Sahi-Bukhari:
Sales and Trade
(Chapter: Killing of pigs)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور جابر ؓ نے کہا کہ نبی کریم ﷺنے سور کی خرید و فروخت حرام قرار دی ہے
2222.
حضرت ابو ہریرۃ ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہاکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے!عنقریب تم میں حضرت عیسیٰ ؑ ابن مریم نازل ہوں گے۔ اس وقت وہ حاکم منصف ہوں گے۔ صلیب توڑ ڈالیں گے۔ خنزیر کو قتل کریں گے۔ جزیہ ختم کردیں گے اور مال اس طرح بہے گا کہ اسے کوئی قبول کرنے والا نہ ہوگا۔‘‘
تشریح:
(1) امام بخاری ؒ نے یہ حدیث کتاب البیوع میں اس لیے ذکر کی ہے کہ جو شے حرام ہو اور اس کی بیع جائز نہ ہواسے مار ڈالنا جائز ہے۔ خنزیر کی بیع کو رسول اللہ ﷺ نے حرام قرار دیا ہے، اس اعتبار سے اس کا مار ڈالنا جائز ہے۔ لیکن ذمیوں (کافر جو مسلمانوں کی سلطنت میں رہتے ہوں) کے خنزیر کو مارنا جائز نہیں کیونکہ وہ ان کے نزدیک مال ہے اور ہمیں ان کے مال ضائع کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ (2) سیدنا عیسیٰ ؑ مطلق طور پر خنزیر کو مار ڈالیں گے کیونکہ ان کے زمانے میں کوئی ذمی نہیں ہوگا بلکہ اہل کتاب سب مسلمان ہوجائیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ صلیب بھی توڑ ڈالیں گے۔ حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں: قتل خنزیر سے مراد یہ ہے کہ وہ اپنے دور میں خنزیر کی نسل کشی کا حکم جاری کریں گے، اس میں اس کے کھانے کی حرمت میں مبالغے کا بیان ہے اور عیسائیوں کے لیے سخت وعید ہے جو حضرت عیسیٰ ؑ کی پیروی کے مدعی ہیں لیکن خنزیر کھانا حلال سمجھتے ہیں اور اس کی محبت میں مبالغے کرتے ہیں۔ (فتح الباري:522/4) (3) متعدد آیات قرآنیہ اور احادیث شریفہ کی بنا پر جملہ اہل اسلام کا یہ عقیدہ ہے کہ حضرت عیسیٰ ؑ آسمان پر زندہ ہیں، قرب قیامت کے وقت وہ نازل ہوں گے اور شریعت محمد یہ نافذ کریں گے۔ (4) مذکورہ حدیث کے مطابق رسول اللہ ﷺ نے حلفاً بیان فرمایا ہے کہ وہ ضرور نازل ہوں گے۔ لیکن امین احسن اصلاحی نے اس موقع پر بھی دجل سے کام لے کر لکھا ہے کہ نصارٰی کی یہ روایت ہمارے ہاں بھی آگئی ہے...... قرآن میں کہیں نہیں ہے کہ مسیح ؑ دوبارہ آئیں گے۔ اتنا بڑا عقیدہ قرآن میں ہونا چاہیے تھا، اخبار آحاد پر ہم کوئی عقیدہ قائم نہیں کرسکتے۔ (تدبرحدیث:509/1) حضرت اصلاحی نے اس حدیث کی سند پر بھی بحث کی ہے، لکھا ہے کہ اس میں ایک راوی تو ابن شہاب ہیں جن کے متعلق میں اپنی رائے کا اظہار کرتا آرہا ہوں۔ دوسرے راوی سعید بن مسیّب ہیں۔ ان سے مجھے پہلے بڑا حسن ظن رہا ہے کہ مدینہ کے جید علماء میں سے ہیں۔ میں ان کی تعریف کرتا کہ فقہ میں ان کا بڑا مقام ہے لیکن میں نے جب ان کے بارے میں ائمہ جرح وتعدیل کی رائے پڑھی تو معلوم ہوا کہ یہ شیعوں کے ساتھ شیعہ اور سنیوں کے ساتھ سنی ہیں تو میں بڑا مایوس ہوا۔ (تدبرحدیث:507/1) ہمارے نزدیک اس سے بڑا کوئی جھوٹ نہیں جو اس "امام" نے لکھا ہے۔ ہماری معلومات کے مطابق جرح وتعدیل کے کسی امام نے بھی حضرت سعید بن مسیّب کے متعلق ایسا نہیں لکھا۔ عقیدۂ نزول کے متعلق ہم اپنی گزارشات آئندہ کتاب الانبیاء، باب نزول عیسیٰ ابن مریم کے تحت بیان کریں گے۔ بإذن الله.
