باب : جو شخص کسی میت کے قرض کا ضامن بن جائے تو اس کے بعد اس سے رجوع نہیں کرسکتا،
)
Sahi-Bukhari:
Kafalah
(Chapter: He who undertakes to repay the debts of a dead person)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
حضرت حسن بصری نے بھی یہی فرمایا
2297.
حضرت جابر بن عبد اللہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے (مجھ سے) فرمایا: اگر بحرین کا خراج آیا تو میں تجھے اس طرح (دونوں لپ بھر کر) دوں گا لیکن بحرین کا خراج آنے سے پہلے ہی نبی ﷺ وفات پا گئے۔ جب بحرین کا خراج آیا تو حضرت ابو بکر ؓ نے منادی کرائی کہ نبی ﷺ نے جس سے کوئی وعدہ کیا ہویا اس کا آپ پر قرض ہوتو وہ ہمارے پاس آئے، چنانچہ میں آپ کے پاس گیا اور عرض کیا: نبی ﷺ نے مجھے اتنا اتنا دینے کا وعدہ کیا تھا تو انھوں نے مجھے لپ بھر روپے دیے۔ میں نے انھیں گنا تو پانچ سو تھے۔ انھوں نے فرمایا: اس سے دوگنا (مزید) لےلو۔
تشریح:
رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد سیدنا ابوبکر ؓ خلیفہ منتخب ہوئے تو انھوں نے اس بات کا التزام کیا کہ رسول اللہ ﷺ کے ذمے جو اشیاء انھیں ادا کرنا ہے، خواہ وعدے کی شکل میں ہوں یا قرض کی صورت میں۔ اس التزام سے وہ آپ کے ذمہ لازم ہوگئے۔ چونکہ رسول اللہ ﷺ ایفائے عہد کو پسند کرتے تھے، اس لیے سیدنا ابو بکر ؓ نے اسے بدستور نافذ کیا۔ چونکہ رسول اللہ ﷺ نے تین دفعہ ہاتھ پھیلا کردینے کا وعدہ کیا تھا، اس لیے ابوبکر ؓ نے تین لپ بھر کردیے، یعنی آپ کے وعدے کو پوراپورا ادا کیا۔ (فتح الباري:599/4)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2223
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2296
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2296
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2296
تمہید کتاب
کفالت کے لغوی معنی" ملانے اور چمٹانے" کے ہیں اور فقہاء کی اصطلاح میں" کسی مال یا قرض کی ادائیگی یا کسی شخص کو بروقت حاضر کردینے کی ذمہ داری قبول کرنے کو" کفالت" کہا جاتا ہے۔"اسی طرح اگر کسی نے بے سہارا آدمی کے اخراجات کی کوئی ذمہ داری اٹھالی تو اسے" کفیل کہتے ہیں۔کفالت کا دوسرا نام ضمان ہے،اس لیے کہ کفالت میں ضمانت کا ہونا ضروری ہے۔کفالت سے متعلقہ اصطلاحات کی وضاحت حسب ذیل ہے:کفیل: ضمانت لینے اور ذمہ داری قبول کرنے والے کو کفیل کہا جاتا ہے۔اصیل: جس کے ذمے کوئی قرض یا چیز ہو اور وہ کسی کو کفیل بنائے،اسے مکفول عنہ بھی کہتے ہیں۔مکفول لہ: جس کا مطالبہ یا قرض باقی ہو اور اسے اعتماد میں رکھنے کے لیے ذمہ داری اٹھائی جائے۔