باب: اس کے متعلق جس نے کسی غلام کے مالکوں سے غلام کے اوپر مقررہ ٹیکس میں کمی کے لیے سفارش کی
)
Sahi-Bukhari:
Hiring
(Chapter: Whoever appealed to the masters to reduce his taxes)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2281.
حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انھوں نےکہا کہ نبی ﷺ سینگی لگانے والے غلام کو بلایا تو اس نے آپ کو پچھنےلگائے اور آپ نے اس کے لیے ایک صاع یا دوصاع یا ایک یا دو غلہ دینے کا حکم دیا اور اس کے معاملے کے متعلق گفتگوفرمائی تو اس کے مقررہ یومیہ ٹیکس میں کمی کردی گئی۔
تشریح:
1۔ سینگی لگانے والے غلام کی کنیت ابو طیبہ اور نام نافع تھا۔ اس روایت میں راوی کو ترددہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اسے کتنا غلہ دیا جبکہ قبل ازیں روایت گزرچکی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اسے کھجور کا ایک صاع عنایت فرمایا تھا۔ (صحیح البخاري، البیوع، حدیث:2102) جامع ترمذی اور سنن ابن ماجہ کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی ؓ کو حکم دیا تھا کہ وہ انھیں ایک صاع دیں۔ (جامع الترمذي، البیوع، حدیث:1278، و سنن ابن ماجة، التجارات، حدیث:2163) مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس سے دریافت کیا کہ تیرا یومیہ ٹیکس کس قدر ہے؟ تو اس نے کہا: دوصاع، پھر آپ کی سفارش سے اس کے مالکان نے ایک صاع معاف کردیا۔ (المصنف لابن أبي شیبة:267/6) اس کے مالکان بنو حارثہ قبیلے کے لوگ تھے،ان میں سے حضرت محّیصہ بن مسعود ؓ بھی ہیں۔ بعض روایات سے پتہ چلتا ہے کہ وہ بنو بیاضہ کے غلام تھے، حالانکہ یہ وہم ہے کیونکہ ان کا غلام ابو ہندتھا۔ (فتح الباري:581/4) اس روایت کے مطابق رسول اللہ ﷺ نے اس غلام کے متعلق سفارش فرمائی تھی۔ (2) اگر غلام کا محصول اس قدر زیادہ ہوکہ اسے ادا کرنے کی طاقت نہ ہوتو حاکم وقت اس میں تخفیف لازم کرسکتا ہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ اب اسلام کی برکت سے غلامی کا دور ختم ہوچکاہے لیکن اب افراد کو غلام بنانے کے بجائے قوموں کو غلام بنایا جاتا ہے جس کے لیے نئے نئے طریقے ایجاد ہوچکے ہیں۔ أعاذناالله منه.
