Sahi-Bukhari:
Sales and Trade
(Chapter: The dislike of raising voices in the market)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2125.
حضرت عطاء بن یسار سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص ؓ سے ملااور عرض کیا کہ رسول اللہ ﷺ کی جو صفت تورات میں ہے، مجھے اس سے مطلع کیجئے۔ انھوں نے فرمایا: ’’اللہ کی قسم!آپ کی بعض صفات تورات میں وہی ہیں جو قرآن کریم میں بیان ہوئی ہیں۔ (قرآن کریم کی طرح تورات میں بھی اس قسم کا مضمون ہے)اے نبی ﷺ ! یقیناً ہم نے آپ کو گواہی دینے والا، خوش خبری سنانے والا، ڈرانے والا اور ْأُمِّيِّينَ کی نگہبانی کرنے والا بنا کر بھیجا ہے۔ تو میرا بندہ اور میرا رسول ہے۔ میں نے تیرا نام متوکل رکھا ہے، نہ تو بد خلق ہے اور نہ سنگ دل، نہ تو بازاروں میں شوروشغب کرنے والا ہے اور نہ برائی کا بدلہ برائی ہی سے دیتا ہے بلکہ درگزر اور مہربانی کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اسے اس وقت تک ہر گز موت سے دوچار نہیں کرے گا، جب تک کہ اس کے ذریعے سے ایک کج رو(ٹیڑھی )قوم کو سیدھا نہ کردے بایں طور کہ وہ لاإله إلا اللہ کہنے لگیں اور اس کے ذریعے سے نابینے بینے ہو جائیں اور بہرےکان کھول دیے جائیں اور بستہ دل آگا ہ کیے جائیں۔ عبد العزیز بن ابو سلمہ نے ہلال سے روایت کرنے میں فلیح کی متابعت کی ہے اور سعید نے ہلال سے، انھوں نے عطاء سے، انھوں نے ابن سلام سے اسے روایت کیا ہے۔
تشریح:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ امام، بادشاہ اور معزز لوگوں کا بازار جانا مذموم نہیں۔ (2) اس سے بازاری لوگوں کی مذمت بھی ثابت ہوتی ہے جو بازار میں اپنی چیز کی جھوٹی تعریف اور دوسروں کی بلاوجہ برائی کرتے ہیں، جھوٹی قسمیں اٹھاتے، آوازیں بلند کرتے اور شور مچاتے ہیں۔غالباً انھی مذموم اوصاف کی بنا پر بازاروں کو زمین کا بدترین خطہ قرار دیا گیا ہے۔(3) ٹیڑھی ملت کو سیدھا کرنے کے یہ معنی ہیں کہ وہ لوگوں کو کفر سے نکال کر ایمان کی راہ دکھائیں گے حتی کے وہ اقرار شہادتین سے اسلام میں داخل ہوجائیں گے،الغرض رسول اللہ ﷺ نے واقعی ملتِ ابراہیم کو پاک صاف کرکے اصل صورت میں پیش فرمایا۔(4) عبدالعزیز بن ابو سلمہ کی متابعت کو امام بخاری ؒ نے کتاب التفسیر میں بیان کیا ہے۔ (صحیح البخاري، التفسیر، حدیث: 4838) (5) سعید بن ابو ہلال نے صحابی کی تعیین میں عبدالعزیز اور فلیح کی مخالفت کی ہے کیونکہ انھوں نے حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص ؓ سے بیان کیا ہے جبکہ سعید نے حضرت عبداللہ بن سلام سے روایت کیا ہے۔ ممکن ہے کہ عطاء بن یسار نے حضرت عبداللہ بن عمرو اور عبداللہ بن سلام ؓ دونوں سے اس روایت کو حاصل کیا ہو۔ (فتح الباري:434/4)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2064
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2125
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2125
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2125
