باب : اگر لونڈی خریدے تو استبراء رحم سے پہلے اس کو سفر میں لے جا سکتا ہے یا نہیں؟
)
Sahi-Bukhari:
Sales and Trade
(Chapter: Travel with a slave-girl)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
´اور امام حسن بصری نے کہا کہ` اس میں کوئی حرج نہیں کہ ایسی باندی کا(اس کا مالک)بوسہ لے لے یا اپنے جسم سے لگائے، اور ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ جب ایسی باندی جس سے وطی کی جا چکی ہے، ہبہ کی جائے یا بیچی جائے یا آزاد کی جائے تو ایک حیض تک اس کا استبراء رحم کرنا چاہئے۔ اور کنواری کے لیے استبراء رحم کی ضرورت نہیں ہے۔ عطاء نے کہا کہ اپنی حاملہ باندی سے شرمگاہ کے سوا باقی جسم سے فائدہ حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ مومنون میں فرمایا«إلا على أزواجهم أو ما ملكت أيمانهم»”مگر اپنی بیویوں سے یا باندیوں سے فائدہ:استبراء کہتے ہیں لونڈی کا رحم پاک کرنے کو، یعنی کوئی نئی لونڈی خریدے، تو جب تک حیض نہ آئے اس سے صحبت نہ کرے۔ اور سفر میں لے جانے کا ذکر اس لیے آیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت صفیہ رضی اللہ عنہ کو جوشروع میں بہ حیثیت لونڈی کے آئی تھیں، سفر میں اپنے ساتھ رکھا۔ آگے روایت میں سد الروحاءکا ذکر آیا ہے جو مدینہ کے قریب ایک مقام تھا۔ حیس کا ذکر آیاہے، جو ولیمہ میں تیار کیا گیا تھا۔ یہ گھی، کھجور، اور پنیر سے ملا کر بنایا جاتا ہے۔ باب کے آخر میں حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے سورۃ مومنون کی ایک آیت کا حصہ نقل کیا اور اس کے اطلاق سے یہ نکالا کہ بیویوں اور لونڈیوں سے مطلقاً حظ نفس درست ہے۔ صرف جماع استبراءسے پہلے ایک حدیث کی رو سے منع ہوا تو دوسرے عیش بدستور درست رہیں گے۔
2235.
حضرت انس ؓ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ نبی کریم ﷺ خیبر تشریف لائے۔ جب اللہ تعالیٰ نے خیبر کے قلعوں پر آپ کو فتح عطا فرمائی توآپ سے حضرت صفیہ ؓ بنت حیی بن اخطب کا حسن وجمال ذکر کیاگیا۔ ان کاشوہر قتل ہوچکا تھا اور وہ خود دلہن بنی ہوئی تھیں۔ رسول اللہ ﷺ نے انھیں ا پنے لیے منتخب فرمالیا۔ آپ انھیں خیبرسے ساتھ لے کر چلے۔ جب سدروحاء پر پہنچے تو حضرت صفیہ حیض سے پاک ہوگئیں۔ آپ نے ان سے خلوت اختیار کی۔ پھر ایک چھوٹے سے دستر خوان پر حلوہ تیار کرکے رکھ دیا، پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اپنے ارد گرد لوگوں میں اعلان کرو (کہ وہ آکر اسے کھائیں)۔‘‘ بس یہی حضرت صفیہ ؓ کے متعلق آپ کی طرف سے دعوت ولیمہ تھی۔ پھر ہم مدینہ طیبہ کی طرف روانہ ہوئے۔ حضرت انس ؓ کابیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ اپنے پیچھے اپنی عباء سے حضرت صفیہ ؓ کے لیے جگہ ہموار کررہے تھے۔ پھر آپ نے اونٹ کے پاس بیٹھ کر اپنا گھٹنا رکھ دیا تو حضرت صفیہ ؓ نے اپنا پاؤں آپ کے گھٹنے پر رکھا اور اونٹ پر سوار ہوگئیں۔
تشریح:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ آقا اپنی لونڈی کو سفر میں اپنے ہمراہ لے جاسکتا ہے لیکن استبرائے رحم سے قبل اس سے مجامعت کی اجازت نہیں۔ (2) اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت صفیہ ؓ کو اپنے لیے منتخب فرمالیا تھا جبکہ حدیث انس سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت صفیہ ؓ حضرت دحیہ کلبی ؓ کو دی تھیں؟ اس تعارض کو اس طرح ختم کیا گیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے پہلے تو حضرت دحیہ کو دی تھیں، پھر جب پتہ چلا کہ وہ تو سردار کی بیٹی ہیں تو اس وقت کے قانون کے مطابق سردار کی بیٹی اگر گرفتار ہو کر آتی تو سردار ہی کے حصے میں آتی، اس بنا پر آپ نے انھیں حضرت دحیہ ؓ سے سات غلاموں کے عوض واپس لے لیا۔ والله أعلم.