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2156
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2222
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2222
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2222
تمہید کتاب
ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اللہ نے تجارت کوحلال کیا ہے۔ اور سود کو حرام قراردیا ہے۔ "
نیز اللہ تعالیٰ نے فرمایا؛"ہاں جوتجارتی لین دین دست بدست تم لوگ کرتے ہو(اس کو نہ لکھا جائے تو کوئی حرج نہیں)"
فائدہ:سود، جوا اور رشوت لینے دینے میں بھی باہمی رضا مندی پائی جاتی ہے لیکن یہ حقیقی نہیں بلکہ اضطراری ہوتی ہے کیونکہ سود پر قرض لینے والے کو قرض حسنہ مل سکتا ہوتو وہ کبھی سود پر قرض نہ لے۔ جوا کھیلنے والا اس لیے رضا مند ہوتا ہے کہ ان میں سے ہرایک کو اپنے جیتنے کی امید ہوتی ہے اور اگر کسی کوہارنے کا اندیشہ ہوتو وہ کبھی جوا نہیں کھیلے گا۔ اسی طرح اگر رشوت دینے والے کو معلوم ہوکہ اسے رشوت دیے بغیر حق مل سکتاہے تو وہ کبھی رشوت نہ دے۔ اس کے علاوہ اگر سودے بازی میں ایک فریق کی پوری رضا مندی نہ ہو اور اسے اس پر مجبور کردیا جائے تو وہ بھی اس ضمن میں آتا ہے۔
انسانی معاشرے کو تعلقات کے اعتبار سے دوحصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے،چنانچہ انسان اپنے خالق سے تعلق قائم کرتا ہے اسے ہم عبادات سے تعبیر کرتے ہیں۔اقرار شہادتین، نماز، زکاۃ، حج اور روزہ وغیرہ اسی تعلق مع اللہ کے مظاہر ہیں۔دوسرے یہ کے انسان کو اپنے جیسے دوسرے انسانوں سے واسطہ پڑتا ہے اسے معاملات کا نام دیا جاتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے عبادات سے فراغت کے بعد اب معاملات کا آغاز کیا ہے۔انسانوں کی فطری ساخت ایسی ہے کہ وہ زندگی گزارنے کے لیے باہمی تعاون اور ایک دوسرے سے لین دین کے محتاج ہیں۔معاشرتی طور پر ہر فرد اور ہر طبقے کی ضرورت دوسرے سے وابستہ ہے،چنانچہ ایک مزدور انسان جس کی ضروریات زندگی بہت مختصر ہیں،اسے بھی اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ بھرنے ک لیے ایسے آدمی کی ضرورت ہے جس سے وہ غلہ وغیرہ لے سکے ،پھر کاشتکار کو اس مزدور کی ضرورت ہے جس سے وہ کھیتی باڑی کے کاموں میں مدد لے سکے ،پھر ان دونوں کو ایک ایسا آدمی درکار ہے جو ان کی ستر پوشی کے لیے کپڑا تیار کرے،پھر سر چھپانے کے لیے مکان اور بیماری کی صورت میں علاج معالجے کی ضرورت ہے۔الغرض اشیاء کی خریدو فروخت، محنت ومزدوری، صنعت وزراعت اور دیگر معاشی معاملات انسانی زندگی کے لوازم ہیں۔اللہ تعالیٰ نے اس سلسلے میں ہماری مکمل رہنمائی فرمائی ہے جس پر عمل پیرا ہوکر دنیا وآخرت میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔ان احکام پر عمل کرنا دنیا نہیں بلکہ عین دین اور عین عبادت ہے اور اس پر اسی طرح اجرو ثواب کا وعدہ ہے جس طرح نماز، روزے اور دیگر عبادات کی ادائیگی پر ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے معاملات کا آغاز كتاب البيوع سے فرمایا ہے۔