تمہید کتاب
ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اللہ نے تجارت کوحلال کیا ہے۔ اور سود کو حرام قراردیا ہے۔ "
نیز اللہ تعالیٰ نے فرمایا؛"ہاں جوتجارتی لین دین دست بدست تم لوگ کرتے ہو(اس کو نہ لکھا جائے تو کوئی حرج نہیں)"
فائدہ:سود، جوا اور رشوت لینے دینے میں بھی باہمی رضا مندی پائی جاتی ہے لیکن یہ حقیقی نہیں بلکہ اضطراری ہوتی ہے کیونکہ سود پر قرض لینے والے کو قرض حسنہ مل سکتا ہوتو وہ کبھی سود پر قرض نہ لے۔ جوا کھیلنے والا اس لیے رضا مند ہوتا ہے کہ ان میں سے ہرایک کو اپنے جیتنے کی امید ہوتی ہے اور اگر کسی کوہارنے کا اندیشہ ہوتو وہ کبھی جوا نہیں کھیلے گا۔ اسی طرح اگر رشوت دینے والے کو معلوم ہوکہ اسے رشوت دیے بغیر حق مل سکتاہے تو وہ کبھی رشوت نہ دے۔ اس کے علاوہ اگر سودے بازی میں ایک فریق کی پوری رضا مندی نہ ہو اور اسے اس پر مجبور کردیا جائے تو وہ بھی اس ضمن میں آتا ہے۔
انسانی معاشرے کو تعلقات کے اعتبار سے دوحصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے،چنانچہ انسان اپنے خالق سے تعلق قائم کرتا ہے اسے ہم عبادات سے تعبیر کرتے ہیں۔اقرار شہادتین، نماز، زکاۃ، حج اور روزہ وغیرہ اسی تعلق مع اللہ کے مظاہر ہیں۔دوسرے یہ کے انسان کو اپنے جیسے دوسرے انسانوں سے واسطہ پڑتا ہے اسے معاملات کا نام دیا جاتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے عبادات سے فراغت کے بعد اب معاملات کا آغاز کیا ہے۔انسانوں کی فطری ساخت ایسی ہے کہ وہ زندگی گزارنے کے لیے باہمی تعاون اور ایک دوسرے سے لین دین کے محتاج ہیں۔معاشرتی طور پر ہر فرد اور ہر طبقے کی ضرورت دوسرے سے وابستہ ہے،چنانچہ ایک مزدور انسان جس کی ضروریات زندگی بہت مختصر ہیں،اسے بھی اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ بھرنے ک لیے ایسے آدمی کی ضرورت ہے جس سے وہ غلہ وغیرہ لے سکے ،پھر کاشتکار کو اس مزدور کی ضرورت ہے جس سے وہ کھیتی باڑی کے کاموں میں مدد لے سکے ،پھر ان دونوں کو ایک ایسا آدمی درکار ہے جو ان کی ستر پوشی کے لیے کپڑا تیار کرے،پھر سر چھپانے کے لیے مکان اور بیماری کی صورت میں علاج معالجے کی ضرورت ہے۔الغرض اشیاء کی خریدو فروخت، محنت ومزدوری، صنعت وزراعت اور دیگر معاشی معاملات انسانی زندگی کے لوازم ہیں۔اللہ تعالیٰ نے اس سلسلے میں ہماری مکمل رہنمائی فرمائی ہے جس پر عمل پیرا ہوکر دنیا وآخرت میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔ان احکام پر عمل کرنا دنیا نہیں بلکہ عین دین اور عین عبادت ہے اور اس پر اسی طرح اجرو ثواب کا وعدہ ہے جس طرح نماز، روزے اور دیگر عبادات کی ادائیگی پر ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے معاملات کا آغاز كتاب البيوع سے فرمایا ہے۔لفظ بيوع بيع کی جمع ہے ۔اس کے معنی فروخت کرنا ہیں۔بعض اوقات خریدنے کے معنی میں بھی یہ لفظ کا استعمال ہوتا ہے۔شرعی اصطلاح میں کسی چیز کا مالک بننے کے ارادے سے مال کا مال کے ساتھ تبادلہ کرنا بیع کہلاتا ہے۔