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2168
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2235
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2235
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2235
تمہید کتاب
ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اللہ نے تجارت کوحلال کیا ہے۔ اور سود کو حرام قراردیا ہے۔ "
نیز اللہ تعالیٰ نے فرمایا؛"ہاں جوتجارتی لین دین دست بدست تم لوگ کرتے ہو(اس کو نہ لکھا جائے تو کوئی حرج نہیں)"
فائدہ:سود، جوا اور رشوت لینے دینے میں بھی باہمی رضا مندی پائی جاتی ہے لیکن یہ حقیقی نہیں بلکہ اضطراری ہوتی ہے کیونکہ سود پر قرض لینے والے کو قرض حسنہ مل سکتا ہوتو وہ کبھی سود پر قرض نہ لے۔ جوا کھیلنے والا اس لیے رضا مند ہوتا ہے کہ ان میں سے ہرایک کو اپنے جیتنے کی امید ہوتی ہے اور اگر کسی کوہارنے کا اندیشہ ہوتو وہ کبھی جوا نہیں کھیلے گا۔ اسی طرح اگر رشوت دینے والے کو معلوم ہوکہ اسے رشوت دیے بغیر حق مل سکتاہے تو وہ کبھی رشوت نہ دے۔ اس کے علاوہ اگر سودے بازی میں ایک فریق کی پوری رضا مندی نہ ہو اور اسے اس پر مجبور کردیا جائے تو وہ بھی اس ضمن میں آتا ہے۔
انسانی معاشرے کو تعلقات کے اعتبار سے دوحصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے،چنانچہ انسان اپنے خالق سے تعلق قائم کرتا ہے اسے ہم عبادات سے تعبیر کرتے ہیں۔اقرار شہادتین، نماز، زکاۃ، حج اور روزہ وغیرہ اسی تعلق مع اللہ کے مظاہر ہیں۔دوسرے یہ کے انسان کو اپنے جیسے دوسرے انسانوں سے واسطہ پڑتا ہے اسے معاملات کا نام دیا جاتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے عبادات سے فراغت کے بعد اب معاملات کا آغاز کیا ہے۔انسانوں کی فطری ساخت ایسی ہے کہ وہ زندگی گزارنے کے لیے باہمی تعاون اور ایک دوسرے سے لین دین کے محتاج ہیں۔معاشرتی طور پر ہر فرد اور ہر طبقے کی ضرورت دوسرے سے وابستہ ہے،چنانچہ ایک مزدور انسان جس کی ضروریات زندگی بہت مختصر ہیں،اسے بھی اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ بھرنے ک لیے ایسے آدمی کی ضرورت ہے جس سے وہ غلہ وغیرہ لے سکے ،پھر کاشتکار کو اس مزدور کی ضرورت ہے جس سے وہ کھیتی باڑی کے کاموں میں مدد لے سکے ،پھر ان دونوں کو ایک ایسا آدمی درکار ہے جو ان کی ستر پوشی کے لیے کپڑا تیار کرے،پھر سر چھپانے کے لیے مکان اور بیماری کی صورت میں علاج معالجے کی ضرورت ہے۔الغرض اشیاء کی خریدو فروخت، محنت ومزدوری، صنعت وزراعت اور دیگر معاشی معاملات انسانی زندگی کے لوازم ہیں۔اللہ تعالیٰ نے اس سلسلے میں ہماری مکمل رہنمائی فرمائی ہے جس پر عمل پیرا ہوکر دنیا وآخرت میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔ان احکام پر عمل کرنا دنیا نہیں بلکہ عین دین اور عین عبادت ہے اور اس پر اسی طرح اجرو ثواب کا وعدہ ہے جس طرح نماز، روزے اور دیگر عبادات کی ادائیگی پر ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے معاملات کا آغاز كتاب البيوع سے فرمایا ہے۔لفظ بيوع بيع کی جمع ہے ۔اس کے معنی فروخت کرنا ہیں۔بعض اوقات خریدنے کے معنی میں بھی یہ لفظ کا استعمال ہوتا ہے۔شرعی اصطلاح میں کسی چیز کا مالک بننے کے ارادے سے مال کا مال کے ساتھ تبادلہ کرنا بیع کہلاتا ہے۔یہ خریدوفروخت اور تجارت انسانی ضروریات پوری کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔تجارت کے حسب ذیل چار بنیادی اجزاء ہیں: (1) مشتری (خریدار)(2)بائع (فروخت کار)(3)بیع(مال تجارت)(4)بیع (معاہدۂ تجارت)۔