لفظ بيوع بيع کی جمع ہے ۔اس کے معنی فروخت کرنا ہیں۔بعض اوقات خریدنے کے معنی میں بھی یہ لفظ کا استعمال ہوتا ہے۔شرعی اصطلاح میں کسی چیز کا مالک بننے کے ارادے سے مال کا مال کے ساتھ تبادلہ کرنا بیع کہلاتا ہے۔یہ خریدوفروخت اور تجارت انسانی ضروریات پوری کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔تجارت کے حسب ذیل چار بنیادی اجزاء ہیں: (1) مشتری (خریدار)(2)بائع (فروخت کار)(3)بیع(مال تجارت)(4)بیع (معاہدۂ تجارت)۔قرآن کریم نے تجارت کے لیے باہمی رضامندی کو بنیادی اصول قرار دیا ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ فریقین کا خریدو فروخت کے ہر پہلو پر مطلع ہو کر اپنے آزاد فیصلے سے معاہدۂ تجارت پر رضامند ہونا ضروری ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُم بَيْنَكُم بِالْبَاطِلِ إِلَّا أَن تَكُونَ تِجَارَةً عَن تَرَاضٍ مِّنكُمْ ۚ وَلَا تَقْتُلُوا أَنفُسَكُمْ ۚ إِنَّ اللَّـهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا ﴿٢٩﴾) اے ایمان والو! آپس میں ایک دوسرے کا مال باطل طریقے سے مت کھاؤ مگریہ کے آپس کی رضامندی سے تجارت ہو،اور تم اپنے آپ کو قتل نہ کرو،بے شک اللہ تم پر بہت رحم کرنے والا ہے۔"( النساء29:4)باطل طریقے سے مراد لین دین کاروبار اور تجارت کے دو طریقے ہیں جن میں فریقین کی حقیقی رضامندی یکساں طور پر نہیں پائی جاتی بلکہ اس میں ایک فریق کا تو مفاد ملحوظ رہتا ہے جبکہ دوسرا دھوکے یا نقصان کا نشانہ بنتا ہے۔اگر کسی معاملے میں دھوکا پایا جائے یا اس میں ایک فریق کی بے بسی اور مجبوری کو دخل ہوتو اگرچہ وہ بظاہر اس پر راضی ہوں،تاہم شریعت کی رو سے یہ باطل طریقے ہیں جنھیں حرام ٹھہرایا گیا ہے،اس لیے لین دین اور باہمی تجارت نہ تو کسی دباؤ سے ہو اور نہ اس میں فریب اور ضرر ہی کو دخل ہو۔اگرچہ خریدوفروخت کی حلت قرآنی نص سے ثابت ہے لیکن ہر قسم کی خریدوفروخت حلال نہی بلکہ مندرجہ ذیل شرائط کے ساتھ اسے جائز قرار دیا گیا ہے:(1) فریقین باہمی رضامندی سے سودا کریں۔(2)خریدی ہوئی چیز اور اس کا معاوضہ مجہول نہ ہو۔(3)قابل فروخت چیز فرخت کرنے والے کی ملکیت ہو اور وہ اسے خریدار کے حوالے کرنے پر قادر ہو۔(4)فروخت ہونے والی چیز میں کسی قسم کا عیب چھپا ہوانہ ہو۔(5) کسی حرام چیز کی خریدوفروخت نہ ہو اور نہ اس میں سود کو بطور حیلہ جائز قرار دیا گیا ہو۔(6)اس خریدوفروخت اور تجارت میں کسی فریق کو دھوکا دینا مقصود نہ ہو۔ (7)اس تجارتی لین دین میں حق رجوع کو برقرار رکھا گیا ہو۔کتب حدیث میں خریدو فروخت کی تقریباً تیس اقسام کو انھی وجہ سے ھرام ٹھہرایا گیا ہے۔ ہم ان کی آئندہ وضاحت کریں گے۔علامہ عینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :امام بخاری رحمہ اللہ نے عبادات کے بیان سے فراغت کے بعد معاملات کا آغاز فرمایا کیونکہ عبادات سے مراد فوائد اخروی حاصل کرنا ہے جبکہ معاملات سے دنیوی مفاد پیش نظر ہوتا ہے۔عبادات چونکہ اہم ہیں،اس لیے انھیں مقدم کیا۔