یہ خریدوفروخت اور تجارت انسانی ضروریات پوری کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔تجارت کے حسب ذیل چار بنیادی اجزاء ہیں: (1) مشتری (خریدار)(2)بائع (فروخت کار)(3)بیع(مال تجارت)(4)بیع (معاہدۂ تجارت)۔قرآن کریم نے تجارت کے لیے باہمی رضامندی کو بنیادی اصول قرار دیا ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ فریقین کا خریدو فروخت کے ہر پہلو پر مطلع ہو کر اپنے آزاد فیصلے سے معاہدۂ تجارت پر رضامند ہونا ضروری ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُم بَيْنَكُم بِالْبَاطِلِ إِلَّا أَن تَكُونَ تِجَارَةً عَن تَرَاضٍ مِّنكُمْ ۚ وَلَا تَقْتُلُوا أَنفُسَكُمْ ۚ إِنَّ اللَّـهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا ﴿٢٩﴾) اے ایمان والو! آپس میں ایک دوسرے کا مال باطل طریقے سے مت کھاؤ مگریہ کے آپس کی رضامندی سے تجارت ہو،اور تم اپنے آپ کو قتل نہ کرو،بے شک اللہ تم پر بہت رحم کرنے والا ہے۔"( النساء29:4)باطل طریقے سے مراد لین دین کاروبار اور تجارت کے دو طریقے ہیں جن میں فریقین کی حقیقی رضامندی یکساں طور پر نہیں پائی جاتی بلکہ اس میں ایک فریق کا تو مفاد ملحوظ رہتا ہے جبکہ دوسرا دھوکے یا نقصان کا نشانہ بنتا ہے۔اگر کسی معاملے میں دھوکا پایا جائے یا اس میں ایک فریق کی بے بسی اور مجبوری کو دخل ہوتو اگرچہ وہ بظاہر اس پر راضی ہوں،تاہم شریعت کی رو سے یہ باطل طریقے ہیں جنھیں حرام ٹھہرایا گیا ہے،اس لیے لین دین اور باہمی تجارت نہ تو کسی دباؤ سے ہو اور نہ اس میں فریب اور ضرر ہی کو دخل ہو۔اگرچہ خریدوفروخت کی حلت قرآنی نص سے ثابت ہے لیکن ہر قسم کی خریدوفروخت حلال نہی بلکہ مندرجہ ذیل شرائط کے ساتھ اسے جائز قرار دیا گیا ہے:(1) فریقین باہمی رضامندی سے سودا کریں۔(2)خریدی ہوئی چیز اور اس کا معاوضہ مجہول نہ ہو۔(3)قابل فروخت چیز فرخت کرنے والے کی ملکیت ہو اور وہ اسے خریدار کے حوالے کرنے پر قادر ہو۔(4)فروخت ہونے والی چیز میں کسی قسم کا عیب چھپا ہوانہ ہو۔(5) کسی حرام چیز کی خریدوفروخت نہ ہو اور نہ اس میں سود کو بطور حیلہ جائز قرار دیا گیا ہو۔(6)اس خریدوفروخت اور تجارت میں کسی فریق کو دھوکا دینا مقصود نہ ہو۔ (7)اس تجارتی لین دین میں حق رجوع کو برقرار رکھا گیا ہو۔کتب حدیث میں خریدو فروخت کی تقریباً تیس اقسام کو انھی وجہ سے ھرام ٹھہرایا گیا ہے۔ ہم ان کی آئندہ وضاحت کریں گے۔علامہ عینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :امام بخاری رحمہ اللہ نے عبادات کے بیان سے فراغت کے بعد معاملات کا آغاز فرمایا کیونکہ عبادات سے مراد فوائد اخروی حاصل کرنا ہے جبکہ معاملات سے دنیوی مفاد پیش نظر ہوتا ہے۔عبادات چونکہ اہم ہیں،اس لیے انھیں مقدم کیا۔معاملات کا تعلق ضروریات سے ہے،اس لیے انھیں عبادات کے بعد بیان کیا ہے،پھر معاملات میں سے خریدوفروخت کے مسائل کو پہلے بیان کیا ہے کیونکہ زندگی میں اکثر وبیشتر اس سے واسطہ پڑتا ہے۔