قرآن کریم نے تجارت کے لیے باہمی رضامندی کو بنیادی اصول قرار دیا ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ فریقین کا خریدو فروخت کے ہر پہلو پر مطلع ہو کر اپنے آزاد فیصلے سے معاہدۂ تجارت پر رضامند ہونا ضروری ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُم بَيْنَكُم بِالْبَاطِلِ إِلَّا أَن تَكُونَ تِجَارَةً عَن تَرَاضٍ مِّنكُمْ ۚ وَلَا تَقْتُلُوا أَنفُسَكُمْ ۚ إِنَّ اللَّـهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا ﴿٢٩﴾) اے ایمان والو! آپس میں ایک دوسرے کا مال باطل طریقے سے مت کھاؤ مگریہ کے آپس کی رضامندی سے تجارت ہو،اور تم اپنے آپ کو قتل نہ کرو،بے شک اللہ تم پر بہت رحم کرنے والا ہے۔"( النساء29:4)باطل طریقے سے مراد لین دین کاروبار اور تجارت کے دو طریقے ہیں جن میں فریقین کی حقیقی رضامندی یکساں طور پر نہیں پائی جاتی بلکہ اس میں ایک فریق کا تو مفاد ملحوظ رہتا ہے جبکہ دوسرا دھوکے یا نقصان کا نشانہ بنتا ہے۔اگر کسی معاملے میں دھوکا پایا جائے یا اس میں ایک فریق کی بے بسی اور مجبوری کو دخل ہوتو اگرچہ وہ بظاہر اس پر راضی ہوں،تاہم شریعت کی رو سے یہ باطل طریقے ہیں جنھیں حرام ٹھہرایا گیا ہے،اس لیے لین دین اور باہمی تجارت نہ تو کسی دباؤ سے ہو اور نہ اس میں فریب اور ضرر ہی کو دخل ہو۔اگرچہ خریدوفروخت کی حلت قرآنی نص سے ثابت ہے لیکن ہر قسم کی خریدوفروخت حلال نہی بلکہ مندرجہ ذیل شرائط کے ساتھ اسے جائز قرار دیا گیا ہے:(1) فریقین باہمی رضامندی سے سودا کریں۔(2)خریدی ہوئی چیز اور اس کا معاوضہ مجہول نہ ہو۔(3)قابل فروخت چیز فرخت کرنے والے کی ملکیت ہو اور وہ اسے خریدار کے حوالے کرنے پر قادر ہو۔(4)فروخت ہونے والی چیز میں کسی قسم کا عیب چھپا ہوانہ ہو۔(5) کسی حرام چیز کی خریدوفروخت نہ ہو اور نہ اس میں سود کو بطور حیلہ جائز قرار دیا گیا ہو۔(6)اس خریدوفروخت اور تجارت میں کسی فریق کو دھوکا دینا مقصود نہ ہو۔ (7)اس تجارتی لین دین میں حق رجوع کو برقرار رکھا گیا ہو۔کتب حدیث میں خریدو فروخت کی تقریباً تیس اقسام کو انھی وجہ سے ھرام ٹھہرایا گیا ہے۔ ہم ان کی آئندہ وضاحت کریں گے۔علامہ عینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :امام بخاری رحمہ اللہ نے عبادات کے بیان سے فراغت کے بعد معاملات کا آغاز فرمایا کیونکہ عبادات سے مراد فوائد اخروی حاصل کرنا ہے جبکہ معاملات سے دنیوی مفاد پیش نظر ہوتا ہے۔عبادات چونکہ اہم ہیں،اس لیے انھیں مقدم کیا۔معاملات کا تعلق ضروریات سے ہے،اس لیے انھیں عبادات کے بعد بیان کیا ہے،پھر معاملات میں سے خریدوفروخت کے مسائل کو پہلے بیان کیا ہے کیونکہ زندگی میں اکثر وبیشتر اس سے واسطہ پڑتا ہے۔( عمدۃ القاری:8/291)حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:تمام اہل اسلام نے خریدو فروخت کے جواز پر اتفاق کیا ہے اور عقل وحکمت بھی اس کے جواز کا تقاضا کرتی ہے کیونکہ انسانی ضروریات اس سے پوری ہوتی ہیں۔( فتح الباری:4/364) امام بخاری رحمہ اللہ نے خریدوفروخت کے مسائل پر مشتمل دوسوسینتالیس مرفوع احادیث بیان کی ہیں۔ان میں چھیالیس معلق ہیں جبکہ باقی احادیث کو متصل سند سے بیان کیا ہے۔مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے مروی باون آثار بھی بیان کیے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر ایک سوتیرہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو علم معیشت میں اساسی قواعد کی حیثیت رکھتے ہیں۔ان قواعد واصول سے پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تجارت کے نام پر لوٹ مار کے کھلے راستوں کے ساتھ ساتھ ان تمام پوشیدہ راہوں کو بھی بند کردیا ہے جو تجارت کو عدل وانصاف اور خیر خواہی سے ہٹا کر ظلم وزیادتی کے ساتھ دولت سمیٹنے کی طرف لے جانے والے ہیں،آپ نے انتہائی باریک بینی سے نظام تجارت کا جائزہ لیا اور اس کی حدود وقیود متعین فرما کر عمل تجارت کو ہر طرح کے ظلم اور استحصالی ہتھکنڈوں سے پاک کردیا۔ ہمیں چاہیے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کے عنوانات کی روشنی میں اپنی تجارت کو ان اصولوں پر استوار کریں جو مکمل طور پر انسانی فلاح وبہبود کی ضمانت دیتے ہیں۔قارئین سے استدعا ہے کہ كتاب البيوع کا مطالعہ کرتے وقت ہماری معروضات کو ضرور پیش نظر رکھیں۔اللہ تعالیٰ حق بینی اور اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے ۔ آمين
سیاق وسباق اور پس منظر کے اعتبار سے پہلی آیت کفار کے جواب میں ہے جنہوں نے کہا تھا:" تجارت بھی تو آخر سود ہی جیسی چیز ہے" یعنی جب تجارت میں لگے ہوئے روپے کا منافع جائز ہے تو قرض پر دیے ہوئے روپے کا منافع کیوں ناجائز ہے۔اور دوسری آیت سے مقصود یہ ہے کہ اگرچہ روز مرہ کی خریدوفروخت میں بھی معاملۂ بیع کا تحریر میں آجانا بہتر ہے جیسا کہ آج کل کیش میمو لکھنے کا طریقہ رائج ہے،تاہم ایسا کرنا لازم نہیں بلکہ اسے تحریر میں لائے بغیر معاملہ طے کیا جاسکتا ہے لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے ان ہر دو آیات سے خریدوفروخت کی مشروعیت کو ثابت کیا ہے۔حافظ عینی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:انسان طبعی طور پر لالچی واقع ہوا ہے ،دوسروں کی چیز کو للچائی ہوئی نگاہوں سے دیکھنے کا عادی ہے، اگر اسے ضرورت ہو تو چوری، ڈکیتی، لوٹ، کھسوٹ اور دھوکا فریب سے اسے حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے اس کے حصول کے لیے خریدو فروخت کا معاملہ مشروع قرار دیا ہے تاکہ کسی پر ظلم اور زیادتی نہ ہو،امن اور آتشی کے ساتھ لوگ زندگی بسر کریں۔( عمدۃ القاری:8/292)
تمہید باب
استبرائے رحم کا مطلب یہ ہے کہ زن وشو کا تعلق قائم کرنے سے پہلے یہ دیکھ لیا جائے کہ اس کے رحم میں بچہ تو نہیں ہے۔اس لیے کم ازکم ایک حیض آنے کا انتظار کیا جائے۔ ہاں، اگر لونڈی کنواری ہے تو اس کے لیے استبراء کی ضرورت نہیں۔سفرو حضر میں جماع سے قبل استبرائے رحم ضروری ہے۔(2) عنوان میں سفر کا ذکر اس لیے ہے کہ دوران سفر میں اختلاط وغیرہ سے جماع کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔حضرت حسن بصری کا قول امام ابن ابی شیبہ نے متصل سند سے بیان کیا ہے۔( المصنف لابن ابی شیبۃ:6/138) اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کا اثر بھی مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے۔( المصنف لابن ابی شیبۃ:6/133) عطاء بن ابی رباح کے کلام میں حاملہ لونڈی سے مراد وہ لونڈی ہے جو اس کے مالک کے علاوہ کسی دوسرے سے حاملہ ہوئی ہو کیونکہ اگر وہ اپنے مالک سے حاملہ ہے تو اس سے جماع کرنے کے جواز میں کوئی شک ہی نہیں۔( فتح الباری:4/536)
