باب : حوالہ یعنی قرض کو کسی دوسرے پر اتارنے کا بیان اور اس کا بیان کہ حوالہ میں رجوع کرنا درست ہے یا نہیں
)
Sahi-Bukhari:
Transferance of a Debt from One Person to Another (Al-Hawaala)
(Chapter: Al-Hawala (the transference of a debt from one person to another))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور حسن اور قتادہ نے کہا کہ جب کسی کی طرف قرض منتقل کیا جارہا تھا تو اگر اس وقت وہ مالدار تھا تو رجوع جائز نہیں حوالہ پورا ہو گیا۔ اور ابن عباسؓ نے کہا کہ اگر ساجھیوں اور وارثوں نے یوں تقسیم کی، کسی نے نقد مال لیا کسی نے قرضہ، پھر کسی کا حصہ ڈوب گیا تو اب وہ دوسرے ساجھی یا وارث سے کچھ نہیں لے سکتا۔ تشریح : یعنی جب محتال لہ نے حوالہ قبول کر لیا، تو اب پھر اس کو محیل سے مواخدہ کرنا اور اس سے اپنے قرض کا تقاضا کرنا درست ہے یا نہیں۔ حوالہ کہتے ہیں قرض کا مقابلہ دوسرے پر کر دینے کو جو قرض دار حوالہ کرے اس کو محیل کہتے ہیں اور جس کے قرض کا حوالہ کیا جائے اس کو محتال لہ اور جس پر حوالہ کیا جائے اس کو محتال علیہ کہتے ہیں۔ درحقیقت حوالہ دین کی بیع ہے بعوض دین کے مگر ضرورت سے جائز رکھا گیا ہے۔ قتادۃ اورحسن کے اثروں کو ابن ابی شیبہ اور اثرم نے وصل کیا، اس سے یہ نکلتا ہے کہ اگر محتال علیہ حوالہ ہی کے وقت مفلس تھا تو محتال لہ پھر محیل پر رجوع کرسکتا ہے۔ اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا یہ قول ہے کہ محتال کسی حالت میں حوالہ کے بعد پھر محیل پر رجوع نہیں کرسکتا۔ حنفیہ کا یہ مذہب ہے کہ توی کی صورت میں محتال لہ محیل پر رجوع کرسکتا ہے۔ توی یہ ہے کہ محتال علیہ حوالہ ہی سے منکر ہو جائے اور حلف کھالے اور گواہ نہ ہوں۔ یا افلاس کی حالت میں مرجائے۔ امام احمد نے کہا محتال محیل پر جب رجوع کر سکتا ہے کہ محتال علیہ کے مالداری کی شرط ہوئی ہو پھر وہ مفلس نکلے۔ مالکیہ نے کہا اگر محیل نے دھوکہ دیا ہو مثلاً وہ جانتا ہو کہ محتال علیہ دیوالیہ ہے لیکن محتال کو خبر نہ کی اس صورت میں رجوع جائز نہ ہوگا ورنہ نہیں۔ ( وحیدی )
2287.
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’مالدار کا(اپنا قرض ادا کرنے میں) ٹال مٹول کرنا ظلم ہےاور جب تم میں سے کسی کو مال دار کے حوالے کیا جائے تو وہ حوالہ قبول کرلے۔‘‘
تشریح:
(1) مال دار کا ٹال مٹول کرنا اس وقت ظلم ہوگا جب قرض ادا کرنے کی مدت ختم ہوجائے،نیز اگر کوئی آدمی کسی دوسرے کا حوالہ قبول نہیں کرتا تو اس کے خلاف کوئی قانونی کارروائی تو نہیں کی جاسکتی،البتہ اس نے ایک اخلاقی فرض ادا کرنے میں کوتاہی ضرور کی ہے۔ اسے یہ فرض ادا کرنا چاہیے تھا،خواہ کچھ مالی نقصان ہی کیوں نہ برداشت کرنا پڑتا۔(2) جب کسی شخص نے حوالہ قبول کرلیا ہے تو اس کی ادائیگی ضروری ہوگی،اگر وہ مرجائے تو بھی حوالے کی ادائیگی اس کے ترکے سے کی جائے گی بشرطیکہ وہ بالکل مفلس ہوکر نہ مرا ہو۔(3) اگر محتال علیہ مفلس مرجائے یا قاضی اسے مفلس قرار دےدے یا وہ حوالہ کردے اور اس کا گواہ وغیرہ نہ ہوتو صاحب دَین اپنا قرض محیل،یعنی پہلے مقروض سے وصول کرے گا۔والله أعلم.
