باب: چرانے والے نے یا کسی وکیل نے کسی بکری کو مرتے ہوئے یا کسی چیز کو خراب ہوتے دیکھ کر ( بکری کو ) ذبح کردیا یا جس چیز کے خراب ہوجانے کے ڈر تھا اسے ٹھیک کر دیا، اس بارے میں کیا حکم ہے؟
)
Sahi-Bukhari:
Representation, Authorization, Business by Proxy
(Chapter: To save the thing liable to be spoiled)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2304.
حضرت کعب بن مالک ؓ سے روایت ہے، کہ ان کے پاس بکریوں کا ایک ریوڑتھا جو سلع پہاڑ پر چرتی تھیں۔ ہماری لونڈی نے ایک بکری کو ذبح کردیا۔ حضرت کعب ؓ نے کہا: اسے کھاؤ نہیں تاآنکہ میں خود رسول اللہ ﷺ سے اس کے متعلق پوچھ لوں یا نبی ﷺ کے پاس کسی آدمی کو بھیجوں جو آپ سے اس کے متعلق دریافت کرے۔ چنانچہ انھوں نے خود نبی ﷺ سے دریافت کیا یا کسی آدمی کو بھیجا تو آپ نے ان کو حکم دیا کہ وہ اسے کھاسکتے ہیں۔ (راوی حدیث )عبید اللہ نے کہا: مجھے حیرت ہوئی کہ وہ لونڈی تھی اور اس نے بکری ذبح کردی۔ (اس روایت کو) عبید اللہ سے بیان کرنے میں عبدہ نے (سلیمان بن معتمر کی) متابعت کی ہے۔
تشریح:
(1) اگر کوئی چیز خراب ہورہی ہو تو مالک سے پوچھنے کی ضرورت نہیں بلکہ وکیل یا ملازم اسے خود ہی ٹھیک کر دے۔ اسی طرح چرواہے بکریاں چراتے ہیں، ممکن ہے کہ کوئی بکری بیمار ہوجائے یا کوئی درندہ اسے زخمی کردے اور وہ ہلاکت کے قریب ہوجائے تو مالک کے مفاد میں ہے کہ اسے مرنے سے پہلے پہلے ذبح کردیا جائے۔ اگر مالک سے پیشگی اجازت لینا ضروری قرار دیا جائے تو بکری ہلاک ہوجائے گی۔ بہر حال اس قسم کی صورت میں بطور وکیل قدم اٹھانے کی اجازت ہے۔ (2) اس حدیث سے معلوم ہواکہ اگر کسی کام کے لیے کوئی وکیل مقرر کیا گیا ہے تو جب تک اس کی خیانت ظاہر نہ ہو اس کی تصدیق کرنا جائز ہے۔ (3) امام بخاری ؒ کا اس حدیث سے ذبیحہ کے حلال یا حرام ہونے کے بارے میں بحث کرنا مقصود نہیں بلکہ آپ یہ بتانا چاہتے ہیں کہ چرواہے اور وکیل سے ضمان ساقط ہوگی، اس قسم کے نقصان ہونے کی صورت میں ان پر کوئی تاوان نہیں ہوگا، مگر وکیل کے لیے ضروری ہے کہ وہ مؤکل کا مال ہڑپ کرنے کے لیے اس قسم کا راستہ اختیار نہ کرے۔ (فتح الباري:607/4) آخر میں بیان کردہ متابعت کو خود امام بخاری رحمہ نے اپنی متصل سند سے بیان کیا ہے۔(صحیح البخاري، الذبائح، حدیث:5504)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2230
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2304
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2304
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2304
تمہید کتاب
وکالت کے لغوی معنی نگرانی، حفاظت اور سپرد کرنے کے ہیں۔اللہ تعالیٰ کی ایک صفت" وکیل" بھی ہے کیونکہ وہ ہمارے تمام کاموں کا نگران اور محافظ ہے۔شریعت کی اصطلاح میں " کسی آدمی کا دوسرے کو اپنا کام سپرد کرنا وکالت کہلاتا ہے۔"آدمی کو زندگی میں بے شمار ایسے کاموں سے واسطہ پڑتا ہے جن کو وہ خود انجام نہیں دیتا یا نہیں دے سکتا۔اس کی مختلف صورتیں ہیں:٭کبھی یہ ہوتا ہے کہ آدمی کو کسی کام کی ضرورت ہوتی ہے لیکن اس کام کو خود انجام دینے کی اس میں اہلیت نہیں ہوتی۔