( عمدۃ القاری:8/291)حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:تمام اہل اسلام نے خریدو فروخت کے جواز پر اتفاق کیا ہے اور عقل وحکمت بھی اس کے جواز کا تقاضا کرتی ہے کیونکہ انسانی ضروریات اس سے پوری ہوتی ہیں۔( فتح الباری:4/364) امام بخاری رحمہ اللہ نے خریدوفروخت کے مسائل پر مشتمل دوسوسینتالیس مرفوع احادیث بیان کی ہیں۔ان میں چھیالیس معلق ہیں جبکہ باقی احادیث کو متصل سند سے بیان کیا ہے۔مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے مروی باون آثار بھی بیان کیے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر ایک سوتیرہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو علم معیشت میں اساسی قواعد کی حیثیت رکھتے ہیں۔ان قواعد واصول سے پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تجارت کے نام پر لوٹ مار کے کھلے راستوں کے ساتھ ساتھ ان تمام پوشیدہ راہوں کو بھی بند کردیا ہے جو تجارت کو عدل وانصاف اور خیر خواہی سے ہٹا کر ظلم وزیادتی کے ساتھ دولت سمیٹنے کی طرف لے جانے والے ہیں،آپ نے انتہائی باریک بینی سے نظام تجارت کا جائزہ لیا اور اس کی حدود وقیود متعین فرما کر عمل تجارت کو ہر طرح کے ظلم اور استحصالی ہتھکنڈوں سے پاک کردیا۔ ہمیں چاہیے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کے عنوانات کی روشنی میں اپنی تجارت کو ان اصولوں پر استوار کریں جو مکمل طور پر انسانی فلاح وبہبود کی ضمانت دیتے ہیں۔قارئین سے استدعا ہے کہ كتاب البيوع کا مطالعہ کرتے وقت ہماری معروضات کو ضرور پیش نظر رکھیں۔اللہ تعالیٰ حق بینی اور اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے ۔ آمين
سیاق وسباق اور پس منظر کے اعتبار سے پہلی آیت کفار کے جواب میں ہے جنہوں نے کہا تھا:" تجارت بھی تو آخر سود ہی جیسی چیز ہے" یعنی جب تجارت میں لگے ہوئے روپے کا منافع جائز ہے تو قرض پر دیے ہوئے روپے کا منافع کیوں ناجائز ہے۔اور دوسری آیت سے مقصود یہ ہے کہ اگرچہ روز مرہ کی خریدوفروخت میں بھی معاملۂ بیع کا تحریر میں آجانا بہتر ہے جیسا کہ آج کل کیش میمو لکھنے کا طریقہ رائج ہے،تاہم ایسا کرنا لازم نہیں بلکہ اسے تحریر میں لائے بغیر معاملہ طے کیا جاسکتا ہے لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے ان ہر دو آیات سے خریدوفروخت کی مشروعیت کو ثابت کیا ہے۔حافظ عینی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:انسان طبعی طور پر لالچی واقع ہوا ہے ،دوسروں کی چیز کو للچائی ہوئی نگاہوں سے دیکھنے کا عادی ہے، اگر اسے ضرورت ہو تو چوری، ڈکیتی، لوٹ، کھسوٹ اور دھوکا فریب سے اسے حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے اس کے حصول کے لیے خریدو فروخت کا معاملہ مشروع قرار دیا ہے تاکہ کسی پر ظلم اور زیادتی نہ ہو،امن اور آتشی کے ساتھ لوگ زندگی بسر کریں۔( عمدۃ القاری:8/292)
