باب: شفعہ کا حق اس جائیداد میں ہوتا ہے جو تقسیم نہ ہوئی ہو جب حد بندی ہو جائے تو شفعہ کا حق باقی نہیں رہتا۔
)
Sahi-Bukhari:
Shuf'a
(Chapter: Shuf'a is valid if the property is undivided)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2257.
حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے شفعے کے متعلق فیصلہ فرمایا کہ یہ اس شکل میں ہوسکتا ہے۔ جبکہ جائیداد تقسیم نہ ہوئی ہولیکن جب حدی بندی ہوجائے اور راستے بدل دیے جائیں تو پھر شفعہ نہیں ہوگا۔
تشریح:
(1) شفعے کے لغوی معنی’’ ایک چیز کو دوسری چیز سے ملالینے‘‘ کے ہیں۔ چونکہ شفعہ کرنے والا اپنی ملکیت کے ساتھ دوسرے کی ملکیت کو حاصل کرکے ملالیتا ہے، اس لیے اس فعل کو شفعہ کہا جاتا ہے۔ اصطلاحی طور پر شفعے سے مراد مشتری سے اس کی رضامندی کے بغیر خرید کردہ چیز کو اس قیمت پر حاصل کرنا ہے جس قیمت میں مشتری نے اسے اصل مالک سے خریدا تھا۔ (2) شفعے کے بالترتیب تین اسباب حسب ذیل ہیں: ٭ شرکتِ ملکیت: ایک شخص فروخت کردہ مشفوعہ جائیداد کی ذات میں شریک ہو جیسا کہ دویا دوسے زیادہ آدمی غیر منقسم زمین یا مکان میں شریک ہوں۔ ٭ شرکتِ حق: دویا دو سے زیادہ اشخاص فروخت کردہ جائیداد کی ذات کے بجائے اس کے حقوق میں شریک ہوں، مثلاً: حق گزر یا حق سیرابی وغیرہ۔ ٭ ہمسائیگی: شفعہ کرنے والے کا مکان فروخت کردہ جائیداد سے متصل ہو۔ (3)شفعہ خلاف اصل ثابت ہوتا ہے کیونکہ اسے مشتری کی ملک سے چھین کر اس کی رضامندی کے بغیر اسے معاوضہ لینے پر مجبور کیا جاتا ہے، تاہم شریعت نے بعض مصالح کی بنا پر اسے جائز قرار دیا ہے، اس لیے مطلق طور پر اسے جائز نہیں قرار دیا جاسکتا بلکہ اس کے لیے چند ایک شرائط حسب ذیل ہیں:٭ پیش کردہ حدیث کے مطابق شفعے کےلیے ضروری ہے کہ وہ جائیداد مشترک ہواور اسے تقسیم نہ کیا گیا ہو۔ اگر جائیداد تقسیم ہوجائے اور راستے الگ الگ ہوجائیں تو حق شفعہ ساقط ہوجاتا ہے۔ ٭وہ ایسی جائیداد ہو جو فروخت کرنے والے کی ملکیت غیر منقولہ ہو۔منقولہ جائیداد فروخت کرنے میں کوئی شفعہ نہیں ہوگا، مثلاً: حیوانات، اناج یا پھل وغیرہ۔ ٭شفعہ کرنے والے کی وہ جائیداد جس کی وجہ سے اسے شفعے کا حق حاصل ہورہا ہے اس کی اپنی مملوکہ ہو۔ وقف کی اراضی یا حکومت کی جائیداد پر کسی کو شفعے کا حق حاصل نہیں ہوگا۔ ٭ شفعے کا حق اس وقت حاصل ہوگا جب کوئی جائیداد بذریعہ عقد بیع قطعی طور پر منتقل کی گئی ہو۔ اس بنا پر ہبہ، وراثت یا صدقے کے ذریعے سے ملنے والی چیز پر شفعہ نہیں ہوگا۔ ٭اس کا مطالبہ بھی فوری ہونا چاہیے۔ جب علم ہونے کے بعد خاموشی اختیار کی جائے تو اس سے حق شفعہ ساقط ہوجاتا ہے۔ حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں کہ یہ حدیث اس امر کی دلیل ہے کہ شفعہ ہر مشترکہ جائیداد میں ہے لیکن سیاق حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ حق شفعہ صرف زمین کے ساتھ خاص ہے۔ (فتح الباري:551/4) صحیح مسلم میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’شفعہ ہر مشترکہ جائیداد میں ہے، مثلاً: زمین، دوکان یا باغ وغیرہ۔انسان کے لیے جائز نہیں کہ وہ اسے فروخت کرے یہاں تک کہ اس کا شریک اس کی اجازت دے۔اگر وہ چاہے تو خود رکھ لے، چاہے تو اس سے دست بردار ہوجائے۔اس کی اجازت کے بغیر اگر اسے فروخت کردیا گیا تو وہ اس کا زیادہ حق دار ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، البیوع، حدیث:4127(1608))
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2185
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2257
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2257