٭ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ خودایک کام میں مشغول ہوتا ہے،اس دوران میں کوئی دوسرا کام پیش آجاتا ہے ایسے کام کی انجام دہی کےلیے کسی دوسرے سے مدد لینے کی ضرورت ہوتی ہے۔٭بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ وہ کام اتنا وسیع اور پھیلا ہوتا ہے کہ اسے سرانجام دینا ایک آدمی کے بس میں نہیں ہوتا، اس لیے دوسروں کو شریک کرنا پڑتا ہے ،الغرض جو کام انسان خود کرلیتا ہے یا کرسکتا ہے اسے دوسروں سے بھی کراسکتا ہے۔شریعت میں اس کی اجازت ہے اور اسی کو وکالت کہتے ہیں۔اس کے لیے ضروری ہے کہ دوسرا آدمی اس کام کو بجالانے کی استعداد ولیاقت رکھتا ہو۔اس کے متعلق چند ایک اصطلاحات حسب ذیل ہیں:٭ جوشخص کسی دوسرے کو اپنا کام سپرد کرتا ہے یا ذمہ دار بناتا ہے اسے مؤکل کہتے ہیں۔٭ جو آدمی کام کی ذمہ داری قبول کرتا ہے یا اسے کام سونپا جاتا ہے وہ وکیل کہلاتا ہے۔٭ جس کام کی ذمہ داری سونپی جاتی ہے اسے مؤکل بہ کہا جاتا ہے۔٭ دوسرے کی جگہ کام کی انجامددہی کو وکالت کہتے ہیں۔وکالت کا لفظ ہماری زبان میں عام طور پر اس پیشے پر بولا جاتا ہے جس کے ذریعے سے حق کو ناحق اور سچ کو جھوٹ بتایا جاتا ہے۔اس کے ذریعے سے قاتلوں، ڈاکوؤں اور رہزنوں کو چھڑایا جاتا ہے۔اور وکیل اس شخص کو کہتے ہیں جو غیر اسلامی قانون کے ذریعے سے لوگوں کے جھوٹے سچے مقدمات کی پیروی اور نمائندگی کرے۔یہی وجہ ہے کہ جرائم میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے اور جرائم پیشہ لوگ شرفاء کی عزتوں سے کھیلتے نظر آتے ہیں۔شریعت میں اس قسم کا پیشہ اختیار کرنے کی ممانعت ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَلَا تَكُن لِّلْخَائِنِينَ خَصِيمًا ﴿١٠٥﴾) آپ کو بددیانت لوگوں کی حمایت میں جھگڑا نہیں کرنا چاہیے۔"( النساء:105:4)امام بخاری رحمہ اللہ نے وکالت کے متعلق عنوان قائم کرکے اس کی حدودو شرائط کو متعین کیا ہے اور اس کے احکام ومسائل کو قرآن وحدیث کی صریح نصوص سے ثابت کیا ہے۔ اس سلسلے میں انھوں نے کل چھبیس احادیث پیش کی ہیں جن میں چھ معلق اور بیس موصول ہیں۔ان میں بارہ مکرر اور چودہ خالص ہیں۔احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام اور تابعین عظام سے چھ آثار بھی ذکر کیے ہیں۔پانچ احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر تقریباً سولہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن میں کچھ حسب ذیل ہیں:٭ تقسیم اور دیگر کاموں میں ایک شریک کا دوسرے شریک کو وکیل بنانا۔٭ مسلمان کے لیے جائز ہے کہ وہ دارالحرب یا داراالاسلام میں کسی حربی کو اپنا وکیل بنائے۔٭موجود اور غیر حاضر آدمی کو وکیل بنانا۔٭ کسی عورت کا حاکم وقت کو نکاح کےلیے وکیل بنانا۔٭ وقف اور اس کے اخراجات میں وکیل کا دائرۂ کار۔٭حدود کے معاملے میں وکالت۔٭قربانی کے جانوروں کی نگہداشت کےلیے وکیل بنانا۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے بندوں کے مفادات اور مصالح کے پیش نظر وکالت کے متعلق متعدد احکام ذکر کیے ہیں،دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان پر صدق دل سے عمل کی توفیق دے ۔آمين.