حضرت عطاء بن یسار سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص ؓ سے ملااور عرض کیا کہ رسول اللہ ﷺ کی جو صفت تورات میں ہے، مجھے اس سے مطلع کیجئے۔ انھوں نے فرمایا: ’’اللہ کی قسم!آپ کی بعض صفات تورات میں وہی ہیں جو قرآن کریم میں بیان ہوئی ہیں۔ (قرآن کریم کی طرح تورات میں بھی اس قسم کا مضمون ہے)اے نبی ﷺ ! یقیناً ہم نے آپ کو گواہی دینے والا، خوش خبری سنانے والا، ڈرانے والا اور ْأُمِّيِّينَ کی نگہبانی کرنے والا بنا کر بھیجا ہے۔ تو میرا بندہ اور میرا رسول ہے۔ میں نے تیرا نام متوکل رکھا ہے، نہ تو بد خلق ہے اور نہ سنگ دل، نہ تو بازاروں میں شوروشغب کرنے والا ہے اور نہ برائی کا بدلہ برائی ہی سے دیتا ہے بلکہ درگزر اور مہربانی کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اسے اس وقت تک ہر گز موت سے دوچار نہیں کرے گا، جب تک کہ اس کے ذریعے سے ایک کج رو(ٹیڑھی )قوم کو سیدھا نہ کردے بایں طور کہ وہ لاإله إلا اللہ کہنے لگیں اور اس کے ذریعے سے نابینے بینے ہو جائیں اور بہرےکان کھول دیے جائیں اور بستہ دل آگا ہ کیے جائیں۔ عبد العزیز بن ابو سلمہ نے ہلال سے روایت کرنے میں فلیح کی متابعت کی ہے اور سعید نے ہلال سے، انھوں نے عطاء سے، انھوں نے ابن سلام سے اسے روایت کیا ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ امام، بادشاہ اور معزز لوگوں کا بازار جانا مذموم نہیں۔ (2) اس سے بازاری لوگوں کی مذمت بھی ثابت ہوتی ہے جو بازار میں اپنی چیز کی جھوٹی تعریف اور دوسروں کی بلاوجہ برائی کرتے ہیں، جھوٹی قسمیں اٹھاتے، آوازیں بلند کرتے اور شور مچاتے ہیں۔غالباً انھی مذموم اوصاف کی بنا پر بازاروں کو زمین کا بدترین خطہ قرار دیا گیا ہے۔(3) ٹیڑھی ملت کو سیدھا کرنے کے یہ معنی ہیں کہ وہ لوگوں کو کفر سے نکال کر ایمان کی راہ دکھائیں گے حتی کے وہ اقرار شہادتین سے اسلام میں داخل ہوجائیں گے،الغرض رسول اللہ ﷺ نے واقعی ملتِ ابراہیم کو پاک صاف کرکے اصل صورت میں پیش فرمایا۔(4) عبدالعزیز بن ابو سلمہ کی متابعت کو امام بخاری ؒ نے کتاب التفسیر میں بیان کیا ہے۔ (صحیح البخاري، التفسیر، حدیث: 4838) (5) سعید بن ابو ہلال نے صحابی کی تعیین میں عبدالعزیز اور فلیح کی مخالفت کی ہے کیونکہ انھوں نے حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص ؓ سے بیان کیا ہے جبکہ سعید نے حضرت عبداللہ بن سلام سے روایت کیا ہے۔ ممکن ہے کہ عطاء بن یسار نے حضرت عبداللہ بن عمرو اور عبداللہ بن سلام ؓ دونوں سے اس روایت کو حاصل کیا ہو۔ (فتح الباري:434/4)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن سنان نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے فلیح نے بیان کیا، ان سے ہلال بن علی نے بیان کیا، ان سے عطاءبن یسار نے کہ میں عبداللہ بن عمرو بن عاص ؓ سے ملا اور عرض کیا کہ رسول اللہ ﷺ کی جو صفات توریت میں آئی ہیں ان کے متعلق مجھے کچھ بتائیے۔ انہوں نے کہا کہ ہاں ! قسم خدا کی ! آپ ﷺ کی تورات میں بالکل بعض وہی صفات آئی ہیں جو قرآن شریف میں مذکو رہیں۔ جیسے کہ اے نبی ! ہم نے تمہیں گواہ، خوشخبری دینے والا، ڈرانے والا، اور ان پڑھ قوم کی حفاظت کرنے والا بنا کر بھیجا ہے۔ تم میرے بندے اور میرے رسول ہو۔ میں نے تمہارا نام متوکل رکھا ہے۔ تم نہ بدخوہو، نہ سخت دل اور نہ بازاروں میں شور غل مچانے والے، ( اور تورات میں یہ بھی لکھا ہوا ہے کہ ) وہ ( میرا بندہ اور رسول ) برائی کا بدلہ برائی سے نہیں لے گا۔ بلکہ معاف اور درگزر کرے گا۔ اللہ تعالیٰ اس وقت تک اس کی روح قبض نہیں کرے گا جب تک ٹیڑھی شریعت کو اس سے سیدھی نہ کرالے، یعنی لوگ لاإله إلا اللہ نہ کہنے لگیں اور اس کے ذریعہ وہ اندھی آنکھوں کو بینا، بہرے کانوں کو شنوا اور پردہ پڑے ہوئے دلوں کو پردے کھول دے گا۔ اس حدیث کی متابعت عبدالعزیز بن ابی سلمہ نے ہلال سے کی ہے۔ اور سعید نے بیان کیا کہ ان سے ہلال نے، ان سے عطاءنے کہ ”غلف“ ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو پردے میں ہو۔ سیف أغلف قوس غلفاء اسی سے ہے اور ''رجل أغلف'' اس شخص کو کہتے ہیں جس کا ختنہ نہ ہوا ہو۔
حدیث حاشیہ:
ان جملہ احادیث مرویہ میں کسی نہ کسی پہلو سے آنحضرت ﷺ یا صحابہ کرام ؓ کا بازاروں میں آنا جانا مذکور ہوا ہے۔ نمبر2119 میں بازاروں میں اور مسجد میں نماز باجماعت کے ثواب کے فرق کا ذکر ہے۔ حدیث نمبر2122میں آنحضرت ﷺ کا بازار قینقاع میں آنا اور وہاں سے واپسی پر حضرت فاطمہ ؓ کے گھر پر جانا مذکو رہے جہاں آپ ﷺ نے اپنے پیارے نواسے حضرت حسن ؓ کو پیار کیا، اور ان کے لیے دعائے خیر فرمائی۔ الغرض بازاروں میں آنا جانا، معاملات کرنا یہ کوئی مذموم امر نہیں ہے۔ ضروریات زندگی کے لیے بہرحال ہر کسی کو بازار جائے بغیر گزارہ نہیں، حضرت امام بخاری ؒ کا مقصد اسی امر کا بیان کرنا ہے۔ کیوں کہ بیع کا تعلق زیادہ تر بازاروں ہی سے ہے۔ اسی سلسلے کے مزید بیانات آگے آرہے ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ata bin Yasar (RA): I met Abdullah bin 'Amr bin Al-'As and asked him, "Tell me about the description of Allah's Apostle (ﷺ) which is mentioned in Torah (i.e. Old Testament.") He replied, 'Yes. By Allah, he is described in Torah with some of the qualities attributed to him in the Qur'an as follows: "O Prophet (ﷺ) ! We have sent you as a witness (for Allah's True religion) And a giver of glad tidings (to the faithful believers), And a warner (to the unbelievers) And guardian of the illiterates. You are My slave and My messenger (i.e. Apostle) (ﷺ) . I have named you "Al-Mutawakkil" (who depends upon Allah). You are neither discourteous, harsh Nor a noise-maker in the markets And you do not do evil to those Who do evil to you, but you deal With them with forgiveness and kindness. Allah will not let him (the Prophet) Die till he makes straight the crooked people by making them say: "None has the right to be worshipped but Allah," With which will be opened blind eyes And deaf ears and enveloped hearts." ________