باب : قرض کسی مالدار کے حوالہ کر دیا جائے تو اس کا رد کرنا جائز نہیں
)
Sahi-Bukhari:
Transferance of a Debt from One Person to Another (Al-Hawaala)
(Chapter: If somebody's debt are transferred to a rich debtor)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2288.
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے۔ وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ’’مال دار کا (قرض کو ادا کرنے میں) تاخیر کرنا ظلم ہے، پھر اگر تم میں سے کسی کو مال دار پر حوالہ دیا جائے تو چاہیے کہ قبول کرے۔‘‘
تشریح:
(1) ایک امیر آدمی نے اگر کسی سے قرض لیا ہوتو اسے چاہیے کہ وعدے کے مطابق واپس کردے۔ وہ ٹال مٹول سے کام لے کر اپنے قرض خواہ کو ہر روز نئی تاریخیں نہ دیتا رہے۔ اگر وہ ایسا کرتا ہے تو یہ ایک جرم ہوگا۔ اس ظلم کی تلافی کےلیے عدالتی چارہ جوئی کی جاسکتی ہے۔ (2) جملہ شارحین کے نزدیک غني اور ملي کے معنی مال دار ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی کا قرض کسی مال دار کے حوالے کیا جائے تو یہ تجویز قبول کر لینی چاہیے لیکن یہ حکم واجب نہیں، اس کی حیثیت ایک مشورے کی ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2216
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2288
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2288
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2288
تمہید کتاب
لغوی اعتبار سے حوالات، حوالہ کی جمع ہے جو تحول سے مشتق ہے۔اس کے معنی انتقال،یعنی پھیر دینے کے ہیں۔فقہاء کی اصطلاح میں کسی کے فرض کو دوسرے کی طرف منتقل کردینا حوالہ کہلاتا ہے۔ جس طرح ایک ضرورت مند آدمی کی حاجت روئی کے لیے اسلامی شریعت نے قرض لینے کی اجازت دی ہے اور جس طرح مقروض کے بوجھ کو ہلکا کرنے کے لیے اس نے کفالت کا طریقہ بتایا ہے،اسی طرح قرض میں پھنسے ہوئے آدمی کے لیے آسانی کی ایک اور صورت پیدا کی ہے جسے حوالہ کہا جاتا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آسودہ حال افراد کو حکم دیا ہے کہ اگر کوئی اپنے قرض کی ذمہ داری اس پر ڈالے تو اسے قبول کرلینی چاہیے جیسا کہ آئندہ حدیث میں اس کا ذکر آئے گا۔اس سلسلے میں چند ضروری اصطلاحات کی وضاحت حسب ذیل ہے:(1)صاحب دین، یعنی قرض خواہ کو محتال یا محال لہ کہا جاتا ہے۔(2) جس پر قرض ہو اور وہ اپنے ذمے کی رقم دوسرے کے ذمے ڈالنا چاہتا ہو اسے محیل یا مدیون کہتے ہیں۔(3) جس شخص نے مقروض کی رقم اپنے ذمے لےلی ہے،اسے محتال علیہ یا محال علیہ کہا جاتا ہے۔(4) وہ رقم جس کا حوالہ کیا گیا ہے اسے محتال بہ یا محال بہ کہتے ہیں۔مثال کے طور پر محمد کے ذمے احمد کے ایک ہزار روپے ہیں۔اب محمد نے ایک تیسرے شخص حامد سے کہا کہ آپ احمد کی رقم جو میرے ذمے ہے،اس کی ادائیگی کریں،میں اس وقت ادا نہیں کرسکتا۔حامد نے اسے قبول کرلیا تو محمد کو محیل، احمد کو محتال،حامد کو محتال علیہ،ایک ہزار کو محتال بہ اور اس پورے معاملے کو حوالہ کہا جائے گا۔کفالت اور حوالہ میں فرق یہ ہے کہ کفالت میں حق دار اصل مقروض اور کفیل دونوں سے مطالبہ کرسکتا ہے جبکہ حوالے میں مقروض سے اب کوئی واسطہ نہیں رہا بلکہ حق دار صرف محتال علیہ،جس نے ذمہ داری قبول کی ہے صرف اس سے مطالبہ کرنے کا روادار ہے۔حوالے کی عام طور پر دو قسمیں ہیں:(1) حوالہ مقیدہ: محیل، یعنی مقروض کا جو روپیہ کسی دوسرے کے ذمے ہے وہ اپنے قرض میں محتال، یعنی قرض خواہ کو لادے۔(2) حوالہ مطلقہ: محیل:یعنی مقروض کا کسی کے ذمے کچھ نہیں ہوتا بلکہ وہ اپنے قرض کی ادائیگی کسی دوسرے کے حوالے کرتا ہے۔حوالے کے لیے ضروری ہے کہ جس رقم کو دلانا ہے اور جس سے دلانا ہے،دونوں کو خبر ہو اور دونوں اس پر راضی ہوں،اگر ان میں سے کسی کو خبر نہ ہوتو پھر حوالہ صحیح نہیں ہوگا۔ بہر حال حوالے کے ذریعے سے مقروض کو اپنے معاشی حالات درست کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔روز مرہ کی ضروریات کے علاوہ غیر ملکی تجارتوں میں تبادلۂ زر اور تبادلۂ جنس دونوں میں حوالے سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔آج کل رقم کی ادائیگی کا طریقہ منی آرڈر، چیک، ڈرافت اور ہنڈی وغیرہ ہے۔وہ بھی حوالے کی صورتیں ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت اس کا جواز ثابت کیا ہے اور اس سلسلے میں تین مرفوع احادیث اور تین آثار پیش کیے ہیں،پھر ان احادیث وآثار پر تین چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:(1)کسی دوسرے کی طرف اپنا قرض منتقل کرنا،نیز کیا کوئی آدمی حوالے میں رجوع کرسکتا ہے؟(2) اگر مال دار پر قرض کا حوالہ کیا جائے تو اس کا رد کرنا جائز نہیں۔(3) میت کے ذمے جو قرض ہو اس کا حوالہ کسی زندہ شخص پر کرنا جائز اور درست ہے۔ الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے لوگوں کی ایک ضرورت کو صریح نصوص سے ثابت کیا ہے، نیز حوالہ اور اس کے متعلقات کے بارے میں بحث کی ہے۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ہماری معروضات کو سامنے رکھتے ہوئے پیش کردہ احادیث کا مطالعہ کریں تاکہ یہ ان کی علمی بصیرت میں اضافے کا باعث ہو۔
تمہید باب
صحیح بخاری کے بعض نسخوں میں ہے:" جس کو کسی مال دار کے حوالے کیا جائے تو وہ اس کی پیروی کرے" اس کے معنی یہ ہیں کہ اگر کسی کا تجھ پر قرض ہے اور تو اسے کسی مال دار کے حوالے کردے اور وہ تمہاری طرف سے قرض کا ضامن بن جائے۔اگر اس کے بعد تو غریب اور مفلس ہوجائے تو قرض خواہ صاحب حوالہ ہی سے قرض وصول کرے گا۔"( فتح الباری:4/588) ہمارے نزدیک مناسب ہے کہ بعض نسخوں کے اضافے کو برقرار رکھا جائے، نیز امام بخاری کا" اگر تو اس کے بعد مفلس ہوجائے"کہنا بے محل معلوم ہوتا ہے کیونکہ محیل کا افلاس مؤثر نہیں ہے اور نہ اسے معاملے میں کوئی دخل ہی ہے۔اگر محتال علیہ کا افلاس ذکر کیا جاتا تو بہتر تھا۔والله اعلم.
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے۔ وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ’’مال دار کا (قرض کو ادا کرنے میں) تاخیر کرنا ظلم ہے، پھر اگر تم میں سے کسی کو مال دار پر حوالہ دیا جائے تو چاہیے کہ قبول کرے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) ایک امیر آدمی نے اگر کسی سے قرض لیا ہوتو اسے چاہیے کہ وعدے کے مطابق واپس کردے۔ وہ ٹال مٹول سے کام لے کر اپنے قرض خواہ کو ہر روز نئی تاریخیں نہ دیتا رہے۔ اگر وہ ایسا کرتا ہے تو یہ ایک جرم ہوگا۔ اس ظلم کی تلافی کےلیے عدالتی چارہ جوئی کی جاسکتی ہے۔ (2) جملہ شارحین کے نزدیک غني اور ملي کے معنی مال دار ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی کا قرض کسی مال دار کے حوالے کیا جائے تو یہ تجویز قبول کر لینی چاہیے لیکن یہ حکم واجب نہیں، اس کی حیثیت ایک مشورے کی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن یوسف نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، ان سے ابن ذکوان نے، ان سے اعرج نے اور ان سے ابوہریرہ ؓ نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، مالدار کی طرف سے (قرض ادا کرنے میں) ٹال مٹول کرنا ظلم ہے۔ اور کسی کا قرض کسی مالدار کے حوالہ کیا جائے تو وہ اسے قبول کرے۔
حدیث حاشیہ:
مطلب یہ ہے کہ کسی مالدار نے کسی کاقرض اگر اپنے سر لے لیا تو اس ادائیگی میں ٹال مٹول کرنا ظلم ہوگا۔ چاہئیے کہ اسے فوراً ادا کردے، نیز جس کا قرض حوالہ کیا گیا ہے اسے بھی چاہئیے کہ اس کو قبول کرکے اس مالدار سے اپنا قرض وصول کرلے اور ایسے حوالہ سے انکار نہ کرے۔ ورنہ اس میں وہ خود نقصان اٹھائے گا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA): The Prophet (ﷺ) said, "Procrastination (delay) in paying debts by a wealthy person is injustice. So, if your debt is transferred from your debtor to a rich debtor, you should agree."