Sahi-Bukhari:
Sales and Trade
(Chapter: Is it permissible for a person from the town to sell the goods of a desert dweller)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2156.
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ حضرت عائشہ ؓ نے حضرت بریرۃ ؓ کاسودا کیا۔ آپ ﷺ نماز کے لیے تشریف لے گئے۔ جب واپس آئے تو ام المومنین ؓ نے کہا کہ وہ لوگ حضرت بریرہ ؓ کو فروخت کرنے سے انکاری ہیں مگر اس شرط پر کہ ولاء ان کی ہو۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’ولاء تو اس کا حق ہے جس نے اسے آزاد کیا ہو۔‘‘ (راوی حدیث ہمام کہتے ہیں کہ) میں نے (اپنے شیخ) حضرت نافع سے پوچھا: بریرہ ؓ کا شوہر آزاد تھا یا غلام؟انھوں نے فرمایا: مجھے معلوم نہیں ہے۔
تشریح:
(1) ولاء اس تعلق کو کہتے ہیں جو کسی آزاد کردہ غلام اور اس کے آزا دکرنے والے کے درمیان قائم ہوتا ہے ۔اس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ وہ غلام مرتے دم تک خاندانی طور پر اپنی نسبت اپنے محسن آزاد کرنے والے کی طرف کرتا ہے اور مرنے کے بعد اس کے ترکے کا حق دار بھی وہی محسن ہوتا۔دور جاہلیت میں اس نسبت کا حق دار سابقہ مالک ہوتا تھا،خواہ آزاد کرنے والا کوئی دوسرا ہی کیوں نہ ہو۔حضرت بریرہ ؓ کے مالکان اسی شرط جاہلیت پر اصرار کرتے تھے جس کی رسول اللہ ﷺ نے برسرما تردیدد فرمائی۔(2) اس حدیث سے حضرت عائشہ ؓ کا حضرت بریرہ ؓ کو خریدنے کا ثبوت ملتا ہے اور عنوان کے ساتھ مطابقت بھی یہی ہے کہ عورتیں خریدوفروخت کرسکتی ہیں۔اس میں شرعاً کو ئی قباحت نہیں ہے۔(3)اس حدیث سے امام بخاری ؒ نے متعدد مسائل واحکام اخذ کیے ہیں جن کی موقع ومحل کے اعتبار سے وضاحت ہوتی رہے گی۔(4)اس روایت کے آخر میں حضرت بریرہ ؓ کے خاوند حضرت مغیث ؓ کے متعلق حضرت نافع نے اپنی لاعلمی کا اظہار کیا ہے کہ حضرت بریرہ ؓ کی آزادی کے وقت وہ غلام تھا یا آزاد،اسی طرح ایک روایت میں شعبہ نے اپنے شیخ عبدالرحمٰن بن قاسم سے اس کے متعلق سوال کیا تو انھوں نے بھی فرمایا کہ مجھے علم نہیں۔ ( صحیح البخاري، الھبة، حدیث:2578) البتہ حضرت ابن عباس ؓ نے صراحت بیان کی ہے کہ حضرت بریرہ ؓ کی آزادی کے وقت اس کا خاوند غلام تھا اور وہ اپنی شریکہ حیات کے فراق پر مدینے کے گلی کوچوں میں روتا اور آنسو بہاتا تھا۔رسول اللہ ﷺ نے اس کی اس کیفیت پر بڑے تعجب کا اظہار کیا۔ رسول اللہ ﷺ نے حضرت بریرہ ؓ کو اسے بطور خاوند قبول کرنے کے متعلق مشورہ بھی دیا لیکن انھوں نے علیحدگی کو اختیار کیا۔(صحیح البخاري، الطلاق، حدیث:5283،5282)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2094
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2156
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2156
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2156
تمہید کتاب
ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اللہ نے تجارت کوحلال کیا ہے۔ اور سود کو حرام قراردیا ہے۔ "
نیز اللہ تعالیٰ نے فرمایا؛"ہاں جوتجارتی لین دین دست بدست تم لوگ کرتے ہو(اس کو نہ لکھا جائے تو کوئی حرج نہیں)"
