Sahi-Bukhari:
Hiring
(Chapter: Employing labourers for services in holy battles)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2266.
عبداللہ بن ابی ملیکہ سے روایت ہے وہ اپنے دادا سے اسی طرح کا ایک قصہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے دوسرے کا ہاتھ کاٹا تواس نے اس کا ثنیہ دانت کھینچ لیا۔ حضرت ابو بکر ؓ نے دانت کی دیت باطل کردی۔
تشریح:
اگرچہ جہاد کا مقصد ثواب حاصل کرنا ہے لیکن یہ مقصد خادم سے مدد لینے کے منافی نہیں، تاہم جنگ کرنے کے لیے مزدور رکھنا جائز نہیں کہ اسے محاذ جنگ پر بھیج دیا جائے اور خود پیچھے رہے کیونکہ جہاد، ہر مسلمان پر فرض ہے تاکہ اللہ کا دین بلند ہو۔ اس فریضے میں نیابت صحیح نہیں۔ امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ جہاد میں ذاتی خدمت کےلیے مزدور کو ساتھ لے جانا جائز ہے کیونکہ حضرت یعلی بن امیہ ؓ نے اپنے ساتھ مزدور رکھا تھا۔ (فتح الباري:560/4)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2194
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2266
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2266
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2266
تمہید کتاب
لغوی طور پر اجارہ مصدر ہے جو مزدوری کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ايجار اور استيجار کسی کو مزدور بنانے کےلیے بھی بولا جاتا ہے۔استيجار کے معنی گھر اُجرت پر لینا بھی ہیں۔مزدور کو اجير کہتے ہیں۔فقہاء کی اصطلاح میں طے شدہ معاوضے کے بدلے کسی چیز کی منفعت دوسرے کے حوالے کرنا جارہ کہلاتا ہے۔اس کے جواز میں کسی کو اختلاف نہیں۔اجرت، جنس (غلہ وغیرہ) اور نقد دونوں صورتوں میں دی جاسکتی ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت مزدوری کے متعلق جملہ مسائل کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔ اجرت کے متعلق تیس مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں پانچ معلق اور پچیس متصل سند سے ذکر کی ہیں۔ان میں سولہ مکرر اور چودہ خالص ہیں۔چار احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام اور تابعین عظام سے مروی اٹھارہ آثار بھی پیش کیے ہیں جن سے مختلف مسائل واحکام کا استنباط کیا ہے۔ہمارے ہاں آئے دن مزدوروں اور مالکان کے درمیان ہنگامہ آرائی رہتی ہے۔ مالکان، مزدوروں کے خلاف استحصالی ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں جبکہ رد عمل کے طور پر مزدور بھی انھیں خوب بلیک میل کرتے ہیں۔لڑائی جھگڑے، ہنگامے اور ہڑتالیں معمول بن چکا ہے۔لیبر قوانین کے باوجود اخبارات میں قتل وغارت کی خبریں پڑھنے کو ملتی ہیں۔عالمی سطح پر یکم مئی کو یوم مزدوراں منایا جاتا ہے لیکن پھر بھی ہر طرف طوفان بدتمیزی بپا ہے ۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے احادیث وآثار کی روشنی میں مزدوروں اور مالکان کے متعلق ایک ضابطہ ہمارے سامنے رکھا ہے اور تقریباً بائیس مختلف عنوانات قائم کیے ہیں،جن کی مختصر تفصیل حسب ذیل ہے:(1)مزدوری کےلیے سنجیدہ اور نیک شخص کا انتخاب کرنا چاہیے تاکہ وہ ذمے داری کے ساتھ اپنے کام سرانجام دے۔(2) چند ٹکوں کی مزدوری پر کسی کی بکریاں چرانا۔(3) بوقت ضرورت اہل شرک سے مزدوری پر کام لینا بشرطیکہ وہ دیانت دار ہوں،دھوکے باز نہ ہوں۔(4) اہل شرک کے ہاں مزدوری کرنا۔(5) فریضۂ جہاد ادا کرتے وقت مزدور ساتھ رکھنا۔(6) مزدوری کے لیے وقت طے کرلیا جائے لیکن کام کی تفاصیل طے نہ کی جائیں،تو اس کا حکم۔(7) جز وقتی مزدور رکھنا۔(8) بلاوجہ مزدوری روک لینے کا گناہ۔(9)کسی شخص کی مزدوری میں اصلاح کی نیت سے تصرف کرنا۔(10) کچھ شرائط کے ساتھ کارخانوں، فیکٹریوں اور مختلف کمپنیوں کا ایجنٹ بننا اور ان کی مصنوعات فروخت کرنا۔(11) دم جھاڑ کرنے پر کچھ اجرتیں شرعاً ناجائز ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان میں سے کچھ کی نشاندہی کی ہے، مثلاً: قحبہ گری کرنا اور لونڈیوں سے پیشہ کرانا،سانڈی کی جفتی پر اجرت لینا۔ اس طرح اجرت ومزدوری کے متعلق کچھ مسائل واحکام کی بھی وضاحت کی ہے جن کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ امام صاحب کی مصالح عباد پر گہری نظر تھی لیکن نصوص کا دامن کبھی ہاتھ سے نہ چھوڑتے تھے۔ان عنوانات اور پیش کردہ احادیث کو صدق نیت سے پڑھ کر ان پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔اللہ تعالیٰ ہمیں قیامت کے دن محدثین کے ساتھ جنت الفردوس میں جگہ عنایت فرمائے۔آمين.
عبداللہ بن ابی ملیکہ سے روایت ہے وہ اپنے دادا سے اسی طرح کا ایک قصہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے دوسرے کا ہاتھ کاٹا تواس نے اس کا ثنیہ دانت کھینچ لیا۔ حضرت ابو بکر ؓ نے دانت کی دیت باطل کردی۔
حدیث حاشیہ:
اگرچہ جہاد کا مقصد ثواب حاصل کرنا ہے لیکن یہ مقصد خادم سے مدد لینے کے منافی نہیں، تاہم جنگ کرنے کے لیے مزدور رکھنا جائز نہیں کہ اسے محاذ جنگ پر بھیج دیا جائے اور خود پیچھے رہے کیونکہ جہاد، ہر مسلمان پر فرض ہے تاکہ اللہ کا دین بلند ہو۔ اس فریضے میں نیابت صحیح نہیں۔ امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ جہاد میں ذاتی خدمت کےلیے مزدور کو ساتھ لے جانا جائز ہے کیونکہ حضرت یعلی بن امیہ ؓ نے اپنے ساتھ مزدور رکھا تھا۔ (فتح الباري:560/4)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابن جریج نے کہا اور مجھ سے عبداللہ بن ابی ملیکہ نے بیان کیا اور ان سے ان کے دادا نے بالکل اسی طرح کا واقعہ بیان کیا کہ ایک شخص نے ایک دوسرے شخص کا ہاتھ کاٹ کھایا۔ (دوسرے نے اپنا ہاتھ کھینچا تو) اس کاٹنے والے کا دانت ٹوٹ گیا اور ابوبکر ؓ نے اس کا کوئی قصاص نہیں دلوایا۔
حدیث حاشیہ:
باب کا مضمون اس سے ظاہر ہے کہ حضرت یعلیٰ بن امیہ ؓ نے جنگ تبوک کے سفر میں اپنے ساتھ ایک اور آدمی کو بطور مزدور ساتھ لگا لیا تھا۔ حدیث میں جنگ تبوک کا ذکر ہے جس کو جیش العسرۃ بھی کہا گیا ہے۔ الحمد للہ مدینۃ المنورۃ میں بیٹھ کر یہ نوٹ لکھ رہا ہوں۔ یہاں سے تبوک کئی سو میل کے فاصلہ پر اردن کے راستے پر واقع ہے۔ اور حکومت سعودیہ ہی کا یہ ایک ضلع ہے۔ شام کے عیسائیوں نے یہاں سرحد پر اسلام کے خلاف ایک جنگی منصوبہ بنایا تھا جس کی بروقت اطلاع آنحضرت ﷺ کو ہو گئی اور آپ ﷺ نے مدافعت کے لیے پیش قدمی فرمائی۔ جس کی خبر پاکر عیسائیوں کے حوصلے پست ہو گئے۔ یہ سفر عین موسم گرما کے شباب میں کیا گیا۔ جس کی وجہ سے مسلمان مجاہدین کو بہت سے تکالیف کا سامنا کرنا پڑا۔ سورۃ توبہ کی آیات میں اس کا ذکر ہے۔ ساتھ ہی ان منافقین کا بھی جو اس امتحان میں حیلے بہانے کرکے پیچھے رہ گئے تھے۔ جن کے متعلق آیت ﴿يَعْتَذِرُونَ إِلَيْكُمْ إِذَا رَجَعْتُمْ إِلَيْهِمْ﴾(التوبة :94) نازل ہوئی۔ مگر چند مخلص مومن بھی تھے جو پیچھے رہنے والوں میں رہ گئے تھے۔ بعد میں ان کی توبہ قبول ہوئی۔ الحمد للہ آج 22 صفر کو مسجد نبوی میں بیٹھ کر یہ نوٹ لکھا گیا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn Juraij from Abdullah bin Abu Mulaika from his grandfather a similar story: A man bit the hand of another man and caused his own tooth to fall out, but Abu Bakr (RA) judged that he had no right for compensation (for the broken tooth).