Sahi-Bukhari:
Fasting
(Chapter: The right of the family (wife) in observing As-Saum)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اس کو ابو حجیفہ وہب بن عبداللہ ؓ نے نبی کریمﷺ سے نقل کیا ہے۔
1977.
حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص ؓ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ نبی کریم ﷺ کو میرے متعلق یہ خبر پہنچی کہ میں متواتر روزے رکھتا ہوں اور رات بھر نماز پڑھتا رہتا ہوں۔ آپ نے مجھے پیغام بھیجا یا میں خود آپ سے ملاتو آپ نے فرمایا: ’’مجھے تیرے متعلق یہ اطلاع ملی ہے کہ تم مسلسل روزے رکھتے ہو اور افطار نہیں کرتے اور نماز پڑھتے رہتے ہو؟روزے بھی رکھو، افطار بھی کرو، نماز بھی پڑھو اور آرام بھی کرو کیونکہ تمہاری آنکھوں کا تم پر حق ہے، تمہاری جان کاتم پر حق ہے۔ تمہاری بیوی اور تمہارے بچوں کاتم پر حق ہے۔‘‘ حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ نے عرض کیا: میں اس کی اپنے اندر ہمت پاتا ہوں۔ آپ نے فرمایا: ’’حضرت داود ؑ جیسے روزے رکھو۔‘‘ عرض کیا: وہ کیسے تھے؟آپ نے فرمایا: ’’وہ ایک دن روزہ رکھتے تھے اور ایک دن افطار کرتے تھے، جب دشمن کامقابلہ کرتے تو راہ فرار نہیں اختیار کرتے تھے۔‘‘ حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ نے عرض کیا: اللہ کے نبی کریم ﷺ !میری طرف سے اس (داود ؑ والی صفت) کی ذمہ داری کون لیتا ہے؟(راوی حدیث) حضرت عطاء نے کہا: مجھے معلوم نہیں ہوسکا کہ آپ نے ہمیشہ روزے رکھنے کا ذکر کس طرح کیا؟نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’جس نے ہمیشہ روزے رکھے، اس نے گویا روزے نہیں رکھے۔‘‘ یہ آپ نے دو دفعہ فرمایا۔
تشریح:
(1) امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ نفلی روزے رکھتے وقت دوسروں کے حقوق کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ ہر ایک کو اس کا حق دیا جائے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو مختلف قسم کی عبادات کا پابند بنایا ہے۔ اگر ایک ہی عبادت میں تمام وقت صرف کر دے اور دوسرے حقوق کو پامال کر دے تو ایسا کرنا اللہ کے ہاں انتہائی ناپسندیدہ عمل ہے۔ (2) صحیح مسلم کی روایت میں وضاحت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ کو مہینے میں تین دن، پھر چھ، پھر نو اس کے بعد بارہ روزے رکھنے کی اجازت دی۔ جب انہوں نے اس سے زیادہ کا اصرار کیا تو آخری حد پندرہ مقرر فرمائی، نیز فرمایا: ’’اس سے زیادہ روزے رکھنا بہتر نہیں۔‘‘ (صحیح مسلم، الصیام، حدیث:2729(1159)) حضرت داود ؑ کی یہ عادت تھی کہ وہ ایک دن روزہ رکھتے اور ایک دن ترک کرتے تھے۔ اتنے روزے رکھنے کے باوجود وہ میدان جنگ سے راہ فرار اختیار نہیں کرتے تھے اور نہ وعدہ خلافی ہی کرتے۔ چونکہ حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ ہمیشہ روزے رکھتے تھے جسے صیام الدہر کہا جاتا ہے، اس لیے رسول اللہ ﷺ نے صیام الدہر کے متعلق فرمایا: ایسا انسان روزے کے ثواب سے محروم رہتا ہے۔ اس مناسبت سے رسول اللہ ﷺ نے ’’ہمیشہ روزے رکھنے‘‘ کا ذکر فرمایا جس کے متعلق حضرت عطاء کو علم نہ ہو سکا اور انہوں نے روایت میں اس کا اظہار فرمایا۔ بہرحال نفلی عبادت کرتے وقت دوسروں کے حقوق کا خیال رکھنا چاہیے۔ اہل خانہ کے حقوق کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1920
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1977
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1977
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1977
تمہید کتاب
عربی زبان میں روزے کے لیے صوم کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ لغوی طور پر اس کے معنی رک جانا ہیں، یعنی کھانے پینے، بولنے، جماع کرنے یا چلنے سے رک جانا۔ شرعی تعریف یہ ہے کہ مخصوص شرائط کے ساتھ مخصوص ایام میں مخصوص اشیاء سے مخصوص وقت میں رک جانا کا نام صوم ہے۔ دوسرے لفظوں میں عبادت کی نیت سے طلوع فجر سے غروب آفتاب تک کھانے، پینے اور ازدواجی تعلقات سے باز رہنے کا نام روزہ ہے۔دراصل انسان کو اللہ تعالیٰ نے روحانیت اور حیوانیت سے مرکب بنایا ہے۔ اس کی طبیعت میں وہ سارے مادی اور سفلی تقاضے بھی ہیں جو دوسرے حیوانوں میں ہوتے ہیں اور اس کی فطرت میں روحانیت کا وہ نورانی جوہر بھی ہے جو فرشتوں کے لیے خاص غذا اور دولت ہے۔ انسان کی سعادت کا دارومدار اسی پر ہے کہ اس کا روحانی عنصر، حیوانی عنصر پر غالب رہے اور اسے حدود کا پابند رکھے جو اللہ تعالیٰ نے اس پر عائد کی ہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ انسان کا حیوانی پہلو اس کے روحانی پہلو کا فرمانبردار اور اطاعت شعار ہو جائے اور اس کے مقابلے میں سرکشی اور بغاوت نہ کرے۔ روزے کا مقصد بھی یہی ہے کہ اس کے ذریعے سے انسان کی حیوانیت کو کنٹرول کیا جائے اور اسے شرعی احکام کی پابندی، نیز ایمانی اور روحانی تقاضوں کی فرمانبرداری کا عادی بنایا جائے۔ روزہ چونکہ انسان کی حیوانی قوت کو اس کی روحانی قوت کے تابع رکھنے اور اللہ کے احکام کے مقابلے میں خواہشات نفس اور تقاضائے شہوت کو دبانے کی عادت ڈالنے کا خاص ذریعہ ہے، اس لیے سابقہ امتوں کو بھی اس کا حکم دیا گیا تھا۔ اگرچہ روزوں کی مدت اور دوسرے تفصیلی احکام میں خاص حالات و ضروریات کے لحاظ سے کچھ فرق بھی تھا، تاہم مقصد میں یکسانیت ضرور تھی جسے اللہ تعالیٰ نے بایں الفاظ بیان کیا ہے (لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ) "تاکہ تم تقویٰ شعار بن جاؤ۔" (البقرۃ183:2)اس امت کے لیے سال میں ایک ماہ کے روزے فرض کیے گئے اور روزے کا وقت طلوع سحر سے غروب آفتاب تک رکھا گیا۔ بلاشبہ یہ مدت اور یہ وقت مذکورہ بالا مقصد کے حصول کے لیے نہایت معتدل اور مناسب ہے کیونکہ اس سے کم مدت میں نفس کی تربیت کا مقصد حاصل نہیں ہوتا۔ اور اگر وقت اس سے زیادہ رکھا جاتا تو اکثریت کے لیے ناقابل برداشت ہوتا۔ بہرحال طلوع فجر سے غروب آفتاب تک کا وقت اور سال میں ایک مہینے کی مدت عام انسان کے حالات و ظروف کے اعتبار سے مقصد تربیت کے لیے بالکل مناسب اور متعدل ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کے تحت ایک سو ستاون احادیث ذکر کیں ہیں، پھر ان احادیث پر ستر کے قریب چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کر کے روزے کے متعلق متعدد احکام و مسائل کا استنباط کیا ہے۔ ہم چند ایک کا بطور نمونہ ذکر کرتے ہیں۔