تمہید باب
ابن منیر نے کہا امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی غرض اس باب سے یہ نہیں ہے کہ وہ بکری حلال ہوگی یا حرام بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایسی صورت میں چرواہے پر ضمان نہ ہوگا، اسی طرح وکیل پر۔ اور یہ مطلب اس باب کی حدیث سے نکلتا ہے کہ کعب بن مالکؓ نے اس لونڈی سے مواخذہ نہیں کیا، بلکہ اس کا گوشت کھانے میں تردد کیا۔ مگر بعد میں رسول کریم ﷺ سے پوچھ کر گوشت کھایا گیا۔
حضرت کعب بن مالک ؓ سے روایت ہے، کہ ان کے پاس بکریوں کا ایک ریوڑتھا جو سلع پہاڑ پر چرتی تھیں۔ ہماری لونڈی نے ایک بکری کو ذبح کردیا۔ حضرت کعب ؓ نے کہا: اسے کھاؤ نہیں تاآنکہ میں خود رسول اللہ ﷺ سے اس کے متعلق پوچھ لوں یا نبی ﷺ کے پاس کسی آدمی کو بھیجوں جو آپ سے اس کے متعلق دریافت کرے۔ چنانچہ انھوں نے خود نبی ﷺ سے دریافت کیا یا کسی آدمی کو بھیجا تو آپ نے ان کو حکم دیا کہ وہ اسے کھاسکتے ہیں۔ (راوی حدیث )عبید اللہ نے کہا: مجھے حیرت ہوئی کہ وہ لونڈی تھی اور اس نے بکری ذبح کردی۔ (اس روایت کو) عبید اللہ سے بیان کرنے میں عبدہ نے (سلیمان بن معتمر کی) متابعت کی ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) اگر کوئی چیز خراب ہورہی ہو تو مالک سے پوچھنے کی ضرورت نہیں بلکہ وکیل یا ملازم اسے خود ہی ٹھیک کر دے۔ اسی طرح چرواہے بکریاں چراتے ہیں، ممکن ہے کہ کوئی بکری بیمار ہوجائے یا کوئی درندہ اسے زخمی کردے اور وہ ہلاکت کے قریب ہوجائے تو مالک کے مفاد میں ہے کہ اسے مرنے سے پہلے پہلے ذبح کردیا جائے۔ اگر مالک سے پیشگی اجازت لینا ضروری قرار دیا جائے تو بکری ہلاک ہوجائے گی۔ بہر حال اس قسم کی صورت میں بطور وکیل قدم اٹھانے کی اجازت ہے۔ (2) اس حدیث سے معلوم ہواکہ اگر کسی کام کے لیے کوئی وکیل مقرر کیا گیا ہے تو جب تک اس کی خیانت ظاہر نہ ہو اس کی تصدیق کرنا جائز ہے۔ (3) امام بخاری ؒ کا اس حدیث سے ذبیحہ کے حلال یا حرام ہونے کے بارے میں بحث کرنا مقصود نہیں بلکہ آپ یہ بتانا چاہتے ہیں کہ چرواہے اور وکیل سے ضمان ساقط ہوگی، اس قسم کے نقصان ہونے کی صورت میں ان پر کوئی تاوان نہیں ہوگا، مگر وکیل کے لیے ضروری ہے کہ وہ مؤکل کا مال ہڑپ کرنے کے لیے اس قسم کا راستہ اختیار نہ کرے۔ (فتح الباري:607/4) آخر میں بیان کردہ متابعت کو خود امام بخاری رحمہ نے اپنی متصل سند سے بیان کیا ہے۔(صحیح البخاري، الذبائح، حدیث:5504)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے اسحاق بن ابراہیم نے بیان کیا، انہوں نے معتمر سے سنا، انہوں نے کہا کہ ہم کو عبید اللہ نے خبر دی، انہیں نافع نے، انہوں نے ابن کعب بن مالک سے سنا، وہ اپنے والد سے بیان کرتے تھے کہ ان کے پاس بکریوں کا ایک ریوڑ تھا۔ جو سلع پہاڑی پر چرنے جاتا تھا (انہوں نے بیان کیا کہ) ہماری ایک باندی نے ہماری ہی ریوڑ کی ایک بکری کو (جب کہ وہ چر رہی تھی) دیکھا کہ مرنے کے قریب ہے۔ اس نے ایک پتھر توڑ کر اس سے اس بکری کو ذبح کر دیا۔ انہوں نے اپنے گھر والوں سے کہا کہ جب تک میں نبی کریم ﷺ سے اس کے بارے میں میں پوچھ نہ لوں اس کا گوشت نہ کھانا۔ یا (یوں کہا کہ) جب تک میں کسی کو نبی کریم ﷺ کی خدمت میں اس کے بارے میں پوچھنے کے لیے نہ بھیجوں، چنانچہ انہوں نے نبی کریم ﷺ سے اس کے بارے میں پوچھا، یاکسی کو (پوچھنے کے لیے) بھیجا، اور نبی کریم ﷺ نے اس کا گوشت کھانے کے لیے حکم فرمایا۔ عبید اللہ نے کہا کہ مجھے یہ بات عجیب معلوم ہوئی کہ باندی (عورت) ہونے کے باوجود اس نے ذبح کردیا۔ اس روایت کی متابعت عبدہ نے عبید اللہ کے واسطہ سے کی ہے۔
حدیث حاشیہ:
سند میں نافع کی سماعت ابن کعب بن مالک ؓ سے مذکور ہے۔ مزی نے اطراف میں لکھا ہے کہ ابن کعب سے مراد عبداللہ ہیں۔ لیکن ابن وہب نے اس حدیث کو اسامہ بن زید سے روایت کیا ہے۔ انہوں نے ابن شہاب سے انہوں نے عبدالرحمن بن کعب بن مالک سے۔ حافظ نے کہا کہ ظاہر یہ ہے کہ وہ عبد الرحمن ہیں۔ اس حدیث سے کئی ایک مسائل کا ثبوت ملتا ہے کہ بوقت ضرورت مسلمان عورت کا ذبیحہ بھی حلال ہے اور عورت اگر باندی ہو تب بھی اس کا ذبیحہ حلال ہے اور یہ بھی ثابت ہوا کہ چاقو، چھری پاس نہ ہونے کی صورت میں تیز دھار پتھر سے بھی ذبیحہ درست ہے۔ یہ بھی ثابت ہوا کہ کوئی حلال جانور اگر اچانک کسی حادثہ کا شکار ہو جائے تو مرنے سے پہلے اس کا ذبح کر دینا ہی بہتر ہے۔ یہ بھی ثابت ہوا کہ کسی مسئلہ کی تحقیق مزید کر لینا بہرحال بہتر ہے۔ یہ بھی ظاہر ہوا کہ ریوڑکی بکریاں سلع پہاڑی پر چرانے کے لیے ایک عورت (باندی) بھیجی جایا کرتی تھی۔ جس سے بوقت ضرورت جنگلوں میں پردہ اور ادب کے ساتھ عورتوں کا جانا بھی ثابت ہوا۔ عبید اللہ کے قول سے معلوم ہوا کہ اس دور میں بھی باندی عورت کے ذبیحہ پر اظہار تعجب کیا جایا کرتا تھا۔ کیوں کہ دستور عام ہر قرن میں مردوں ہی کے ہاتھ سے ذبح کرنا ہے۔ سلع پہاڑی مدینہ طیبہ کے متصل دور تک پھیلی ہوئی ہے۔ ابھی ابھی مسجد فتح و بئر عثمان ؓ وغیرہ پر جانا ہوا تو ہماری موٹر سلع پہاڑی ہی کے دامن سے گزری تھی۔ الحمد للہ کہ اس نے محض اپنے فضل و کرم کے صدقہ میں عمر کے اس آخری حصہ میں پھر ان مقامات مقدسہ کی دید سے مشرف فرمایا۔ فلله الحمد والشکر۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn Ka'b bin Malik from his father (RA): We had some sheep which used to graze at Sala'. One of our slavegirls saw a sheep dying and she broke a stone and slaughtered the sheep with it. My father said to the people, "Don't eat it till I ask the Prophet (ﷺ) about it (or till I send somebody to ask the Prophet)." So, he asked or sent somebody to ask the Prophet, and the Prophet (ﷺ) permitted him to eat it. 'Ubaidullah (a sub-narrator) said, "I admire that girl, for though she was a slave-girl, she dared to slaughter the sheep . "