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2209
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2281
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2281
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2281
تمہید کتاب
لغوی طور پر اجارہ مصدر ہے جو مزدوری کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ايجار اور استيجار کسی کو مزدور بنانے کےلیے بھی بولا جاتا ہے۔استيجار کے معنی گھر اُجرت پر لینا بھی ہیں۔مزدور کو اجير کہتے ہیں۔فقہاء کی اصطلاح میں طے شدہ معاوضے کے بدلے کسی چیز کی منفعت دوسرے کے حوالے کرنا جارہ کہلاتا ہے۔اس کے جواز میں کسی کو اختلاف نہیں۔اجرت، جنس (غلہ وغیرہ) اور نقد دونوں صورتوں میں دی جاسکتی ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت مزدوری کے متعلق جملہ مسائل کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔ اجرت کے متعلق تیس مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں پانچ معلق اور پچیس متصل سند سے ذکر کی ہیں۔ان میں سولہ مکرر اور چودہ خالص ہیں۔چار احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام اور تابعین عظام سے مروی اٹھارہ آثار بھی پیش کیے ہیں جن سے مختلف مسائل واحکام کا استنباط کیا ہے۔ہمارے ہاں آئے دن مزدوروں اور مالکان کے درمیان ہنگامہ آرائی رہتی ہے۔ مالکان، مزدوروں کے خلاف استحصالی ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں جبکہ رد عمل کے طور پر مزدور بھی انھیں خوب بلیک میل کرتے ہیں۔لڑائی جھگڑے، ہنگامے اور ہڑتالیں معمول بن چکا ہے۔لیبر قوانین کے باوجود اخبارات میں قتل وغارت کی خبریں پڑھنے کو ملتی ہیں۔عالمی سطح پر یکم مئی کو یوم مزدوراں منایا جاتا ہے لیکن پھر بھی ہر طرف طوفان بدتمیزی بپا ہے ۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے احادیث وآثار کی روشنی میں مزدوروں اور مالکان کے متعلق ایک ضابطہ ہمارے سامنے رکھا ہے اور تقریباً بائیس مختلف عنوانات قائم کیے ہیں،جن کی مختصر تفصیل حسب ذیل ہے:(1)مزدوری کےلیے سنجیدہ اور نیک شخص کا انتخاب کرنا چاہیے تاکہ وہ ذمے داری کے ساتھ اپنے کام سرانجام دے۔(2) چند ٹکوں کی مزدوری پر کسی کی بکریاں چرانا۔(3) بوقت ضرورت اہل شرک سے مزدوری پر کام لینا بشرطیکہ وہ دیانت دار ہوں،دھوکے باز نہ ہوں۔(4) اہل شرک کے ہاں مزدوری کرنا۔(5) فریضۂ جہاد ادا کرتے وقت مزدور ساتھ رکھنا۔(6) مزدوری کے لیے وقت طے کرلیا جائے لیکن کام کی تفاصیل طے نہ کی جائیں،تو اس کا حکم۔(7) جز وقتی مزدور رکھنا۔(8) بلاوجہ مزدوری روک لینے کا گناہ۔(9)کسی شخص کی مزدوری میں اصلاح کی نیت سے تصرف کرنا۔(10) کچھ شرائط کے ساتھ کارخانوں، فیکٹریوں اور مختلف کمپنیوں کا ایجنٹ بننا اور ان کی مصنوعات فروخت کرنا۔(11) دم جھاڑ کرنے پر کچھ اجرتیں شرعاً ناجائز ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان میں سے کچھ کی نشاندہی کی ہے، مثلاً: قحبہ گری کرنا اور لونڈیوں سے پیشہ کرانا،سانڈی کی جفتی پر اجرت لینا۔ اس طرح اجرت ومزدوری کے متعلق کچھ مسائل واحکام کی بھی وضاحت کی ہے جن کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ امام صاحب کی مصالح عباد پر گہری نظر تھی لیکن نصوص کا دامن کبھی ہاتھ سے نہ چھوڑتے تھے۔ان عنوانات اور پیش کردہ احادیث کو صدق نیت سے پڑھ کر ان پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔اللہ تعالیٰ ہمیں قیامت کے دن محدثین کے ساتھ جنت الفردوس میں جگہ عنایت فرمائے۔آمين.
