باب : شب قدر کو رمضان کی آخری طاق راتوں میں تلاش کرنا
)
Sahi-Bukhari:
Virtues of the Night of Qadr
(Chapter: To look for the night of Qadr in the last seven nights (of Ramadan))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2016.
حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ ہم نے نبی ﷺ کے ہمراہ رمضان کے درمیانی عشرے کا اعتکاف کیا تو آپ بیسویں تاریخ کی صبح (اعتکاف گاہ سے) باہر تشریف لائے اور ہم سے مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا: ’’مجھے خواب میں شب قدر دکھائی گئی تھی۔ مگر مجھے بھلادی گئی۔‘‘ یا فرمایا: ’’میں ازخود بھول گیا۔ لہٰذا اب تم اسے آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔ میں نے خواب میں ایسا دیکھا گویا کیچڑمیں سجدہ کر رہا ہوں۔ لہٰذا جس شخص نے میرے ساتھ اعتکاف کیا تھا وہ واپس لوٹ آئے (اور اعتکاف کرے)۔‘‘ چنانچہ ہم واپس آگئے اور اس وقت آسمان پر بادل کا نشان تک نہ تھا لیکن اچانک بادل امڈ آیا اور اتنا برسا کہ مسجد کی چھت ٹپکنے لگی اور وہ کھجور کی شاخوں سے بنی ہوئی تھی۔ پھر نماز کھڑی کی گئی تو میں نے رسول اللہ ﷺ کو کیچڑ میں سجدہ کرتے ہوئے دیکھا یہاں تک کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کی پیشانی پر مٹی کے نشانات دیکھے۔
تشریح:
(1) ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے شب قدر کی تلاش میں پہلے عشرے کا اعتکاف کیا، آپ کے پاس جبرئیل ؑ آئے اور کہا: آپ جس کی تلاش میں ہیں وہ آگے ہے، پھر آپ نے دوسرے عشرے کا اعتکاف کیا تو دوبارہ حضرت جبرئیل ؑ آپ کے پاس آ گئے اور کہا: آپ جس کے متلاشی ہیں وہ اس کے آگے ہے، آخر کار آپ نے آخری عشرے میں اعتکاف کرنے کا پروگرام بنایا۔ (صحیح البخاري، الأذان، حدیث:813) (2) صحیح بخاری کی مذکورہ روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ بیسویں تاریخ کی صبح کو برآمد ہوئے اور اسی وقت آپ نے خطبہ دیا، اس کے بعد اکیسویں رات سے اپنے اعتکاف کا آغاز کیا لیکن مؤطا امام مالک کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ اکیسویں شب کی صبح کو باہر تشریف لائے اور خطبہ دیا، پھر آپ نے بائیسویں رات کو آخری عشرے کے اعتکاف کا آغاز کیا۔ (الموطأ للإمام مالك، الاعتکاف، حدیث:715) امام مالک کی روایت مرجوح ہے کیونکہ صحیح بخاری کی ایک روایت میں صراحت ہے کہ جب بیسویں رات گزر گئی اور اکیسویں کی آمد آمد تھی تو اس وقت آپ اپنی اعتکاف گاہ میں واپس آ گئے، اس موقف کی تائید ایک دوسری روایت سے بھی ہوتی ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جو شخص میرے ہمراہ معتکف تھا اسے چاہیے کہ وہ لوٹ آئے اور میرے ساتھ آخری عشرے کا اعتکاف کرے۔‘‘ اور آخری عشرہ اکیسویں رات سے شروع ہوتا ہے۔ اس بنا پر امام مالک کی روایت مرجوح ہے۔ (فتح الباري:327/4)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1957
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2016
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2016
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2016
تمہید کتاب
رمضان المبارک میں تین کام بڑی اہمیت کے حامل ہیں: نماز تراویح، لیلۃ القدر اور اعتکاف۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے رمضان کے عمومی احکام و مسائل بیان کرنے کے بعد اب تین خصوصی مسائل ذکر کیے ہیں، قبل ازیں نماز تراویح کے متعلق احادیث ذکر کی تھیں۔ اب لیلۃ القدر کی فضیلت اور اس سے متعلقہ احکام بیان کریں گے، اس کے بعد اعتکاف کا ذکر ہو گا۔ باذن اللہ تعالیٰ۔اس رات کی فضیلت کے لیے یہی کافی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام مبارک قرآن مجید کو اس رات میں اتارا۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ ﴿١﴾) (القدر1:97) "بےشک ہم نے اس (قرآن) کو شب قدر میں نازل کیا ہے۔" ایک دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا: (شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ) (البقرۃ185:2) "رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا۔" اس سے معلوم ہوا کہ وہ رات جس میں پہلی مرتبہ اللہ کا فرشتہ غار حرا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس وحی لے کر آیا تھا وہ رمضان المبارک ہی کی ایک رات تھی۔ اس رات کو شب قدر کہا گیا ہے۔ اور ایک دوسرے مقام پر اسے "بابرکت رات" سے تعبیر کیا گیا ہے، چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةٍ مُّبَارَكَةٍ) (الدخان3:44) "ہم نے اسے بہت برکت والی رات میں نازل کیا ہے۔"مفسرین نے قدر کے کئی ایک معانی لکھے ہیں۔ وہ سب اپنے اپنے مقام پر صحیح ہیں۔ قدر کے معنی تقدیر کے ہیں، یعنی وہ رات ہے جس میں اللہ تعالیٰ تقدیر کے فیصلے نافذ کرنے کے لیے فرشتوں کے سپرد کر دیتا ہے۔ اس کی تائید سورۂ دخان کی ایک آیت کریمہ سے ہوتی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (فِيهَا يُفْرَقُ كُلُّ أَمْرٍ حَكِيمٍ ﴿٤﴾) (الدخان5:44) "اُس رات میں ہر حکمت والے معاملے کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔"بالفاظ دیگر یہ رات کوئی عام راتوں جیسی نہیں بلکہ یہ قسمتوں کے بنانے اور بگاڑنے والی رات ہے۔ اس رات میں اس کتاب کا نزول ایسا کام ہے جو نہ صرف قریش، نہ صرف عرب بلکہ عام رنگ و بو کی تقدیر بدل کر رکھ دے گا۔ دوسرے معنی یہ ہیں کہ یہ بڑی قدرومنزلت اور عظمت و شرف رکھنے والی رات ہے، یعنی جس رات میں قرآن کریم کے نزول کا فیصلہ کیا گیا وہ اتنی خیروبرکت والی رات تھی کہ انسانی تاریخ میں کبھی انسان کی بھلائی کے لیے وہ کام نہیں ہوا جو اس رات میں کر دیا گیا۔ تیسرے معنی یہ ہیں کہ قدر، تنگی کے معنی میں ہے، یعنی اس کی تعیین لوگوں سے مخفی رکھی گئی ہے تاکہ اس کی تلاش میں خود کو تنگی میں ڈالیں اور مشقت برداشت کر کے اللہ کے ہاں اجروثواب کے حقدار ہوں۔ اس بنا پر بھی اسے تنگی کی رات کہا جاتا ہے کہ اس رات اللہ کی طرف سے اس قدر رحمت کے فرشتے اترتے ہیں کہ ان کی وجہ سے زمین تنگ ہو جاتی ہے۔ (فتح الباری:4/324،323)امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت صرف شب قدر کی فضیلت ہی بیان نہیں کی بلکہ اس کے متعلق کئی ایک حقائق اور مسائل و احکام سے بھی آگاہ کیا ہے، چنانچہ آپ نے گیارہ مرفوع متصل احادیث بیان کی ہیں اور ان پر پانچ چھوٹے چھوٹے ذیلی عنوان قائم کیے ہیں جن میں شب قدر کی فضیلت، آخری سات بالخصوص طاق راتوں میں اسے تلاش کرنا، لوگوں کے جھگڑے کی نحوست سے اس کی تعیین کا پس منظر میں چلے جانا اور رمضان کے آخری عشرے میں کیا کرنا چاہیے، نیز اس طرح کے دیگر اسنادی اسرارورموز سے ہمیں مطلع کیا ہے۔ قارئین کرام سے استدعا ہے کہ وہ ان احادیث کا مطالعہ کرتے وقت ہمیں اپنی مخلص دعاؤں میں ضرور یاد رکھیں اور اگر کسی کو ماہ رمضان میں شب قدر کا احساس ہو جائے تو دعا کرتے وقت اس امت کی کامیابی اور معافی کی اللہ کے ہاں درخواست کو فراموش نہ کرے۔
حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ ہم نے نبی ﷺ کے ہمراہ رمضان کے درمیانی عشرے کا اعتکاف کیا تو آپ بیسویں تاریخ کی صبح (اعتکاف گاہ سے) باہر تشریف لائے اور ہم سے مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا: ’’مجھے خواب میں شب قدر دکھائی گئی تھی۔ مگر مجھے بھلادی گئی۔‘‘ یا فرمایا: ’’میں ازخود بھول گیا۔ لہٰذا اب تم اسے آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔ میں نے خواب میں ایسا دیکھا گویا کیچڑمیں سجدہ کر رہا ہوں۔ لہٰذا جس شخص نے میرے ساتھ اعتکاف کیا تھا وہ واپس لوٹ آئے (اور اعتکاف کرے)۔‘‘ چنانچہ ہم واپس آگئے اور اس وقت آسمان پر بادل کا نشان تک نہ تھا لیکن اچانک بادل امڈ آیا اور اتنا برسا کہ مسجد کی چھت ٹپکنے لگی اور وہ کھجور کی شاخوں سے بنی ہوئی تھی۔ پھر نماز کھڑی کی گئی تو میں نے رسول اللہ ﷺ کو کیچڑ میں سجدہ کرتے ہوئے دیکھا یہاں تک کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کی پیشانی پر مٹی کے نشانات دیکھے۔
حدیث حاشیہ:
(1) ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے شب قدر کی تلاش میں پہلے عشرے کا اعتکاف کیا، آپ کے پاس جبرئیل ؑ آئے اور کہا: آپ جس کی تلاش میں ہیں وہ آگے ہے، پھر آپ نے دوسرے عشرے کا اعتکاف کیا تو دوبارہ حضرت جبرئیل ؑ آپ کے پاس آ گئے اور کہا: آپ جس کے متلاشی ہیں وہ اس کے آگے ہے، آخر کار آپ نے آخری عشرے میں اعتکاف کرنے کا پروگرام بنایا۔ (صحیح البخاري، الأذان، حدیث:813) (2) صحیح بخاری کی مذکورہ روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ بیسویں تاریخ کی صبح کو برآمد ہوئے اور اسی وقت آپ نے خطبہ دیا، اس کے بعد اکیسویں رات سے اپنے اعتکاف کا آغاز کیا لیکن مؤطا امام مالک کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ اکیسویں شب کی صبح کو باہر تشریف لائے اور خطبہ دیا، پھر آپ نے بائیسویں رات کو آخری عشرے کے اعتکاف کا آغاز کیا۔ (الموطأ للإمام مالك، الاعتکاف، حدیث:715) امام مالک کی روایت مرجوح ہے کیونکہ صحیح بخاری کی ایک روایت میں صراحت ہے کہ جب بیسویں رات گزر گئی اور اکیسویں کی آمد آمد تھی تو اس وقت آپ اپنی اعتکاف گاہ میں واپس آ گئے، اس موقف کی تائید ایک دوسری روایت سے بھی ہوتی ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جو شخص میرے ہمراہ معتکف تھا اسے چاہیے کہ وہ لوٹ آئے اور میرے ساتھ آخری عشرے کا اعتکاف کرے۔‘‘ اور آخری عشرہ اکیسویں رات سے شروع ہوتا ہے۔ اس بنا پر امام مالک کی روایت مرجوح ہے۔ (فتح الباري:327/4)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے معاذ بن فضالہ نے بیان کیا کہا کہ ہم سے ہشام نے بیان کیا، ان سے یحییٰ بن ابی کثیر نے، ان سے ابوسلمہ نے بیان کیا کہ میں نے ابوسعید خدری ؓ سے پوچھا، وہ میرے دوست تھے، انہوں نے جواب دیا کہ ہم نبی کریم ﷺ کے ساتھ رمضان کے دوسرے عشرہ میں اعتکاف میں بیٹھے۔ پھر بیس تاریخ کی صبح کو آنحضرت ﷺ اعتکاف سے نکلے اور ہمیں خطبہ دیا آپ ﷺ نے فرمایا کہ مجھے لیلۃ القدر دکھائی گئی، لیکن بھلا دلی گئی یا ( آپ نے یہ فرمایا کہ ) میں خود بھول گیا۔ اس لیے تم اسے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔ میں نے یہ بھی دیکھا ہے ( خواب میں ) کہ گویا میں کیچڑ میں سجدہ کر رہا ہوں۔ اس لیے جس نے میرے ساتھ اعتکاف کیا ہو وہ پھر لوٹ آئے اور اعتکاف میں بیٹھے۔ خیر ہم نے پھر اعتکاف کیا۔ اس وقت آسمان پر بادلوں کا ایک ٹکڑا بھی نہیں تھا۔ لیکن دیکھتے ہی دیکھتے بادل آیا اور بارش اتنی ہوئی کہ مسجد کی چھت سے پانی ٹپکنے لگا جو کھجور کی شاخوں سے بنی ہوئی تھی۔ پھر نماز کی تکبیر ہوئی تو میں نے دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ کیچڑ میں سجدہ کرر ہے تھے۔ یہاں تک کہ کیچڑ کا نشان میں نے آپ ﷺ کی پیشانی پر دیکھا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Salama (RA): I asked Abu Sa'id, and he was a friend of mine, (about the Night of Qadr) and he said, "We practiced Itikaf (seclusion in the mosque) in the middle third of the month of Ramadan with the Prophet (ﷺ) . In the morning of the 20th of Ramadan, the Prophet (ﷺ) came and addressed us and said, 'I was informed of (the date of the Night of Qadr) but I was caused to forget it; so search for it in the odd nights of the last ten nights of the month of Ramadan. (In the dream) I saw myself prostrating in mud and water (as a sign). So, whoever was in l'tikaf with me should return to it with me (for another 10-day's period)', and we returned. At that time there was no sign of clouds in the sky but suddenly a cloud came and it rained till rain-water started leaking through the roof of the mosque which was made of date-palm leaf stalks. Then the prayer was established and I saw Allah's Apostle (ﷺ) prostrating in mud and water and I saw the traces of mud on his forehead."