فائدہ:سود، جوا اور رشوت لینے دینے میں بھی باہمی رضا مندی پائی جاتی ہے لیکن یہ حقیقی نہیں بلکہ اضطراری ہوتی ہے کیونکہ سود پر قرض لینے والے کو قرض حسنہ مل سکتا ہوتو وہ کبھی سود پر قرض نہ لے۔ جوا کھیلنے والا اس لیے رضا مند ہوتا ہے کہ ان میں سے ہرایک کو اپنے جیتنے کی امید ہوتی ہے اور اگر کسی کوہارنے کا اندیشہ ہوتو وہ کبھی جوا نہیں کھیلے گا۔ اسی طرح اگر رشوت دینے والے کو معلوم ہوکہ اسے رشوت دیے بغیر حق مل سکتاہے تو وہ کبھی رشوت نہ دے۔ اس کے علاوہ اگر سودے بازی میں ایک فریق کی پوری رضا مندی نہ ہو اور اسے اس پر مجبور کردیا جائے تو وہ بھی اس ضمن میں آتا ہے۔
انسانی معاشرے کو تعلقات کے اعتبار سے دوحصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے،چنانچہ انسان اپنے خالق سے تعلق قائم کرتا ہے اسے ہم عبادات سے تعبیر کرتے ہیں۔اقرار شہادتین، نماز، زکاۃ، حج اور روزہ وغیرہ اسی تعلق مع اللہ کے مظاہر ہیں۔دوسرے یہ کے انسان کو اپنے جیسے دوسرے انسانوں سے واسطہ پڑتا ہے اسے معاملات کا نام دیا جاتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے عبادات سے فراغت کے بعد اب معاملات کا آغاز کیا ہے۔انسانوں کی فطری ساخت ایسی ہے کہ وہ زندگی گزارنے کے لیے باہمی تعاون اور ایک دوسرے سے لین دین کے محتاج ہیں۔معاشرتی طور پر ہر فرد اور ہر طبقے کی ضرورت دوسرے سے وابستہ ہے،چنانچہ ایک مزدور انسان جس کی ضروریات زندگی بہت مختصر ہیں،اسے بھی اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ بھرنے ک لیے ایسے آدمی کی ضرورت ہے جس سے وہ غلہ وغیرہ لے سکے ،پھر کاشتکار کو اس مزدور کی ضرورت ہے جس سے وہ کھیتی باڑی کے کاموں میں مدد لے سکے ،پھر ان دونوں کو ایک ایسا آدمی درکار ہے جو ان کی ستر پوشی کے لیے کپڑا تیار کرے،پھر سر چھپانے کے لیے مکان اور بیماری کی صورت میں علاج معالجے کی ضرورت ہے۔الغرض اشیاء کی خریدو فروخت، محنت ومزدوری، صنعت وزراعت اور دیگر معاشی معاملات انسانی زندگی کے لوازم ہیں۔اللہ تعالیٰ نے اس سلسلے میں ہماری مکمل رہنمائی فرمائی ہے جس پر عمل پیرا ہوکر دنیا وآخرت میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔ان احکام پر عمل کرنا دنیا نہیں بلکہ عین دین اور عین عبادت ہے اور اس پر اسی طرح اجرو ثواب کا وعدہ ہے جس طرح نماز، روزے اور دیگر عبادات کی ادائیگی پر ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے معاملات کا آغاز كتاب البيوع سے فرمایا ہے۔لفظ بيوع بيع کی جمع ہے ۔اس کے معنی فروخت کرنا ہیں۔بعض اوقات خریدنے کے معنی میں بھی یہ لفظ کا استعمال ہوتا ہے۔شرعی اصطلاح میں کسی چیز کا مالک بننے کے ارادے سے مال کا مال کے ساتھ تبادلہ کرنا بیع کہلاتا ہے۔یہ خریدوفروخت اور تجارت انسانی ضروریات پوری کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔تجارت کے حسب ذیل چار بنیادی اجزاء ہیں: (1) مشتری (خریدار)(2)بائع (فروخت کار)(3)بیع(مال تجارت)(4)بیع (معاہدۂ تجارت)۔