مکفول بہ: وہ مال، قرض یا شخص جس کے متعلق ذمہ داری قبول کی گئی ہو۔٭ کفالت کی تین قسمیں ہیں: (1) ادائیگی قرض کی ضمانت کو کفالت بالدین کہتے ہیں۔(2) کسی چیز کی حفاظت کسی چیز کی حفاظت کی ذمہ داری کو کفالت بالعین کہا جاتا ہے۔(3) کسی شخص کے متعلق ذمہ داری قبول کرنے کو کفالت بالنفس کا نام دیا جاتا ہے۔ذمہ داری قبول کرنے کی متعدد صورتیں ہیں جن میں سے چند ایک کا ذکر کیا جاتا ہے: (1) کفیل مطلق طور پر ذمہ داری قبول کرلے کہ میں اس قرض کو ادا اور شخص کو حاضر کروں گا۔اس صورت میں حق دار چاہے کفیل سے مطالبہ کرے یا اصیل سے،اسے دونوں کا حق ہے۔(2) کفیل نے کہا: اگر اصیل ادا نہیں کرے گا تو میں دوں گا۔اس صورت میں دار پہلے اصیل سے مطالبہ کرے گا اگر وہ ادا نہ کرے تو کفیل سے مطالبہ کیا جائے گا۔(3) حق دار نے اصیل کو ایک سال کی مہلت دی۔اس صورت میں ایک سال تک کفیل سے مطالبہ نہیں کیا جاسکتا۔یہ مدت گزرنے کے بعد اگر وہ ادا نہ کرے تو کفیل سے مطالبہ کرنا صحیح ہوگا۔کفالت کا طریقہ یہ ہے کہ ذمہ داری لینے والا،حق دار سے کہے کہ آپ کی جو رقم یا جو مال فلاں کے ذمے ہے میں اس کا ضامن ہو یا فلاں مجرم کا میں ذمہ دار ہوں۔اب اگر قرض دار اپنا قرض بروقت ادا نہیں کرتا تو ادائیگی کی ذمہ داری کفیل پر ہوگی۔جس طرح مال کی ادائیگی یا شخص کی حاضری کی کفالت صحیح ہے،اسی طرح کسی چیز کے نقل وحمل کی کفالت بھی صحیح ہے۔سامان کی نقل وحرکت اسی ضمن میں آتی ہے،نیز جس طرح زندہ شخص کے قرض کی کفالت صحیح ہے اسی طرح مردہ کی طرف سے بھی قرض وغیرہ کی کفالت لی جاسکتی ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت نو احادیث پیش کی ہیں جن میں دو معلق اورسات متصل ہیں۔حدیث ابن عباس اور حدیث سلمہ بن اکوع کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ پانچ آثار بھی پیش کیے ہیں جو صحابۂ کرام اور تابعین عظام سے مروی ہیں۔پھر ان احادیث وآثار پر پانچ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن میں سے چند ایک حسب ذیل ہیں: قرض وغیرہ کے متعلق شخصی اور مالی ضمانت۔٭ میت کا قرض اتارنے کی ضمانت کے بعد اس سے پھرنا جائز نہیں۔٭ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی پناہ گیری۔٭قرض کی سنگینی اور اس کی ضمانت۔ہم آئندہ احادیث کے فوائد میں امام بخاری رحمہ اللہ کے موقف کی وضاحت کریں گے جو انھوں نے کفالت وضمانت کے سلسلے میں اختیار کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ حسن اخلاص اور خالص عمل کی توفیق دے۔آمين.