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2215
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2287
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2287
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2287
تمہید کتاب
لغوی اعتبار سے حوالات، حوالہ کی جمع ہے جو تحول سے مشتق ہے۔اس کے معنی انتقال،یعنی پھیر دینے کے ہیں۔فقہاء کی اصطلاح میں کسی کے فرض کو دوسرے کی طرف منتقل کردینا حوالہ کہلاتا ہے۔ جس طرح ایک ضرورت مند آدمی کی حاجت روئی کے لیے اسلامی شریعت نے قرض لینے کی اجازت دی ہے اور جس طرح مقروض کے بوجھ کو ہلکا کرنے کے لیے اس نے کفالت کا طریقہ بتایا ہے،اسی طرح قرض میں پھنسے ہوئے آدمی کے لیے آسانی کی ایک اور صورت پیدا کی ہے جسے حوالہ کہا جاتا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آسودہ حال افراد کو حکم دیا ہے کہ اگر کوئی اپنے قرض کی ذمہ داری اس پر ڈالے تو اسے قبول کرلینی چاہیے جیسا کہ آئندہ حدیث میں اس کا ذکر آئے گا۔اس سلسلے میں چند ضروری اصطلاحات کی وضاحت حسب ذیل ہے:(1)صاحب دین، یعنی قرض خواہ کو محتال یا محال لہ کہا جاتا ہے۔(2) جس پر قرض ہو اور وہ اپنے ذمے کی رقم دوسرے کے ذمے ڈالنا چاہتا ہو اسے محیل یا مدیون کہتے ہیں۔(3) جس شخص نے مقروض کی رقم اپنے ذمے لےلی ہے،اسے محتال علیہ یا محال علیہ کہا جاتا ہے۔(4) وہ رقم جس کا حوالہ کیا گیا ہے اسے محتال بہ یا محال بہ کہتے ہیں۔مثال کے طور پر محمد کے ذمے احمد کے ایک ہزار روپے ہیں۔اب محمد نے ایک تیسرے شخص حامد سے کہا کہ آپ احمد کی رقم جو میرے ذمے ہے،اس کی ادائیگی کریں،میں اس وقت ادا نہیں کرسکتا۔حامد نے اسے قبول کرلیا تو محمد کو محیل، احمد کو محتال،حامد کو محتال علیہ،ایک ہزار کو محتال بہ اور اس پورے معاملے کو حوالہ کہا جائے گا۔کفالت اور حوالہ میں فرق یہ ہے کہ کفالت میں حق دار اصل مقروض اور کفیل دونوں سے مطالبہ کرسکتا ہے جبکہ حوالے میں مقروض سے اب کوئی واسطہ نہیں رہا بلکہ حق دار صرف محتال علیہ،جس نے ذمہ داری قبول کی ہے صرف اس سے مطالبہ کرنے کا روادار ہے۔حوالے کی عام طور پر دو قسمیں ہیں:(1) حوالہ مقیدہ: محیل، یعنی مقروض کا جو روپیہ کسی دوسرے کے ذمے ہے وہ اپنے قرض میں محتال، یعنی قرض خواہ کو لادے۔(2) حوالہ مطلقہ: محیل:یعنی مقروض کا کسی کے ذمے کچھ نہیں ہوتا بلکہ وہ اپنے قرض کی ادائیگی کسی دوسرے کے حوالے کرتا ہے۔حوالے کے لیے ضروری ہے کہ جس رقم کو دلانا ہے اور جس سے دلانا ہے،دونوں کو خبر ہو اور دونوں اس پر راضی ہوں،اگر ان میں سے کسی کو خبر نہ ہوتو پھر حوالہ صحیح نہیں ہوگا۔ بہر حال حوالے کے ذریعے سے مقروض کو اپنے معاشی حالات درست کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔روز مرہ کی ضروریات کے علاوہ غیر ملکی تجارتوں میں تبادلۂ زر اور تبادلۂ جنس دونوں میں حوالے سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔آج کل رقم کی ادائیگی کا طریقہ منی آرڈر، چیک، ڈرافت اور ہنڈی وغیرہ ہے۔وہ بھی حوالے کی صورتیں ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت اس کا جواز ثابت کیا ہے اور اس سلسلے میں تین مرفوع احادیث اور تین آثار پیش کیے ہیں،پھر ان احادیث وآثار پر تین چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:(1)کسی دوسرے کی طرف اپنا قرض منتقل کرنا،نیز کیا کوئی آدمی حوالے میں رجوع کرسکتا ہے؟