قرآن کریم نے تجارت کے لیے باہمی رضامندی کو بنیادی اصول قرار دیا ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ فریقین کا خریدو فروخت کے ہر پہلو پر مطلع ہو کر اپنے آزاد فیصلے سے معاہدۂ تجارت پر رضامند ہونا ضروری ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُم بَيْنَكُم بِالْبَاطِلِ إِلَّا أَن تَكُونَ تِجَارَةً عَن تَرَاضٍ مِّنكُمْ ۚ وَلَا تَقْتُلُوا أَنفُسَكُمْ ۚ إِنَّ اللَّـهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا ﴿٢٩﴾) اے ایمان والو! آپس میں ایک دوسرے کا مال باطل طریقے سے مت کھاؤ مگریہ کے آپس کی رضامندی سے تجارت ہو،اور تم اپنے آپ کو قتل نہ کرو،بے شک اللہ تم پر بہت رحم کرنے والا ہے۔"( النساء29:4)باطل طریقے سے مراد لین دین کاروبار اور تجارت کے دو طریقے ہیں جن میں فریقین کی حقیقی رضامندی یکساں طور پر نہیں پائی جاتی بلکہ اس میں ایک فریق کا تو مفاد ملحوظ رہتا ہے جبکہ دوسرا دھوکے یا نقصان کا نشانہ بنتا ہے۔اگر کسی معاملے میں دھوکا پایا جائے یا اس میں ایک فریق کی بے بسی اور مجبوری کو دخل ہوتو اگرچہ وہ بظاہر اس پر راضی ہوں،تاہم شریعت کی رو سے یہ باطل طریقے ہیں جنھیں حرام ٹھہرایا گیا ہے،اس لیے لین دین اور باہمی تجارت نہ تو کسی دباؤ سے ہو اور نہ اس میں فریب اور ضرر ہی کو دخل ہو۔اگرچہ خریدوفروخت کی حلت قرآنی نص سے ثابت ہے لیکن ہر قسم کی خریدوفروخت حلال نہی بلکہ مندرجہ ذیل شرائط کے ساتھ اسے جائز قرار دیا گیا ہے:(1) فریقین باہمی رضامندی سے سودا کریں۔(2)خریدی ہوئی چیز اور اس کا معاوضہ مجہول نہ ہو۔(3)قابل فروخت چیز فرخت کرنے والے کی ملکیت ہو اور وہ اسے خریدار کے حوالے کرنے پر قادر ہو۔(4)فروخت ہونے والی چیز میں کسی قسم کا عیب چھپا ہوانہ ہو۔(5) کسی حرام چیز کی خریدوفروخت نہ ہو اور نہ اس میں سود کو بطور حیلہ جائز قرار دیا گیا ہو۔(6)اس خریدوفروخت اور تجارت میں کسی فریق کو دھوکا دینا مقصود نہ ہو۔ (7)اس تجارتی لین دین میں حق رجوع کو برقرار رکھا گیا ہو۔کتب حدیث میں خریدو فروخت کی تقریباً تیس اقسام کو انھی وجہ سے ھرام ٹھہرایا گیا ہے۔ ہم ان کی آئندہ وضاحت کریں گے۔علامہ عینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :امام بخاری رحمہ اللہ نے عبادات کے بیان سے فراغت کے بعد معاملات کا آغاز فرمایا کیونکہ عبادات سے مراد فوائد اخروی حاصل کرنا ہے جبکہ معاملات سے دنیوی مفاد پیش نظر ہوتا ہے۔عبادات چونکہ اہم ہیں،اس لیے انھیں مقدم کیا۔معاملات کا تعلق ضروریات سے ہے،اس لیے انھیں عبادات کے بعد بیان کیا ہے،پھر معاملات میں سے خریدوفروخت کے مسائل کو پہلے بیان کیا ہے کیونکہ زندگی میں اکثر وبیشتر اس سے واسطہ پڑتا ہے۔( عمدۃ القاری:8/291)حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:تمام اہل اسلام نے خریدو فروخت کے جواز پر اتفاق کیا ہے اور عقل وحکمت بھی اس کے جواز کا تقاضا کرتی ہے کیونکہ انسانی ضروریات اس سے پوری ہوتی ہیں۔( فتح الباری:4/364) امام بخاری رحمہ اللہ نے خریدوفروخت کے مسائل پر مشتمل دوسوسینتالیس مرفوع احادیث بیان کی ہیں۔ان میں چھیالیس معلق ہیں جبکہ باقی احادیث کو متصل سند سے بیان کیا ہے۔مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے مروی باون آثار بھی بیان کیے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر ایک سوتیرہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو علم معیشت میں اساسی قواعد کی حیثیت رکھتے ہیں۔