´اور امام حسن بصری نے کہا کہ` اس میں کوئی حرج نہیں کہ ایسی باندی کا (اس کا مالک) بوسہ لے لے یا اپنے جسم سے لگائے، اور ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ جب ایسی باندی جس سے وطی کی جا چکی ہے، ہبہ کی جائے یا بیچی جائے یا آزاد کی جائے تو ایک حیض تک اس کا استبراء رحم کرنا چاہئے۔ اور کنواری کے لیے استبراء رحم کی ضرورت نہیں ہے۔ عطاء نے کہا کہ اپنی حاملہ باندی سے شرمگاہ کے سوا باقی جسم سے فائدہ حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ مومنون میں فرمایا «إلا على أزواجهم أو ما ملكت أيمانهم» ”مگر اپنی بیویوں سے یا باندیوں سے فائدہ:استبراء کہتے ہیں لونڈی کا رحم پاک کرنے کو، یعنی کوئی نئی لونڈی خریدے، تو جب تک حیض نہ آئے اس سے صحبت نہ کرے۔ اور سفر میں لے جانے کا ذکر اس لیے آیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت صفیہ رضی اللہ عنہ کو جوشروع میں بہ حیثیت لونڈی کے آئی تھیں، سفر میں اپنے ساتھ رکھا۔ آگے روایت میں سد الروحاءکا ذکر آیا ہے جو مدینہ کے قریب ایک مقام تھا۔ حیس کا ذکر آیاہے، جو ولیمہ میں تیار کیا گیا تھا۔ یہ گھی، کھجور، اور پنیر سے ملا کر بنایا جاتا ہے۔ باب کے آخر میں حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے سورۃ مومنون کی ایک آیت کا حصہ نقل کیا اور اس کے اطلاق سے یہ نکالا کہ بیویوں اور لونڈیوں سے مطلقاً حظ نفس درست ہے۔ صرف جماع استبراءسے پہلے ایک حدیث کی رو سے منع ہوا تو دوسرے عیش بدستور درست رہیں گے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت انس ؓ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ نبی کریم ﷺ خیبر تشریف لائے۔ جب اللہ تعالیٰ نے خیبر کے قلعوں پر آپ کو فتح عطا فرمائی توآپ سے حضرت صفیہ ؓ بنت حیی بن اخطب کا حسن وجمال ذکر کیاگیا۔ ان کاشوہر قتل ہوچکا تھا اور وہ خود دلہن بنی ہوئی تھیں۔ رسول اللہ ﷺ نے انھیں ا پنے لیے منتخب فرمالیا۔ آپ انھیں خیبرسے ساتھ لے کر چلے۔ جب سدروحاء پر پہنچے تو حضرت صفیہ حیض سے پاک ہوگئیں۔ آپ نے ان سے خلوت اختیار کی۔ پھر ایک چھوٹے سے دستر خوان پر حلوہ تیار کرکے رکھ دیا، پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اپنے ارد گرد لوگوں میں اعلان کرو (کہ وہ آکر اسے کھائیں)۔‘‘ بس یہی حضرت صفیہ ؓ کے متعلق آپ کی طرف سے دعوت ولیمہ تھی۔ پھر ہم مدینہ طیبہ کی طرف روانہ ہوئے۔ حضرت انس ؓ کابیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ اپنے پیچھے اپنی عباء سے حضرت صفیہ ؓ کے لیے جگہ ہموار کررہے تھے۔ پھر آپ نے اونٹ کے پاس بیٹھ کر اپنا گھٹنا رکھ دیا تو حضرت صفیہ ؓ نے اپنا پاؤں آپ کے گھٹنے پر رکھا اور اونٹ پر سوار ہوگئیں۔
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ آقا اپنی لونڈی کو سفر میں اپنے ہمراہ لے جاسکتا ہے لیکن استبرائے رحم سے قبل اس سے مجامعت کی اجازت نہیں۔ (2) اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت صفیہ ؓ کو اپنے لیے منتخب فرمالیا تھا جبکہ حدیث انس سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت صفیہ ؓ حضرت دحیہ کلبی ؓ کو دی تھیں؟ اس تعارض کو اس طرح ختم کیا گیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے پہلے تو حضرت دحیہ کو دی تھیں، پھر جب پتہ چلا کہ وہ تو سردار کی بیٹی ہیں تو اس وقت کے قانون کے مطابق سردار کی بیٹی اگر گرفتار ہو کر آتی تو سردار ہی کے حصے میں آتی، اس بنا پر آپ نے انھیں حضرت دحیہ ؓ سے سات غلاموں کے عوض واپس لے لیا۔ والله أعلم.
ترجمۃ الباب:
حضرت حسن بصری کہتے ہیں کہ آقا کے لیے اس میں کوئی حرج نہیں کہ ایسی لونڈی کو بوسہ دے یا اس سے بغل گیر ہو۔ حضرت ابن عمر ؓ نے فرمایا کہ جب ایسی لونڈی کو ہبہ کردیا گیا جس کے ساتھ صحبت کی گئی ہو یا اسے فروخت کردیاگیا یا آزاد کردیا گیا تو اس کے غیر حاملہ نے کاثبوت ایک حیض آنے پر حاصل ہوگا اور کنواری کے لیے استبرائے رحم کی ضرورت نہیں ہے۔ حضرت عطاء کی رائے یہ ہے کہ اپنی حاملہ لونڈی کے ساتھ شرم گاہ کے علاوہ باقی جسم سے تمتع کیاجاسکتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "مگر اپنی بیویوں سے یالونڈیوں سے۔ "
فائدہ:استبرائے رحم کامطلب یہ ہے کہ زن وشو کا تعلق قائم کرنے سے پہلے یہ دیکھ لیا جائے کہ اس کے رحم میں بچہ تو نہیں ہے اس کے لیے کم از کم ایک حیض آنے کا انتظار کیا جائے ہاں، اگر لونڈی کنواری ہے تو اس کے لیے استبراء کی ضرورت نہیں ہے۔ سفر وحضر می جما ع سے قبل استبرائے رحم ضروری ہے۔ عطاء ابن ابی رباح رحمۃ اللہ علیہ کے کلام میں حاملہ لونڈی سے مراد وہ لونڈی ہے جو اس کے مالک کے علاوہ کسی دوسرے سے حاملہ ہوئی ہوکیونکہ اگر وہ اپنے مالک سے حاملہ ہے تو اس سے جماع کرنے کے جواز میں کوئی شک ہی نہیں
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبدالغفار بن داؤد نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے یعقوب بن عبدالرحمن نے بیان کیا، ان سے عمرو بن ابی عمرو نے او ران سے انس بن مالک ؓ نے بیان کیا کہ جب نبی کریم ﷺ خیبر تشریف لائے اور اللہ تعالیٰ نے قلعہ فتح کرا دیا تو آپ کے سامنے صفیہ بنت حیی بن اخطب ؓ کے حسن کی تعریف کی گئی۔ ان کا شوہر قتل ہو گیا تھا۔ وہ خود ابھی دلہن تھیں۔ پس رسول اللہ ﷺ نے انہیں اپنے لیے پسند کرلیا۔ پھر روانگی ہوئی۔ جب آپ سد الروحاءپہنچے تو پڑاؤ ہوا۔ اور آپ نے وہیں ان کے ساتھ خلوت کی۔ پھر ایک چھوٹے دستر خوان پر حیس تیار کرکے رکھوایا۔ اور رسول اللہ ﷺ نے صحابہ سے فرمایا کہ اپنے قریب کے لوگوں کو ولیمہ کی خبرکر دو۔ صفیہ ؓ کے ساتھ نکاح کا یہی ولیمہ رسول اللہ ﷺ نے کیا تھا۔ پھر جب ہم مدینہ کی طرف چلے تو میں نے دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ نے عباء سے صفیہ ؓ کے لیے پردہ کرایا۔ اور اپنے اونٹ کو پاس بٹھا کر اپنا ٹخنہ بچھا دیا۔ صفیہ ؓ اپنا پاؤں آپ ﷺ کے ٹخنے پر رکھ کر سوار ہو گئیں۔
حدیث حاشیہ:
حضرت صفیہ ؓ حیی بن اخطب کی بیٹی ہیں۔ یہ کنانہ رئیس خیبر کی بیوی تھیں اور یہ کنانہ وہی یہودی ہے جس نے بہت سے خزانے زیر زمین دفن کر رکھے تھے۔ اور فتح خیبر کے موقعہ پر ان سب کو پوشیدہ رکھنا چاہا تھا۔ مگر آنحضرت ﷺ کو وحی الٰہی سے اطلاع مل گئی۔ اور کنانہ کو خود اسی کے قوم کے اصرار پر قتل کر دیا گیا۔ کیوں کہ اکثر غربائے یہود اس سرمایہ دار کی حرکتوں سے نالاں تھے۔ اور آج بمشکل ان کو یہ مو قع ملا تھا۔ صفیہ ؓ نے پہلے ایک خواب دیکھا تھا کہ چاند میری گود میں ہے۔ جب انہوں نے یہ خواب اپنے شوہر کنانہ سے بیان کیا تو اس کی تعبیر کنانہ نے یہ سمجھ کر یہ نبی موعود ؑ کی بیوی بنے گی ان کے منہ پر ایک زور کا طمانچہ مارا تھا۔ خیبر فتح ہوا تو یہ بھی قیدیوں میں تھی اور حضرت دحیہ بن خلیفہ کلبی کے حصہ غنیمت میں لگا دی گئی تھی۔ بعد میں آنحضرت ﷺ کو ان کی شرافت نسبی معلوم ہوئی کہ یہ حضرت ہارون ؑ کے خاندان سے ہیں تو آپ نے حضرت دحیہ کلبی ؓ کو ان کے عوض سات غلام دے کر ان سے واپس لے کر آزاد فرما دیا۔ اور خود انہوں نے اپنے پرانے خواب کی بناء پر آپ سے شرف زوجیت کا سوال کیا، تو آنحضرت ﷺ نے اپنے حرم محترم میں ان کو داخل فرما لیا۔ اور ان کا مہر ان کی آزادی کوقرار دے دیا۔ حضرت صفیہ ؓ بہت ہی وفادار اور علم دوست ثابت ہوئیں۔ آنحضرت ﷺ نے بھی ان کی شرافت کے پیش نظر ان کو عزت خاص عطا فرمائی۔ اس سفر ہی میں آپ ﷺ نے اپنی عباءمبارک سے ان کا پردہ کرایا اور اپنے اونٹ کے پاس بیٹھ کر اپنا ٹخنہ بچھا دیا۔ جس پر حضرت صفیہ ؓ نے اپنا پاؤں رکھا اور اونٹ پر سوار ہو گئیں۔ 50ھ میں انہوں نے وفات پائی اور جنت البقیع میں سپرد خاک کی گئیں۔ حضرت امام بخاری ؒ نے اس حدیث سے بہت سے مسائل کا استخراج فرماتے ہوئے کئی جگہ اسے مختصر اور مطول نقل فرمایا ہے۔ یہاں آپ کے پیش نظر وہ جملہ مسائل ہیں جن کا ذکر آپ نے ترجمۃ الباب میں فرمایا ہے اور وہ سب اس حدیث سے بخوبی ثابت ہوتے ہیں کہ حضرت صفیہ ؓ لونڈی کی حیثیت میں آئی تھیں۔ آپ نے ان کو آزاد فرمایا اور سفر میں اپنے ہمراہ رکھا۔ اسی سے باب کا مقصد ثابت ہوا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas bin Malik (RA): The Prophet (ﷺ) came to Khaibar and when Allah made him victorious and he conquered the town by breaking the enemy's defense, the beauty of Safiya bint Huyai bin Akhtab was mentioned to him and her husband had been killed while she was a bride. Allah's Apostle (ﷺ) selected her for himself and he set out in her company till he reached Sadd-ar-Rawha' where her menses were over and he married her. Then Hais (a kind of meal) was prepared and served on a small leather sheet (used for serving meals). Allah's Apostle (ﷺ) then said to me, "Inform those who are around you (about the wedding banquet)." So that was the marriage banquet given by Allah's Apostle (ﷺ) for (his marriage with) Safiya. After that we proceeded to Madinah and I saw that Allah's Apostle (ﷺ) was covering her with a cloak while she was behind him. Then he would sit beside his camel and let Safiya put her feet on his knees to ride (the camel). ________