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2257
تمہید کتاب
ہر انسان چاہتا ہے کہ وہ جائیداد کا بلا شرکت غیرے مالک ہو،وہ کسی کی مداخلت پسند نہیں کرتا،چنانچہ عام طور پر یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ کسی جائیداد کے کئی شریک ہوں تو جب تک ان میں اتفاق رہتا ہے شریک اپنے حصے سے فائدہ اٹھاتا رہتا ہے لیکن جب ان میں تنہا فائدہ لینے کی خواہش پیدا ہوتی ہے تو آپس میں اختلافات پیدا ہوجاتے ہیں اور ہر شریک دوسرے کو محروم کرنے کی کوشش کرتا ہے اور یہ صورت اس وقت زیادہ پریشان کن ثابت ہوتی ہے جب کوئی شریک اپنا حصہ کسی غیر شخص کو فروخت کرنا چاہتا ہے۔اس حق تلفی کی روک تھام کےلیے شریعت نے شریک کو شفعے کا حق دیا ہے جس کی بنیاد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی متعدد احادیث پر ہے جن کے مجموعی مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ شفعہ شریک اور ہمسایہ دونوں کے لیے ثابت ہے۔اسلامی قانون شفعہ باہمی امن وسکون کی خاطر اس شریک کو جو اپنا حصہ فروخت کرنا چاہتا ہے مجبور کرتا ہے کہ وہ اپنا حصہ کسی غیر شخص کو فروخت کرنے کے بجائے اپنے شریک کے ہاتھ فروخت کرے۔اگر وہ شریک نہ خریدنا چاہے تو اس کو اختیار ہے کہ جس کے ہاتھ چاہے فروخت کردے۔اگر ایک شریک جائیداد نے اپنا حصہ کسی غیر شخص کے ہاتھ فروخت کردیا تو دوسرے شریک کو حق حاصل ہوگا کہ وہ اس خریدار سے اسی قیمت پر بحق شفعہ اس جائیداد کو حاصل کرے۔حق شفعہ اصول پر قائم ہے کہ جائیداد غیر منقسم کا ہر ایک حصہ دار جائیداد کے ہر فرد میں شریک ہو۔جو شریک اپنا حصہ فروخت کرتا ہے وہ دوسرے شرکاء کے حصص کے استفادے میں دخل دیتا ہے جس کی اجازت شرکاء کی رضامندی کے بغیر نہیں دی جاسکتی۔اسی طرح ہر انسان یہ پسند کرتا ہے کہ اسے کوئی ایسا ہمسایہ میسر آئے جو عادات وخصائل اور آداب رہن سہن میں اس جیسا ہو۔اسلامی قانون شفعہ ایک شخص کو یہ بھی حق دیتا ہے کہ اس کی ہمسائیگی میں اگر کوئی جائیداد فروخت ہورہی ہے تو وہ اسے بحق شفعہ حاصل کرلے کیونکہ شفعہ کی دو حکمتیں ہیں:(1) جائیداد کو تقسیم کے نقصانات سے محفوظ رکھا جائے۔(2) ناپسندیدہ اجنبی شخص کو اس کے پڑوس میں داخل ہونے سے روکا جائے۔امام بخای رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں ہماری مکمل رہنمائی فرمائی ہے۔ انھوں نے شفعے کے متعلق صرف تین احادیث بیان کی ہیں جن میں ایک مکرر اور دو خالص ہیں۔انھیں بیان کرنے میں امام بخاری رحمہ اللہ منفرد ہیں۔ امام مسلم رحمہ اللہ نے انھیں روایت نہیں کیا۔انھوں نے مرفوع احادیث کے علاوہ دو آثار بھی پیش کیے ہیں۔ ان احادیث وآثار پر انھوں نے تین چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کر کے شفعے کے متعلق اپنے رجحانات کو واضح کیا ہے۔عنوانات کی تفصیل حسب ذیل ہے:(1)شفعہ صرف اس جائیداد میں ہوگا جس کی تقسیم نہ ہوئی ہو۔جب حد بندی ہوجائے تو شفعہ ساقط ہوجاتا ہے۔(2)فروخت سے پہلے شفعے کو صاحب شفعہ پر پیش کرنا۔(3) کون سا ہمسایہ زیادہ حق دار ہے؟شفعے کے لیے چند ایک شرائط ہیں جو آئندہ بیان ہوں گی۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس کی مشروعیت کے متعلق لکھتے ہیں: شفعے کی مشروعیت میں ابوبکر الاصم کے علاوہ کسی نے بھی کوئی اختلاف نہیں کیا۔اہل علم کے نزدیک ایسے شریک کےلیے جس نے ابھی تک اپنا حصہ تقسیم نہیں کیا حق شفعہ ثابت ہے اور اس پر اجماع ہے۔( فتح الباری:4/550) ہماری ان معروضات کو مدنظر رکھتے ہوئے آئندہ احادیث کا مطالعہ کرنے کی استدعا ہے۔اللہ تعالیٰ ہمیں عمل کی توفیق دے۔آمين.
