Sahi-Bukhari:
Virtues of the Night of Qadr
(Chapter: The superiority of the night of Qadr)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور (سورۃ القدر میں) اللہ تعالیٰ کا فرمان کہ ہم نے اس (قرآن مجید) کو شب قدر میں اتارا۔ اور تو نے کیا سمجھا کہ شب قدر کیا ہے؟ شب قدر ہزار مہینوں سے افضل ہے۔ اس میں فرشتے، روح القدس (جبرائیل ؑ ) کے ساتھ اپنے رب کے حکم سے ہر بات کا انتظام کرنے کو اترتے ہیں۔ اور صبح تک یہ سلامتی کی رات قائم رہتی ہے۔ سفیان بن عیینہ نے کہا کہ قرآن میں جس موقعہ کے لیے «ما أدراك» آیا ہے تو اسے اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کو بتا دیا ہے اور جس کے لیے «ما يدريك» فرمایا اسے نہیں بتایا ہے۔
2014.
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ’’جس نے ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے رمضان کے روزے رکھے اس کے گزشتہ گناہ بخش دیے جاتے ہیں۔ اور جس نے ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے شب قدر میں قیام کیا اس کے بھی پہلے گناہ معاف کردیے جاتے ہیں۔‘‘ سلیمان بن کثیر نے زہری سے روایت کرنے میں سفیان کی متابعت کی ہے۔
تشریح:
(1) شب قدر میں قیام سے مراد عبادت کرنا ہے، جس میں تراویح پڑھنا بھی شامل ہے۔ (2) امام بخاری ؒ نے اس حدیث سے شب قدر کی قدرومنزلت کو ثابت کیا ہے کہ اس رات عبادت کرنے والا انسان اللہ کے ہاں قدرومنزلت والا ہو جاتا ہے اور اس کے جملہ گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔ (3) قبل ازیں امام بخاری نے اس رات کا قیام کرنے کو ’’ایمان کا حصہ‘‘ قرار دیا تھا۔ (صحیح البخاري، الإیمان، حدیث:35) سلیمان بن کثیر کی متابعت کو امام ذہلی نے اپنی تالیف "زہریات" میں متصل سند سے بیان کیا ہے۔ (فتح الباري:324/4)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1955
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2014
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2014
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2014
تمہید کتاب
رمضان المبارک میں تین کام بڑی اہمیت کے حامل ہیں: نماز تراویح، لیلۃ القدر اور اعتکاف۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے رمضان کے عمومی احکام و مسائل بیان کرنے کے بعد اب تین خصوصی مسائل ذکر کیے ہیں، قبل ازیں نماز تراویح کے متعلق احادیث ذکر کی تھیں۔ اب لیلۃ القدر کی فضیلت اور اس سے متعلقہ احکام بیان کریں گے، اس کے بعد اعتکاف کا ذکر ہو گا۔ باذن اللہ تعالیٰ۔اس رات کی فضیلت کے لیے یہی کافی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام مبارک قرآن مجید کو اس رات میں اتارا۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ ﴿١﴾) (القدر1:97) "بےشک ہم نے اس (قرآن) کو شب قدر میں نازل کیا ہے۔" ایک دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا: (شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ) (البقرۃ185:2) "رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا۔" اس سے معلوم ہوا کہ وہ رات جس میں پہلی مرتبہ اللہ کا فرشتہ غار حرا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس وحی لے کر آیا تھا وہ رمضان المبارک ہی کی ایک رات تھی۔ اس رات کو شب قدر کہا گیا ہے۔ اور ایک دوسرے مقام پر اسے "بابرکت رات" سے تعبیر کیا گیا ہے، چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةٍ مُّبَارَكَةٍ) (الدخان3:44) "ہم نے اسے بہت برکت والی رات میں نازل کیا ہے۔"مفسرین نے قدر کے کئی ایک معانی لکھے ہیں۔ وہ سب اپنے اپنے مقام پر صحیح ہیں۔ قدر کے معنی تقدیر کے ہیں، یعنی وہ رات ہے جس میں اللہ تعالیٰ تقدیر کے فیصلے نافذ کرنے کے لیے فرشتوں کے سپرد کر دیتا ہے۔ اس کی تائید سورۂ دخان کی ایک آیت کریمہ سے ہوتی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (فِيهَا يُفْرَقُ كُلُّ أَمْرٍ حَكِيمٍ ﴿٤﴾) (الدخان5:44) "اُس رات میں ہر حکمت والے معاملے کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔"بالفاظ دیگر یہ رات کوئی عام راتوں جیسی نہیں بلکہ یہ قسمتوں کے بنانے اور بگاڑنے والی رات ہے۔ اس رات میں اس کتاب کا نزول ایسا کام ہے جو نہ صرف قریش، نہ صرف عرب بلکہ عام رنگ و بو کی تقدیر بدل کر رکھ دے گا۔ دوسرے معنی یہ ہیں کہ یہ بڑی قدرومنزلت اور عظمت و شرف رکھنے والی رات ہے، یعنی جس رات میں قرآن کریم کے نزول کا فیصلہ کیا گیا وہ اتنی خیروبرکت والی رات تھی کہ انسانی تاریخ میں کبھی انسان کی بھلائی کے لیے وہ کام نہیں ہوا جو اس رات میں کر دیا گیا۔ تیسرے معنی یہ ہیں کہ قدر، تنگی کے معنی میں ہے، یعنی اس کی تعیین لوگوں سے مخفی رکھی گئی ہے تاکہ اس کی تلاش میں خود کو تنگی میں ڈالیں اور مشقت برداشت کر کے اللہ کے ہاں اجروثواب کے حقدار ہوں۔ اس بنا پر بھی اسے تنگی کی رات کہا جاتا ہے کہ اس رات اللہ کی طرف سے اس قدر رحمت کے فرشتے اترتے ہیں کہ ان کی وجہ سے زمین تنگ ہو جاتی ہے۔ (فتح الباری:4/324،323)امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت صرف شب قدر کی فضیلت ہی بیان نہیں کی بلکہ اس کے متعلق کئی ایک حقائق اور مسائل و احکام سے بھی آگاہ کیا ہے، چنانچہ آپ نے گیارہ مرفوع متصل احادیث بیان کی ہیں اور ان پر پانچ چھوٹے چھوٹے ذیلی عنوان قائم کیے ہیں جن میں شب قدر کی فضیلت، آخری سات بالخصوص طاق راتوں میں اسے تلاش کرنا، لوگوں کے جھگڑے کی نحوست سے اس کی تعیین کا پس منظر میں چلے جانا اور رمضان کے آخری عشرے میں کیا کرنا چاہیے، نیز اس طرح کے دیگر اسنادی اسرارورموز سے ہمیں مطلع کیا ہے۔ قارئین کرام سے استدعا ہے کہ وہ ان احادیث کا مطالعہ کرتے وقت ہمیں اپنی مخلص دعاؤں میں ضرور یاد رکھیں اور اگر کسی کو ماہ رمضان میں شب قدر کا احساس ہو جائے تو دعا کرتے وقت اس امت کی کامیابی اور معافی کی اللہ کے ہاں درخواست کو فراموش نہ کرے۔
تمہید باب
امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد اس مقام پر سورۂ قدر کی تفسیر کرنا نہیں کیونکہ اس کا محل کتاب التفسیر ہے، وہاں تفسیری اسراروحقائق بیان ہوں گے۔ اس مقام پر سورت کا حوالہ اس بنا پر ہے کہ اللہ کے ہاں شب قدر کی اہمیت اس قدر ہے کہ اس نام سے پوری سورت نازل فرمائی ہے جس کی درج ذیل خصوصیات ہیں: ٭ اس رات میں قرآن مجید نازل کیا گیا ہے۔ اس رات میں قرآن اتارے جانے سے یہ بات لازم نہیں آتی کہ پورا قرآن اسی ایک رات میں اتار دیا گیا بلکہ اس سے مراد ہے کہ اس قرآن کے اتارے جانے کا فیصلہ ہو گیا، حضرت جبرئیل علیہ السلام کو یہ کام سپرد کر دیا گیا، پھر پہلی وحی کے نزول کا آغاز اسی رات ہوا۔ اس کا یہ مفہوم بھی بیان کیا جاتا ہے کہ اس رات سارا قرآن لوح محفوظ سے آسمان دنیا پر نازل کر دیا گیا، وہاں سے حسب ضرورت بتدریج تئیس سال میں نازل کیا جاتا رہا۔ ٭ اس رات وہ تمام امور جو اس عالم رنگ و بو میں نافذ ہونے ہوتے ہیں وہ ان ملائکہ کے سپرد کر دیے جاتے ہیں جو ان کی تنفیذ پر مامور ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (فِيهَا يُفْرَقُ كُلُّ أَمْرٍ حَكِيمٍ ﴿٤﴾ أَمْرًا مِّنْ عِندِنَا) (الدخان4:44) "اس رات ہمارے حکم سے ہر حکمت والے معاملے کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔" اس سورت میں ہے: اس رات ملائکہ اور جبرئیل اپنے پروردگار کے اذن سے ہر طرح کا حکم لے کر اترتے ہیں۔" (القدر4:97) ہر حکم سے مراد انسانوں کی تقدیریں جو اس رات طے کی جاتی ہیں۔ ٭ یہ رات ہزار مہینوں سے بڑھ کر ہے، اس سے مراد بہت زیادہ مقدار یا مدت کا اظہار کرنا مقصود ہے کیونکہ عرب اس کے لیے الف کا لفظ استعمال کرتے تھے۔ اس سے مراد تراسی سال چار ماہ نہیں ہیں، یعنی بنی نوع انسان کی خیروبھلائی کا کام جتنا اس رات میں ہوا (یعنی قرآن نازل ہوا) اتنا کام کسی طویل دورِ انسانی میں بھی نہیں ہوا تھا۔ دوسرا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس ایک رات کی عبادت ایک طویل مدت کی عبادت سے بہتر ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: "جو شخص لیلۃ القدر میں ایمان کے ساتھ ثواب کی نیت سے قیام کرے اس کے سابقہ گناہ معاف کر دیے جائیں گے۔" (صحیح البخاری،الایمان،حدیث:35) ٭ اس رات ملائکۂ رحمت کا نزول ہوتا ہے۔ وہ اس کثرت سے نازل ہوتے ہیں کہ زمین اپنی وسعت کے باوجود تنگ ہو جاتی ہے۔ شب قدر کی ایک وجہ تسمیہ یہ بھی بیان کی جاتی ہے جیسا کہ ہم نے پہلے بیان کیا ہے۔ ٭ اس رات کو اللہ تعالیٰ نے سلامتی والی رات قرار دیا ہے، یعنی اس کے پردوں میں روح اور دل کی زندگی کے لیے بڑے خزانے چھپے ہیں۔ خوش قسمت ہیں وہ جو ان کی تلاش میں سرگرم رہیں اور انہیں پا لینے میں کامیاب ہو جائیں، نیز یہ رات شیاطین کی دست برد اور ان کی مداخلت سے بالکل محفوظ ہے۔ دوسرے الفاظ میں اس رات شیاطین کی نقل و حرکت پر کرفیو لگا دیا جاتا ہے۔ آخر میں امام بخاری رحمہ اللہ نے امام ابن عیینہ کا قول نقل کیا ہے کہ قرآن کریم میں جہاں ما أدراك آیا ہے، اس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آگاہ کر دیا گیا ہے اور جہاں ما يدريك استعمال ہوا ہے، اس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آگاہ نہیں کیا گیا ہے، لیکن یہ قاعدہ کلیہ نہیں کیونکہ ایک آیت میں وما يدريك استعمال ہوا لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس سے آگاہ کر دیا گیا تھا، چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَمَا يُدْرِيكَ لَعَلَّهُ يَزَّكَّىٰ ﴿٣﴾ أَوْ يَذَّكَّرُ فَتَنفَعَهُ الذِّكْرَىٰ ﴿٤﴾) (عبس3:80،4) "اور آپ کو کیا معلوم شاید وہ سنور جاتا اور نصیحت قبول کرتا تو نصیحت اسے فائدہ دیتی۔" یہ آیت حضرت ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کے بارے میں نازل ہوئی اور آپ کو اس کے حالات کا پورا پورا علم ہو گیا تھا، یعنی اس نے خود کو سنوارا اور نصیحت نے اسے بہرہ ور بھی کیا۔ واضح رہے کہ اس اثر کو محمد بن یحییٰ نے اپنی کتاب کتاب الایمان میں متصل سند سے بیان کیا ہے۔ (فتح الباری:4/324)