معاملات کا تعلق ضروریات سے ہے،اس لیے انھیں عبادات کے بعد بیان کیا ہے،پھر معاملات میں سے خریدوفروخت کے مسائل کو پہلے بیان کیا ہے کیونکہ زندگی میں اکثر وبیشتر اس سے واسطہ پڑتا ہے۔( عمدۃ القاری:8/291)حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:تمام اہل اسلام نے خریدو فروخت کے جواز پر اتفاق کیا ہے اور عقل وحکمت بھی اس کے جواز کا تقاضا کرتی ہے کیونکہ انسانی ضروریات اس سے پوری ہوتی ہیں۔( فتح الباری:4/364) امام بخاری رحمہ اللہ نے خریدوفروخت کے مسائل پر مشتمل دوسوسینتالیس مرفوع احادیث بیان کی ہیں۔ان میں چھیالیس معلق ہیں جبکہ باقی احادیث کو متصل سند سے بیان کیا ہے۔مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے مروی باون آثار بھی بیان کیے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر ایک سوتیرہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو علم معیشت میں اساسی قواعد کی حیثیت رکھتے ہیں۔ان قواعد واصول سے پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تجارت کے نام پر لوٹ مار کے کھلے راستوں کے ساتھ ساتھ ان تمام پوشیدہ راہوں کو بھی بند کردیا ہے جو تجارت کو عدل وانصاف اور خیر خواہی سے ہٹا کر ظلم وزیادتی کے ساتھ دولت سمیٹنے کی طرف لے جانے والے ہیں،آپ نے انتہائی باریک بینی سے نظام تجارت کا جائزہ لیا اور اس کی حدود وقیود متعین فرما کر عمل تجارت کو ہر طرح کے ظلم اور استحصالی ہتھکنڈوں سے پاک کردیا۔ ہمیں چاہیے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کے عنوانات کی روشنی میں اپنی تجارت کو ان اصولوں پر استوار کریں جو مکمل طور پر انسانی فلاح وبہبود کی ضمانت دیتے ہیں۔قارئین سے استدعا ہے کہ كتاب البيوع کا مطالعہ کرتے وقت ہماری معروضات کو ضرور پیش نظر رکھیں۔اللہ تعالیٰ حق بینی اور اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے ۔ آمين
سیاق وسباق اور پس منظر کے اعتبار سے پہلی آیت کفار کے جواب میں ہے جنہوں نے کہا تھا:" تجارت بھی تو آخر سود ہی جیسی چیز ہے" یعنی جب تجارت میں لگے ہوئے روپے کا منافع جائز ہے تو قرض پر دیے ہوئے روپے کا منافع کیوں ناجائز ہے۔اور دوسری آیت سے مقصود یہ ہے کہ اگرچہ روز مرہ کی خریدوفروخت میں بھی معاملۂ بیع کا تحریر میں آجانا بہتر ہے جیسا کہ آج کل کیش میمو لکھنے کا طریقہ رائج ہے،تاہم ایسا کرنا لازم نہیں بلکہ اسے تحریر میں لائے بغیر معاملہ طے کیا جاسکتا ہے لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے ان ہر دو آیات سے خریدوفروخت کی مشروعیت کو ثابت کیا ہے۔حافظ عینی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:انسان طبعی طور پر لالچی واقع ہوا ہے ،دوسروں کی چیز کو للچائی ہوئی نگاہوں سے دیکھنے کا عادی ہے، اگر اسے ضرورت ہو تو چوری، ڈکیتی، لوٹ، کھسوٹ اور دھوکا فریب سے اسے حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے اس کے حصول کے لیے خریدو فروخت کا معاملہ مشروع قرار دیا ہے تاکہ کسی پر ظلم اور زیادتی نہ ہو،امن اور آتشی کے ساتھ لوگ زندگی بسر کریں۔( عمدۃ القاری:8/292)
