Sahi-Bukhari:
Sales and Trade
(Chapter: The Riba-giver)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ” اے ایمان والو ! ڈرو اللہ سے، اور چھوڑ دو وصولی ان رقموں کی جو باقی رہ گئی ہیں لوگوں پرسود سے، اگر تم ایمان والے ہو، اور اگر تم ایسا نہیں کرتے تو پھر تم کو اعلان جنگ ہے اللہ کی طرف سے اور اس کے رسول کی طرف سے، اور اگر تم سود لینے سے توبہ کرتے ہو تو صرف اپنی اصل رقم لے لو، نہ تم کسی پر زیادتی کرو اور نہ تم پر کوئی زیادتی ہو، اور اگر مقروض تنگ دست ہے تو اسے مہلت دے دو ادائیگی کی طاقت ہونے تک اور اگر تم اس سے اصل رقم بھی چھوڑ دو تو یہ تمہارے لیے بہت ہی بہتر ہے اگر تم سمجھو۔ اور اس دن سے ڈرو جس دن تم سب اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔ پھر ہر شخص کو اس کے کیے ہوئے کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا۔ اور ان پر کسی قسم کی کوئی زیادتی نہیں کی جائے گی۔ “ ابن عباس ؓ نے کہا کہ یہ آخری آیت ہے جو نبی کریم ﷺ پر نازل ہوئی۔
2086.
حضرت عون بن ابو جحیفہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ میں نے اپنے والد گرامی کو دیکھا انھوں نے ایک غلام خریدا جو پچھنے لگاتا تھا۔ میں نے اس کے متعلق پوچھا تو انھوں نے کہا: نبی ﷺ نے کتے اور خون کی قیمت لینے سے منع فرمایا، نیز گود نے اور گدوانے، سودلینے اور دینے سے بھی منع فرمایا: علاوہ ازیں تصویرکشی کرنے والے پر آپ نے لعنت فرمائی ہے۔
تشریح:
(1)صحیح بخاری کی ایک روایت میں وضاحت ہے،حضرت عون رحمہ اللہ فرماتے ہیں:میرے باپ نے ایک غلام خریدا جو پچھنے لگاتا تھا۔میرے باپ نے اس کے وہ تمام آلات توڑ دیے جن کے ذریعے سے وہ پچھنے لگاتا تھا۔میں نے اس کے آلات توڑنے کے متعلق سوال کیا تو انھوں نے یہ جواب دیا جو حدیث میں مذکور ہے۔(صحیح البخاری،البیوع،حدیث:2238)(2)اس حدیث میں چھ احکام بیان ہوئے ہیں جن میں ایک سود کھانے اور کھلانے سے متعلق ہے۔اگرچہ سود کا نفع کھانے والے کو حاصل ہوتا ہے،تاہم گناہ میں دونوں برابر کے شریک ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں پر لعنت فرمائی ہے۔(3)اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جاندار کی تصویر کشی حرام ہے۔تصویر خواہ عکسی ہویا مجسم دونوں کا ایک ہی حکم ہے،البتہ بے جان چیزوں کی تصویر بنانے میں کوئی حرج نہیں،مثلاً: درخت، پہاڑ یا دریا وغیرہ کیونکہ ان کی تصویر کسی قسم کے فتنے کا باعث نہیں ہے۔تصویر کے متعلق ہم اپنی گزارشات کتاب الادب میں بیان کریں گے۔ان شاء الله.علاوہ ازیں کتے کی خریدو فروخت،سینگی لگوانے کی اجرت،جسم کے کسی حصے میں سرمہ بھرنا،ان کے مسائل بھی آئندہ بیان ہوں گے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2025
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2086
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2086
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2086
تمہید کتاب
ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اللہ نے تجارت کوحلال کیا ہے۔ اور سود کو حرام قراردیا ہے۔ "
نیز اللہ تعالیٰ نے فرمایا؛"ہاں جوتجارتی لین دین دست بدست تم لوگ کرتے ہو(اس کو نہ لکھا جائے تو کوئی حرج نہیں)"
