باب: اس بارے میں کہ کوئی شخص ستو کھا کر صرف کلی کرے اور نیا وضو نہ کرے۔
)
Sahi-Bukhari:
Ablutions (Wudu')
(Chapter: Rinsing one's mouth (with water) after eating As-Sawiq without repaying ablution)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
209.
حضرت سوید بن نعمان ؓ سے روایت ہے، وہ فتح خیبر کے سال رسول اللہ ﷺ کے ساتھ گئے تھے۔ جب مقام صہباء پر پہنچے جو خیبر کے قریب تھا، تو آپ نے نماز عصر ادا کی، پھر زاد سفر طلب فرمایا تو صرف ستو لائے گئے۔ آپ نے انھیں تیارکرنے کا حکم دیا، چنانچہ وہ تیار شدہ ستو رسول اللہ ﷺ اور ہم سب نے کھائے۔ اس کے بعد آپ نماز مغرب کے لیے کھڑے ہوئے۔ آپ نے صرف کلی فرمائی اور ہم نے بھی کلی کی۔ پھر آپ نے نماز پڑھائی اور نیا وضو نہیں کیا۔
تشریح:
1۔ اس حدیث سے مندرجہ ذیل باتوں کا پتہ چلتا ہے۔ (1)۔ آگ کی تیار کردہ اشیاء کے استعمال سے نہ تو نقض وضو ہوتا ہے اور نہ تجدید وضو ہی کی ضرورت ہے۔ (2)۔ کھانے کے بعد کلی کے ذریعے سے منہ صاف کرنا ایک پسندیدہ عمل ہے تاکہ منہ سے چکناہٹ کے اثرات ختم یا ستو وغیرہ کے اجزاء صاف ہو جائیں۔ (3)۔ دوران سفر میں اشیائے خور و نوش کا سامان ساتھ لے کر جانا چاہیے، ایسا کرنا توکل کے منافی نہیں۔ (4)۔ سفر میں بوقت ضرورت تمام شرکاء اپنے اپنے زاد سفر ایک جگہ جمع کر لیں، کیونکہ جماعت پر اللہ کی رحمت ہوتی ہے اور برکت بھی نازل ہوتی ہے۔ (5)۔ امام وقت کو چاہیے کہ غذا کی کمی کے موقع پر ذخیرہ اندوزوں سے جبراً اشیائے خوردنی بر آمد کر کے انھیں بازار میں لائے تاکہ ضرورت مند حضرات بازار سے بسہولت حاصل کر سکیں۔ (6)۔ سر براہ مملکت کو چاہیے کہ وہ فوجیوں کی ضرورت کا خیال رکھے اور لوگوں سے حاصل کر کے انھیں مہیا کرے تاکہ جس کے پاس خور ونوش کا سامان نہ ہو وہ بھی اپنی ضرورت پوری کر سکے۔ (فتح الباري:408/1) 2۔ اس حدیث سے علامہ خطابی نے آگ سے تیار کردہ اشیاء کے استعمال پر وضو کے منسوخ ہونے کی دلیل لی ہے، کیونکہ یہ حکم پہلے کا ہے اور فتح خیبر اس سے متاخر ہے جو ہجرت کے ساتویں سال ہوا۔ حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں: یہ استدلال صحیح نہیں، کیونکہ حضرت ابو ہریرہ ؓ فتح خیبر کے بعد مسلمان ہوئے ہیں اور وہ آگ سے تیار شدہ چیز کے استعمال پر وضو کرنے والی حدیث کے راوی ہیں۔ (صحیح مسلم، حدیث:788 (352)) اور حضرت ابو ہریرہ ؓ رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد بھی اس کے متعلق فتوی دیتے تھے۔ (فتح الباري:408/1) اس پر علامہ عینی ؒ نے لکھا ہے کہ علامہ خطابی کا استدلال صحیح ہے، کیونکہ ممکن ہے کہ حضرت ابو ہریرہ ؓ نے وضو کا حکم کسی دوسرے صحابی کے واسطے سے معلوم کیا ہو، پھر اس حکم کو اس واسطے کے بغیر بیان کردیا ہو۔ (عمدة القاري:581/2) علامہ عینی رحمۃ اللہ علیہ کے اعتراض اور علامہ خطابی کے دفاع پر دل مطمئن نہیں، اگرچہ یہ بات اپنی جگہ صحیح ہے کہ آگ سے تیارشدہ اشیاء کے استعمال پر وضو کرنے کا حکم منسوخ ہے یا اس سے لغوی وضو مراد ہے یا اس وضو کو استحباب پر بھی محمول کیا جا سکتا ہے۔ واللہ أعلم ۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
209
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
209
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
209
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
209
تمہید کتاب