ان قواعد واصول سے پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تجارت کے نام پر لوٹ مار کے کھلے راستوں کے ساتھ ساتھ ان تمام پوشیدہ راہوں کو بھی بند کردیا ہے جو تجارت کو عدل وانصاف اور خیر خواہی سے ہٹا کر ظلم وزیادتی کے ساتھ دولت سمیٹنے کی طرف لے جانے والے ہیں،آپ نے انتہائی باریک بینی سے نظام تجارت کا جائزہ لیا اور اس کی حدود وقیود متعین فرما کر عمل تجارت کو ہر طرح کے ظلم اور استحصالی ہتھکنڈوں سے پاک کردیا۔ ہمیں چاہیے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کے عنوانات کی روشنی میں اپنی تجارت کو ان اصولوں پر استوار کریں جو مکمل طور پر انسانی فلاح وبہبود کی ضمانت دیتے ہیں۔قارئین سے استدعا ہے کہ كتاب البيوع کا مطالعہ کرتے وقت ہماری معروضات کو ضرور پیش نظر رکھیں۔اللہ تعالیٰ حق بینی اور اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے ۔ آمين
سیاق وسباق اور پس منظر کے اعتبار سے پہلی آیت کفار کے جواب میں ہے جنہوں نے کہا تھا:" تجارت بھی تو آخر سود ہی جیسی چیز ہے" یعنی جب تجارت میں لگے ہوئے روپے کا منافع جائز ہے تو قرض پر دیے ہوئے روپے کا منافع کیوں ناجائز ہے۔اور دوسری آیت سے مقصود یہ ہے کہ اگرچہ روز مرہ کی خریدوفروخت میں بھی معاملۂ بیع کا تحریر میں آجانا بہتر ہے جیسا کہ آج کل کیش میمو لکھنے کا طریقہ رائج ہے،تاہم ایسا کرنا لازم نہیں بلکہ اسے تحریر میں لائے بغیر معاملہ طے کیا جاسکتا ہے لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے ان ہر دو آیات سے خریدوفروخت کی مشروعیت کو ثابت کیا ہے۔حافظ عینی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:انسان طبعی طور پر لالچی واقع ہوا ہے ،دوسروں کی چیز کو للچائی ہوئی نگاہوں سے دیکھنے کا عادی ہے، اگر اسے ضرورت ہو تو چوری، ڈکیتی، لوٹ، کھسوٹ اور دھوکا فریب سے اسے حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے اس کے حصول کے لیے خریدو فروخت کا معاملہ مشروع قرار دیا ہے تاکہ کسی پر ظلم اور زیادتی نہ ہو،امن اور آتشی کے ساتھ لوگ زندگی بسر کریں۔( عمدۃ القاری:8/292)
تمہید باب
امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد یہ ہے کہ شہری کا دیہاتی کے لیے خریدوفروخت کرنا اس وقت مکروہ ہے جب وہ اجرت لے کر بیع کرے کیونکہ جو شخص اجرت لے کر خریدوفروخت کرتا ہے وہ خیر خواہ نہیں ہوتا اس کا مقصد اجرت کا حصول ہوتا ہے اور جس حدیث میں اس کی ممانعت ہے وہ خاص معنی پر محمول ہے کہ اجرت لے کر بیع کرے۔ الغرض امام بخاری رحمہ اللہ کے نزدیک اجرت لے کر خریدوفروخت ممنوع اور اجرت کے بغیر بطور خیر خواہی کسی دیہاتی کے لیے خریدوفروخت کرنے میں کوئی حرج نہیں۔اس سلسلے میں پیش کردہ ارشاد نبوی کو امام بیہقی نے اپنی سند میں متصل سنن سے بیان کیا ہے۔( السنن الکبریٰ للبیھقی:5/347) اور حضرت عطاء کا قول مصنف عبدالرزاق میں موصولاً بیان ہوا ہے۔( المصنف العبد الرزاق:8/201)