تمہید باب
اس روایت کو خود امام بخاری رحمہ اللہ نے متصل سند سے بیان کیا ہے۔( صحیح البخاری،البیوع،حدیث:2236) اس عنوان کو کتاب البیوع میں اس لیے ذکر کیا ہے کہ شریعت نے جس جانور کو قتل کرنے کا حکم دیا ہے وہ اس کے حرام ہونے کی علامت ہے اور حرام چیز کی خریدوفروخت جائز نہیں جیسا کہ حدیث جابر میں اس کی صراحت ہے۔اس وضاحت کے بعد امین احسن اصلاحی کی قابل اصلاح فکر کو ملاحظہ فرمائیں کہ امام صاحب نے قتل خنزیر کا باب شاید ندرت کے خیال سے باندھا ہے ورنہ کتاب البیوع کے حوالے سے کوئی بات سمجھ میں نہیں آتی۔( تدبرحدیث:1/508) جب انسان کی سوچ وفکر میں کجی ہو اور وہ محدثین کے کارہائے نمایاں کو استخفاف سے دیکھنے کا عادی ہو، وہاں سمجھ میں کیا آسکتا ہے؟ کاش اس مقام پر فتح الباری کا مطالعہ کیا ہوتا تو یہ حضرت اس قدر ناپختہ بات نہ کہتے۔( فتح الباری:4/522)
اور جابر ؓ نے کہا کہ نبی کریم ﷺنے سور کی خرید و فروخت حرام قرار دی ہے
حدیث ترجمہ:
حضرت ابو ہریرۃ ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہاکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے!عنقریب تم میں حضرت عیسیٰ ؑ ابن مریم نازل ہوں گے۔ اس وقت وہ حاکم منصف ہوں گے۔ صلیب توڑ ڈالیں گے۔ خنزیر کو قتل کریں گے۔ جزیہ ختم کردیں گے اور مال اس طرح بہے گا کہ اسے کوئی قبول کرنے والا نہ ہوگا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) امام بخاری ؒ نے یہ حدیث کتاب البیوع میں اس لیے ذکر کی ہے کہ جو شے حرام ہو اور اس کی بیع جائز نہ ہواسے مار ڈالنا جائز ہے۔ خنزیر کی بیع کو رسول اللہ ﷺ نے حرام قرار دیا ہے، اس اعتبار سے اس کا مار ڈالنا جائز ہے۔ لیکن ذمیوں (کافر جو مسلمانوں کی سلطنت میں رہتے ہوں) کے خنزیر کو مارنا جائز نہیں کیونکہ وہ ان کے نزدیک مال ہے اور ہمیں ان کے مال ضائع کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ (2) سیدنا عیسیٰ ؑ مطلق طور پر خنزیر کو مار ڈالیں گے کیونکہ ان کے زمانے میں کوئی ذمی نہیں ہوگا بلکہ اہل کتاب سب مسلمان ہوجائیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ صلیب بھی توڑ ڈالیں گے۔ حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں: قتل خنزیر سے مراد یہ ہے کہ وہ اپنے دور میں خنزیر کی نسل کشی کا حکم جاری کریں گے، اس میں اس کے کھانے کی حرمت میں مبالغے کا بیان ہے اور عیسائیوں کے لیے سخت وعید ہے جو حضرت عیسیٰ ؑ کی پیروی کے مدعی ہیں لیکن خنزیر کھانا حلال سمجھتے ہیں اور اس کی محبت میں مبالغے کرتے ہیں۔ (فتح الباري:522/4) (3) متعدد آیات قرآنیہ اور احادیث شریفہ کی بنا پر جملہ اہل اسلام کا یہ عقیدہ ہے کہ حضرت عیسیٰ ؑ آسمان پر زندہ ہیں، قرب قیامت کے وقت وہ نازل ہوں گے اور شریعت محمد یہ نافذ کریں گے۔ (4) مذکورہ حدیث کے مطابق رسول اللہ ﷺ نے حلفاً بیان فرمایا ہے کہ وہ ضرور نازل ہوں گے۔ لیکن امین احسن اصلاحی نے اس موقع پر بھی دجل سے کام لے کر لکھا ہے کہ نصارٰی کی یہ روایت ہمارے ہاں بھی آگئی ہے...... قرآن میں کہیں نہیں ہے کہ مسیح ؑ دوبارہ آئیں گے۔ اتنا بڑا عقیدہ قرآن میں ہونا چاہیے تھا، اخبار آحاد پر ہم کوئی عقیدہ قائم نہیں کرسکتے۔ (تدبرحدیث:509/1) حضرت اصلاحی نے اس حدیث کی سند پر بھی بحث کی ہے، لکھا ہے کہ اس میں ایک راوی تو ابن شہاب ہیں جن کے متعلق میں اپنی رائے کا اظہار کرتا آرہا ہوں۔ دوسرے راوی سعید بن مسیّب ہیں۔ ان سے مجھے پہلے بڑا حسن ظن رہا ہے کہ مدینہ کے جید علماء میں سے ہیں۔ میں ان کی تعریف کرتا کہ فقہ میں ان کا بڑا مقام ہے لیکن میں نے جب ان کے بارے میں ائمہ جرح وتعدیل کی رائے پڑھی تو معلوم ہوا کہ یہ شیعوں کے ساتھ شیعہ اور سنیوں کے ساتھ سنی ہیں تو میں بڑا مایوس ہوا۔ (تدبرحدیث:507/1) ہمارے نزدیک اس سے بڑا کوئی جھوٹ نہیں جو اس "امام" نے لکھا ہے۔ ہماری معلومات کے مطابق جرح وتعدیل کے کسی امام نے بھی حضرت سعید بن مسیّب کے متعلق ایسا نہیں لکھا۔ عقیدۂ نزول کے متعلق ہم اپنی گزارشات آئندہ کتاب الانبیاء، باب نزول عیسیٰ ابن مریم کے تحت بیان کریں گے۔ بإذن الله.
ترجمۃ الباب:
حضرت جابر ؓ کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے خنزیر کی خرید وفروخت کو حرام قراردیا ہے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے لیث نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے، ان سے ابن مسیب نے اور انہوں نے ابوہریرہ ؓ کو یہ فرماتے سنا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، وہ زمانہ آنے والا ہے جب ابن مریم ( عیسیٰ ؑ ) تم میں ایک عادل اور منصف حاکم کی حیثیت سے اتریں گے۔ وہ صلیب کو توڑ ڈالیں گے، سوروں کو مار ڈالیں گے اور جزیہ کو ختم کر دیں گے۔ اس وقت مال کی اتنی زیادتی ہو گی کہ کوئی لینے والا نہ رہے گا۔
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے امام بخاری ؒ نے یہ نکالا کہ سور نجس العین ہے اس کی بیع جائز نہیں ورنہ حضرت عیسیٰ ؑ اسے قتل کیوں کرتے۔ اور نیست و نابود کیوں کرتے۔ جزیہ موقوف کرنے سے یہ غرض ہے کہ حضرت عیسیٰ ؑ فرمائیں گے یا مسلمان ہو یا قتل ہو۔ جزیہ قبول نہ کریں گے۔ اس حدیث سے صاف حضرت عیسیٰ ؑ کا قیامت کے قریب اترنا اور حکومت کرنا اور صلیب توڑنا، جزیہ موقوف کرنا یہ سب باتیں ثابت ہوتی ہیں۔ اور تعجب ہوتا ہے اس شخص کی عقل پر جو قادیانی مرزا کو مسیح موعود سمجھتا ہے۔ اللهم ثبتنا علی الحق و جنّبنا من الفتن ما ظهر منها و ما بطن (وحیدی) قتل خنزیر سے مراد یہ کہ یأمر بإعدامه مبالغة في تحریم أکله و فیه توبیخ عظیم للنصاری الذین یدعون أنهم علی طریقة عیسی ثم یستحلون أکل الخنزیر و یبالغون في محبته۔ یعنی حضرت عیسیٰ ؑ اپنے دور حکومت میں خنزیر کی نسل کو ختم کرنے کا حکم جاری کر دیں گے۔ اس میں اس کے کھانے کی حرمت میں مبالغہ کا بیان ہے اوراس میں ان عیسائیوں کے لیے بڑی ڈانٹ ہے جو حضرت عیسیٰ ؑ کے پیروکار ہونے کے مدعی ہیں، پھر خنزیر کھانا حلال جانتے ہیں اوراس کی محبت میں مبالغہ کرتے ہیں۔ آیات قرآنیہ اور احادیث صحیحہ کی بنا پر جملہ اہل اسلام کا از سلف تا خلف یہ اعتقاد رہا ہے کہ حضرت عیسیٰ ؑ بن مریم ؑ آسمان پر زندہ ہیں اور وہ قیامت کے قریب دنیا میں نازل ہو کر شریعت محمدیہ کے پیروکار ہوں گے اور اس کے تحت حکومت کریں گے۔ حدیث مذکورہ میں آنحضرت ﷺ نے حلفیہ بیان فرمایا ہے کہ وہ بالضرور نازل ہوں گے چوں کہ آج کل فرقہ قادیانیہ نے اس بارے میں بہت کچھ دجل پھیلا کر بعض نوجوانوں کے دماغوں کو مسموم کر رکھا ہے۔ لہٰذا چند دلائل کتاب و سنت سے یہاں پیش کئے جاتے ہیں جو اہل ایمان کی تسلی کے لیے کافی ہوں گے۔ قرآن مجید کی آیت شریفہ نص قطعی ہے جس سے حیات مسیح ؑ روز روشن کی طرح ثابت ہے۔ ﴿وَإِنْ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ إِلَّا لَيُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يَكُونُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا﴾(النساء: 159)یعنی جب حضرت عیسیٰ ؑ آسمان سے نازل ہوں گے تو کوئی اہل کتاب یہودی اور عیسائی ایسا باقی نہ رہے گا جو آپ پر ایمان نہ لے آئے اور قیامت کے دن وہ ان پر گواہ ہوںگے۔ حیات مسیح کے لیے یہ آیت قطعی الدلالۃ ہے کہ وہ قرب قیامت نازل ہوں گے اور جملہ اہل کتاب ان پر ایمان لائیں گے۔ دوسری آیت یہ ہے: ﴿وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ وَلَكِنْ شُبِّهَ لَهُمْ وَمَا قَتَلُوهُ يَقِينًا﴾ (157) ﴿بَلْ رَفَعَهُ اللَّهُ إِلَيْهِ وَكَانَ اللَّهُ عَزِيزًا حَكِيمًا﴾(النساء: 158-157) یعنی یہودیوں نے نہ حضرت عیسیٰ ؑ کو قتل کیا نہ ان کو پھانسی دی، یقینا ایسا نہیں ہوا۔ بلکہ اللہ نے ان کو اپنی طرف اٹھا لیا۔ اور اللہ غالب حکمت والا ہے۔ رفع سے مراد رفع مع الجسد ہے یعنی جسم مع روح، اللہ نے ان کو آسمان پر اٹھا لیا اور اب وہ وہاں زندہ موجود ہیں۔ یہ آیت بھی حیات مسیح پر قطعی الدلالۃ ہے۔ تیسری آیت یہ ہے ﴿إِذْ قَالَ اللَّهُ يَاعِيسَى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَيَّ وَمُطَهِّرُكَ مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا وَجَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ ثُمَّ إِلَيَّ مَرْجِعُكُمْ فَأَحْكُمُ بَيْنَكُمْ فِيمَا كُنْتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُونَ﴾(آل عمران :55)یعنی جس وقت کہا اللہ نے، اے عیسیٰ تحقیق لینے والا ہوں میں تجھ کو اور اٹھانے والا ہوں تجھ کو اپنی طرف اور پاک کرنے والا ہوں تجھ کو ان لوگوں سے کہ کافر ہوئے اور کرنے والا ہوں ان لوگوں کو کہ پیروی کریں گے تیری اوپر ان لوگوں کے کہ کافر ہوئے قیامت کے دن تک۔ یہ ترجمہ شاہ عبدالقادر ؒ کا ہے۔ آگے فائدہ میں لکھتے ہیں کہ یہود کے عالموں نے ا س وقت کے بادشاہ کو بہکایا کہ یہ شخص ملحد ہے تورات کے حکم سے خلاف بتلاتا ہے اس نے لوگ بھیجے کہ ان کو پکڑ لادیں، جب وہ پہنچے حضرت عیسی ؑ کے یار سرک گئے۔ اس شنابی میں حق تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ ؑ کو آسمان پر اٹھا لیا۔ اور ایک صورت ان کی رہ گئی۔ اس کو پکڑ کر لائے پھر سولی پر چڑھایا۔ توفی کے اصل و حقیقی معنی أخذ الشيئ وافیا کے ہیں جیسا کہ بیضاوی و قسطلانی اور رازی وغیرہم نے لکھا ہے۔ اور موت توفی کے معنی مجازی ہیں نہ حقیقی، اسی واسطے بغیر قیام قرینہ کے موت کے معنی میں استعمال نہیں ہوتا اور یہاں کوئی قرینہ موت کا قائم نہیں ہے اس لیے اصل و حقیقی معنی یعنی اخذ الشی و افیا مراد لئے جائیں گے۔ اور انسان کا وافیا لینا یہی ہے کہ مع روح و جسم کے لیا جائے۔ وهو المطلوب۔ لہٰذا یہ آیت بھی حیات مسیح پر قطعی الدلالۃ ہے۔ چوتھی آیت ﴿وَإِنَّهُ لَعِلْمٌ لِلسَّاعَةِ فَلَا تَمْتَرُنَّ بِهَا وَاتَّبِعُونِ هَذَا صِرَاطٌ مُسْتَقِيمٌ﴾(الزخرف:61) اور تحقیق وہ عیسیٰ قیامت کی نشانی ہے۔ پس مت شک کرو ساتھ اس کے اور پیروی کرو میری، یہ ہے راہ سیدھی۔ اس آیت کے ذیل میں تفسیر ابن کثیر میں ہے۔ المراد بذلك نزوله قبل یوم القیامة قال مجاهد و إنه لعلم للساعة أي آیة للساعة خروج عیسیٰ بن مریم قبل یوم القیامة و هکذا روي عن أبي هریرة و ابن عباس و أبي العالیة و أبي ملك و عکرمة و الحسن و قتادة و ضحاك و غیرهم و قد تواترت الأحادیث عن رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم أنه أخبر بنزول عیسی بن مریم علیه السلام قبل یوم القیامة إماما عدلا و حکما مقسطاً (ابن کثیر) یعنی یہاں مراد عیسیٰ ؑ ہیں۔ وہ قیامت کے قریب نازل ہوں گے۔ مجاہد نے کہا کہ وہ قیامت کی نشانی ہوں گے۔ یعنی قیامت کی علامت قیامت سے قبل حضرت عیسیٰ ؑ کا آسمان سے نازل ہونا ہے اور ابوہریرہ ؓ اور ابن عباس ؓ اور ابوالعالیہ اور ابومالک اور عکرمہ اور حسن اور قتادہ اور ضحاک وغیرہ نے بیان فرمایا ہے اور رسول اللہ ﷺ سے اس بارے میں متواتر احادیث صحیحہ موجود ہیں کہ حضرت عیسیٰ ؑ قیامت کے قریب امام عادل اور حاکم منصف بن کر نازل ہوں گے۔ آیات قرآنی کے علاوہ ان جملہ احادیث صحیحہ کے لیے دفتر کی ضرورت ہے۔ ان ہی میں سے ایک یہ حدیث بخاری بھی ہے جو یہاں مذکور ہوئی ہے۔ پس حیات مسیح کا عقیدہ جملہ اہل اسلام کا عقیدہ ہے اور یہ کتاب اللہ و احادیث رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہے جو اس کا انکار کرے وہ قرآن و احادیث کا انکاری ہے۔ ایسے منکروں کے ہفوات پر ہرگز توجہ نہ کرنی چاہئے۔ تفصیل کے لیے بہت سی کتابیں اس موضوع پر موجود ہیں۔ مزید طوالت کی گنجائش نہیں۔ اہل ایمان کے لیے اس قدر بھی کافی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA): Allah's Apostle (ﷺ) said, "By Him in Whose Hands my soul is, son of Mary (Jesus) will shortly descend amongst you people (Muslims) as a just ruler and will break the Cross and kill the pig and abolish the Jizya (a tax taken from the non-Muslims, who are in the protection, of the Muslim government). Then there will be abundance of money and no-body will accept charitable gifts. ________