وجوب روزہ، فضیلت روزہ، ماہ رمضان میں سخاوت کرنا، روزے کی ابتدا اور انتہائے سحری کے مسائل، اس کا وقت، بحالت جنابت روزہ رکھنا، دن کے وقت روزے کی نیت کرنا، دوران روزہ بیوی سے بوس و کنار کرنا، بحالت روزہ غسل کرنا، بھول کر کھا پی لینا، دوران روزہ تازہ یا خشک مسواک کرنا، بحالت روزہ بیوی سے جماع اور اس کا کفارہ، روزے کی حالت میں سنگی لگوانا یا قے کرنا، دوران سفر میں روزے رکھنا، روزے کی قضا کا وقت، حائضہ عورت کے لیے روزے کے احکام، افطاری کے مسائل، افطاری کے بعد اگر سورج نظر آ جائے، وصال کی شرعی حیثیت، نفلی روزے اور اسوۂ نبوی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے مذکورہ مسائل اور دیگر احکام براہ راست احادیث سے اخذ کیے ہیں، جن سے امام صاحب کی بصیرت و فراست کا پتہ چلتا ہے۔ بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے ایک سو ستاون احادیث بیان کی ہیں جن میں چھتیس معلق اور باقی موصول ہیں، ان میں اڑسٹھ مکرر اور خالص نواسی احادیث ہیں۔ پچیس احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔ احادیث کے علاوہ تقریبا ساٹھ آثار بھی بیان کیے ہیں جو متعدد صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ سے مروی ہیں۔ ان میں اکثر معلق اور چند موصول ہیں۔واضح رہے کہ اس مہینے کو رمضان اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس کے معنی جلنے کے ہیں اور جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تھے اس وقت سخت گرمی تھی، اس لیے یہ مہینہ رمضان سے موسوم ہوا، نیز اس ماہ میں روزہ رکھنے والوں کے گناہ جل جاتے ہیں۔ عورت، مریض اور مسافر کے لیے کچھ رعایت بھی ہے جس کا آئندہ تفصیل سے ذکر ہو گا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ماہ رمضان کے روزوں کا بیان ارکان اسلام کے آخر میں کیا ہے، اس کے متعلق علامہ عینی نے لکھا ہے کہ قبل ازیں کتاب الزکاۃ کے بعد کتاب الحج کو ذکر کیا کیونکہ ان دونوں میں مال خرچ ہوتا ہے، اب روزے کے احکام کے لیے اور کوئی محل نہیں تھا، اس لیے ان کے احکام و مسائل کو آخر میں بیان کیا ہے۔ (عمدۃالقاری:8/3) قارئین کرام سے استدعا ہے کہ وہ امام بخاری رحمہ اللہ کے قائم کردہ عناوین اور پیش کردہ احادیث کا مطالعہ کرتے وقت ہماری ان گزارشات کو ضرور پیش نظر رکھیں، اس سے حضرت امام کی فقہی بصیرت اور قوت استنباط اور دقت نظر کا اندازہ ہو گا۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان احادیث پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے اور قیامت کے دن ہمیں زمرۂ محدثین میں اٹھائے۔ آمین یا رب العالمین
تمہید باب
قبل ازیں حضرت ابو جحیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث گزر چکی ہے جس میں حضرت ابو درداء اور حضرت سلمان رضی اللہ عنہما کا قصہ بیان ہوا تھا۔ حضرت سلمان رضی اللہ عنہ نے حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ سے کہا تھا: تیرے اہل و عیال کا بھی تجھ پر حق ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جب اس کا تذکرہ ہوا تو آپ نے اسے برقرار رکھا اور اس کی تصدیق فرمائی۔ اس سے معلوم ہوا کہ نفلی روزے رکھتے ہوئے اپنے اہل و عیال کے حقوق کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔ (فتح الباری:4/280)
