہد کے اثر کو مصنف عبدالرزاق (4/174) میں متصل سند سے بیان کیا گیا ہے۔
اور عطاءنے کہا کہ اگر کسی روزہ دار نے ناک میں پانی ڈالا اور وہ پانی حلق کے اندر چلا گیا تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں اگر اس کو نکال نہ سکے اور امام حسن بصری نے کہا کہ اگر روزہ دار کے حلق میں مکھی چلی گئی تو اس کا روزہ نہیں جاتا اور امام حسن بصری اور مجاہد نے کہا کہ اگر بھول کر جماع کر لے تو اس پر قضاءواجب نہ ہوگی۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ابو ہریرۃ ؓ سے روایت ہے وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ’’ اگر کوئی شخص بھول کر کھا پی لے تو وہ اپنے روزے کو پورا کرےکیونکہ یہ اللہ تعالیٰ نے اس کو کھلایا پلایا ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
امام مالک کے علاوہ تمام محدثین نے اس حدیث کے مطابق فیصلہ دیا ہے کہ بھول کر کھانے پینے سے روزہ نہیں ٹوٹتا اور نہ اس سے قضا ہی دینی پڑتی ہے بلکہ امت کی آسانی اور رفع حرج کا بھی یہی تقاضا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حضرت عطاء نے کہا: اگرناک میں پانی ڈالا اور پانی حلق میں اتر گیا اگر وہ اسے واپس کرنے پر قادر نہیں تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ حسن بصری نے کہا: اگرروزے دار کے حلق میں مکھی چلی گئی تو کوئی حرج نہیں۔ حسن بصری اور امام مجاہد نے کہا: اگر بھول کر بیوی سے جماع کرلیا تو بھی کوئی حرج نہیں ہے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبدان نے بیان کیا کہ ہمیں یزید بن زریع نے خبر دی، ان سے ہشام نے بیان کیا، ان سے ابن سیرین نے بیان کیا، کہ حضرت ابوہریرہ ؓ نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کیا کہ کہ آپ ﷺ نے فرمایا جب کوئی بھول گیا اور کچھ کھا پی لیا تو اسے چاہئے کہ اپنا روزہ پورا کرے۔ کیوں کہ اس کو اللہ نے کھلایا اور پلایا۔
حدیث حاشیہ:
امام حسن بصری اور مجاہد کے اس اثر کو عبدالرزاق نے وصل کیا، انہوں نے کہا ہم کو ابن جریج نے خبر دی، انہوں نے ابن ابی نجیح سے، انہوں نے مجاہد سے، انہوں نے کہا اگر کو ئی آدمی رمضان میں بھول کر اپنی عورت سے صحبت کرے تو کوئی نقصان نہ ہوگا اور ثوری سے روایت کی، انہوں نے ایک شخص سے، انہوں نے حسن بصری سے، انہوں نے کہا کہ بھول کر جماع کرنا بھی بھول کر کھانے پینے کے برابر ہے ( وحیدی ) یہ فتوی ایک مسئلہ کی وضاحت کے لیے ہے ورنہ یہ شاذ ونادر ہی ہے کہ کوئی روزہ دار بھول کر ایسا کرے، کم از کم اسے یاد نہ رہا ہو تو عورت کو ضرور یاد رہے گا اور وہ یاد دلائے گی ا سی لیے بحالت روزہ قصداً جماع کرنا سخت ترین گناہ قرار دیا گیا جس سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے اور اس کا کفارہ پے در پے دو ماہ کے روزے رکھنا وغیرہ وغیرہ قرار دیا گیا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA): The Prophet (ﷺ) said, "If somebody eats or drinks forgetfully then he should complete his fast, for what he has eaten or drunk, has been given to him by Allah."