فائدہ:سود، جوا اور رشوت لینے دینے میں بھی باہمی رضا مندی پائی جاتی ہے لیکن یہ حقیقی نہیں بلکہ اضطراری ہوتی ہے کیونکہ سود پر قرض لینے والے کو قرض حسنہ مل سکتا ہوتو وہ کبھی سود پر قرض نہ لے۔ جوا کھیلنے والا اس لیے رضا مند ہوتا ہے کہ ان میں سے ہرایک کو اپنے جیتنے کی امید ہوتی ہے اور اگر کسی کوہارنے کا اندیشہ ہوتو وہ کبھی جوا نہیں کھیلے گا۔ اسی طرح اگر رشوت دینے والے کو معلوم ہوکہ اسے رشوت دیے بغیر حق مل سکتاہے تو وہ کبھی رشوت نہ دے۔ اس کے علاوہ اگر سودے بازی میں ایک فریق کی پوری رضا مندی نہ ہو اور اسے اس پر مجبور کردیا جائے تو وہ بھی اس ضمن میں آتا ہے۔
انسانی معاشرے کو تعلقات کے اعتبار سے دوحصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے،چنانچہ انسان اپنے خالق سے تعلق قائم کرتا ہے اسے ہم عبادات سے تعبیر کرتے ہیں۔اقرار شہادتین، نماز، زکاۃ، حج اور روزہ وغیرہ اسی تعلق مع اللہ کے مظاہر ہیں۔دوسرے یہ کے انسان کو اپنے جیسے دوسرے انسانوں سے واسطہ پڑتا ہے اسے معاملات کا نام دیا جاتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے عبادات سے فراغت کے بعد اب معاملات کا آغاز کیا ہے۔انسانوں کی فطری ساخت ایسی ہے کہ وہ زندگی گزارنے کے لیے باہمی تعاون اور ایک دوسرے سے لین دین کے محتاج ہیں۔معاشرتی طور پر ہر فرد اور ہر طبقے کی ضرورت دوسرے سے وابستہ ہے،چنانچہ ایک مزدور انسان جس کی ضروریات زندگی بہت مختصر ہیں،اسے بھی اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ بھرنے ک لیے ایسے آدمی کی ضرورت ہے جس سے وہ غلہ وغیرہ لے سکے ،پھر کاشتکار کو اس مزدور کی ضرورت ہے جس سے وہ کھیتی باڑی کے کاموں میں مدد لے سکے ،پھر ان دونوں کو ایک ایسا آدمی درکار ہے جو ان کی ستر پوشی کے لیے کپڑا تیار کرے،پھر سر چھپانے کے لیے مکان اور بیماری کی صورت میں علاج معالجے کی ضرورت ہے۔الغرض اشیاء کی خریدو فروخت، محنت ومزدوری، صنعت وزراعت اور دیگر معاشی معاملات انسانی زندگی کے لوازم ہیں۔اللہ تعالیٰ نے اس سلسلے میں ہماری مکمل رہنمائی فرمائی ہے جس پر عمل پیرا ہوکر دنیا وآخرت میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔ان احکام پر عمل کرنا دنیا نہیں بلکہ عین دین اور عین عبادت ہے اور اس پر اسی طرح اجرو ثواب کا وعدہ ہے جس طرح نماز، روزے اور دیگر عبادات کی ادائیگی پر ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے معاملات کا آغاز كتاب البيوع سے فرمایا ہے۔لفظ بيوع بيع کی جمع ہے ۔اس کے معنی فروخت کرنا ہیں۔بعض اوقات خریدنے کے معنی میں بھی یہ لفظ کا استعمال ہوتا ہے۔شرعی اصطلاح میں کسی چیز کا مالک بننے کے ارادے سے مال کا مال کے ساتھ تبادلہ کرنا بیع کہلاتا ہے۔یہ خریدوفروخت اور تجارت انسانی ضروریات پوری کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔تجارت کے حسب ذیل چار بنیادی اجزاء ہیں: (1) مشتری (خریدار)(2)بائع (فروخت کار)(3)بیع(مال تجارت)(4)بیع (معاہدۂ تجارت)۔قرآن کریم نے تجارت کے لیے باہمی رضامندی کو بنیادی اصول قرار دیا ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ فریقین کا خریدو فروخت کے ہر پہلو پر مطلع ہو کر اپنے آزاد فیصلے سے معاہدۂ تجارت پر رضامند ہونا ضروری ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُم بَيْنَكُم بِالْبَاطِلِ إِلَّا أَن تَكُونَ تِجَارَةً عَن تَرَاضٍ مِّنكُمْ ۚ وَلَا تَقْتُلُوا أَنفُسَكُمْ ۚ إِنَّ اللَّـهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا ﴿٢٩﴾) اے ایمان والو! آپس میں ایک دوسرے کا مال باطل طریقے سے مت کھاؤ مگریہ کے آپس کی رضامندی سے تجارت ہو،اور تم اپنے آپ کو قتل نہ کرو،بے شک اللہ تم پر بہت رحم کرنے والا ہے۔"