اس کو ابو حجیفہ وہب بن عبداللہ ؓ نے نبی کریمﷺ سے نقل کیا ہے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص ؓ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ نبی کریم ﷺ کو میرے متعلق یہ خبر پہنچی کہ میں متواتر روزے رکھتا ہوں اور رات بھر نماز پڑھتا رہتا ہوں۔ آپ نے مجھے پیغام بھیجا یا میں خود آپ سے ملاتو آپ نے فرمایا: ’’مجھے تیرے متعلق یہ اطلاع ملی ہے کہ تم مسلسل روزے رکھتے ہو اور افطار نہیں کرتے اور نماز پڑھتے رہتے ہو؟روزے بھی رکھو، افطار بھی کرو، نماز بھی پڑھو اور آرام بھی کرو کیونکہ تمہاری آنکھوں کا تم پر حق ہے، تمہاری جان کاتم پر حق ہے۔ تمہاری بیوی اور تمہارے بچوں کاتم پر حق ہے۔‘‘ حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ نے عرض کیا: میں اس کی اپنے اندر ہمت پاتا ہوں۔ آپ نے فرمایا: ’’حضرت داود ؑ جیسے روزے رکھو۔‘‘ عرض کیا: وہ کیسے تھے؟آپ نے فرمایا: ’’وہ ایک دن روزہ رکھتے تھے اور ایک دن افطار کرتے تھے، جب دشمن کامقابلہ کرتے تو راہ فرار نہیں اختیار کرتے تھے۔‘‘ حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ نے عرض کیا: اللہ کے نبی کریم ﷺ !میری طرف سے اس (داود ؑ والی صفت) کی ذمہ داری کون لیتا ہے؟(راوی حدیث) حضرت عطاء نے کہا: مجھے معلوم نہیں ہوسکا کہ آپ نے ہمیشہ روزے رکھنے کا ذکر کس طرح کیا؟نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’جس نے ہمیشہ روزے رکھے، اس نے گویا روزے نہیں رکھے۔‘‘ یہ آپ نے دو دفعہ فرمایا۔
حدیث حاشیہ:
(1) امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ نفلی روزے رکھتے وقت دوسروں کے حقوق کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ ہر ایک کو اس کا حق دیا جائے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو مختلف قسم کی عبادات کا پابند بنایا ہے۔ اگر ایک ہی عبادت میں تمام وقت صرف کر دے اور دوسرے حقوق کو پامال کر دے تو ایسا کرنا اللہ کے ہاں انتہائی ناپسندیدہ عمل ہے۔ (2) صحیح مسلم کی روایت میں وضاحت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ کو مہینے میں تین دن، پھر چھ، پھر نو اس کے بعد بارہ روزے رکھنے کی اجازت دی۔ جب انہوں نے اس سے زیادہ کا اصرار کیا تو آخری حد پندرہ مقرر فرمائی، نیز فرمایا: ’’اس سے زیادہ روزے رکھنا بہتر نہیں۔‘‘ (صحیح مسلم، الصیام، حدیث:2729(1159)) حضرت داود ؑ کی یہ عادت تھی کہ وہ ایک دن روزہ رکھتے اور ایک دن ترک کرتے تھے۔ اتنے روزے رکھنے کے باوجود وہ میدان جنگ سے راہ فرار اختیار نہیں کرتے تھے اور نہ وعدہ خلافی ہی کرتے۔ چونکہ حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ ہمیشہ روزے رکھتے تھے جسے صیام الدہر کہا جاتا ہے، اس لیے رسول اللہ ﷺ نے صیام الدہر کے متعلق فرمایا: ایسا انسان روزے کے ثواب سے محروم رہتا ہے۔ اس مناسبت سے رسول اللہ ﷺ نے ’’ہمیشہ روزے رکھنے‘‘ کا ذکر فرمایا جس کے متعلق حضرت عطاء کو علم نہ ہو سکا اور انہوں نے روایت میں اس کا اظہار فرمایا۔ بہرحال نفلی عبادت کرتے وقت دوسروں کے حقوق کا خیال رکھنا چاہیے۔ اہل خانہ کے حقوق کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔
ترجمۃ الباب:
اس بات کو حضرت ابوجحیفہ ؓنے نبی کریم ﷺ سے بیان کیا ہے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے عمرو بن علی نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو ابوعاصم نے خبر دی، انہیں ابن جریج نے، انہوں نے عطاءسے سنا، انہیں ابوعباس شاعر نے خبر دی، انہوں نے عبداللہ بن عمر ؓ سے سنا کہ نبی کریم ﷺ کو معلوم ہوا کہ میں مسلسل روزے رکھتا ہوں اور ساری رات عبادت کرتا ہوں۔ اب یا آنحضور ﷺ نے کسی کو میرے پاس بھیجا یا خود میں نے آپ سے ملاقات کی۔ آپ نے دریافت فرمایا کہ کیا یہ خبر صحیح ہے کہ تو متواتر روزے رکھتا ہے اور ایک بھی نہیں چھوڑتا اور ( رات بھر ) نماز پڑھتا رہتا ہے؟ روزہ بھی رکھ اور بے روزہ کے بھی رہ، عبادت بھی کر اور سوؤ بھی کیوں کہ تیری آنکھ کا بھی تجھ پر حق ہے، تیری جان کا بھی تجھ پر حق ہے اور تیری بیوی کا بھی تجھ پر حق ہے۔ عبداللہ ؓ نے کہا کہ مجھ میں اس سے زیادہ کی طاقت ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ پھر داؤد ؑ کی طرح روزہ رکھا کر۔ انہوں نے کہا اور وہ کس طرح؟ فرمایا کہ داؤد ؑ ایک دن روزہ رکھتے تھے اورایک دن کا روزہ چھوڑ دیا کرتے تھے۔ اورجب دشمن سے مقابلہ ہوتا تو پیٹھ نہیں پھیرتے تھے۔ اس پر عبداللہ ؓ نے عر ض کی، اے اللہ کے نبی ! میرے لیے یہ کیسے ممکن ہے کہ میں پیٹھ پھیرجاؤں۔ عطاءنے کہا کہ مجھے یاد نہیں ( اس حدیث میں ) صوم دہر کا کس طرح ذکر ہوا ! ( البتہ انہیں اتنا دیا تھا کہ ) آنحضرت ﷺ نے فرمایا، جو صوم دہر رکھتا ہے اس کا روزہ ہی نہیں، دو مرتبہ ( آپ ﷺ نے یہی فرمایا )
حدیث حاشیہ:
اس سے ان لوگوں نے دلیل لی ہے جنہوں نے سدا روزہ رکھنا مکروہ جانا ہے، ابن عربی نے کہا جب آنحضرت ﷺ نے سدا روزہ رکھنے والے کی نسبت یہ فرمایا کہ اس نے روزہ نہیں رکھا تو اب اس کو ثواب کی کیا توقع ہے۔ بعض نے کہا اس حدیث میں سدا روزہ رکھنے سے یہ مراد ہے کہ عیدین اور ایام تشریق میں بھی افطار نہ کرے۔ اس کی کراہیت اور حرمت میں تو کسی کا اختلاف نہیں۔ اگر ان دنوں میں کوئی افطار کرے اور باقی دنوں میں روزہ رکھا کرے بشرطیکہ اپنی اور اپنے اہل و عیال کے حقوق میں کوئی خلل واقع نہ ہو تو ظاہر ہے کہ مکروہ نہ ہوگا۔ مگر ہر حال میں بہتر یہی ہے کہ صوم داؤد ؑ رکھے یعنی ایک دن روزہ اور ایک دن افطار تفصیل مزید کے لیے فتح الباری کا مطالعہ کیا جائے۔ ایک روایت میں لا صام و لا فطر کے لفظ آئے ہیں کہ جس نے ہمیشہ روزہ رکھا گویا اس کو نہ روزے کا ثواب ملا نہ اس پر گناہ ہوا کیوں کہ اس طرح روزہ رکھنے سے اس کا نفس عادی ہو گیا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah bin 'Amr (RA): The news of my daily fasting and praying every night throughout the night reached the Prophet. So he sent for me or I met him, and he said, "I have been informed that you fast everyday and pray every night (all the night). Fast (for some days) and give up fasting (for some days); pray and sleep, for your eyes have a right on you, and your body and your family (i.e. wife) have a right on you." I replied, "I have more power than that (fasting)." The Prophet (ﷺ) said, "Then fast like the fasts of (the Prophet) David". I said, "How?" He replied, "He used to fast on alternate days, and he used not to flee on meeting the enemy." I said, "From where can I get that chance?" ('Ata' said, "I do not know how the expression of fasting daily throughout the life occurred.") So, the Prophet (ﷺ) said, twice, "Whoever fasts daily throughout his life is just as the one who does not fast at all."