ہر مکلف پر سب سے پہلے ایمان کی پابندی عائد ہوتی ہے ، پھر وہ چیزیں جو ایمان کے لیے مطلوب ہیں اور جن پر عمل پیرا ہونے سے ایمان میں کمال پیدا ہوتا ہے۔ ان کا حصول علم کے بغیر ممکن نہیں، ایمان کے بعد اعمال کی ضرورت ہے کیونکہ اعمال ہی ایمان کے لیے سیڑھی کاکام دیتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:(إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ) "صاف ستھرے کلمات اللہ کی طرف چڑھتے ہیں اور نیک عمل انھیں بلند کرتے ہیں۔"( فاطر:35۔10۔) اعمال میں سب سے افضل عمل نماز ہے کیونکہ قیامت کے دن سب سے پہلے نماز کے متعلق سوال ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ ارکان اسلام میں سے نماز کی ادائیگی کے متعلق قرآن مجید نے بہت زور دیا ہے، نماز کی قبولیت طہارت پر موقوف ہے اور طہارت نماز کے لیے شرط ہے اور شرط ہمیشہ مشروط پر مقدم ہوتی ہے ،اس لیے عبادات سے پہلے کتاب ولوضو کو بیان کیا گیا ہے۔لفظ وضو وضاءۃسے مشتق ہے جس کے لغوی معنی خوبصورتی اور چمک ہیں۔شرعی اصطلاح میں ایک خاص طریقے سے مخصوص اعضاء کو دھونا وضو کہلاتا ہے۔ لغوی معنی سے اس کی مطابقت یہ ہے کہ وضو کرنے والا بھی پانی کے استعمال کرنے سے صاف ستھرا اور خوبصورت ہو جاتا ہے۔نیز قیامت کے دن اعضائے وضو خوبصورت ہوں گے اور ان پر چمک ہوگی۔ لفظ وضو کی داؤ پر اگر پیش پڑھی جائے تو معنی اصطلاحی وضو ہوتے ہیں، واؤ فتحہ کے ساتھ ہوتو وہ پانی مراد ہوتا ہے جو اس عمل کا ذریعہ ہے۔ اور واؤ کو کسرے کے ساتھ پڑھنے سے وہ برتن مراد ہوتا ہے جس میں وضو کے لیے پانی ڈالا جاتا ہے۔وضو ،دروضو و ضو تازہ دار"وضو کا پانی وضو کے برتن میں وضو تازہ کرو۔"عبادت نماز کے لیے وضو کا عمل ان خصوصیات اسلام میں سے ہے جن کی نظیر دیگر مذاہب عالم میں نہیں ملتی، اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس بڑے عنوان کے تحت وضو سے متعلق چھوٹے چھوٹے 75 ذیلی عنوان قائم کیے ہیں جن میں اس کا وجوب ،علت وجوب ، اہمیت،وافادیت ،فضیلت وخصوصیت ،شرائط وواجبات ، صفات و مقدمات اور احکام و آداب بیان فرمائے ہیں۔چونکہ وضو سے پہلے انسانی حاجات سے فارغ ہونا ضروری ہے، اس لیے گھر اور باہر اس سے فراغت کے آداب واحکام اور حدود و شرائط بیان کی ہیں پھر جس پانی سے وضو کیا جاتا ہے اور جس برتن میں پانی ڈالاجاتا ہے اس کی طہارت ، نجاست آلود ہونے کی صورت میں اس کا طریقہ طہارت ، پھر وضو کے لیے مقدار پانی اور نواقص وضو کی وضاحت کی ہے وضو سے بچا ہوا پانی اس کا استعمال کن چیزوں کے استعمال کے بعد وضو ضروری ہے یا ضروری نہیں۔؟اس مناسبت سے پیشاب کے ااحکام ،حیوانات کے بول و براز کے مسائل پھر مسواک کے فوائد بیان کیے ہیں آخر میں ہمیشہ باوضو رہنے کی فضیلت بیان کر کے اس قسم کے پاکیزہ عمل کو اپنانے کی تلقین فرمائی ہے۔ الغرض امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب الوضوء میں بے شمار معارف وحقائق اور لطائف و دقائق بیان کیے ہیں۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اس مختصر تمہید کو ذہن میں رکھتے ہوئے اس کا مطالعہ کریں تاکہ ہمیں حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی روایت و فقاہت کا عملی تجربہ ہو۔ واللہ ولی التوفیق وھو الہادی من یشاء الی صراط مستقیم ۔
حضرت سوید بن نعمان ؓ سے روایت ہے، وہ فتح خیبر کے سال رسول اللہ ﷺ کے ساتھ گئے تھے۔ جب مقام صہباء پر پہنچے جو خیبر کے قریب تھا، تو آپ نے نماز عصر ادا کی، پھر زاد سفر طلب فرمایا تو صرف ستو لائے گئے۔ آپ نے انھیں تیارکرنے کا حکم دیا، چنانچہ وہ تیار شدہ ستو رسول اللہ ﷺ اور ہم سب نے کھائے۔ اس کے بعد آپ نماز مغرب کے لیے کھڑے ہوئے۔ آپ نے صرف کلی فرمائی اور ہم نے بھی کلی کی۔ پھر آپ نے نماز پڑھائی اور نیا وضو نہیں کیا۔
حدیث حاشیہ:
1۔ اس حدیث سے مندرجہ ذیل باتوں کا پتہ چلتا ہے۔ (1)۔ آگ کی تیار کردہ اشیاء کے استعمال سے نہ تو نقض وضو ہوتا ہے اور نہ تجدید وضو ہی کی ضرورت ہے۔ (2)۔ کھانے کے بعد کلی کے ذریعے سے منہ صاف کرنا ایک پسندیدہ عمل ہے تاکہ منہ سے چکناہٹ کے اثرات ختم یا ستو وغیرہ کے اجزاء صاف ہو جائیں۔ (3)۔ دوران سفر میں اشیائے خور و نوش کا سامان ساتھ لے کر جانا چاہیے، ایسا کرنا توکل کے منافی نہیں۔ (4)۔ سفر میں بوقت ضرورت تمام شرکاء اپنے اپنے زاد سفر ایک جگہ جمع کر لیں، کیونکہ جماعت پر اللہ کی رحمت ہوتی ہے اور برکت بھی نازل ہوتی ہے۔ (5)۔ امام وقت کو چاہیے کہ غذا کی کمی کے موقع پر ذخیرہ اندوزوں سے جبراً اشیائے خوردنی بر آمد کر کے انھیں بازار میں لائے تاکہ ضرورت مند حضرات بازار سے بسہولت حاصل کر سکیں۔ (6)۔ سر براہ مملکت کو چاہیے کہ وہ فوجیوں کی ضرورت کا خیال رکھے اور لوگوں سے حاصل کر کے انھیں مہیا کرے تاکہ جس کے پاس خور ونوش کا سامان نہ ہو وہ بھی اپنی ضرورت پوری کر سکے۔ (فتح الباري:408/1) 2۔ اس حدیث سے علامہ خطابی نے آگ سے تیار کردہ اشیاء کے استعمال پر وضو کے منسوخ ہونے کی دلیل لی ہے، کیونکہ یہ حکم پہلے کا ہے اور فتح خیبر اس سے متاخر ہے جو ہجرت کے ساتویں سال ہوا۔ حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں: یہ استدلال صحیح نہیں، کیونکہ حضرت ابو ہریرہ ؓ فتح خیبر کے بعد مسلمان ہوئے ہیں اور وہ آگ سے تیار شدہ چیز کے استعمال پر وضو کرنے والی حدیث کے راوی ہیں۔ (صحیح مسلم، حدیث:788 (352)) اور حضرت ابو ہریرہ ؓ رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد بھی اس کے متعلق فتوی دیتے تھے۔ (فتح الباري:408/1) اس پر علامہ عینی ؒ نے لکھا ہے کہ علامہ خطابی کا استدلال صحیح ہے، کیونکہ ممکن ہے کہ حضرت ابو ہریرہ ؓ نے وضو کا حکم کسی دوسرے صحابی کے واسطے سے معلوم کیا ہو، پھر اس حکم کو اس واسطے کے بغیر بیان کردیا ہو۔ (عمدة القاري:581/2) علامہ عینی رحمۃ اللہ علیہ کے اعتراض اور علامہ خطابی کے دفاع پر دل مطمئن نہیں، اگرچہ یہ بات اپنی جگہ صحیح ہے کہ آگ سے تیارشدہ اشیاء کے استعمال پر وضو کرنے کا حکم منسوخ ہے یا اس سے لغوی وضو مراد ہے یا اس وضو کو استحباب پر بھی محمول کیا جا سکتا ہے۔ واللہ أعلم ۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انھوں نے کہا مجھے امام مالک نے یحیٰی بن سعید کے واسطے سے خبر دی، وہ بشیر بن یسار بنی حارثہ کے آزاد کردہ غلام سے روایت کرتے ہیں کہ سوید بن نعمان ؓ نے انھیں خبر دی کہ فتح خیبر والے سال وہ رسول کریم ﷺ کے ساتھ صہبا کی طرف، جو خیبر کے قریب ایک جگہ ہے، پہنچے۔ آپ ﷺ نے عصر کی نماز پڑھی، پھر ناشتہ منگوایا گیا تو سوائے ستو کے اور کچھ نہیں لایا گیا۔ پھر آپ ﷺ نے حکم دیا تو وہ بھگو دیا گیا۔ پھر رسول کریم ﷺ نے کھایا اور ہم نے (بھی) کھایا۔ پھر مغرب (کی نماز) کے لئے کھڑے ہو گئے۔ آپ ﷺ نے کلی کی اور ہم نے (بھی) پھر آپ ﷺ نے نماز پڑھی اور نیا وضو نہیں کیا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Suwaid bin Al-Nu'man (RA): In the year of the conquest of Khaibar I went with Allah's Apostle (ﷺ) till we reached Sahba,' a place near Khaibar, where Allah's Apostle (ﷺ) offered the 'Asr prayer and asked for food. Nothing but Sawrq was brought. He ordered it to be moistened with water. He and all of us ate it and the Prophet (ﷺ) got up for the evening prayer (Maghrib prayer), rinsed his mouth with water and we did the same, and he then prayed without repeating the ablution.