( النساء29:4)باطل طریقے سے مراد لین دین کاروبار اور تجارت کے دو طریقے ہیں جن میں فریقین کی حقیقی رضامندی یکساں طور پر نہیں پائی جاتی بلکہ اس میں ایک فریق کا تو مفاد ملحوظ رہتا ہے جبکہ دوسرا دھوکے یا نقصان کا نشانہ بنتا ہے۔اگر کسی معاملے میں دھوکا پایا جائے یا اس میں ایک فریق کی بے بسی اور مجبوری کو دخل ہوتو اگرچہ وہ بظاہر اس پر راضی ہوں،تاہم شریعت کی رو سے یہ باطل طریقے ہیں جنھیں حرام ٹھہرایا گیا ہے،اس لیے لین دین اور باہمی تجارت نہ تو کسی دباؤ سے ہو اور نہ اس میں فریب اور ضرر ہی کو دخل ہو۔اگرچہ خریدوفروخت کی حلت قرآنی نص سے ثابت ہے لیکن ہر قسم کی خریدوفروخت حلال نہی بلکہ مندرجہ ذیل شرائط کے ساتھ اسے جائز قرار دیا گیا ہے:(1) فریقین باہمی رضامندی سے سودا کریں۔(2)خریدی ہوئی چیز اور اس کا معاوضہ مجہول نہ ہو۔(3)قابل فروخت چیز فرخت کرنے والے کی ملکیت ہو اور وہ اسے خریدار کے حوالے کرنے پر قادر ہو۔(4)فروخت ہونے والی چیز میں کسی قسم کا عیب چھپا ہوانہ ہو۔(5) کسی حرام چیز کی خریدوفروخت نہ ہو اور نہ اس میں سود کو بطور حیلہ جائز قرار دیا گیا ہو۔(6)اس خریدوفروخت اور تجارت میں کسی فریق کو دھوکا دینا مقصود نہ ہو۔ (7)اس تجارتی لین دین میں حق رجوع کو برقرار رکھا گیا ہو۔کتب حدیث میں خریدو فروخت کی تقریباً تیس اقسام کو انھی وجہ سے ھرام ٹھہرایا گیا ہے۔ ہم ان کی آئندہ وضاحت کریں گے۔علامہ عینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :امام بخاری رحمہ اللہ نے عبادات کے بیان سے فراغت کے بعد معاملات کا آغاز فرمایا کیونکہ عبادات سے مراد فوائد اخروی حاصل کرنا ہے جبکہ معاملات سے دنیوی مفاد پیش نظر ہوتا ہے۔عبادات چونکہ اہم ہیں،اس لیے انھیں مقدم کیا۔معاملات کا تعلق ضروریات سے ہے،اس لیے انھیں عبادات کے بعد بیان کیا ہے،پھر معاملات میں سے خریدوفروخت کے مسائل کو پہلے بیان کیا ہے کیونکہ زندگی میں اکثر وبیشتر اس سے واسطہ پڑتا ہے۔( عمدۃ القاری:8/291)حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:تمام اہل اسلام نے خریدو فروخت کے جواز پر اتفاق کیا ہے اور عقل وحکمت بھی اس کے جواز کا تقاضا کرتی ہے کیونکہ انسانی ضروریات اس سے پوری ہوتی ہیں۔( فتح الباری:4/364) امام بخاری رحمہ اللہ نے خریدوفروخت کے مسائل پر مشتمل دوسوسینتالیس مرفوع احادیث بیان کی ہیں۔ان میں چھیالیس معلق ہیں جبکہ باقی احادیث کو متصل سند سے بیان کیا ہے۔مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے مروی باون آثار بھی بیان کیے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر ایک سوتیرہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو علم معیشت میں اساسی قواعد کی حیثیت رکھتے ہیں۔ان قواعد واصول سے پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تجارت کے نام پر لوٹ مار کے کھلے راستوں کے ساتھ ساتھ ان تمام پوشیدہ راہوں کو بھی بند کردیا ہے جو تجارت کو عدل وانصاف اور خیر خواہی سے ہٹا کر ظلم وزیادتی کے ساتھ دولت سمیٹنے کی طرف لے جانے والے ہیں،آپ نے انتہائی باریک بینی سے نظام تجارت کا جائزہ لیا اور اس کی حدود وقیود متعین فرما کر عمل تجارت کو ہر طرح کے ظلم اور استحصالی ہتھکنڈوں سے پاک کردیا۔ ہمیں چاہیے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کے عنوانات کی روشنی میں اپنی تجارت کو ان اصولوں پر استوار کریں جو مکمل طور پر انسانی فلاح وبہبود کی ضمانت دیتے ہیں۔قارئین سے استدعا ہے کہ كتاب البيوع کا مطالعہ کرتے وقت ہماری معروضات کو ضرور پیش نظر رکھیں۔اللہ تعالیٰ حق بینی اور اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے ۔ آمين
سیاق وسباق اور پس منظر کے اعتبار سے پہلی آیت کفار کے جواب میں ہے جنہوں نے کہا تھا:" تجارت بھی تو آخر سود ہی جیسی چیز ہے" یعنی جب تجارت میں لگے ہوئے روپے کا منافع جائز ہے تو قرض پر دیے ہوئے روپے کا منافع کیوں ناجائز ہے۔اور دوسری آیت سے مقصود یہ ہے کہ اگرچہ روز مرہ کی خریدوفروخت میں بھی معاملۂ بیع کا تحریر میں آجانا بہتر ہے جیسا کہ آج کل کیش میمو لکھنے کا طریقہ رائج ہے،تاہم ایسا کرنا لازم نہیں بلکہ اسے تحریر میں لائے بغیر معاملہ طے کیا جاسکتا ہے لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے ان ہر دو آیات سے خریدوفروخت کی مشروعیت کو ثابت کیا ہے۔حافظ عینی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:انسان طبعی طور پر لالچی واقع ہوا ہے ،دوسروں کی چیز کو للچائی ہوئی نگاہوں سے دیکھنے کا عادی ہے، اگر اسے ضرورت ہو تو چوری، ڈکیتی، لوٹ، کھسوٹ اور دھوکا فریب سے اسے حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے اس کے حصول کے لیے خریدو فروخت کا معاملہ مشروع قرار دیا ہے تاکہ کسی پر ظلم اور زیادتی نہ ہو،امن اور آتشی کے ساتھ لوگ زندگی بسر کریں۔( عمدۃ القاری:8/292)
تمہید باب
امام بخاری نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی اس اثر کو خود ہی کتاب التفسیر(حدیث:4544) میں متصل سند سے بیان کیا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ” اے ایمان والو ! ڈرو اللہ سے، اور چھوڑ دو وصولی ان رقموں کی جو باقی رہ گئی ہیں لوگوں پرسود سے، اگر تم ایمان والے ہو، اور اگر تم ایسا نہیں کرتے تو پھر تم کو اعلان جنگ ہے اللہ کی طرف سے اور اس کے رسول کی طرف سے، اور اگر تم سود لینے سے توبہ کرتے ہو تو صرف اپنی اصل رقم لے لو، نہ تم کسی پر زیادتی کرو اور نہ تم پر کوئی زیادتی ہو، اور اگر مقروض تنگ دست ہے تو اسے مہلت دے دو ادائیگی کی طاقت ہونے تک اور اگر تم اس سے اصل رقم بھی چھوڑ دو تو یہ تمہارے لیے بہت ہی بہتر ہے اگر تم سمجھو۔ اور اس دن سے ڈرو جس دن تم سب اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔ پھر ہر شخص کو اس کے کیے ہوئے کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا۔ اور ان پر کسی قسم کی کوئی زیادتی نہیں کی جائے گی۔ “ ابن عباس ؓ نے کہا کہ یہ آخری آیت ہے جو نبی کریم ﷺ پر نازل ہوئی۔
حدیث ترجمہ:
حضرت عون بن ابو جحیفہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ میں نے اپنے والد گرامی کو دیکھا انھوں نے ایک غلام خریدا جو پچھنے لگاتا تھا۔ میں نے اس کے متعلق پوچھا تو انھوں نے کہا: نبی ﷺ نے کتے اور خون کی قیمت لینے سے منع فرمایا، نیز گود نے اور گدوانے، سودلینے اور دینے سے بھی منع فرمایا: علاوہ ازیں تصویرکشی کرنے والے پر آپ نے لعنت فرمائی ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1)صحیح بخاری کی ایک روایت میں وضاحت ہے،حضرت عون رحمہ اللہ فرماتے ہیں:میرے باپ نے ایک غلام خریدا جو پچھنے لگاتا تھا۔میرے باپ نے اس کے وہ تمام آلات توڑ دیے جن کے ذریعے سے وہ پچھنے لگاتا تھا۔میں نے اس کے آلات توڑنے کے متعلق سوال کیا تو انھوں نے یہ جواب دیا جو حدیث میں مذکور ہے۔(صحیح البخاری،البیوع،حدیث:2238)(2)اس حدیث میں چھ احکام بیان ہوئے ہیں جن میں ایک سود کھانے اور کھلانے سے متعلق ہے۔اگرچہ سود کا نفع کھانے والے کو حاصل ہوتا ہے،تاہم گناہ میں دونوں برابر کے شریک ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں پر لعنت فرمائی ہے۔(3)اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جاندار کی تصویر کشی حرام ہے۔تصویر خواہ عکسی ہویا مجسم دونوں کا ایک ہی حکم ہے،البتہ بے جان چیزوں کی تصویر بنانے میں کوئی حرج نہیں،مثلاً: درخت، پہاڑ یا دریا وغیرہ کیونکہ ان کی تصویر کسی قسم کے فتنے کا باعث نہیں ہے۔تصویر کے متعلق ہم اپنی گزارشات کتاب الادب میں بیان کریں گے۔ان شاء الله.علاوہ ازیں کتے کی خریدو فروخت،سینگی لگوانے کی اجرت،جسم کے کسی حصے میں سرمہ بھرنا،ان کے مسائل بھی آئندہ بیان ہوں گے۔
ترجمۃ الباب:
ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اے ایمان والو!اللہ تعالیٰ سے ڈرواور اگر تم واقعی مومن ہو تو جو سود باقی رہ گیا ہے اسے چھوڑ دو۔ اور اگر تم نے ایسا نہ کیا تو اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے بڑی جنگ کا اعلان سن لو۔ اور اگر توبہ کرلوتو تم صرف اپنے اصل مال کے حقدار ہو۔ نہ تم کسی پر ظلم کرو اور نہ تم پر ظلم کیا جائے۔ اور اگر مقروض تنگ دست ہوتو اسے آسانی تک۔ مہلت دینا(لازم)ہے۔ اور یہ کہ تم (راس المال)صدقہ کرو تو یہ تمھارے لیے بہت بہتر ہے، اگر تم جانتے ہو۔ اور اس دن سے ڈرو جس میں تم اللہ کی طرف لوٹا ئے جاؤگے۔ پھر وہاں ہرشخص کو اس کے اعمال کا پورا پورا بدلہ ملے گا اور ان پر ظلم نہیں کیا جائےگا۔ "
حضرت ابن عباس ؓ بیان کرتے ہیں کہ یہ آخری آیت ہے۔ جو نبی ﷺ پر نازل ہوئی۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابوالولید ہشام بن عبدالملک نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے عون بن ابی جحیفہ نے بیان کیا کہ میں نے اپنے والد کو ایک پچھنا لگانے والا غلام خریدتے دیکھا۔ میں نے یہ دیکھ کر ان سے اس کے متعلق پوچھا تو انہوں نے جواب دیا کہ نبی کریم ﷺ نے کتے کی قیمت لینے اور خون کی قیمت لینے سے منع فرمایا ہے، آپ نے گودنے والی اور گدوانے والی کو ( گودنا لگوانے سے ) سود لینے والے اور سود دینے والے کو ( سود لینے یا دینے سے ) منع فرمایا اور تصویر بنانے والے پر لعنت بھیجی۔
حدیث حاشیہ:
اکثر علماءکے نزدیک کتے کی بیع درست نہیں ہے مگر حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے کتے کا بیچنا اوراس کی قیمت کھانا جائز رکھا ہے اور اگر کوئی کسی کا کتا مار ڈالے تو اس پر تاوان لازم کیا گیا ہے۔ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے حدیث ہذا کی رو سے کتے کی بیع مطلقاً ناجائز قرار دی ہے۔ پچھنا لگانے کی اجرت کے بارے میں ممانعت تنزیہی ہے کیوں کہ دوسری حدیث سے ثابت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود پچھنا لگوایا اور پچھنا لگانے والے کو مزدوری دی، اگر حرام ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی نہ دیتے۔ گدوانا، گودنا حرام ہے اور جانداروں کی مورت بنانا بھی حرام ہے جیسا کہ یہاں ایسے سب پیشہ والوں پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت بھیجی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Aun bin Abu Juhaifa (RA): My father bought a slave who practiced the profession of cupping. (My father broke the slave's instruments of cupping). I asked my father why he had done so. He replied, "The Prophet (ﷺ) forbade the acceptance of the price of a dog or blood, and also forbade the profession of tattooing, getting tattooed and receiving or giving Riba, (usury), and cursed the picture-makers."