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ حضرت عائشہ ؓ نے حضرت بریرۃ ؓ کاسودا کیا۔ آپ ﷺ نماز کے لیے تشریف لے گئے۔ جب واپس آئے تو ام المومنین ؓ نے کہا کہ وہ لوگ حضرت بریرہ ؓ کو فروخت کرنے سے انکاری ہیں مگر اس شرط پر کہ ولاء ان کی ہو۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’ولاء تو اس کا حق ہے جس نے اسے آزاد کیا ہو۔‘‘ (راوی حدیث ہمام کہتے ہیں کہ) میں نے (اپنے شیخ) حضرت نافع سے پوچھا: بریرہ ؓ کا شوہر آزاد تھا یا غلام؟انھوں نے فرمایا: مجھے معلوم نہیں ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) ولاء اس تعلق کو کہتے ہیں جو کسی آزاد کردہ غلام اور اس کے آزا دکرنے والے کے درمیان قائم ہوتا ہے ۔اس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ وہ غلام مرتے دم تک خاندانی طور پر اپنی نسبت اپنے محسن آزاد کرنے والے کی طرف کرتا ہے اور مرنے کے بعد اس کے ترکے کا حق دار بھی وہی محسن ہوتا۔دور جاہلیت میں اس نسبت کا حق دار سابقہ مالک ہوتا تھا،خواہ آزاد کرنے والا کوئی دوسرا ہی کیوں نہ ہو۔حضرت بریرہ ؓ کے مالکان اسی شرط جاہلیت پر اصرار کرتے تھے جس کی رسول اللہ ﷺ نے برسرما تردیدد فرمائی۔(2) اس حدیث سے حضرت عائشہ ؓ کا حضرت بریرہ ؓ کو خریدنے کا ثبوت ملتا ہے اور عنوان کے ساتھ مطابقت بھی یہی ہے کہ عورتیں خریدوفروخت کرسکتی ہیں۔اس میں شرعاً کو ئی قباحت نہیں ہے۔(3)اس حدیث سے امام بخاری ؒ نے متعدد مسائل واحکام اخذ کیے ہیں جن کی موقع ومحل کے اعتبار سے وضاحت ہوتی رہے گی۔(4)اس روایت کے آخر میں حضرت بریرہ ؓ کے خاوند حضرت مغیث ؓ کے متعلق حضرت نافع نے اپنی لاعلمی کا اظہار کیا ہے کہ حضرت بریرہ ؓ کی آزادی کے وقت وہ غلام تھا یا آزاد،اسی طرح ایک روایت میں شعبہ نے اپنے شیخ عبدالرحمٰن بن قاسم سے اس کے متعلق سوال کیا تو انھوں نے بھی فرمایا کہ مجھے علم نہیں۔ ( صحیح البخاري، الھبة، حدیث:2578) البتہ حضرت ابن عباس ؓ نے صراحت بیان کی ہے کہ حضرت بریرہ ؓ کی آزادی کے وقت اس کا خاوند غلام تھا اور وہ اپنی شریکہ حیات کے فراق پر مدینے کے گلی کوچوں میں روتا اور آنسو بہاتا تھا۔رسول اللہ ﷺ نے اس کی اس کیفیت پر بڑے تعجب کا اظہار کیا۔ رسول اللہ ﷺ نے حضرت بریرہ ؓ کو اسے بطور خاوند قبول کرنے کے متعلق مشورہ بھی دیا لیکن انھوں نے علیحدگی کو اختیار کیا۔(صحیح البخاري، الطلاق، حدیث:5283،5282)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے حسان بن ابی عباد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ہمام نے بیان کیا، کہا کہ میں نے نافع سے سنا، وہ عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت کرتے تھے کہ حضرت عائشہ ؓ، بریرہ ؓ کی ( جو باندھی تھیں ) قیمیت لگا رہی تھیں ( تاکہ انہیں خرید کر آزاد کردیں ) کہ نبی کریم ﷺ نماز کے لیے ( مسجد میں ) تشریف لے گئے۔ پھر جب آپ تشریف لائے تو عائشہ ؓ نے کہا کہ ( بریرہ ؓ کے مالکوں نے تو ) اپنے لیے ولاءکی شرط کے بغیر انہیں بیچنے سے انکار کر دیا ہے۔ اس پر نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ ولاءتو اسی کی ہوتی ہے جو آزاد کرے۔ میں نے نافع سے پوچھا کہ بریرہ ؓ کے شوہر آزاد تھے یا غلام، تو انہوں نے فرمایا کہ مجھے معلوم نہیں۔ ( یہیں سے ترجمہ باب نکلتا ہے جس سے عورتوں سے خرید و فروخت کرنے کا جواز نکلا )
حدیث حاشیہ:
ان ہر دو احادیث میں حضرت بریرہ ؓ کی اپنے مالکوں سے مکاتبت کا ذکر ہے یعنی غلام یا لونڈی اپنی مالک سے طے کرلے کہ اتنی مدت میں وہ اس قدر روپیہ یا کوئی جنس وغیرہ ادا کرے گا۔ اور اس شرط کے پورا کرنے کے بعد وہ آزاد ہوجائے گا۔ تو اگر وہ شرط پوری کردی گئی اب وہ آزاد ہو گیا۔ بریرہ ؓ نے بھی اپنے مالکوں سے ایسی ہی صورت طے کی تھی۔ جس کا ذکر انہوں نے حضرت عائشہ ؓ سے کیا۔ جس پر حضرت عائشہ ؓ نے یکمشت سارا روپیہ ادا کرنے کی پیش کش کی۔ اس شرط پر کہ بریرہ ؓ کی ولاءحضرت عائشہ ؓ ہی سے قائم ہو اور مالکوں کو اس بارے میں کوئی مطالبہ نہ رہے۔ ولاءکے معنی یہ کہ غلام آزاد ہونے کے بعد بھائی چارہ کا رشتہ اپنے سابقہ مالک سے قائم رکھے۔ خاندانی طور پر اسی کی طرف منسوب رہے۔ حتی کہ اس کے مرنے پر اس کے ترکہ کا حقدار بھی اس کا مالک ہی ہو۔ چنانچہ حضرت عائشہ ؓ کی پیش کش کو انہوں نے سلسلہ ولاءکے ختم ہوجانے کے خطرہ سے منظور نہیں کیا۔ جس پر آنحضرت ﷺ نے یہ خطبہ ارشاد فرما کر اس مسئلہ کی وضاحت فرمائی کہ یہ بھائی چارگی تو اس کے ساتھ قائم رہے گی۔ جو اسے خرید کر آزاد کرے نہ کہ سابق مالک کے ساتھ۔ چنانچہ حضرت عائشہ ؓ نے حضرت بریرہ ؓ کو خریدا اور آزاد کردیا، اور سلسلہ ولاءسابقہ مالک سے توڑ کر حضرت عائشہ ؓ کے ساتھ قائم کر دیا گیا۔ اس حدیث سے بہت سے مسائل ثابت ہوتے ہیں۔ جن کا استخراج امام الفقہاءو المحدثین حضرت امام بخاری ؒ نے اپنی جامع الصحیح میں جگہ جگہ کیا ہے۔ امام شوکانی اس سلسلہ میں مزید وضاحت یوں فرماتے ہیں : أن النبي صلی اللہ علیه وسلم قد کان أعلم الناس أن اشتراط الولاءباطل و اشتهر ذلك بحیث لا یخفی علی أهل بریرة فلما أرادوا أن یشرطوا ما تقدم لهم العلم ببطلانه أطلق الأمر مریدا به التهدید کقوله تعالیٰ ( اعملوا ماشتئم ) فکأنه قال اشترطي لهم الولاءفسیعلمون أن ذلك لا ینفعهم و یؤید هذا ما قاله صلی اللہ علیه وسلم ذلك ما بال رجال یشترطون شروطا الخ ( نیل ) یعنی نبی کریم ﷺ خوب جانتے تھے کہ ولاء کی شرط باطل ہے اور یہ اصول اس قدر مشتہرہو چکا تھا کہ اہل بریرہ سے بھی یہ مخفی نہ تھا۔ پھر جب انہوں نے اس شرط کے بطلان کو جاننے کے باوجود اس کی اشتراط پر اصرار کیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تہدید کے طور پر مطلق امر فرما دیا کہ بریرہ کو خرید لیا جائے، جیسا کہ قرآن آیت اعملوا ما شئتم(فصلت :40) میں ہے کہ تم عمل کرو جو چاہو۔ یہ بطور تہدید فرمایا گیا ہے۔ گویا آپ نے فرمایا کہ ان کے ولاءکی شرط لگا لو وہ عنقریب جان لیں گے کہ اس شرط سے ان کو کچھ فائدہ حاصل نہ ہوگا اور اس مفہوم کی تائید آپ ﷺ کے اس ارشاد سے ہوتی ہے جو آپ ﷺ نے فرمایا۔ کہ لوگوں کا کیا حال ہے وہ ایسی شرطیں لگاتے ہیں جو کتاب اللہ سے ثابت نہیں ہیں۔ پس ایسی جملہ شروط باطل ہیں، خواہ ان کو لگا بھی لیا جائے مگراسلامی قانون کی رو سے ان کا کوئی مقام نہیں ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abdullah bin Umar (RA): Aisha wanted to buy Buraira and he (the Prophet) went out for the prayer. When he returned, she told him that they (her masters) refused to sell her except on the condition that her Wala' would go to them. The Prophet (ﷺ) replied, 'The Wala' would go to him who manumits.' " Hammam asked Nafi' whether her (Buraira's) husband was a free man or a slave. He replied that he did not know. ________