اور (سورۃ القدر میں) اللہ تعالیٰ کا فرمان کہ ہم نے اس (قرآن مجید) کو شب قدر میں اتارا۔ اور تو نے کیا سمجھا کہ شب قدر کیا ہے؟ شب قدر ہزار مہینوں سے افضل ہے۔ اس میں فرشتے، روح القدس (جبرائیل ؑ ) کے ساتھ اپنے رب کے حکم سے ہر بات کا انتظام کرنے کو اترتے ہیں۔ اور صبح تک یہ سلامتی کی رات قائم رہتی ہے۔ سفیان بن عیینہ نے کہا کہ قرآن میں جس موقعہ کے لیے «ما أدراك» آیا ہے تو اسے اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کو بتا دیا ہے اور جس کے لیے «ما يدريك» فرمایا اسے نہیں بتایا ہے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ’’جس نے ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے رمضان کے روزے رکھے اس کے گزشتہ گناہ بخش دیے جاتے ہیں۔ اور جس نے ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے شب قدر میں قیام کیا اس کے بھی پہلے گناہ معاف کردیے جاتے ہیں۔‘‘ سلیمان بن کثیر نے زہری سے روایت کرنے میں سفیان کی متابعت کی ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) شب قدر میں قیام سے مراد عبادت کرنا ہے، جس میں تراویح پڑھنا بھی شامل ہے۔ (2) امام بخاری ؒ نے اس حدیث سے شب قدر کی قدرومنزلت کو ثابت کیا ہے کہ اس رات عبادت کرنے والا انسان اللہ کے ہاں قدرومنزلت والا ہو جاتا ہے اور اس کے جملہ گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔ (3) قبل ازیں امام بخاری نے اس رات کا قیام کرنے کو ’’ایمان کا حصہ‘‘ قرار دیا تھا۔ (صحیح البخاري، الإیمان، حدیث:35) سلیمان بن کثیر کی متابعت کو امام ذہلی نے اپنی تالیف "زہریات" میں متصل سند سے بیان کیا ہے۔ (فتح الباري:324/4)
ترجمۃ الباب:
ارشاد باری تعالیٰ ہے: "بے شک ہم نے قرآن کو شب قدر میں نازل کیا ہے۔ اور آپ کو کیا معلوم کہ شب قدر کیا ہے۔۔۔ "آخر سورت تک۔ امام ابن عیینہ بیان کرتے ہیں کہ قرآن کریم میں جہاں وَمَا أَدْرَاكَ ہے وہ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو بتادیا ہے اور جہاں وَمَا يُدْرِيكَ ہے وہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو نہیں بتایا۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم نے اس روایت کو یاد کیاتھا اور یہ روایت انہوں نے زہری سے ( سن کر ) یاد کی تھی۔ ان سے ابوسلمہ نے بیان کیا اور ان سے ابوہریرہ ؓ نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جو شخص رمضان کے روزے ایمان اور احتساب ( حصول اجر و ثواب کی نیت ) کے ساتھ رکھے، اس کے اگلے تمام گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں۔ او رجو لیلۃ القدر میں ایمان و احتساب کے ساتھ نماز میں کھڑا رہے اس کے بھی اگلے تمام گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں، سفیان کے ساتھ سلیمان بن کثیر نے بھی اس حدیث کو زہری سے روایت کیا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA): The Prophet (ﷺ) said, "Whoever fasted the month of Ramadan out of sincere Faith (i.e. belief) and hoping for a reward from Allah, then all his past sins will be forgiven, and whoever stood for the prayers in the night of Qadr out of sincere Faith and hoping for a reward from Allah, then all his previous sins will be forgiven ."