تمہید باب
یعنی برسبیل تفضل اور احسان، نہ یہ کہ بطور وجوب کے حکم دینا۔ بعض نے کہا کہ اگر غلام کو اس کی ادائیگی کی طاقت نہ ہو تو حاکم تخفیف کا حکم بھی دے سکتا ہے۔
حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انھوں نےکہا کہ نبی ﷺ سینگی لگانے والے غلام کو بلایا تو اس نے آپ کو پچھنےلگائے اور آپ نے اس کے لیے ایک صاع یا دوصاع یا ایک یا دو غلہ دینے کا حکم دیا اور اس کے معاملے کے متعلق گفتگوفرمائی تو اس کے مقررہ یومیہ ٹیکس میں کمی کردی گئی۔
حدیث حاشیہ:
1۔ سینگی لگانے والے غلام کی کنیت ابو طیبہ اور نام نافع تھا۔ اس روایت میں راوی کو ترددہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اسے کتنا غلہ دیا جبکہ قبل ازیں روایت گزرچکی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اسے کھجور کا ایک صاع عنایت فرمایا تھا۔ (صحیح البخاري، البیوع، حدیث:2102) جامع ترمذی اور سنن ابن ماجہ کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی ؓ کو حکم دیا تھا کہ وہ انھیں ایک صاع دیں۔ (جامع الترمذي، البیوع، حدیث:1278، و سنن ابن ماجة، التجارات، حدیث:2163) مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس سے دریافت کیا کہ تیرا یومیہ ٹیکس کس قدر ہے؟ تو اس نے کہا: دوصاع، پھر آپ کی سفارش سے اس کے مالکان نے ایک صاع معاف کردیا۔ (المصنف لابن أبي شیبة:267/6) اس کے مالکان بنو حارثہ قبیلے کے لوگ تھے،ان میں سے حضرت محّیصہ بن مسعود ؓ بھی ہیں۔ بعض روایات سے پتہ چلتا ہے کہ وہ بنو بیاضہ کے غلام تھے، حالانکہ یہ وہم ہے کیونکہ ان کا غلام ابو ہندتھا۔ (فتح الباري:581/4) اس روایت کے مطابق رسول اللہ ﷺ نے اس غلام کے متعلق سفارش فرمائی تھی۔ (2) اگر غلام کا محصول اس قدر زیادہ ہوکہ اسے ادا کرنے کی طاقت نہ ہوتو حاکم وقت اس میں تخفیف لازم کرسکتا ہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ اب اسلام کی برکت سے غلامی کا دور ختم ہوچکاہے لیکن اب افراد کو غلام بنانے کے بجائے قوموں کو غلام بنایا جاتا ہے جس کے لیے نئے نئے طریقے ایجاد ہوچکے ہیں۔ أعاذناالله منه.
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے حمید طویل نے بیان کیا، اور ان سے انس بن مالک ؓ نے کہ نبی کریم ﷺ نے ایک پچھنالگانے والے غلام (ابوطیبہ) کو بلایا، انہوں نے آپ ﷺ کے پچھنا لگایا۔ اور آپ نے انہیں ایک یا دو صاع، یا ایک یا دو مد (راوی حدیث شعبہ کو شک تھا) اجرت دینے کے لیے حکم فرمایا۔ آپ ﷺ نے (ان کے مالکوں سے بھی) ان کے بارے میں سفارش فرمائی تو ان کا خراج کم کر دیا گیا۔
حدیث حاشیہ:
پچھلی حدیث میں پچھنا لگانے والے غلام کی کنیت ابوطیبہ ؓ مذکور ہے۔ ان کا نام نافع بتلایا گیا ہے۔ حافظ ؒنے اسی کو صحیح کہا ہے۔ ابن حذاءنے کہا کہ ابوطیبہ نے 134سال کی عمر پائی تھی۔ حدیث سے صاف ظاہر ہے کہ غلام یا لونڈی کے اوپر مقررہ ٹیکس میں کمی کرانے کی سفارش کرنا درست ہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ اب اسلام کی برکت سے غلامی کا یہ بدترین دور تقریباً دنیا سے ختم ہو چکا ہے۔ مگر اب غلامی کے دوسرے طریقے ایجاد ہو گئے ہیں جو اور بھی بدتر ہیں۔ اب قوموں کو غلام بنایا جاتا ہے جن کے لیے اقلیت اور اکثریت کی اصطلاحات مروج ہو گئی ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas bin Malik (RA): The Prophet (ﷺ) sent for a slave who had the profession of cupping, and he cupped him. The Prophet (ﷺ) ordered that he be paid one or two Sas, or one or two Mudds of foodstuff, and appealed to his masters to reduce his taxes: