Sahi-Bukhari:
Fasting
(Chapter: Whoever broke his Saum (fast) on a journey (publicly))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1948.
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے انھوں نےفرمایا کہ رسول اللہ ﷺ مدینہ طیبہ سے مکہ مکرمہ روانہ ہوئے آپ نے روزہ رکھا حتیٰ کہ جب مقام عسفان پہنچے تو پانی منگوایا اسے ا پنے ہاتھوں کی طرف اٹھایا تاکہ لوگوں کو دکھائیں۔ پھر آپ نے روزہ افطار کردیا تاآنکہ آپ مکہ مکرمہ تشریف لائے۔ یہ سفر دوران رمضان کا تھا۔ حضرت ابن عباس ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے سفر میں روزہ رکھا اور افطار بھی کیا اب جو چاہے (دوران سفر میں) روزہ رکھے اور جو چاہے افطار کرے۔
تشریح:
(1) رسول اللہ ﷺ ماہ رمضان میں فتح مکہ کے لیے روانہ ہوئے، لوگ بھی آپ کے ہمراہ روزہ رکھے ہوئے تھے۔ آپ سے عرض کی گئی: لوگوں کو روزے کے باعث سخت تکلیف ہے اور وہ آپ کو دیکھ رہے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے پانی کا پیالہ منگوایا اور اسے لوگوں کو دکھانے کے لیے اپنے منہ کی طرف بلند کیا تاکہ لوگ افطار کرنے میں آپ کا اتباع کریں۔ پھر آپ نے لوگوں کى آسانی کے لیے روزہ افطار کر دیا کیونکہ روزے کے سبب کمزوری ہونے کے باعث دشمن کے مقابلے میں حرج واقع ہونے کا امکان تھا۔ (2) دوران سفر میں روزہ افطار کرنے کے کئی ایک اسباب ہیں، مثلا: ٭ جو انسان روزے کی وجہ سے مشقت میں پڑ جائے۔ ٭ جسے روزے کی وجہ سے تکبر اور خودپسندی کا اندیشہ ہو۔ ٭ اسے رخصت سے بے زاری اور روگردانی کا خطرہ ہو۔ ایسے حالات میں روزہ ترک کر دینا افضل ہے۔ امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ روزہ ترک کرنا صرف مذکورہ تین اسباب ہی پر منحصر نہیں بلکہ اتباع اور اقتدا کے لیے چھوڑا جائے تاکہ اس کی پیروی کر کے مذکورہ تینوں اسباب سے بچ جائے تو ایسا کرنا بھی افضل اور بہتر ہے لیکن حضرت ابن عباس ؓ نے اسے صرف بیان جواز پر محمول کیا ہے، افضل اور بہتر قرار نہیں دیا۔ ہم اس سلسلے میں پہلے وضاحت کر چکے ہیں۔ (فتح الباري:238/4)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1891
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1948
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1948
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1948
تمہید کتاب
عربی زبان میں روزے کے لیے صوم کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ لغوی طور پر اس کے معنی رک جانا ہیں، یعنی کھانے پینے، بولنے، جماع کرنے یا چلنے سے رک جانا۔ شرعی تعریف یہ ہے کہ مخصوص شرائط کے ساتھ مخصوص ایام میں مخصوص اشیاء سے مخصوص وقت میں رک جانا کا نام صوم ہے۔ دوسرے لفظوں میں عبادت کی نیت سے طلوع فجر سے غروب آفتاب تک کھانے، پینے اور ازدواجی تعلقات سے باز رہنے کا نام روزہ ہے۔دراصل انسان کو اللہ تعالیٰ نے روحانیت اور حیوانیت سے مرکب بنایا ہے۔ اس کی طبیعت میں وہ سارے مادی اور سفلی تقاضے بھی ہیں جو دوسرے حیوانوں میں ہوتے ہیں اور اس کی فطرت میں روحانیت کا وہ نورانی جوہر بھی ہے جو فرشتوں کے لیے خاص غذا اور دولت ہے۔ انسان کی سعادت کا دارومدار اسی پر ہے کہ اس کا روحانی عنصر، حیوانی عنصر پر غالب رہے اور اسے حدود کا پابند رکھے جو اللہ تعالیٰ نے اس پر عائد کی ہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ انسان کا حیوانی پہلو اس کے روحانی پہلو کا فرمانبردار اور اطاعت شعار ہو جائے اور اس کے مقابلے میں سرکشی اور بغاوت نہ کرے۔ روزے کا مقصد بھی یہی ہے کہ اس کے ذریعے سے انسان کی حیوانیت کو کنٹرول کیا جائے اور اسے شرعی احکام کی پابندی، نیز ایمانی اور روحانی تقاضوں کی فرمانبرداری کا عادی بنایا جائے۔ روزہ چونکہ انسان کی حیوانی قوت کو اس کی روحانی قوت کے تابع رکھنے اور اللہ کے احکام کے مقابلے میں خواہشات نفس اور تقاضائے شہوت کو دبانے کی عادت ڈالنے کا خاص ذریعہ ہے، اس لیے سابقہ امتوں کو بھی اس کا حکم دیا گیا تھا۔ اگرچہ روزوں کی مدت اور دوسرے تفصیلی احکام میں خاص حالات و ضروریات کے لحاظ سے کچھ فرق بھی تھا، تاہم مقصد میں یکسانیت ضرور تھی جسے اللہ تعالیٰ نے بایں الفاظ بیان کیا ہے (لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ) "تاکہ تم تقویٰ شعار بن جاؤ۔" (البقرۃ183:2)اس امت کے لیے سال میں ایک ماہ کے روزے فرض کیے گئے اور روزے کا وقت طلوع سحر سے غروب آفتاب تک رکھا گیا۔ بلاشبہ یہ مدت اور یہ وقت مذکورہ بالا مقصد کے حصول کے لیے نہایت معتدل اور مناسب ہے کیونکہ اس سے کم مدت میں نفس کی تربیت کا مقصد حاصل نہیں ہوتا۔ اور اگر وقت اس سے زیادہ رکھا جاتا تو اکثریت کے لیے ناقابل برداشت ہوتا۔ بہرحال طلوع فجر سے غروب آفتاب تک کا وقت اور سال میں ایک مہینے کی مدت عام انسان کے حالات و ظروف کے اعتبار سے مقصد تربیت کے لیے بالکل مناسب اور متعدل ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کے تحت ایک سو ستاون احادیث ذکر کیں ہیں، پھر ان احادیث پر ستر کے قریب چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کر کے روزے کے متعلق متعدد احکام و مسائل کا استنباط کیا ہے۔ ہم چند ایک کا بطور نمونہ ذکر کرتے ہیں۔وجوب روزہ، فضیلت روزہ، ماہ رمضان میں سخاوت کرنا، روزے کی ابتدا اور انتہائے سحری کے مسائل، اس کا وقت، بحالت جنابت روزہ رکھنا، دن کے وقت روزے کی نیت کرنا، دوران روزہ بیوی سے بوس و کنار کرنا، بحالت روزہ غسل کرنا، بھول کر کھا پی لینا، دوران روزہ تازہ یا خشک مسواک کرنا، بحالت روزہ بیوی سے جماع اور اس کا کفارہ، روزے کی حالت میں سنگی لگوانا یا قے کرنا، دوران سفر میں روزے رکھنا، روزے کی قضا کا وقت، حائضہ عورت کے لیے روزے کے احکام، افطاری کے مسائل، افطاری کے بعد اگر سورج نظر آ جائے، وصال کی شرعی حیثیت، نفلی روزے اور اسوۂ نبوی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے مذکورہ مسائل اور دیگر احکام براہ راست احادیث سے اخذ کیے ہیں، جن سے امام صاحب کی بصیرت و فراست کا پتہ چلتا ہے۔ بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے ایک سو ستاون احادیث بیان کی ہیں جن میں چھتیس معلق اور باقی موصول ہیں، ان میں اڑسٹھ مکرر اور خالص نواسی احادیث ہیں۔ پچیس احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔ احادیث کے علاوہ تقریبا ساٹھ آثار بھی بیان کیے ہیں جو متعدد صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ سے مروی ہیں۔ ان میں اکثر معلق اور چند موصول ہیں۔واضح رہے کہ اس مہینے کو رمضان اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس کے معنی جلنے کے ہیں اور جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تھے اس وقت سخت گرمی تھی، اس لیے یہ مہینہ رمضان سے موسوم ہوا، نیز اس ماہ میں روزہ رکھنے والوں کے گناہ جل جاتے ہیں۔ عورت، مریض اور مسافر کے لیے کچھ رعایت بھی ہے جس کا آئندہ تفصیل سے ذکر ہو گا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ماہ رمضان کے روزوں کا بیان ارکان اسلام کے آخر میں کیا ہے، اس کے متعلق علامہ عینی نے لکھا ہے کہ قبل ازیں کتاب الزکاۃ کے بعد کتاب الحج کو ذکر کیا کیونکہ ان دونوں میں مال خرچ ہوتا ہے، اب روزے کے احکام کے لیے اور کوئی محل نہیں تھا، اس لیے ان کے احکام و مسائل کو آخر میں بیان کیا ہے۔ (عمدۃالقاری:8/3) قارئین کرام سے استدعا ہے کہ وہ امام بخاری رحمہ اللہ کے قائم کردہ عناوین اور پیش کردہ احادیث کا مطالعہ کرتے وقت ہماری ان گزارشات کو ضرور پیش نظر رکھیں، اس سے حضرت امام کی فقہی بصیرت اور قوت استنباط اور دقت نظر کا اندازہ ہو گا۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان احادیث پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے اور قیامت کے دن ہمیں زمرۂ محدثین میں اٹھائے۔ آمین یا رب العالمین
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے انھوں نےفرمایا کہ رسول اللہ ﷺ مدینہ طیبہ سے مکہ مکرمہ روانہ ہوئے آپ نے روزہ رکھا حتیٰ کہ جب مقام عسفان پہنچے تو پانی منگوایا اسے ا پنے ہاتھوں کی طرف اٹھایا تاکہ لوگوں کو دکھائیں۔ پھر آپ نے روزہ افطار کردیا تاآنکہ آپ مکہ مکرمہ تشریف لائے۔ یہ سفر دوران رمضان کا تھا۔ حضرت ابن عباس ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے سفر میں روزہ رکھا اور افطار بھی کیا اب جو چاہے (دوران سفر میں) روزہ رکھے اور جو چاہے افطار کرے۔
حدیث حاشیہ:
(1) رسول اللہ ﷺ ماہ رمضان میں فتح مکہ کے لیے روانہ ہوئے، لوگ بھی آپ کے ہمراہ روزہ رکھے ہوئے تھے۔ آپ سے عرض کی گئی: لوگوں کو روزے کے باعث سخت تکلیف ہے اور وہ آپ کو دیکھ رہے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے پانی کا پیالہ منگوایا اور اسے لوگوں کو دکھانے کے لیے اپنے منہ کی طرف بلند کیا تاکہ لوگ افطار کرنے میں آپ کا اتباع کریں۔ پھر آپ نے لوگوں کى آسانی کے لیے روزہ افطار کر دیا کیونکہ روزے کے سبب کمزوری ہونے کے باعث دشمن کے مقابلے میں حرج واقع ہونے کا امکان تھا۔ (2) دوران سفر میں روزہ افطار کرنے کے کئی ایک اسباب ہیں، مثلا: ٭ جو انسان روزے کی وجہ سے مشقت میں پڑ جائے۔ ٭ جسے روزے کی وجہ سے تکبر اور خودپسندی کا اندیشہ ہو۔ ٭ اسے رخصت سے بے زاری اور روگردانی کا خطرہ ہو۔ ایسے حالات میں روزہ ترک کر دینا افضل ہے۔ امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ روزہ ترک کرنا صرف مذکورہ تین اسباب ہی پر منحصر نہیں بلکہ اتباع اور اقتدا کے لیے چھوڑا جائے تاکہ اس کی پیروی کر کے مذکورہ تینوں اسباب سے بچ جائے تو ایسا کرنا بھی افضل اور بہتر ہے لیکن حضرت ابن عباس ؓ نے اسے صرف بیان جواز پر محمول کیا ہے، افضل اور بہتر قرار نہیں دیا۔ ہم اس سلسلے میں پہلے وضاحت کر چکے ہیں۔ (فتح الباري:238/4)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، انہو ں نے کہا ہم سے ابوعوانہ نے، ان سے منصور نے، ان سے مجاہد نے، ان سے طاؤس نے او ران سے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ نے کہ رسول اللہ ﷺ نے ( غزوہ فتح میں ) مدینہ سے مکہ کے لیے سفر شروع کیا تو آپ ﷺ روزہ سے تھے، جب آپ عسفان پہنچے تو پانی منگوایا اور اسے اپنے ہاتھ سے ( منہ تک ) اٹھایا تاکہ لوگ دیکھ لیں پھر آپ ﷺ نے روزہ چھوڑ دیا یہاں تک کہ مکہ پہنچے۔ ابن عباس ؓ کہا کرتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ نے ( سفر میں ) روزہ رکھا بھی اور نہیں بھی رکھا اس لیے جس کا جی چاہے روزہ رکھے او رجس کا جی چاہے نہ رکھے۔
حدیث حاشیہ:
یہ اصحاب فتویٰ و قیاد ت کے لیے ہے ان کا عمل دیکھ کر لوگوں کو مسئلہ معلوم ہو جائے اور پھر وہ بھی اس کے مطابق عمل کریں جیسا کہ آنحضرت ﷺ نے اپنے عمل سے دکھلایا۔ سفر میں روزہ رکھنا نہ رکھنا یہ خود مسافر کے اپنے حالات پر موقوف ہے۔ شارع ؑ نے ہر دو عمل کے لیے اسے مختار بنایا ہے، طاؤس بن کیسان فارسی الاصل خولانی ہمدانی یمانی ہیں۔ ایک جماعت سے روایت کرتے ہیں۔ ان سے زہری جیسے اجلہ روایت کرتے ہیں۔ علم و عمل میں بہت اونچے تھے، مکہ شریف میں 105ھ میں وفات پائی۔ رحمة اللہ تعالیٰ علیه۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Tawus (RA): Ibn 'Abbas (RA) said, "Allah's Apostle (ﷺ) set out from Madinah to Makkah and he fasted till he reached 'Usfan, where he asked for water and raised his hand to let the people see him, and then broke the fast, and did not fast after that till he reached Makkah, and that happened in Ramadan." Ibn 'Abbas (RA) used to say, "Allah's Apostle (ﷺ) (sometimes) fasted and (sometimes) did not fast during the journeys so whoever wished to fast could fast, and whoever wished not to fast, could do so."