تمہید باب
جمہور کا یہی مؤقف ہے کہ میت کے قرض کی ضمانت دینے کے بعد اسے پھرنے کی اجازت نہیں کیونکہ ذمہ داری اٹھانے کے بعد وہ اس پر لازم ہوچکا ہے۔( عمدۃ القاری:8/660)
حضرت جابر بن عبد اللہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے (مجھ سے) فرمایا: اگر بحرین کا خراج آیا تو میں تجھے اس طرح (دونوں لپ بھر کر) دوں گا لیکن بحرین کا خراج آنے سے پہلے ہی نبی ﷺ وفات پا گئے۔ جب بحرین کا خراج آیا تو حضرت ابو بکر ؓ نے منادی کرائی کہ نبی ﷺ نے جس سے کوئی وعدہ کیا ہویا اس کا آپ پر قرض ہوتو وہ ہمارے پاس آئے، چنانچہ میں آپ کے پاس گیا اور عرض کیا: نبی ﷺ نے مجھے اتنا اتنا دینے کا وعدہ کیا تھا تو انھوں نے مجھے لپ بھر روپے دیے۔ میں نے انھیں گنا تو پانچ سو تھے۔ انھوں نے فرمایا: اس سے دوگنا (مزید) لےلو۔
حدیث حاشیہ:
رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد سیدنا ابوبکر ؓ خلیفہ منتخب ہوئے تو انھوں نے اس بات کا التزام کیا کہ رسول اللہ ﷺ کے ذمے جو اشیاء انھیں ادا کرنا ہے، خواہ وعدے کی شکل میں ہوں یا قرض کی صورت میں۔ اس التزام سے وہ آپ کے ذمہ لازم ہوگئے۔ چونکہ رسول اللہ ﷺ ایفائے عہد کو پسند کرتے تھے، اس لیے سیدنا ابو بکر ؓ نے اسے بدستور نافذ کیا۔ چونکہ رسول اللہ ﷺ نے تین دفعہ ہاتھ پھیلا کردینے کا وعدہ کیا تھا، اس لیے ابوبکر ؓ نے تین لپ بھر کردیے، یعنی آپ کے وعدے کو پوراپورا ادا کیا۔ (فتح الباري:599/4)
ترجمۃ الباب:
امام حسن بصری نے بھی یہی فرمایا ہے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے علی بن مدینی نے بیان کیا، ان سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے عمرو بن دینار نے بیان کیا، انہوں نے محمد بن علی باقر سے سنا، اور ان سے جابر بن عبداللہ ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا اگر بحرین سے (جزیہ کا) مال آیا تو میں تمہیں اس طرح دونوں لپ بھر بھر کر دوں گا لیکن بحرین سے مال نبی کریم ﷺ کی وفات تک نہیں آیا پھر جب اس کے بعد وہاں سے مال آیا تو ابوبکر ؓ نے اعلان کرا دیا کہ جس سے بھی نبی کریم ﷺ کا کوئی وعدہ ہو یا آپ پر کسی کا قرض ہو وہ ہمارے یہاں آجائے۔ چنانچہ میں حاضر ہوا۔ اور میں نے عرض کیا کہ نبی کریم ﷺ نے مجھ سے یہ وہ باتیں فرمائی تھیں۔ جسے سن کر حضرت ابوبکر ؓ نے مجھے ایک لپ بھر کر دیا۔ میں نے اسے شمار کیا تو وہ پانچ سو کی رقم تھی۔ پھر فرمایا کہ اس کے دو گنا اور لے لو۔
حدیث حاشیہ:
سب تین لپ ہو گئے۔ آنحضرت ﷺ نے تین لپ کا وعدہ فرمایا تھا جیسے دوسری روایت میں ہے جس کو امام بخاری ؒ نے شہادات میں نکالا، اس کی تصریح ہے۔ باب کا مطلب اس سے یوں نکالا کہ حضرت ابوبکر ؓ جب آنحضرت ﷺ کے خلیفہ اور جانشین ہوئے تو گویا آپ کے سب معاملات اور وعدوں کے وہ کفیل ٹھہرے اور ان کو ان وعدوں کا پورا کرنا لازم ہوا۔ (قسطلانیؒ)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Jabir bin ' Abdullah (RA): Once the Prophet (ﷺ) said (to me), "If the money of Bahrain comes, I will give you a certain amount of it." The Prophet (ﷺ) had breathed his last before the money of Bahrain arrived. When the money of Bahrain reached, Abu Bakr (RA) announced, "Whoever was promised by the Prophet (ﷺ) should come to us." I went to Abu Bakr (RA) and said, "The Prophet (ﷺ) promised me so and so." Abu Bakr (RA) gave me a handful of coins and when I counted them, they were five-hundred in number. Abu Bakr (RA) then said, "Take twice the amount you have taken (besides)."