(2) اگر مال دار پر قرض کا حوالہ کیا جائے تو اس کا رد کرنا جائز نہیں۔(3) میت کے ذمے جو قرض ہو اس کا حوالہ کسی زندہ شخص پر کرنا جائز اور درست ہے۔ الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے لوگوں کی ایک ضرورت کو صریح نصوص سے ثابت کیا ہے، نیز حوالہ اور اس کے متعلقات کے بارے میں بحث کی ہے۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ہماری معروضات کو سامنے رکھتے ہوئے پیش کردہ احادیث کا مطالعہ کریں تاکہ یہ ان کی علمی بصیرت میں اضافے کا باعث ہو۔
تمہید باب
اگر ایک شخص کے قرض کو دوسرے کی طرف منتقل کیا جائے تو اسے حوالہ کہتے ہیں۔فقہاء کا اس مسئلے میں اختلاف ہے کہ حوالہ،عقد لازم ہے یا نہیں۔جو حضرات اسے عقد لازم کہتے ہیں،ان کے نزدیک رجوع نہیں کرسکتا اور جنھوں نے اسے عقد لازم نہیں خیال کیا ان کے نزدیک رجوع جائز ہے۔حضرت قتادہ اور حسن بصری کے آثار کو مصنف ابن ابی شیبہ (7/273) میں متصل سند سے بایں الفاظ بیان کیا گیا ہے: ایک شخص اپنے قرض کو دوسرے کے ذمے منتقل کردیتا ہے،اس کے بعد جس کے ذمے قرض منتقل ہوا ہےوہ مفلس ہوگیا اور وہ قرض ادا کرنے کی ہمت نہیں رکھتا تو کیا صاحب دین اپنے مقروض سابق کی طرف رجوع کرسکتا ہے؟تو انھوں نے جواب دیا کہ جس روز محیل نے محال کو محتال علیہ کے حوالے کیا تھا اگر محتال علیہ خوشحال تھا تو یہ حوالہ جائز ہے اور وہ رجوع نہیں کرسکتا۔اس سے یہ مفہوم نکلتا ہے کہ اگر محتال علیہ حوالہ کے وقت مفلس تھا تو محتال لہ،اپنے مقروض سے رجوع کرسکتا ہے۔( فتح الباری:4/586) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے اثر کو امام ابن ابی شیبہ نے ذکر کیا ہے۔( المصنف لابن ابی شیبۃ:7/284) اس کا مفہوم یہ ہے کہ دو آدمی ایک کاروبار میں شریک ہیں یا ایک آدمی فوت ہوجاتا ہے اور اس کے دو وارث ہیں،متوفی اور شرکاء کا کچھ قرض لوگوں کے ذمے ہے اور کچھ نقدی کی صورت میں ہے،اب شرکاء اور وارثان میں سے ایک قابلِ وصول قرض رکھ لیتا ہے،دوسرا نقدی لے لیتا ہے تو اس کے بعد کسی کا حصہ ڈوب جانے کی صورت میں دوسرے شریک یا وارث سے کچھ نہیں لےسکتا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے حوالے کو بھی اس صورت کے ساتھ ملحق کیا ہے۔والله اعلم.
اور حسن اور قتادہ نے کہا کہ جب کسی کی طرف قرض منتقل کیا جارہا تھا تو اگر اس وقت وہ مالدار تھا تو رجوع جائز نہیں حوالہ پورا ہو گیا۔ اور ابن عباسؓ نے کہا کہ اگر ساجھیوں اور وارثوں نے یوں تقسیم کی، کسی نے نقد مال لیا کسی نے قرضہ، پھر کسی کا حصہ ڈوب گیا تو اب وہ دوسرے ساجھی یا وارث سے کچھ نہیں لے سکتا۔ تشریح : یعنی جب محتال لہ نے حوالہ قبول کر لیا، تو اب پھر اس کو محیل سے مواخدہ کرنا اور اس سے اپنے قرض کا تقاضا کرنا درست ہے یا نہیں۔ حوالہ کہتے ہیں قرض کا مقابلہ دوسرے پر کر دینے کو جو قرض دار حوالہ کرے اس کو محیل کہتے ہیں اور جس کے قرض کا حوالہ کیا جائے اس کو محتال لہ اور جس پر حوالہ کیا جائے اس کو محتال علیہ کہتے ہیں۔ درحقیقت حوالہ دین کی بیع ہے بعوض دین کے مگر ضرورت سے جائز رکھا گیا ہے۔ قتادۃ اورحسن کے اثروں کو ابن ابی شیبہ اور اثرم نے وصل کیا، اس سے یہ نکلتا ہے کہ اگر محتال علیہ حوالہ ہی کے وقت مفلس تھا تو محتال لہ پھر محیل پر رجوع کرسکتا ہے۔ اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا یہ قول ہے کہ محتال کسی حالت میں حوالہ کے بعد پھر محیل پر رجوع نہیں کرسکتا۔ حنفیہ کا یہ مذہب ہے کہ توی کی صورت میں محتال لہ محیل پر رجوع کرسکتا ہے۔ توی یہ ہے کہ محتال علیہ حوالہ ہی سے منکر ہو جائے اور حلف کھالے اور گواہ نہ ہوں۔ یا افلاس کی حالت میں مرجائے۔ امام احمد نے کہا محتال محیل پر جب رجوع کر سکتا ہے کہ محتال علیہ کے مالداری کی شرط ہوئی ہو پھر وہ مفلس نکلے۔ مالکیہ نے کہا اگر محیل نے دھوکہ دیا ہو مثلاً وہ جانتا ہو کہ محتال علیہ دیوالیہ ہے لیکن محتال کو خبر نہ کی اس صورت میں رجوع جائز نہ ہوگا ورنہ نہیں۔ ( وحیدی )
حدیث ترجمہ:
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’مالدار کا(اپنا قرض ادا کرنے میں) ٹال مٹول کرنا ظلم ہےاور جب تم میں سے کسی کو مال دار کے حوالے کیا جائے تو وہ حوالہ قبول کرلے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) مال دار کا ٹال مٹول کرنا اس وقت ظلم ہوگا جب قرض ادا کرنے کی مدت ختم ہوجائے،نیز اگر کوئی آدمی کسی دوسرے کا حوالہ قبول نہیں کرتا تو اس کے خلاف کوئی قانونی کارروائی تو نہیں کی جاسکتی،البتہ اس نے ایک اخلاقی فرض ادا کرنے میں کوتاہی ضرور کی ہے۔ اسے یہ فرض ادا کرنا چاہیے تھا،خواہ کچھ مالی نقصان ہی کیوں نہ برداشت کرنا پڑتا۔(2) جب کسی شخص نے حوالہ قبول کرلیا ہے تو اس کی ادائیگی ضروری ہوگی،اگر وہ مرجائے تو بھی حوالے کی ادائیگی اس کے ترکے سے کی جائے گی بشرطیکہ وہ بالکل مفلس ہوکر نہ مرا ہو۔(3) اگر محتال علیہ مفلس مرجائے یا قاضی اسے مفلس قرار دےدے یا وہ حوالہ کردے اور اس کا گواہ وغیرہ نہ ہوتو صاحب دَین اپنا قرض محیل،یعنی پہلے مقروض سے وصول کرے گا۔والله أعلم.
ترجمۃ الباب:
امام حسن بصری اور حضرت قتادہ نے کہا ہے کہ جس نے حوالہ کیا اگر محال علیہ اس دن مال دار تھا تو حوالہ جائز ہے۔ حضرت ابن عباس ؓنے فرمایا: دوشریک یا وراثت پانے والے اس طرح تقسیم کر سکتے ہیں کہ ایک نقد سرمایہ لے لے اور دوسراقرض قبول کرلے۔ اس صورت میں اگر کسی ایک کا مال ضائع ہو گیا تو وہ اپنے ساتھی کی طرف رجوع نہیں کر سکتا۔
وضاحت:اس کا مفہوم یہ ہے کہ دو آمی ایک کاروبار میں شریک ہیں یا ایک آدمی فوت ہو جاتا ہے اور اس کے دو وارث ہیں۔ متوفی اور شرکاءکا کچھ قرض لوگوں کے ذمے ہے اور کچھ نقدی کی صورت میں ہے۔ اب شرکاءاور وارثان میں سے ایک قابل وصول قرض رکھ لیتا ہے، دوسرا نقدی لے لیتا ہے تواس کے بعد کسی کا حصہ ڈوب جانے کی صورت میں دوسرےشریک یا وارث سے کچھ نہیں لے سکتا۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں ابوالزناد نے، انہیں اعرج نے اور انہیں ابوہریرہ ؓ نے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ( قرض ادا کرنے میں ) مال دار کی طرف سے ٹال مٹول کرنا ظلم ہے۔ اور اگر تم میں سے کسی کا قرض کسی مالدار پر حوالہ دیا جاے تو اسے قبول کرے۔
حدیث حاشیہ:
اس سے یہی نکلتا ہے کہ حوالہ کے لیے محیل اور محتال کی رضا مندی کافی ہے۔ محتال علیہ کی رضا مندی ضروری نہیں۔ جمہوری کا یہی قول ہے اور حنفیہ نے اس کی رضا مندی بھی شرط رکھی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA): The Prophet (ﷺ) said, "Procrastination (delay) in paying debts by a wealthy man is injustice. So, if your debt is transferred from your debtor to a rich debtor, you should agree."