تمہید باب
شفعہ کہتے ہیں شریک یا ہمسائے کا حصہ وقت بیع کے اس کے شریک یا ہمسایہ کو جبراً منتقل ہونا۔ امام بخاری کہتے ہیں کہ ہر چیز میں شفعہ ہے اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہے کہ جانور میں ہے اور کسی منقولہ جائیداد میں نہیں اور شافعیہ اور حنفیہ کہتے ہیں کہ شفعہ صرف جائیداد غیر منقولہ میں ہوگا۔ اور شافعیہ کے نزدیک شفعہ صرف شریک کو ملے گا نہ کہ ہمسایہ کو۔ اور امام ابوحنفیہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک ہمسایہ کو بھی حق شفعہ ہے اور اہل حدیث نے اس کو اختیار کیا ہے۔ وهی ماخوذۃ لغة من الشفع و هو الزوج و قیل من الزیادۃ و قیل من الاعانة و فی الشرع انتقال حصة شریک الی شریک کانت انتقلت الی اجنبی بمثل العوض المسمی و لم یختلف العلماءفی مشروعیتها ( فتح ) اور وہ شفع سے ماخود ہے جس کے معنی جوڑا کے ہیں۔ کہا گیا کہ زیادتی کے معنی میں ہے۔ بعض نے کہا اعانت کے معنی میں ہے۔ شرع میں ایک کے حصہ کو اس کے دوسرے شریک کے حوالہ کرنا، جب کہ وہ کچھ قیمت پر کسی اجنبی کی طرف منتقل ہو رہا ہو۔ اس کی مشروعیت پر علماء کا اتفاق ہے۔
حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے شفعے کے متعلق فیصلہ فرمایا کہ یہ اس شکل میں ہوسکتا ہے۔ جبکہ جائیداد تقسیم نہ ہوئی ہولیکن جب حدی بندی ہوجائے اور راستے بدل دیے جائیں تو پھر شفعہ نہیں ہوگا۔
حدیث حاشیہ:
(1) شفعے کے لغوی معنی’’ ایک چیز کو دوسری چیز سے ملالینے‘‘ کے ہیں۔ چونکہ شفعہ کرنے والا اپنی ملکیت کے ساتھ دوسرے کی ملکیت کو حاصل کرکے ملالیتا ہے، اس لیے اس فعل کو شفعہ کہا جاتا ہے۔ اصطلاحی طور پر شفعے سے مراد مشتری سے اس کی رضامندی کے بغیر خرید کردہ چیز کو اس قیمت پر حاصل کرنا ہے جس قیمت میں مشتری نے اسے اصل مالک سے خریدا تھا۔ (2) شفعے کے بالترتیب تین اسباب حسب ذیل ہیں: ٭ شرکتِ ملکیت: ایک شخص فروخت کردہ مشفوعہ جائیداد کی ذات میں شریک ہو جیسا کہ دویا دوسے زیادہ آدمی غیر منقسم زمین یا مکان میں شریک ہوں۔ ٭ شرکتِ حق: دویا دو سے زیادہ اشخاص فروخت کردہ جائیداد کی ذات کے بجائے اس کے حقوق میں شریک ہوں، مثلاً: حق گزر یا حق سیرابی وغیرہ۔ ٭ ہمسائیگی: شفعہ کرنے والے کا مکان فروخت کردہ جائیداد سے متصل ہو۔ (3)شفعہ خلاف اصل ثابت ہوتا ہے کیونکہ اسے مشتری کی ملک سے چھین کر اس کی رضامندی کے بغیر اسے معاوضہ لینے پر مجبور کیا جاتا ہے، تاہم شریعت نے بعض مصالح کی بنا پر اسے جائز قرار دیا ہے، اس لیے مطلق طور پر اسے جائز نہیں قرار دیا جاسکتا بلکہ اس کے لیے چند ایک شرائط حسب ذیل ہیں:٭ پیش کردہ حدیث کے مطابق شفعے کےلیے ضروری ہے کہ وہ جائیداد مشترک ہواور اسے تقسیم نہ کیا گیا ہو۔ اگر جائیداد تقسیم ہوجائے اور راستے الگ الگ ہوجائیں تو حق شفعہ ساقط ہوجاتا ہے۔ ٭وہ ایسی جائیداد ہو جو فروخت کرنے والے کی ملکیت غیر منقولہ ہو۔منقولہ جائیداد فروخت کرنے میں کوئی شفعہ نہیں ہوگا، مثلاً: حیوانات، اناج یا پھل وغیرہ۔ ٭شفعہ کرنے والے کی وہ جائیداد جس کی وجہ سے اسے شفعے کا حق حاصل ہورہا ہے اس کی اپنی مملوکہ ہو۔ وقف کی اراضی یا حکومت کی جائیداد پر کسی کو شفعے کا حق حاصل نہیں ہوگا۔ ٭ شفعے کا حق اس وقت حاصل ہوگا جب کوئی جائیداد بذریعہ عقد بیع قطعی طور پر منتقل کی گئی ہو۔ اس بنا پر ہبہ، وراثت یا صدقے کے ذریعے سے ملنے والی چیز پر شفعہ نہیں ہوگا۔ ٭اس کا مطالبہ بھی فوری ہونا چاہیے۔ جب علم ہونے کے بعد خاموشی اختیار کی جائے تو اس سے حق شفعہ ساقط ہوجاتا ہے۔ حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں کہ یہ حدیث اس امر کی دلیل ہے کہ شفعہ ہر مشترکہ جائیداد میں ہے لیکن سیاق حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ حق شفعہ صرف زمین کے ساتھ خاص ہے۔ (فتح الباري:551/4) صحیح مسلم میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’شفعہ ہر مشترکہ جائیداد میں ہے، مثلاً: زمین، دوکان یا باغ وغیرہ۔انسان کے لیے جائز نہیں کہ وہ اسے فروخت کرے یہاں تک کہ اس کا شریک اس کی اجازت دے۔اگر وہ چاہے تو خود رکھ لے، چاہے تو اس سے دست بردار ہوجائے۔اس کی اجازت کے بغیر اگر اسے فروخت کردیا گیا تو وہ اس کا زیادہ حق دار ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، البیوع، حدیث:4127(1608))
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے مسدد نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے عبدالواحد نے بیان کیا، ان سے معمر نے بیان کیا، ان سے زہری نے بیان کیا، ان سے ابوسلمہ بن عبدالرحمن نے بیان کیا اور ان سے جابر بن عبداللہ ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ہر اس چیز میں شفعہ کا حق دیا تھا جو ابھی تقسیم نہ ہوئی ہو۔ لیکن جب حدود مقرر ہو گئیں اور راستے بدل دیئے گئے تو پھر حق شفعہ باقی نہیں رہتا۔
حدیث حاشیہ:
قسطلانی ؒ نے کہا کہ امام ابوحنیفہ ؒ اور امام شافعی ؒ اور امام مالک ؒ کا مذہب یہ ہے کہ اگر شریک نے شفیع کو بیع کی خبر دی اور اس نے بیع کی اجازت دی پھر شریک نے بیع کی تو شفیع کو حق شفعہ نہ پہنچے گا اور اس میں اختلاف ہے کہ بائع کو شفیع کا خبر دینا واجب ہے یا مستحب۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Jabir bin ' Abdullah (RA): Allah's Apostle (ﷺ) gave a verdict regarding Shuf'a in every undivided joint thing (property). But if the limits are defined (or demarcated) or the ways and streets are fixed, then there is no pre-emption.